گورنر راج کے نفاذ کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری
گورنر راج کے نفاذ کے خلاف جے یو آئی(ف) اور بی این پی(عوامی) نےقومی اسمبلی اور سینٹ میں بھی احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔
بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔جس میں جمعیت علماء السلام(ف) اور بی این پی عوامی پیش پیش ہیں۔
قومی اسمبلی اور سینٹ میں بھی گورنر راج کے نفاذ کے خلاف(ن) لیگ، جے یو آئی(ف) اور بی این پی(عوامی) کے پارلیمنٹرینز نے احتجاجاً واک آئوٹ کیا۔ جبکہ بلوچستان میں جے یو آئی(ف) اور بی این پی(عوامی) کی اپیل پر پہیہ جام اورشٹرڈائون ہڑتال کی گئی۔ بلوچستان اسمبلی کی ان پارلیمانی جماعتوں کا یہ موقف ہے کہ بلوچستان میں عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالاگیا ہے۔ لہٰذا گورنر راج کو ختم کرکے جمہوری حکومت کو بحال کیاجائے، اس حوالے سے جمعیت علماء السلام(ف) صدر آصف علی زرداری پر دبائو بھی ڈال رہی ہے۔
گذشتہ دنوں جمعیت علماء السلام(ف) کے صوبائی امیر اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے(ق) لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات کی جس میں انہوں نے3نکاتی فارمولا پیش کیا ہے۔ مولانا محمد خان شیرانی نے اپنی اس ملاقات کے دوران چوہدری شجاعت حسین سے کہا ہے کہ اگر نواب اسلم رئیسانی کی حکومت بحال کی جاتی ہے تو ایک ہفتے کے اندر اندر ان سے استعفے لینے کی ضمانت جے یو آئی(ف) دے گی۔ اگر(ق) لیگ یا پیپلزپارٹی کو وزارت اعلیٰ شپ دی جاتی ہے تو پھر جے یو آئی(ف) اپوزیشن میں بیٹھے گی اور اگر وزارت اعلیٰ جے یو آئی(ف) کو دی جاتی ہے توپھر(ق) لیگ اور پی پی پی اپوزیشن میں بیٹھ جائیں۔
چوہدری شجاعت حسین مولانا شیرانی کے ان تین نکاتی فارمولے کے حوالے سے جلد ہی صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کریں گے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق مولانا شیرانی کے اس3نکاتی فارمولے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ بلوچستان کی پارلیمانی اتحادی جماعتوں کی یہ کوشش ہے کہ قومی وصوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد آنے والا نگران سیٹ اپ ان کی مرضی سے تشکیل پائے۔ کیونکہ بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کے بعد صورتحال مختلف ہے اورآئندہ انتخابات جے یوآئی(ف)، بی این پی(عوامی)،ق لیگ اور پی پی پی کے لئے انتہائی''ٹف'' ہیں، کیونکہ اس مرتبہ انتخابات میں قوم پرست جماعتیں پشتونخواملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل بھی حصہ لیں گی۔ سیاسی میدان جو بھی سجے گا اس میں ان جماعتوں کو یہ قوم پرست جماعتیں ٹف ٹائم دیں گی۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کے بعد جو آئینی بحران آیا ہے اس پر موجودہ وفاقی حکومت کس طرح سے قابو پاتی ہے آئندہ چند روز اس حوالے سے انتہائی اہم ہیں اور6فروری کو سینٹ اور قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں اس گورنر راج کے نفاذ کی منظوری کے حوالے سے حکومت نے جو حکمت عملی مرتب کی تھی فی الحال اسے التواء میں ڈال دیا ہے اورحالات کا بغورجائزہ لینے کے بعد ہی اس حوالے سے کوئی فیصلہ کیاجائے گا، کیونکہ (ن) لیگ، جے یوآئی(ف) اور بی این پی (عوامی) پہلے ہی اس اقدام کی مخالفت کرچکی ہیں۔
دوسری جانب بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں خصوصاً پشتونخواملی عوامی پارٹی اورنیشنل پارٹی معطل صوبائی حکومت کی کرپشن کے حوالے سے اسے زبردست تنقید کا نشانہ بنارہی ہیں، ان جماعتوں کا کہنا ہے کہ اگرصوبائی حکومت کو بحال کیاگیا تو یہ یہاں کے عوام کے ساتھ انتہائی سنگین مذاق ہوگا۔ معطل حکومت نے کرپشن کے ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں، جماعت اسلامی کے زیراہتمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کے کوئٹہ میں منعقدہ ایک مشترکہ اجلاس جس کی صدارت جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کی کے مشترکہ اعلامیہ میں یہ کہاگیا ہے کہ اگر سابق غیر آئینی بلوچستان حکومت کو بحال کیاگیا تواپوزیشن کی تمام جماعتیں بھرپور ملک گیر احتجاجی تحریک چلائیں گی۔ اعلامیہ میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ غیر جانبدارانہ انتخابات کے لئے فوری طورپر انتخابی شیڈول کا اعلان کیاجائے اورنگران حکومت کے لئے اسمبلی سے باہر بیٹھی تمام جماعتوں سے لازمی مشاورت کی جائے۔ وفاقی کابینہ نے اپنے حالیہ اجلاس میں گوادر پورٹ چین کی کمپنی کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی کابینہ کے اس فیصلے کو بلوچستان کی مذہبی اور قوم پرست جماعتوں نے مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ گوادر پورٹ کوحکومت بلوچستان کے حوالے کیاجائے، اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق کویہ اختیار نہیں کہ وہ بلوچستان میں کسی بھی پروجیکٹ کے لئے بین الاقوامی معاہدہ کرے۔
قومی اسمبلی اور سینٹ میں بھی گورنر راج کے نفاذ کے خلاف(ن) لیگ، جے یو آئی(ف) اور بی این پی(عوامی) کے پارلیمنٹرینز نے احتجاجاً واک آئوٹ کیا۔ جبکہ بلوچستان میں جے یو آئی(ف) اور بی این پی(عوامی) کی اپیل پر پہیہ جام اورشٹرڈائون ہڑتال کی گئی۔ بلوچستان اسمبلی کی ان پارلیمانی جماعتوں کا یہ موقف ہے کہ بلوچستان میں عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالاگیا ہے۔ لہٰذا گورنر راج کو ختم کرکے جمہوری حکومت کو بحال کیاجائے، اس حوالے سے جمعیت علماء السلام(ف) صدر آصف علی زرداری پر دبائو بھی ڈال رہی ہے۔
گذشتہ دنوں جمعیت علماء السلام(ف) کے صوبائی امیر اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے(ق) لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات کی جس میں انہوں نے3نکاتی فارمولا پیش کیا ہے۔ مولانا محمد خان شیرانی نے اپنی اس ملاقات کے دوران چوہدری شجاعت حسین سے کہا ہے کہ اگر نواب اسلم رئیسانی کی حکومت بحال کی جاتی ہے تو ایک ہفتے کے اندر اندر ان سے استعفے لینے کی ضمانت جے یو آئی(ف) دے گی۔ اگر(ق) لیگ یا پیپلزپارٹی کو وزارت اعلیٰ شپ دی جاتی ہے تو پھر جے یو آئی(ف) اپوزیشن میں بیٹھے گی اور اگر وزارت اعلیٰ جے یو آئی(ف) کو دی جاتی ہے توپھر(ق) لیگ اور پی پی پی اپوزیشن میں بیٹھ جائیں۔
چوہدری شجاعت حسین مولانا شیرانی کے ان تین نکاتی فارمولے کے حوالے سے جلد ہی صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کریں گے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق مولانا شیرانی کے اس3نکاتی فارمولے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ بلوچستان کی پارلیمانی اتحادی جماعتوں کی یہ کوشش ہے کہ قومی وصوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد آنے والا نگران سیٹ اپ ان کی مرضی سے تشکیل پائے۔ کیونکہ بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کے بعد صورتحال مختلف ہے اورآئندہ انتخابات جے یوآئی(ف)، بی این پی(عوامی)،ق لیگ اور پی پی پی کے لئے انتہائی''ٹف'' ہیں، کیونکہ اس مرتبہ انتخابات میں قوم پرست جماعتیں پشتونخواملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل بھی حصہ لیں گی۔ سیاسی میدان جو بھی سجے گا اس میں ان جماعتوں کو یہ قوم پرست جماعتیں ٹف ٹائم دیں گی۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کے بعد جو آئینی بحران آیا ہے اس پر موجودہ وفاقی حکومت کس طرح سے قابو پاتی ہے آئندہ چند روز اس حوالے سے انتہائی اہم ہیں اور6فروری کو سینٹ اور قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں اس گورنر راج کے نفاذ کی منظوری کے حوالے سے حکومت نے جو حکمت عملی مرتب کی تھی فی الحال اسے التواء میں ڈال دیا ہے اورحالات کا بغورجائزہ لینے کے بعد ہی اس حوالے سے کوئی فیصلہ کیاجائے گا، کیونکہ (ن) لیگ، جے یوآئی(ف) اور بی این پی (عوامی) پہلے ہی اس اقدام کی مخالفت کرچکی ہیں۔
دوسری جانب بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں خصوصاً پشتونخواملی عوامی پارٹی اورنیشنل پارٹی معطل صوبائی حکومت کی کرپشن کے حوالے سے اسے زبردست تنقید کا نشانہ بنارہی ہیں، ان جماعتوں کا کہنا ہے کہ اگرصوبائی حکومت کو بحال کیاگیا تو یہ یہاں کے عوام کے ساتھ انتہائی سنگین مذاق ہوگا۔ معطل حکومت نے کرپشن کے ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں، جماعت اسلامی کے زیراہتمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کے کوئٹہ میں منعقدہ ایک مشترکہ اجلاس جس کی صدارت جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کی کے مشترکہ اعلامیہ میں یہ کہاگیا ہے کہ اگر سابق غیر آئینی بلوچستان حکومت کو بحال کیاگیا تواپوزیشن کی تمام جماعتیں بھرپور ملک گیر احتجاجی تحریک چلائیں گی۔ اعلامیہ میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ غیر جانبدارانہ انتخابات کے لئے فوری طورپر انتخابی شیڈول کا اعلان کیاجائے اورنگران حکومت کے لئے اسمبلی سے باہر بیٹھی تمام جماعتوں سے لازمی مشاورت کی جائے۔ وفاقی کابینہ نے اپنے حالیہ اجلاس میں گوادر پورٹ چین کی کمپنی کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی کابینہ کے اس فیصلے کو بلوچستان کی مذہبی اور قوم پرست جماعتوں نے مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ گوادر پورٹ کوحکومت بلوچستان کے حوالے کیاجائے، اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق کویہ اختیار نہیں کہ وہ بلوچستان میں کسی بھی پروجیکٹ کے لئے بین الاقوامی معاہدہ کرے۔