تحریک انصاف سیاسی تنہائی کا شکار

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان میانوالی کے علاوہ لاہورسے بھی ممکنہ امید وار نظر آتے ہیں۔

تحریک انصاف کا مضبوط قلعہ پنجاب ہے‘ جہاں اسے مسلم لیگ ن جیسی مضبوط سیاسی جماعت کا مقابلہ کرنا ہے‘۔ فوٹو : فائل

ملک کا سیاسی منظرنامہ آئندہ الیکشن کا رنگ لئے ہوئے ہے' سیاسی جوڑ توڑ عروج پر پہنچ چکا ہے۔پیپلز پارٹی کی ایک اہم اتحادی جماعت اے این پی اس سے دور ہو چکی ہے جبکہ ایم کیو ایم اپوزیشن بنچوں پر ''عارضی''طور پر بیٹھنے کیلئے پر تول رہی ہے تاکہ بارگیننگ پاور کو بڑھایا جا سکے۔

اندر کی خبریں رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اسفند یار ولی خان مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں صاحب کے لئے انتہائی نرم گوشہ رکھتے ہیں' جے یو آئی بھی ن لیگ کے قریب ہو چکی ہے جبکہ جماعت اسلامی کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بھی انتخابی دنگل میں ن لیگ کے ساتھ ہی چلے گی۔ یوں تحریک انصاف انتخابی دنگل میں تنہا ہی پنجہ آزمائی کرتی نظر آ رہی ہے۔

تحریک انصاف کا مضبوط قلعہ پنجاب ہے' یہاں اسے مسلم لیگ ن جیسی مضبوط سیاسی جماعت کا مقابلہ کرنا ہے' سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف پنجاب میں کوئی بریک تھرو کر سکتی ہے یا نہیں۔ پیپلز پارٹی نے وسطی اور شمالی پنجاب میں ایک طرح سے سرنڈر کر دیا ہے' وہ جنوبی پنجاب کا نعرہ بلند کرکے وہاں سے اپنے امید وار کامیاب کرانے کی کوشش کرے گی۔ بہاولپور میں تحریک انصاف کے پاس ایسے مضبوط امید وار موجود ہیں جو عام انتخابات میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔

ملتان ڈویژن میں اس کے پاس شاہ محمود قریشی' جاوید ہاشمی اور سکندر بوسن جیسے مضبوط امید وار موجود ہیں' بہاولپور ڈویژن میں بھی جہانگیر ترین کی شکل میں بہترین امید وار موجود ہے' جو خود بھی جیت سکتے ہیں اور تحریک انصاف کے دوسرے امیدواروں کو بھی جتوا سکتے ہیں' اصل لڑائی وسطی اور شمال پنجاب میں ہونا ہے۔ وسطی پنجاب میں لاہور ڈویژن' گوجرانوالہ ڈویژن' راولپنڈی ڈویژن' ساہیوال ڈویژن' مسلم لیگ ن کے گڑھ ہیں' ان علاقوں سے تحریک انصاف کی پوزیشن کمزور نظر آتی ہے' ان علاقوں کے بااثر سیاسی گھرانے ن لیگ میں ہیں یا پیپلز پارٹی میں یا پھر ق لیگ سے تعلق رکھتے ہیں' یہاں تحریک انصاف کے پاس الیکشن لڑنے والے چہرے تو موجود ہیں لیکن ان کے جیتنے کا امکان کم ہے' تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان میانوالی کے علاوہ لاہورسے بھی ممکنہ امید وار نظر آتے ہیں' ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ این اے 122 سے الیکشن لڑیں گے' یہاں سے مسلم لیگ ن کے سردار ایاز صادق دوبار رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں' باقی رہ گئے ڈاکٹر یاسمین راشد' عمر چیمہ،منشاء سندھو،حامد معراج،ولید اقبال، یاسر گیلانی،حماد اظہر،ارشاد ڈوگر،عبدالرشید بھٹی،ڈاکٹر شاہد صدیق، فاروق امجد میر وغیرہ تو ان کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ اچھے امیدوار ضرور ہیں لیکن ان کے جیتنے کے امکانات بہت کم ہیں۔


یہ بات طے ہے کہ وسطی اور شمالی پنجاب میں ن لیگ کو اگر کوئی سیاسی جماعت ٹف ٹائم دے گی تو وہ تحریک انصاف ہی ہے' تحریک انصاف پنجاب میں ماضی کے مقابلے میں آئندہ الیکشن میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی' ایک اور اطلاع بھی سنتے جائیں' اگر مسلم لیگ ن پنجاب میں واضح اکثریت حاصل کرتی ہے تو میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ نہیں ہوں گے' اس بار کسی اور کو موقع دیا جائے گا۔ ممکن ہے کہ مرحوم غلام حیدر وائیں جیسا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا کوئی وفا دار ن لیگی تخت لاہور پر بیٹھے ویسے ن لیگی حلقوں میں خواجہ آصف اور چوہدری نثار کے نام گردش کر رہے ہیں۔

اگر ن لیگ نے وراثتی سیاست کا تاثر زائل کرنے کیلئیایسا کیا تو یہ اس کے لئے بہتر ہو گا' میاں شہباز جیسے بہترین ایڈمنسٹریٹر کی مرکز میں بہت زیادہ ضرورت ہے' بہر حال بات تحریک انصاف کی ہو رہی ہے' اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں پنجاب میں کامیابی کے لئے تحریک انصاف کو سخت محنت کی ضرورت ہے' تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا میں جے یو آئی جیسی جماعت کا مقابلہ کرنا ہے۔ اے این پی اور ن لیگ قریب آئے تو یہ بھی تحریک انصاف کے لئے مشکلات پیدا کریں گے' اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ تحریک انصاف ابھی تک انتخابی حلقوں کی سیاست میں نہیں اتری' اس کے برعکس مسلم لیگ ن' ق لیگ اور پیپلز پارٹی نے اپنے اپنے امید وار فائنل کر رکھے ہیں' تحریک انصاف کو اب زیادہ دیر نہیں کرنی چاہیے۔ اسے فوری طور پر انتخابی میدان میں اپنے امیدوار اتارنے کی تیاری کرنی چاہیے۔4 اور5 فروری کو تحریک انصاف کی پولیٹیکل سٹریجیٹک کمیٹی کی ویڈیو کانفرنس میں عام انتخابات کے حوالے سے اہم فیصلوں میں پیش رفت کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

پنجاب میں تحریک انصاف کے تنظیمی الیکشن کی تاریخ میں بارہا تبدیلی آرہی ہے اور آخری اطلاعات تک 11 فروری کو الیکشن ہوں گے تاہم الیکشن کمیشن کی صورتحال بتاتی ہے کہ تاریخ میں مزید توسیع کی جائے گی۔چند روز میں تحریک انصاف کی بڑی خبر سامنے آنے والی ہے ۔باخبر حلقوں کے مطابق پارٹی کے وسیع تر مفاد میں نظریاتی اور یونینٹی گروپس کے درمیان بریک تھرو ہو گیا ہے اور اس حوالے سے عبدالعلیم خان اور اعجاز چوہدری نے بہت دانشمندی کا ثبوت دیا ہے جبکہ جمشید اقبال چیمہ نے ناممکن کو ممکن بنانے میں اہم کردار نبھایا ہے۔

مکمل تفصیلات تو ابھی سامنے نہیں آئی ہیں لیکن اس بات کے امکانات بڑھ گئے ہیں کہ اتفاق رائے سے اعجاز چوہدری اور احسن رشید کو مرکزی تنظیم میں اہم ذمہ داریاں سپرد کی جائیں گی جبکہ شاہ محمود قریشی کو تحریک انصاف پنجاب کی صدارت کیلئے میدان میں لایا جائے گا۔تحریک انصاف اگر ایسا کرتی ہے تو اسے بہت فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ پنجاب کے سیاسی میدان جنگ میں شریف برادران اور ان کی فوج ظفر موج کا مقابلہ کرنے کیلئے تجربہ کار سالار چاہئیے۔بہتر ہوگا کہ میاں محمود الرشید اور ان کے ساتھی بھی تحریک انصاف کے مفاد کیلئے مفاہمت کی پالیسی پر عمل کریں۔

9 فروری کو لاہور میں ہونے والے یونیٹی کنونشن کو بہت اہم قرار دیا جا رہا ہے ۔عبدالعلیم خان کو تحریک انصاف کے حلقوں میں سیاسی جادوگر کہا جارہا ہے جس نے تنظیمی الیکشن کے انعقاد سے قبل تمام منظر نامہ ہی تبدیل کردیا ہے۔جہانگیر ترین اور اسد عمر ہر گذرتے دن کے ساتھ تحریک انصاف میں مضبوط سے مضبوط تر اور اہم ترین بنتے جا رہے ہیں اور اگر عمران خان کی حکومت آئی تو ان کی 18 رکنی کابینہ کے سب سے طاقتور اور اہم وزیر یہی دونوں ہوں گے جن میں سے شاید ایک وفاقی وزیر صنعت وتجارت ہوگا اور دوسرا وزیر خزانہ۔
Load Next Story