سانحہ احمد پور شرقیہ ذمے داروں کو نتائج بھگتنا پڑیں گے لاہور ہائیکورٹ
اتنے بڑے سانحے پر اتنا کم جرمانہ اور سزا سمجھ سے بالاتر ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سید منصور علی شاہ نے سانحہ احمد پور شرقیہ میں ذمے داروں کا تعین کرنے کے حوالے سے دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے قرار دیا کہ سانحہ احمد پور شرقیہ میں ہمیں ذمے داروں کا تعین کرنا ہوگا .
کیا موٹر وے پولیس کا کام صرف حوالدارکا ہے کہ وہ اس حادثے کی ذمے داری لینے کو تیار نہیں،کیا یہ المیہ نہیں کہ اتنا بڑا حادثہ ہو گیا اور موٹر وے پولیس منہ دیکھتی رہی، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے موٹر وے پولیس کو حادثے کی تحریری رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے ادارے کچھ کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر حادثے کی ذمے داری ڈالتے رہے ، پنجاب نے وفاق اور وفاق نے این ایچ اے کو حادثے کا ذمے دار قرار دے دیا ۔
عدالت کو بتایا جائے کہ اصل ذمے داری کس کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ دنیا بھر میں جہاں بھی اس نوعیت کے حادثات رونما ہوتے ہیں تو موٹر وے پولیس ہی ان پر فوری قابو پاتی ہے مگر یہاں آپ لوگ صرف ڈاکخانے کا کام کر رہے ہیں ، 217 لوگ جان سے گئے اور تمام ادارے ابھی تک شوکاز نوٹس کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ اتنے بڑے سانحے پراتنا کم جرمانہ اوراتنی کم سزا سمجھ سے بالاتر ہے۔ حادثے میں شیل کمپنی ملوث ہو یا کوئی اور نتائج سب کو بھگتنا پڑیں گے۔دوران سماعت درخواست گزار ہیلمز فا ئونڈیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب میں آگ لگنے کے ہزاروں واقعات رپورٹ ہوتے ہیں مگر سرکاری اسپتالوں میں علاج کے لیے برن یونٹس ہی موجود نہیں،احمد پور شرقیہ حادثہ آئل کمپنی کی غفلت اور حفاظتی تدابیراختیار نہ کرنے کے سبب پیش آیا، ڈی آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ حادثے کی اطلاع ملتے ہی دواہلکار فوری طور پر موقع پر پہنچ گئے تھے،حادثے کی جگہ سے لوگوں کو اس لیے پیچھے نہیں ہٹایا جا سکا کہ ایک تو ایسا کرنے کی ذمے داری موٹر وے پولیس کی نہیں اوردوسرے انھیں ایسے حادثات سے نمٹنے کے لیے باقاعدہ تربیت فراہم نہیں کی گئی۔
حکومت پنجاب کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ موٹر وے پرفٹنس سرٹیفکیٹ کی چیکنگ موٹر وے پولیس کی ذمے داری ہے۔ دوسری جانب ڈپٹی ڈائریکٹر شعبہ انسداد بارودی مواد نے بھی حادثے کے حوالے سے اپنی رپورٹ عدالت کے سامنے پیش کر دی، رپورٹ کے مطابق حادثے کا شکار ہونے والے آئل ٹینکر کا لائسنس 31 جنوری 2016 کوختم ہوچکا تھا مگرتجدید کے بغیر وہ مسلسل نقل وحمل کررہا تھا، دوران سماعت ڈپٹی ڈائریکٹر اوگرا نے اپنے جواب میں بتا یا کہ شیل کمپنی کوایک کروڑ روپے جرمانہ کیا گیا جبکہ حادثے میں مرنے والوں کو دس، دس لاکھ اور زخمی ہونے والوں کو پانچ ،پانچ لاکھ دیے گئے، جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قومی خزانے سے پیسے کس قانون کے تحت دیے گئے،کیا کابینہ سے منظوری لی گئی۔
کیا موٹر وے پولیس کا کام صرف حوالدارکا ہے کہ وہ اس حادثے کی ذمے داری لینے کو تیار نہیں،کیا یہ المیہ نہیں کہ اتنا بڑا حادثہ ہو گیا اور موٹر وے پولیس منہ دیکھتی رہی، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے موٹر وے پولیس کو حادثے کی تحریری رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے ادارے کچھ کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر حادثے کی ذمے داری ڈالتے رہے ، پنجاب نے وفاق اور وفاق نے این ایچ اے کو حادثے کا ذمے دار قرار دے دیا ۔
عدالت کو بتایا جائے کہ اصل ذمے داری کس کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ دنیا بھر میں جہاں بھی اس نوعیت کے حادثات رونما ہوتے ہیں تو موٹر وے پولیس ہی ان پر فوری قابو پاتی ہے مگر یہاں آپ لوگ صرف ڈاکخانے کا کام کر رہے ہیں ، 217 لوگ جان سے گئے اور تمام ادارے ابھی تک شوکاز نوٹس کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ اتنے بڑے سانحے پراتنا کم جرمانہ اوراتنی کم سزا سمجھ سے بالاتر ہے۔ حادثے میں شیل کمپنی ملوث ہو یا کوئی اور نتائج سب کو بھگتنا پڑیں گے۔دوران سماعت درخواست گزار ہیلمز فا ئونڈیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب میں آگ لگنے کے ہزاروں واقعات رپورٹ ہوتے ہیں مگر سرکاری اسپتالوں میں علاج کے لیے برن یونٹس ہی موجود نہیں،احمد پور شرقیہ حادثہ آئل کمپنی کی غفلت اور حفاظتی تدابیراختیار نہ کرنے کے سبب پیش آیا، ڈی آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ حادثے کی اطلاع ملتے ہی دواہلکار فوری طور پر موقع پر پہنچ گئے تھے،حادثے کی جگہ سے لوگوں کو اس لیے پیچھے نہیں ہٹایا جا سکا کہ ایک تو ایسا کرنے کی ذمے داری موٹر وے پولیس کی نہیں اوردوسرے انھیں ایسے حادثات سے نمٹنے کے لیے باقاعدہ تربیت فراہم نہیں کی گئی۔
حکومت پنجاب کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ موٹر وے پرفٹنس سرٹیفکیٹ کی چیکنگ موٹر وے پولیس کی ذمے داری ہے۔ دوسری جانب ڈپٹی ڈائریکٹر شعبہ انسداد بارودی مواد نے بھی حادثے کے حوالے سے اپنی رپورٹ عدالت کے سامنے پیش کر دی، رپورٹ کے مطابق حادثے کا شکار ہونے والے آئل ٹینکر کا لائسنس 31 جنوری 2016 کوختم ہوچکا تھا مگرتجدید کے بغیر وہ مسلسل نقل وحمل کررہا تھا، دوران سماعت ڈپٹی ڈائریکٹر اوگرا نے اپنے جواب میں بتا یا کہ شیل کمپنی کوایک کروڑ روپے جرمانہ کیا گیا جبکہ حادثے میں مرنے والوں کو دس، دس لاکھ اور زخمی ہونے والوں کو پانچ ،پانچ لاکھ دیے گئے، جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قومی خزانے سے پیسے کس قانون کے تحت دیے گئے،کیا کابینہ سے منظوری لی گئی۔