جبیں سے نور برساتی چلی آتی ہے آزادی
برہان وانی کی شہادت کے بعد تو گویا کشمیر میں ایک نئے دور کی ابتداء ہوگئی۔
GUJRAT:
21 برس کا نوجوان، خوبصورت آنکھیں، خوش شکل و خوب صورت، جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی ایسے راستے پر چل پڑا کہ جس سے واپسی ناممکن تھی۔ گھر کے نرم بچھونے چھوڑ کر وادی کے پتھروں پر سونے کے لئے، بہنوں کے ہاتھوں بنی ہوئی روٹی کھاتے کھاتے جنگلی پھلوں پر گزارا کرنے کے لئے، کالج میں امتیازی نمبر حاصل کرکے اپنا کیرئر بنانے کے بجائے قوم کو ایک نئی منزل دینے کے لئے اُس نے یہ راستہ اختیار کیا، سیاسی جدوجہد کی ناکامی کے بعد اُس نے اِس راستے کا انتخاب کیا۔
نام اُس کا برہان مظفر وانی، کیا خبر تھی کہ 15 سال کی عمر میں اِس راستے کو منتخب کرنے والا نوجوان بین الاقوامی شہرت حاصل کرلے گا۔ کسے معلوم تھا کہ بوڑھے مظفر وانی کا سپوت وادی کے ہر گھر کی آنکھ کا تارا بن جائے گا۔ کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ویڈیو پیغامات بھیجنے والے اِس نوعمر لڑکے کی ویڈیوز وہ کام کردیں گی جو اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کے علمبردار 70 سالوں سے نہ کرسکے تھے۔
ٹھیک ایک سال قبل ہم عید الفطر کی چھٹیاں منانے کے لئے آبائی علاقوں میں گئے تھے۔ شہروں میں موویز دیکھنے کے منصوبے بن رہے تھے تو گاؤں اور دیہاتوں میں عید ملن کی تقاریب منعقد ہورہی تھیں کہ اچانک ایک کشمیری کی شہادت کی خبریں میڈیا پر نشر ہوئیں۔ چونکہ کشمیری روز مرتے ہیں، اور جب تک درجن بھر کشمیری بھارتی گولیوں کا نشانہ نہ بنیں تب تک ہمارے لئے کوئی خبر نہیں ہوتی، کیونکہ ہم اپنے ملک میں لاشیں اٹھا اٹھا کر اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ ہمیں دو تین لوگوں کے مرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
شاید اِسی لیے اُس دن بھی ہمیں کوئی فرق نہیں پڑا تھا، جو لوگ فلمیں دیکھ رہے تھے انہوں نے اپنی فلم بھی تمام کی، عید ملن کی تقاریب بھی پایہ تکمیل کو پہنچیں لیکن سوشل میڈیا کے ذریعے ہمیں علم ہوا کہ وانی کوئی معمولی نوجوان نہیں تھا کشمیریوں کا ایک حقیقی ہیرو تھا۔ وہ ہیرو جس نے بی ایس ایف اور انڈین آرمی کو دن میں تارے دکھائے، مودی سرکار کو ناکوں چنے چبوائے، کشمیر کی جدوجہد آزادی کو شاید اُسی جوان کے خون کی ضرورت تھی۔ قوم کے اِس نوجوان کے لہو کا خراج چاہیئے تھا، مودی سرکار نے سوچا تھا کہ وانی کو شہید کرکے قصہ ہی ختم کردیتے ہیں مگر وہ تو ایک ٹریلر تھا، اِس فلم کے ہر منظر کو کشمیری نوجوانوں نے اپنے ہیرو، ترجمان اور حقیقی قائد کی شہادت کے بعد نئے رنگوں سے مزین کیا۔
کشمیری نوجوان اور حریت پسند برہان مظفر وانی ایک ہونہار طالب علم تھا جس نے ہندوستانی فوجیوں کے مظالم کے خلاف صرف 15 برس کی عمر میں ہتھیار اٹھائے۔ وانی کے والد اسکول پرنسپل ہیں، انہوں نے اپنے بڑے بھائی خالد وانی کی شہادت کے بعد بھارتی فوج کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔ 2015ء میں برہان وانی نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا لیکن رفتہ رفتہ وانی نے سوشل میڈیا پر اپنی ویڈیوز کے ذریعے کشمیری نوجوانوں میں مقبولیت حاصل کی۔ بھارت سرکار نے برہان وانی سے نجات حاصل کرنے کے کئی منصوبے بنائے، اُن کے سر کی قیمت 10 لاکھ روپے مقرر کی لیکن پھر بھی وانی ہاتھ نہیں آیا، بالآخر نوجوان حریت پسند نوجوان کو 8 جولائی 2016 ء کو شہید کردیا گیا۔
برہان وانی کی شہادت کے بعد تو گویا کشمیر میں ایک نئے دور کی ابتداء ہوگئی، لاکھوں کشمیری حریت پسند رہنماء کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے۔ پوری وادی میں مظاہروں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا، کاروبار ٹھپ ہوگئے، اسکول، اسپتال اور تعلیمی ادارے مہینوں تک بند رہے۔
بھارتی فوج نے کشمیریوں پر دباؤ بڑھانے کے لئے سوشل میڈیا پر پابندی لگا دی، تحریک کو کچلنے کے لئے تعلیمی اداروں کو تالے لگادئیے، مہینوں بعد جب تعلیمی ادارے دوبارہ کُھلے تو کشمیری طلبہ نے بستے اُٹھا کر کلاس روم جانے کے بجائے سری نگر لال چوک پر دھرنا دینا پسند کیا۔ بھارتی فوج نے پیلٹ گنوں کے ذریعے کشمیریوں کو بینائی سے محروم کردیا۔ بین الاقوامی میڈیا تاریخ میں پہلی بار کشمیری قوم کی حمایت میں بولنے لگا، صنف نازک کہلانے والی معصوم بچیوں نے بھی بھارتی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے پتھر اُٹھالئے۔ الغرض کشمیر میں ایک سال سے وہ تحریک جاری ہے جو بہت جلد منطقی انجام تک پہنچتی دکھائی دے رہی ہے۔
بھارتی فورسز نے اپنے ظلم و بربریت کے ذریعے اِس تحریک کو کچلنے کی کوشش کی لیکن ہر بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد سے تا وقتِ تحریر 836 لوگ شہید، 19373 زخمی، 1757 پیلٹ گنوں سے نابینا ہوچکے ہیں۔ 8 جولائی سے تشدد کی شروع ہونے والی داستان ایک سال مکمل ہونے کے بعد بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔
گزشتہ روز نامور بھارتی ٹی وی چینل سے وابستہ نئی دہلی میں تعینات بھارتی صحافی دوست سے مسئلہ کشمیر پر گفتگو ہورہی تھی۔ موصوف بھارتی پروپیگنڈے سے بے حد متاثر نظر آرہے تھے، کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی سے جوڑنے کی سر توڑ کوشش میں گویا ہوئے، ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانا کہاں تک جائز ہے؟ اسلام نے بھی تو اِس سے منع کیا ہے۔
اُن موصوف سے مفصل گفتگو کے دوران کچھ باتیں اُن کے گوش گزار کیں۔ جنابِ من! اسلام کو زیرِ بحث ہی نہیں لاتے، میں بھی ہتھیار اٹھانے کا قائل نہیں ہوں لیکن آپ پہلے مسئلہ کشمیر کو غور سے سمجھیں، دہشت گردی اور فریڈم فائٹ میں فرق کرنا سیکھیے۔ کشمیری بھارت سے علیحدگی کی تحریک شروع نہیں کررہے بلکہ وہ تو کبھی بھارت میں شامل ہی نہیں ہوئے، اور اِس کا ثبوت یہ ہے کہ بھارت نے تو خود کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ تسلیم کیا ہوا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قرارداد فریڈم فائٹ کی حمایت کرتی ہیں، جس پر صحافی دوست کافی سیخ پا ہوگئے اور بولے اقوام متحدہ کشمیر کے مسئلے کو حل کیوں نہیں کرانا چاہتا؟ کشمیریوں کو اگر آزادی ہی چاہیئے تو وہ سیاسی راہ کا تعین کریں، وادی کے معصوم لوگوں کو تو نشانہ نہ بنائیں۔
مجھے یہ باتیں سن کر حیرت ہوئی کہ ایک طویل عرصے سے صحافت سے وابستہ ہونے کے باوجود اُن کی معلومات اتنی ناقص ہیں۔ میں ٹھیک سے نہیں جانتا تھا کہ اُن کی معلومات ناقص تھیں یا اُن کے قلم پر تعصب کی بندشیں، اِس لیے اُن کو جواب دینا تو ضروری تھا۔
اِس لیے اُن کی معلومات کی درستگی کے لئے بتایا کہ بھیا! کشمیر کی جدوجہد ایک عوامی تقاضہ ہے۔ کشمیر کی تیسری نسل جدوجہدِ آزادی میں مصروف ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں 6 ہزار گمنام قبریں ہیں، ہزاروں نوجوانوں کو شہید کیا جاچکا ہے جبکہ کشمیر کی معیشت کو ساڑھے 17 ہزار کروڑ کا نقصان ہوچکا ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں زرعی زمینوں اور جنگلات پر فوجی کالونیاں بنارہا ہے۔
مسئلہ کشمیر پر عالمی طاقتیں اِس لئے بے اعتنائی برت رہی ہیں کہ یہ مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ جنوبی سوڈان، مشرقی تیمور، اسکاٹ لینڈ کے معاملات اِس لئے حل ہوگئے کیوںکہ وہاں پر عیسائی اکثریت تھی۔ میرے بھائی! کشمیریوں نے 45 سال تک سیاسی جدوجہد کی لیکن اُس کے جواب میں انہیں مظالم کا سامنا کرنا پڑا، اِنہی مظالم کے خلاف وادی کے مسلمانوں کی تیسری نسل بھی میدان میں آگئی ہے۔ اب چونکہ اِن جوابات کا بھارتی صحافی دوست کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، اِس لیے انہوں نے بعد میں گفتگو کرنے کا عذر تلاش کیا اور چیٹ سے آف لائن ہوگئے۔
برہان وانی کی شہادت کا ایک سال مکمل ہوگیا، لیکن کشمیر میں اب بھی بھارتی مظالم جاری ہیں، جبکہ روزانہ کی بنیاد پر ٹارچر، ذہنی اذیتیں، گھر گھر تلاشی اور جعلی مقابلوں نے کشمیری نوجوانوں کو عذاب میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ میری تحریر بھی اختتام پذیر ہے مگر میرے ذہن میں بچپن میں لائن آف کنٹرول پر اکثر و بیشتر دوستوں کے ہمراہ گائے جانے والے کشمیری نوجوانوں کے نغمے کے بول گردش کر رہے ہیں۔
بادشاہی مسجد کے میناروں سے فجر کے لئے موذن کی صدا بلند ہو رہی ہے، اور کشمیر کی آزادی کی اُمید کے ساتھ میری تحریر بھی مکمل ہوگئی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
21 برس کا نوجوان، خوبصورت آنکھیں، خوش شکل و خوب صورت، جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی ایسے راستے پر چل پڑا کہ جس سے واپسی ناممکن تھی۔ گھر کے نرم بچھونے چھوڑ کر وادی کے پتھروں پر سونے کے لئے، بہنوں کے ہاتھوں بنی ہوئی روٹی کھاتے کھاتے جنگلی پھلوں پر گزارا کرنے کے لئے، کالج میں امتیازی نمبر حاصل کرکے اپنا کیرئر بنانے کے بجائے قوم کو ایک نئی منزل دینے کے لئے اُس نے یہ راستہ اختیار کیا، سیاسی جدوجہد کی ناکامی کے بعد اُس نے اِس راستے کا انتخاب کیا۔
نام اُس کا برہان مظفر وانی، کیا خبر تھی کہ 15 سال کی عمر میں اِس راستے کو منتخب کرنے والا نوجوان بین الاقوامی شہرت حاصل کرلے گا۔ کسے معلوم تھا کہ بوڑھے مظفر وانی کا سپوت وادی کے ہر گھر کی آنکھ کا تارا بن جائے گا۔ کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ویڈیو پیغامات بھیجنے والے اِس نوعمر لڑکے کی ویڈیوز وہ کام کردیں گی جو اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کے علمبردار 70 سالوں سے نہ کرسکے تھے۔
ٹھیک ایک سال قبل ہم عید الفطر کی چھٹیاں منانے کے لئے آبائی علاقوں میں گئے تھے۔ شہروں میں موویز دیکھنے کے منصوبے بن رہے تھے تو گاؤں اور دیہاتوں میں عید ملن کی تقاریب منعقد ہورہی تھیں کہ اچانک ایک کشمیری کی شہادت کی خبریں میڈیا پر نشر ہوئیں۔ چونکہ کشمیری روز مرتے ہیں، اور جب تک درجن بھر کشمیری بھارتی گولیوں کا نشانہ نہ بنیں تب تک ہمارے لئے کوئی خبر نہیں ہوتی، کیونکہ ہم اپنے ملک میں لاشیں اٹھا اٹھا کر اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ ہمیں دو تین لوگوں کے مرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
شاید اِسی لیے اُس دن بھی ہمیں کوئی فرق نہیں پڑا تھا، جو لوگ فلمیں دیکھ رہے تھے انہوں نے اپنی فلم بھی تمام کی، عید ملن کی تقاریب بھی پایہ تکمیل کو پہنچیں لیکن سوشل میڈیا کے ذریعے ہمیں علم ہوا کہ وانی کوئی معمولی نوجوان نہیں تھا کشمیریوں کا ایک حقیقی ہیرو تھا۔ وہ ہیرو جس نے بی ایس ایف اور انڈین آرمی کو دن میں تارے دکھائے، مودی سرکار کو ناکوں چنے چبوائے، کشمیر کی جدوجہد آزادی کو شاید اُسی جوان کے خون کی ضرورت تھی۔ قوم کے اِس نوجوان کے لہو کا خراج چاہیئے تھا، مودی سرکار نے سوچا تھا کہ وانی کو شہید کرکے قصہ ہی ختم کردیتے ہیں مگر وہ تو ایک ٹریلر تھا، اِس فلم کے ہر منظر کو کشمیری نوجوانوں نے اپنے ہیرو، ترجمان اور حقیقی قائد کی شہادت کے بعد نئے رنگوں سے مزین کیا۔
کشمیری نوجوان اور حریت پسند برہان مظفر وانی ایک ہونہار طالب علم تھا جس نے ہندوستانی فوجیوں کے مظالم کے خلاف صرف 15 برس کی عمر میں ہتھیار اٹھائے۔ وانی کے والد اسکول پرنسپل ہیں، انہوں نے اپنے بڑے بھائی خالد وانی کی شہادت کے بعد بھارتی فوج کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔ 2015ء میں برہان وانی نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا لیکن رفتہ رفتہ وانی نے سوشل میڈیا پر اپنی ویڈیوز کے ذریعے کشمیری نوجوانوں میں مقبولیت حاصل کی۔ بھارت سرکار نے برہان وانی سے نجات حاصل کرنے کے کئی منصوبے بنائے، اُن کے سر کی قیمت 10 لاکھ روپے مقرر کی لیکن پھر بھی وانی ہاتھ نہیں آیا، بالآخر نوجوان حریت پسند نوجوان کو 8 جولائی 2016 ء کو شہید کردیا گیا۔
برہان وانی کی شہادت کے بعد تو گویا کشمیر میں ایک نئے دور کی ابتداء ہوگئی، لاکھوں کشمیری حریت پسند رہنماء کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے۔ پوری وادی میں مظاہروں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا، کاروبار ٹھپ ہوگئے، اسکول، اسپتال اور تعلیمی ادارے مہینوں تک بند رہے۔
بھارتی فوج نے کشمیریوں پر دباؤ بڑھانے کے لئے سوشل میڈیا پر پابندی لگا دی، تحریک کو کچلنے کے لئے تعلیمی اداروں کو تالے لگادئیے، مہینوں بعد جب تعلیمی ادارے دوبارہ کُھلے تو کشمیری طلبہ نے بستے اُٹھا کر کلاس روم جانے کے بجائے سری نگر لال چوک پر دھرنا دینا پسند کیا۔ بھارتی فوج نے پیلٹ گنوں کے ذریعے کشمیریوں کو بینائی سے محروم کردیا۔ بین الاقوامی میڈیا تاریخ میں پہلی بار کشمیری قوم کی حمایت میں بولنے لگا، صنف نازک کہلانے والی معصوم بچیوں نے بھی بھارتی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے پتھر اُٹھالئے۔ الغرض کشمیر میں ایک سال سے وہ تحریک جاری ہے جو بہت جلد منطقی انجام تک پہنچتی دکھائی دے رہی ہے۔
بھارتی فورسز نے اپنے ظلم و بربریت کے ذریعے اِس تحریک کو کچلنے کی کوشش کی لیکن ہر بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد سے تا وقتِ تحریر 836 لوگ شہید، 19373 زخمی، 1757 پیلٹ گنوں سے نابینا ہوچکے ہیں۔ 8 جولائی سے تشدد کی شروع ہونے والی داستان ایک سال مکمل ہونے کے بعد بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔
گزشتہ روز نامور بھارتی ٹی وی چینل سے وابستہ نئی دہلی میں تعینات بھارتی صحافی دوست سے مسئلہ کشمیر پر گفتگو ہورہی تھی۔ موصوف بھارتی پروپیگنڈے سے بے حد متاثر نظر آرہے تھے، کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی سے جوڑنے کی سر توڑ کوشش میں گویا ہوئے، ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانا کہاں تک جائز ہے؟ اسلام نے بھی تو اِس سے منع کیا ہے۔
اُن موصوف سے مفصل گفتگو کے دوران کچھ باتیں اُن کے گوش گزار کیں۔ جنابِ من! اسلام کو زیرِ بحث ہی نہیں لاتے، میں بھی ہتھیار اٹھانے کا قائل نہیں ہوں لیکن آپ پہلے مسئلہ کشمیر کو غور سے سمجھیں، دہشت گردی اور فریڈم فائٹ میں فرق کرنا سیکھیے۔ کشمیری بھارت سے علیحدگی کی تحریک شروع نہیں کررہے بلکہ وہ تو کبھی بھارت میں شامل ہی نہیں ہوئے، اور اِس کا ثبوت یہ ہے کہ بھارت نے تو خود کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ تسلیم کیا ہوا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قرارداد فریڈم فائٹ کی حمایت کرتی ہیں، جس پر صحافی دوست کافی سیخ پا ہوگئے اور بولے اقوام متحدہ کشمیر کے مسئلے کو حل کیوں نہیں کرانا چاہتا؟ کشمیریوں کو اگر آزادی ہی چاہیئے تو وہ سیاسی راہ کا تعین کریں، وادی کے معصوم لوگوں کو تو نشانہ نہ بنائیں۔
مجھے یہ باتیں سن کر حیرت ہوئی کہ ایک طویل عرصے سے صحافت سے وابستہ ہونے کے باوجود اُن کی معلومات اتنی ناقص ہیں۔ میں ٹھیک سے نہیں جانتا تھا کہ اُن کی معلومات ناقص تھیں یا اُن کے قلم پر تعصب کی بندشیں، اِس لیے اُن کو جواب دینا تو ضروری تھا۔
اِس لیے اُن کی معلومات کی درستگی کے لئے بتایا کہ بھیا! کشمیر کی جدوجہد ایک عوامی تقاضہ ہے۔ کشمیر کی تیسری نسل جدوجہدِ آزادی میں مصروف ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں 6 ہزار گمنام قبریں ہیں، ہزاروں نوجوانوں کو شہید کیا جاچکا ہے جبکہ کشمیر کی معیشت کو ساڑھے 17 ہزار کروڑ کا نقصان ہوچکا ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں زرعی زمینوں اور جنگلات پر فوجی کالونیاں بنارہا ہے۔
مسئلہ کشمیر پر عالمی طاقتیں اِس لئے بے اعتنائی برت رہی ہیں کہ یہ مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ جنوبی سوڈان، مشرقی تیمور، اسکاٹ لینڈ کے معاملات اِس لئے حل ہوگئے کیوںکہ وہاں پر عیسائی اکثریت تھی۔ میرے بھائی! کشمیریوں نے 45 سال تک سیاسی جدوجہد کی لیکن اُس کے جواب میں انہیں مظالم کا سامنا کرنا پڑا، اِنہی مظالم کے خلاف وادی کے مسلمانوں کی تیسری نسل بھی میدان میں آگئی ہے۔ اب چونکہ اِن جوابات کا بھارتی صحافی دوست کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، اِس لیے انہوں نے بعد میں گفتگو کرنے کا عذر تلاش کیا اور چیٹ سے آف لائن ہوگئے۔
برہان وانی کی شہادت کا ایک سال مکمل ہوگیا، لیکن کشمیر میں اب بھی بھارتی مظالم جاری ہیں، جبکہ روزانہ کی بنیاد پر ٹارچر، ذہنی اذیتیں، گھر گھر تلاشی اور جعلی مقابلوں نے کشمیری نوجوانوں کو عذاب میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ میری تحریر بھی اختتام پذیر ہے مگر میرے ذہن میں بچپن میں لائن آف کنٹرول پر اکثر و بیشتر دوستوں کے ہمراہ گائے جانے والے کشمیری نوجوانوں کے نغمے کے بول گردش کر رہے ہیں۔
جبیں سے نور برساتی چلی آتی ہے آزادی
مچلتی، جھومتی، گاتی چلی آتی ہے آزادی
بادشاہی مسجد کے میناروں سے فجر کے لئے موذن کی صدا بلند ہو رہی ہے، اور کشمیر کی آزادی کی اُمید کے ساتھ میری تحریر بھی مکمل ہوگئی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیولنکس بھی۔