کشمیر ایک حقیقت ہے
پہروں سخت گشت، گھنٹوں کا کھڑا رہنا اور پھر یہ احساس بھی کہ ان کے مقابل لوگ جو مقامی ہیں ان سے سخت نفرت کرتے ہیں۔
1947 کے بعد سے لے کر آج تک کشمیر کے متعلق جب بھی سنا خون،آگ اور بھارتی فوجیوں کی بربریت کی داستانیں ہی سماعت سے ٹکرائیں، یہ دنیا کا ایک ایسا مظلوم خطہ ہے جو گزرتے ہر برس کے ساتھ اپنی دھرتی پر بے گناہ معصوم لاشوں کا بوجھ اٹھاتا ہے۔ 1989 سے لے کر اب تک ستر ہزار کے قریب کشمیریوں کا خون بہایا جاچکا ہے جب کہ اس دوران آٹھ ہزار افراد غائب ہوچکے ہیں۔
2008 میں کولمبو سارک کانفرنس کے بعد من موہن سنگھ نے ایک سری لنکن اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ''بھارت پاکستان کے ساتھ تمام معاملات خوش اسلوبی سے طے کرنا چاہتا ہے، خاص طور پر کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے بارے میں بھارت کا رویہ انتہائی مخلصانہ ہے۔''دیکھا یہ گیا ہے کہ بھارت کے حال اور ماضی کے سیاسی اداکار کشمیر کے مسئلے کو دنیا بھر کے سامنے کسی اور طرح سے پیش کرتے ہیں، جیسے وہ خالصتاً سیکولر قسم کے ہوں حالانکہ ایسا حقیقت میں ہرگز نہیں ہے، کشمیرمیں جو کچھ اتنے برسوں سے مسلمانوں کے ساتھ جو برتاؤ روا رکھا گیا ہے اس کا دائرہ اب کشمیر سے پھیل کر پورے بھارت میں سرائیت کرچکا ہے۔
اس سے بھارت کے کھلے ذہن کا واضح ثبوت ملتا ہے،پنڈت جواہر لال نہرو جو بھارت کے پہلے وزیر اعظم تھے، انھوں نے بھی اقوام متحدہ میں ریاست جموں وکشمیر کے مستقبل کے فیصلے کے لیے رائے شماری کرانے کا وعدہ کیا تھا لیکن ان کا یہ وعدہ وفا نہ ہوسکا اور بھارت نے اپنے پنجے مضبوطی سے کشمیر کی وادی میں گاڑ دیے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ مسئلہ 1962 میں پھر اٹھایا گیا تھا لیکن اس وقت تک بھارت نے مغربی ممالک میں اپنی دوستیاں خاصی مضبوط کرلی تھیں اور اس کے بعد ہمارے اپنے لیڈران نے بھی اس مسئلے کو سلجھانے کی بجائے اسے ایک لوہے کے تابوت میں دفن کردیا جس کو وہ ملک میں اپنی تقریروں کو گرمانے کے لیے بجا تو سکتے ہیں لیکن اسے تابوت سے نکال کر جھاڑ پونچھ کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، اب یہ کہہ دینا کہ کشمیر چاروں جانب سے خشکی میں گھرا ایک خطہ ہے خاصا معنی خیز لگتا ہے کیونکہ اس خطے پر سات آٹھ لاکھ انسان بستے ہیں جو گزشتہ چھیاسٹھ برس سے سسک سسک کر جی رہے ہیں۔
ان کو آزادی کے ساتھ جینے کا حق حاصل نہیں ہے، ان کی جان مال اور عزت محفوظ نہیں، ان کے بچے بوڑھوں اور جوانوں پر کبھی بھی کوئی بھی الزام لگاکر گھروں سے راستوں سے اٹھالیا جاتا ہے، کیا آبادی کا اتنا بڑا حصہ اس قدر بے حیثیت ہے کہ اس کے خون کی کوئی قیمت نہیں؟ حکومتوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی رعایا، اپنی عوام کی آزادی، زندگی کی تمام سہولیات بہم پہنچائے، لیکن اگر حکومت ان حقوق کی فراہمی میں غیر ذمے دار ثابت ہوتی ہے تو ایسی حکومت کا اپنی اسٹیٹ پر راج لاگو کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ 2011 میں کشمیریوں کی لاشوں کے بے نام قبرستانوں کی دنیا پر آشنائی کے بعد یہ ثابت ہوچکا ہے کہ دن دہاڑے اٹھائے جانے والے مظلوم کشمیری کہاں کھوجاتے ہیں، اے پی ڈی پی (APDP) کا وجود ایسے ہی کشمیریوں کی گمشدگی کا ایک ثبوت ہے۔
جسے کسی شہرت یا نام کمانے والی این جی او نے جنم نہیں دیا بلکہ ایک مظلوم ماں نے اپنے جگرگوشے کے غائب ہونے کے بعد دوسری ماؤں کے درد کو بھی محسوس کیا اور اس ادارے کی بنیاد رکھ کر دنیائے عالم پر واضح کیا کہ کشمیر کے اس چھوٹے سے خطے پر مسلمانوں پر کیا کیا مظالم ڈھائے جاتے ہیں، پروینہ آہنگر کا انیس سالہ بیٹا جوید آہنگراپنے چچا کے پاس پڑھنے گیا ہوا تھا کہ غائب ہوگیا اور پھر کبھی اس کا پتہ نہ چلا۔ پروینہ بیٹے کی محبت میں مغلوب پولیس اسٹیشن پہنچی اور پھر اس کا سفر تلاش شروع ہوگیا اور پھر پروینہ کے دل میں ایک مضبوط ماں نے جنم لیا جس نے اپنا جوان بیٹا کھودیا تھا، اس نے دوسرے غائب ہوجانے والوں کے والدین اور رشتے داروں سے ملاقاتیں کیں ان سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور 94 میں سری نگر ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کی اس تمام سفر میں پروینہ کو دکھ اور اذیت کے عذاب سے بھی گزرنا پڑا، لیکن یہ سفر رکا نہیں، پروینہ جنیوا بھی جاچکی ہے، جہاں اس نے دنیا کی طاقتوں کے سامنے اپنا حال بھی سنایا، آج بھی پروینہ ایسے لوگوں کے لیے کام کر رہی ہے جنھیں کشمیر میں مسلمان ہونے کے ناتے غائب کرلیا جاتا ہے۔
ایک بھارتی صحافی ہرش مندر نے کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کو قلمبند کیا جس نے کشمیریوں پر ہونے والے ظلم کی داستانوں کو عیاں کیا وہ ایک طالبہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس کا والد ایک انجینئر تھا، لیکن انھیں بھارتی فوجیوں نے ہلاک کردیا، دوسرے دن اخبارات میں خبر چھپی کہ فوج نے یہ دعویٰ کیا کہ اس نے کشمیری فوج سے برسر پیکار ایک بڑے کمانڈر کو ہلاک کردیا، وہ مزید لکھتے ہیں سری نگر میں ڈل جھیل کے وسط میں پانی سے محصور جو گندہ بستیاں ہیں وہاں سے سیکیورٹی نوجوانوں کو دھر لیتی ہے چونکہ وہ کشمیر زبان کے علاوہ کوئی اور زبان نہیں جانتے اس لیے سیکیورٹی فورسز کے سوالات کا کوئی جواب نہیں دے سکتے، بسااوقات ان نوجوانوں کے جوابات کو غلط سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح وہ نوجوان اپنے آپ کو سیکیورٹی فورسز کے جنگل میں پھنسا لیتے ہیں۔ بہرکیف تشدد نے ان نوجوانوں کے اندر زندگی کی امنگ کا تقریباً خاتمہ کردیا، کوئی طالب علم مطالعہ نہیں کرسکتا گندہ بستیوں میں آج ایک بھی گریجویٹ نہیں ہے۔
وہ کشمیری جن کے پاس پیسہ ہے وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم اور اس ماحول سے دور رکھنے کے لیے ملک سے باہر بھجوادیتے ہیں جب کہ سفید پوش کشمیری دو وقت کی روٹی کے لیے سخت جدوجہد کرتے ہیں، حالات ایسے ہیں کہ اب کشمیری نسل آپریشن میں گھرتی جارہی ہے ماحول سے فرار، دکھ، اذیت اور ظلم و جبر نے منشیات جیسی لعنت کو بھی فروغ دیا ہے، زمین کے جس خطے کو کبھی جنت کہا جاتا تھا اسی جنت میں اب خونی چمگادڑوں نے انسانوں کے وجود کو بھنبھوڑنا شروع کردیا، یہ عمل برسوں سے جاری ہے جانے کب تھمے گا؟
کشمیری حریت پسندوں کا تو ایک اپنا طرز عمل ہے جو اپنی آزادی کی خاطر اپنی جان کی پرواہ بھی نہیں کرتے، لیکن وہ بے گناہ لوگ جانے کس جرم کی سزا پاتے ہیں جنھیں ان آزادی کے جیالوں کا ہمنوا اور ساتھی ہونے کے شبے میں یا تو بھون دیا جاتا ہے یا اغواء کرلیا جاتا ہے، ایسے بے گناہوں کی اندوہناک داستان کا ہر ورق خون سے نم ہے۔
ہرش مندر بھارتی فوجیوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ حد یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے گاؤں میں بھی مصروف بازار کے علاقوں میں بلٹ پروف قمیض پہنے رہتے ہیں، سولجر مہلک اسلحے سے لیس گشت لگاتے رہتے ہیں وہ بھی کشمیر میں تعیناتی پر خوفزدہ رہتے ہیں، اپنے خاندانوں سے دوری ان میں ایک ذہنی تناؤ بھی پیدا کردیتی ہے۔
کشمیر کا سرد موسم ان فوجیوں کے لیے اذیت ناک ہوتا ہے، اکیلا پن پہروں سخت گشت، گھنٹوں کا کھڑا رہنا اور پھر یہ احساس بھی کہ ان کے مقابل لوگ جو مقامی ہیں ان سے سخت نفرت کرتے ہیں انھیں خود اپنی زندگی سے خوف محسوس ہوتا ہے، برسوں سے بھارت کا کشمیر پر تسلط دراصل اس کے اس جذبے کی تسکین ہے جو وہ دل ہی دل میں پاکستان کو ایک بار پھر اپنے اندر مدغم کرنے کے خواب دیکھتا ہے، لیکن یہ نہیں جانتا کہ خواب تو خواب ہوتے ہیں البتہ بھارت میں جو حالات مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے گئے ہیں ان سے موسم یہ خبر دیتے ہیں کہ کہیں پاکستان کا کوئی اور بھائی تو دنیا میں نہیں ابھر رہا؟
2008 میں کولمبو سارک کانفرنس کے بعد من موہن سنگھ نے ایک سری لنکن اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ''بھارت پاکستان کے ساتھ تمام معاملات خوش اسلوبی سے طے کرنا چاہتا ہے، خاص طور پر کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے بارے میں بھارت کا رویہ انتہائی مخلصانہ ہے۔''دیکھا یہ گیا ہے کہ بھارت کے حال اور ماضی کے سیاسی اداکار کشمیر کے مسئلے کو دنیا بھر کے سامنے کسی اور طرح سے پیش کرتے ہیں، جیسے وہ خالصتاً سیکولر قسم کے ہوں حالانکہ ایسا حقیقت میں ہرگز نہیں ہے، کشمیرمیں جو کچھ اتنے برسوں سے مسلمانوں کے ساتھ جو برتاؤ روا رکھا گیا ہے اس کا دائرہ اب کشمیر سے پھیل کر پورے بھارت میں سرائیت کرچکا ہے۔
اس سے بھارت کے کھلے ذہن کا واضح ثبوت ملتا ہے،پنڈت جواہر لال نہرو جو بھارت کے پہلے وزیر اعظم تھے، انھوں نے بھی اقوام متحدہ میں ریاست جموں وکشمیر کے مستقبل کے فیصلے کے لیے رائے شماری کرانے کا وعدہ کیا تھا لیکن ان کا یہ وعدہ وفا نہ ہوسکا اور بھارت نے اپنے پنجے مضبوطی سے کشمیر کی وادی میں گاڑ دیے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ مسئلہ 1962 میں پھر اٹھایا گیا تھا لیکن اس وقت تک بھارت نے مغربی ممالک میں اپنی دوستیاں خاصی مضبوط کرلی تھیں اور اس کے بعد ہمارے اپنے لیڈران نے بھی اس مسئلے کو سلجھانے کی بجائے اسے ایک لوہے کے تابوت میں دفن کردیا جس کو وہ ملک میں اپنی تقریروں کو گرمانے کے لیے بجا تو سکتے ہیں لیکن اسے تابوت سے نکال کر جھاڑ پونچھ کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، اب یہ کہہ دینا کہ کشمیر چاروں جانب سے خشکی میں گھرا ایک خطہ ہے خاصا معنی خیز لگتا ہے کیونکہ اس خطے پر سات آٹھ لاکھ انسان بستے ہیں جو گزشتہ چھیاسٹھ برس سے سسک سسک کر جی رہے ہیں۔
ان کو آزادی کے ساتھ جینے کا حق حاصل نہیں ہے، ان کی جان مال اور عزت محفوظ نہیں، ان کے بچے بوڑھوں اور جوانوں پر کبھی بھی کوئی بھی الزام لگاکر گھروں سے راستوں سے اٹھالیا جاتا ہے، کیا آبادی کا اتنا بڑا حصہ اس قدر بے حیثیت ہے کہ اس کے خون کی کوئی قیمت نہیں؟ حکومتوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی رعایا، اپنی عوام کی آزادی، زندگی کی تمام سہولیات بہم پہنچائے، لیکن اگر حکومت ان حقوق کی فراہمی میں غیر ذمے دار ثابت ہوتی ہے تو ایسی حکومت کا اپنی اسٹیٹ پر راج لاگو کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ 2011 میں کشمیریوں کی لاشوں کے بے نام قبرستانوں کی دنیا پر آشنائی کے بعد یہ ثابت ہوچکا ہے کہ دن دہاڑے اٹھائے جانے والے مظلوم کشمیری کہاں کھوجاتے ہیں، اے پی ڈی پی (APDP) کا وجود ایسے ہی کشمیریوں کی گمشدگی کا ایک ثبوت ہے۔
جسے کسی شہرت یا نام کمانے والی این جی او نے جنم نہیں دیا بلکہ ایک مظلوم ماں نے اپنے جگرگوشے کے غائب ہونے کے بعد دوسری ماؤں کے درد کو بھی محسوس کیا اور اس ادارے کی بنیاد رکھ کر دنیائے عالم پر واضح کیا کہ کشمیر کے اس چھوٹے سے خطے پر مسلمانوں پر کیا کیا مظالم ڈھائے جاتے ہیں، پروینہ آہنگر کا انیس سالہ بیٹا جوید آہنگراپنے چچا کے پاس پڑھنے گیا ہوا تھا کہ غائب ہوگیا اور پھر کبھی اس کا پتہ نہ چلا۔ پروینہ بیٹے کی محبت میں مغلوب پولیس اسٹیشن پہنچی اور پھر اس کا سفر تلاش شروع ہوگیا اور پھر پروینہ کے دل میں ایک مضبوط ماں نے جنم لیا جس نے اپنا جوان بیٹا کھودیا تھا، اس نے دوسرے غائب ہوجانے والوں کے والدین اور رشتے داروں سے ملاقاتیں کیں ان سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور 94 میں سری نگر ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کی اس تمام سفر میں پروینہ کو دکھ اور اذیت کے عذاب سے بھی گزرنا پڑا، لیکن یہ سفر رکا نہیں، پروینہ جنیوا بھی جاچکی ہے، جہاں اس نے دنیا کی طاقتوں کے سامنے اپنا حال بھی سنایا، آج بھی پروینہ ایسے لوگوں کے لیے کام کر رہی ہے جنھیں کشمیر میں مسلمان ہونے کے ناتے غائب کرلیا جاتا ہے۔
ایک بھارتی صحافی ہرش مندر نے کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کو قلمبند کیا جس نے کشمیریوں پر ہونے والے ظلم کی داستانوں کو عیاں کیا وہ ایک طالبہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس کا والد ایک انجینئر تھا، لیکن انھیں بھارتی فوجیوں نے ہلاک کردیا، دوسرے دن اخبارات میں خبر چھپی کہ فوج نے یہ دعویٰ کیا کہ اس نے کشمیری فوج سے برسر پیکار ایک بڑے کمانڈر کو ہلاک کردیا، وہ مزید لکھتے ہیں سری نگر میں ڈل جھیل کے وسط میں پانی سے محصور جو گندہ بستیاں ہیں وہاں سے سیکیورٹی نوجوانوں کو دھر لیتی ہے چونکہ وہ کشمیر زبان کے علاوہ کوئی اور زبان نہیں جانتے اس لیے سیکیورٹی فورسز کے سوالات کا کوئی جواب نہیں دے سکتے، بسااوقات ان نوجوانوں کے جوابات کو غلط سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح وہ نوجوان اپنے آپ کو سیکیورٹی فورسز کے جنگل میں پھنسا لیتے ہیں۔ بہرکیف تشدد نے ان نوجوانوں کے اندر زندگی کی امنگ کا تقریباً خاتمہ کردیا، کوئی طالب علم مطالعہ نہیں کرسکتا گندہ بستیوں میں آج ایک بھی گریجویٹ نہیں ہے۔
وہ کشمیری جن کے پاس پیسہ ہے وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم اور اس ماحول سے دور رکھنے کے لیے ملک سے باہر بھجوادیتے ہیں جب کہ سفید پوش کشمیری دو وقت کی روٹی کے لیے سخت جدوجہد کرتے ہیں، حالات ایسے ہیں کہ اب کشمیری نسل آپریشن میں گھرتی جارہی ہے ماحول سے فرار، دکھ، اذیت اور ظلم و جبر نے منشیات جیسی لعنت کو بھی فروغ دیا ہے، زمین کے جس خطے کو کبھی جنت کہا جاتا تھا اسی جنت میں اب خونی چمگادڑوں نے انسانوں کے وجود کو بھنبھوڑنا شروع کردیا، یہ عمل برسوں سے جاری ہے جانے کب تھمے گا؟
کشمیری حریت پسندوں کا تو ایک اپنا طرز عمل ہے جو اپنی آزادی کی خاطر اپنی جان کی پرواہ بھی نہیں کرتے، لیکن وہ بے گناہ لوگ جانے کس جرم کی سزا پاتے ہیں جنھیں ان آزادی کے جیالوں کا ہمنوا اور ساتھی ہونے کے شبے میں یا تو بھون دیا جاتا ہے یا اغواء کرلیا جاتا ہے، ایسے بے گناہوں کی اندوہناک داستان کا ہر ورق خون سے نم ہے۔
ہرش مندر بھارتی فوجیوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ حد یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے گاؤں میں بھی مصروف بازار کے علاقوں میں بلٹ پروف قمیض پہنے رہتے ہیں، سولجر مہلک اسلحے سے لیس گشت لگاتے رہتے ہیں وہ بھی کشمیر میں تعیناتی پر خوفزدہ رہتے ہیں، اپنے خاندانوں سے دوری ان میں ایک ذہنی تناؤ بھی پیدا کردیتی ہے۔
کشمیر کا سرد موسم ان فوجیوں کے لیے اذیت ناک ہوتا ہے، اکیلا پن پہروں سخت گشت، گھنٹوں کا کھڑا رہنا اور پھر یہ احساس بھی کہ ان کے مقابل لوگ جو مقامی ہیں ان سے سخت نفرت کرتے ہیں انھیں خود اپنی زندگی سے خوف محسوس ہوتا ہے، برسوں سے بھارت کا کشمیر پر تسلط دراصل اس کے اس جذبے کی تسکین ہے جو وہ دل ہی دل میں پاکستان کو ایک بار پھر اپنے اندر مدغم کرنے کے خواب دیکھتا ہے، لیکن یہ نہیں جانتا کہ خواب تو خواب ہوتے ہیں البتہ بھارت میں جو حالات مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے گئے ہیں ان سے موسم یہ خبر دیتے ہیں کہ کہیں پاکستان کا کوئی اور بھائی تو دنیا میں نہیں ابھر رہا؟