جنرل کیانی سرخرو ٹھہرے 2
جنرل کیانی جس حد تک تحمل کا ثبوت دے سکتے تھے، یہ کسی فوجی کی طرف سے نہیں ، انسانی بس سے بھی باہر کی بات تھی۔
دھرنے اور لانگ مارچ ہوں گے، ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے ہوں، میاں نواز شریف کی طرف سے ہوں، عمران خان کی طرف سے ہوں، قتل و غارت گری اچانک بڑھ جائے تو پھر مارشل لا کے نفاذکا امکان بھی ہو گا۔لیکن فوج صبر بھی کر سکتی ہے اور مارشل لا کا خطرہ ٹل سکتا ہے ، مگر کب تک ! جنرل کیانی جس حد تک تحمل کا ثبوت دے سکتے تھے، یہ کسی فوجی کی طرف سے نہیں ، انسانی بس سے بھی باہر کی بات تھی، انھوں نے لازمی طور پر اپنے کمانڈروں اور ان کے ماتحت افسروں اور جوانوں کی طرف سے جلی کٹی سنی ہوں گی مگر وہ مہم جوئی سے باز رہے کہ وہ قوم کے ساتھ ایک وعدہ کر چکے تھے۔
وعدہ یہ تھا کہ وہ مارشل لا تو کیا، فوج کو سیاست میں منہ بھی نہیں مارنے دیں گے۔ انھوں نے اپنے زیر کمان پہلا سال سپاہی کے وقار میں اضافے کے لیے مختص کیا، انھوں نے شہدا کی یاد میں تقاریب کیں اور سال کا ایک دن ٓج تک کے تمام فوجی شہدا کی یاد کے لیے مخصوص کر دیا۔مگر مارشل لا کے نفاذ کے قدرتی مواقعے کب کب نہیں آئے، ایبٹ آباد پر امریکی جارحیت اور پھر میمو کیس کی جارحیت جیسے سانحے کسی افریقی ملک میں رونما ہوتے تو کوئی نیم لفٹین بھی نیچے سے اٹھ کر خونیں انقلاب برپا کر دیتا مگر جنرل کیانی صبرو تحمل کا پیکر ثابت ہوئے، انھوں نے کسی انا کا مظاہرہ نہیں کیا اور ملک کی کسی نازک گھڑی کا فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ایبٹ آباد جارحیت بھی امریکا سے نازل ہوئی تھی اور میمو کیس کا عذاب بھی امریکا کا عطا کردہ تھا۔
ایبٹ آباد جارحیت پر پارلیمنٹ پھنکار رہی تھی، ظاہر ہے قوم کے جذبات کو سخت دھچکا لگا تھا، پارلیمنٹ کا اضطراب ایک فطری بات تھی مگر فوجی قیادت نے پارلیمنٹ کے سامنے سر جھکا دیا کہ یہ ادارہ عوام کی حاکمیت کا مظہر ہے اور فوج عوام میں سے ہی ہے۔میمو کیس نے تو چٹان کی مانند حوصلہ مند صدر مملکت کے اعصاب کو بھی متاثر کر دیا اور وہ سکون کی تلاش میں دوبئی کے اسپتال جا پہنچے اور اگر کسی نے رد عمل کا اظہار نہیں کیا تو ہ جنرل کیانی تھے، وہ جانتے تھے کہ انھیں ایک دلدل کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، اور وہ جانتے بوجھتے ہوئے اس میں دھنسنے کے لیے تیار نہ تھے۔اور ہیجان کا طوفان بہت جلد اپنی موت مر گیا۔جنرل کیانی اور ان کی زیر کمان فوج پر ایک ہلہ کیری لوگر بل کی صورت میں بولا گیا۔ فوج کئی برس سے وار آن ٹیرر میں امریکی حلیف بن کر دہشت گردوں سے نبرد آزما تھی مگر جونہی مشرف منظر سے ہٹے تو نئے آرمی چیف کے سامنے کیری لوگر بل کا سرخ رومال لہرا دیا گیا۔امریکی کانگریس نے پاکستان کی امداد کو کئی باتوں سے مشروط کر دیا تھا اور صاف کہہ دیا کو جو بھی امداد دی جائے گی وہ براہ راست پاکستانی عوام کو ملے گی، فوج کو ایک پائی بھی نہیں ملے گی، نہ حکومت کو کوئی دھیلا دیا جائے گا۔
میں صدقے جائوںاس غیرت مند لابی کے جو اچھل اچھل کر اس بل کو مسترد کر دینے کا واویلا کر رہی تھی مگر جونہی بل منظور ہو گیا، اور روشن پاکستان کے نام پر براہ راست ڈالر ملنے لگے تو وہ غیرت مندی کی ساری چوکڑی بھول گئی۔اور وہ اس فوج کے مفاد کو بھی بھول گئی جو قوم کو تحفظ فراہم کرنے کی ڈیوٹی ادا کرتے ہوئے اپنے بچے قربان کر رہی تھی۔الٹایہی غیرت لابی اس وقت فوج پر پل پڑی جب بریگیڈیئر امتیاز بلا منظر عام پر آئے، رہی سہی کسر اصغر خاں کیس نے پوری کر دی۔بظاہر اس کا نشانہ سابق آرمی چیف اسلم بیگ تھے یا ان کے دور میںآئی ایس آئی کے چیف جنرل درانی تھے ۔لیکن اس کج بحثی میں فوج کو لپیٹ لیا گیا اور جس کے دل میں فوج کے خلاف جو عناد اور بغض تھا ، اس کا کھلے عام اظہار کیا جانے لگا، آئین کا جو آرٹیکل عدلیہ کی تضحیک میں رکاوٹ ہے، وہی فوج کی تضحیک کی بھی ممانعت کرتا ہے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور درجنوں دوسرے سیاستدانوں اور حکومتی اہل کاروں کو عدلیہ کی تضحیک کے الزام بھگتنے پڑے مگر آئین کا یہ آرٹیکل فوج کی تضحیک پر چپ سادھے رہا۔لا پتہ افراد کے مسئلے پر تو جنونی میڈیا نے فوج کی پیٹھ پرطعن و تشنیع کے کوڑے برسائے۔
کراچی میں قانون نافذ کرنے کے جرم میں رینجرز کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا، کوئٹہ میں بے چہرہ ازبکوں کے خلاف رینجرز کی کارروائی پر بھی تادیبی کارروائی ہوئی۔لاہور میں رینجرز کے ایک ڈرائیور کو مار پٹائی کے معمولی جرم میں حوالات اور جیل کی راہ دکھائی گئی، مگر ان میں سے کسی معاملے پر فوج نے کوئی جوابی اقدام کا سوچا تک نہیں۔ پچھلے پونے پانچ برس میں فوج کی تذلیل کے لیے ایک سے ایک بڑھ کر واردات ہوئی مگر کسی نے کسی کو گھر نہیں بھیجا، پارلیمنٹ بھی اپنی میعاد پوری کرنے والی ہے اور اس کے ٹوٹنے کا جب بھی اعلان ہو گا تو خود حکومت کی طرف سے ہو گا اور وہ بھی لیڈر آف دی اپوزیشن کے مشورے کے ساتھ۔
ان پانچ سالوں میں حکومت اور ریاست کو کسی نے چلنے نہیں دیا تو اس کی ذمے داری صرف اور صرف حکومت اور اس کے اتحادیوں اور اس کی فرینڈلی اپوزیشن پر عاید ہوتی ہے، عوام بلک رہے ہیں، مسائل کے جہنم میں سلگ رہے ہیں، اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں، سی این جی کی تلاش میں میلوں لمبی قطاروںمیں ذلیل ہو رہے ہیں، نوجوانوں کی ڈگریاں کسی روزگار کا دروازہ نہیں کھولتیں، خود سوزیاں ہو رہی ہیں ، پنکھوں سے لٹک کر موت مانگی جا رہی ہے یا ڈینگی، دل کی غلط دوائوں، کھانسی کے شربت اور خسرے سے جانیں ضایع ہورہی ہیں تو کیا اس کے لیے فوج کو مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے، جواب ہے، ہر گز نہیں۔ایک زمانے میں ایسی ہی قیامت برپا تھی تو ایک منچلے شہری نے لاہور کی نہر کنارے اپنے مکان کی منڈیر پر آرمی چیف کی تصویر کے نیچے یہ مصرع لکھ دیا تھا:مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے۔
خود میں بھی ایک سویلین آمریت کی گھٹن سے تنگ آ کر یہ لکھنے پر مجبور ہو گیا تھا کہ اگر کئی برس سے قحط کا عالم ہو، فصلیں برباد ہو رہی ہوں، زمین کی سطح انگاروں میں تبدیل ہو چکی ہے اور محکمہ موسمیات پیش گوئی کر رہا ہو کہ مستقبل قریب میں بارش کے کوئی آثار نہیں ہیں تو کیا انسان بارش کے لیے دعا نہیںکر سکتا۔میں جانتا ہوں کہ جمہوریت کے خلاف بات کرنا آئین کے تحت جرم ہے، لیکن جمہوری نظام کی مروجہ خامیوں کی نشاندہی تو کوئی جرم نہیں ہے، جمہوریت کسی تھانیداری کا نام تو نہیں ، جمہوریت کسی آمریت کا نام بھی نہیں ، جمہوریت کسی کمپنی حکومت کا نام بھی نہیں، اس لیے ڈاکٹر طاہر القادری ہوں یا عمران خان ہو ں یا میرے جیسا کوئی ایک فرد، لوگوں کی بھلائی کی خاطر ہر تجویز دے سکتا ہے، نظام پر ہر جائز تنقید کر سکتا ہے اور اب تو ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے کے جرم کی تقلید میں ن لیگ بھی دھرنا دے رہی ہے،ن لیگ نے تو لاہور میں عمران خان کے جلسے پر بھرپور تنقید کرنے کے بعد اس کی تقلید میں جلسے کرنے کی کوشش کر دیکھی تھی، تو کسی نے ن لیگ کے اقدام کو مارشل لا لگوانے کا باعث قرار نہیں دیا تھا۔ ویسے جس نے جس کسی کو مارشل لگوانے کا طعنہ دینا ہو ، وہ اپنا شوق پورا کر دیکھے، مارشل لا جنرل کیانی نے لگانا ہے،لیکن نہیں لگایا ، نہ لگائیں گے۔ کیوں نہیں، جواب کوئی اتنا بھی مشکل نہیں۔
( جاری ہے)