سسکتا تڑپتا جاں بہ لب کراچی
کراچی نہ صرف پاکستان کا تجارتی مرکز بلکہ پاکستان کا پہلا دارالخلافہ، قائد اعظم کا گھر اور بانیانِ پاکستان کا مسکن ہے۔
پاکستان کا سب سے بڑا شہر جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا، آج اسے کس کی نظر کھا گئی معلوم نہیں اس شہر کی روشنیاں کیوں گُل ہو گئیں؟ ماہ جنوری میں اس شہر میں دو سو چالیس سے زائد انسانوں کی زندگی کے چراغ بجھا دیے گئے۔ ابھی ہم ان اسباب کا ہی جائزہ نہیں لے سکے تھے کہ کچھ نئے عوامل بھی اس شہر کے امن کو تہ و بالا کرنے میں شامل ہو گئے تھے۔ ماضی میں لسانی و نسلی تفریق کی بنیاد پر شہر کراچی کو بد امنی کا شکار کیا گیا لیکن آج اس میں مذہبی عنصر جو پہلے بھی موجود تھا، ایک مختلف زاویے کے ساتھ شامل ہوا ہے۔ کالعدم مذہبی جماعتیں اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے انسانوں کا خون بہا رہی ہیں۔
سپاہِ صحابہ، سپاہِ محمد جو کہ دوسرے ناموں سے سرگرم عمل ہیں، ان کے ساتھ لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان نے بھی اس شہر کو اپنا ہدف بنا لیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس نظر آتے ہیں۔ کراچی کے تشدد کی ذمے داری ماضی میں سیاسی جماعتوں پر ڈالی جاتی تھی اور حقیقی اور بنیادی کام سے انحراف کیا گیا۔ آج ایک بار پھر کراچی کے تشدد کی ذمے داری کالعدم مذہبی شدت پسند تنظیموں کے سر ڈال کر سلامتی کے ضامن ادارے اپنی ذمے داریوں سے اپنے آپ کو عہدہ برآ سمجھ رہے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ یہ خبر سنا چکے ہیں کہ ماہ فروری میں کراچی میں گھمسان کا رن پڑے گا اور اس کا آغاز 31 جنوری سے ہی ہو چکا جس دن کم سے کم پندرہ افراد جس میں تین عالم دین بھی شامل تھے، لقمہ اجل بنے۔ لیکن آج تک کسی کا قاتل کیفر کردار تک نہ پہنچایا جا سکا۔ گزشتہ روز جامعہ بنوریہ کے جن علمائے دین کو قتل کیا گیا، ان کی CCTV فوٹیج اتنی واضح ہے کہ قاتلوں کو پہچاننے میں دقت نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن ہمارے ادارے تا حال کوئی گرفتاری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ جب کوئی ایسا بڑا واقعہ ہوتا ہے تو شہر کراچی کے انتظامی سربراہ ہائی الرٹ جاری کر دیتے ہیں لیکن یہ امر بتانے سے قاصر ہیں کہ ہائی الرٹ کو ڈی الرٹ کرتا کون ہے؟ جب کہ سر دست شہر کراچی میں فوجی دستے بھی ووٹر لسٹوں کی تصحیح کے سلسلے میں شہر میں موجود ہیں جس میں قتل و غارت رکتی نظر نہیں آتی۔
بنیادی طور پر پولیس اور وہ ادارے جو خفیہ ایجنسیز کہلاتے ہیں ان کی ذمے داری ہے کہ وہ امن و امان قائم کرنے اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کی بنیادی ذمے داری ہر قیمت پر ادا کریں۔ دوسری جانب سیاسی جماعتیں کسی بھی سیاسی دبائو سے انکار کر رہی ہیں تو وہ کون سے عوامل ہیں جو امن قائم کرنے کی راہ میں حائل ہیں؟ اس کی وضاحت لازمی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان اداروں کو تکنیکی اعتبار سے اور تربیت کے اعتبار سے بھی عہد حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ کراچی سے منتخب ہونے والی سب سے بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ بھی اپنے تحفظات کا اظہار مسلسل کر رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ ہائوس اور گورنر ہائوس میں مسلسل اجلاس جاری ہیں۔ یقیناً اس میں معلومات کا تبادلہ بھی ہوتا ہو گا۔
حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ ان معلومات پر تحقیق کر کے ضروری کارروائی عمل میں لائے کیونکہ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ حکومتی ادارے متحدہ قومی موومنٹ کی تجاویز کو نظر انداز کر ر ہے ہیں۔ گزشتہ روز لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا کہ شہر کراچی میں دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں اور حکومت امن قائم کرنے میں ناکام ہے۔ ماضی میں کراچی کا تشدد سیاسی نظر آتا تھا۔ لیکن درحقیقت اس وقت بھی لینڈ مافیا اور ڈرگ مافیا کے ہاتھوں اس شہر کا امن تباہ کیا جا رہا تھا اور آج بھی مذہبی عوامل ڈرگ مافیا اور لینڈ مافیا کا کردار بڑا گہرا نظر آتا ہے۔ اب اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ مکمل طور پر ایک انتظامی مسئلہ ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں تشدد کی نہ صرف مذمت کرتی ہیں بلکہ اس سے کسی بھی قسم کی وابستگی سے انکاری ہیں اور یہاں تک اس پر اتفاق رائے ہے کہ اگر کسی سیاسی جماعت کا کارکن بھی اس تشدد میں ملوث ہے تو اسے قانون اپنی گرفت میں لے۔
حکومت کو چاہیے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ضروری اسلحہ اور ٹیکنالوجی فراہم کرے۔ اسلحہ خواہ شمال مغرب سے آ رہا ہو یا سمندر کے راستے سے، اس پائپ لائن کو کاٹا جائے اور پولیس سے روزانہ کی بنیادوں پر سوال و جواب کیا جائے کہ وہ اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب ہیں۔ جرم و سزا کے برق رفتار نظام کو قائم کر کے تمام ملزمان کا فیصلہ کیا جائے کہ آیا وہ مجرم ہیں یا بے قصور ہیں۔ کوئی وجہ نہیں کہ امن بحال نہ ہو سکے۔ اگر نیت صاف ہو تو منزل آسان ہوتی ہے۔ کسی بھی قسم کے سیاسی مقاصد کے لیے شہر کراچی کو تختہ مشق نہ بنایا جائے اور اس قسم کے بیانات سے اجتناب کیا جائے کہ شہر کراچی میں انسان کی لڑائی ہو سکتی ہے اور یہ شہر خدانخواستہ چھن بھی سکتا ہے۔ شہر کراچی نہ صرف پاکستان کی شہ رگ، تجارتی مرکز، درآمدات و برآمدات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے بلکہ پاکستان کا پہلا دارالخلافہ قائد اعظم کا گھر اور بانیانِ پاکستان کا مسکن ہے۔ اس کی حفاظت ملک کی حفاظت ہے۔ اس کی ترقی ملک کی ترقی ہے۔ لہٰذا تمام تر ترجیحات کو بالائے طاق رکھ کر اس کے امن کو بحال کرنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا جائے۔
سپاہِ صحابہ، سپاہِ محمد جو کہ دوسرے ناموں سے سرگرم عمل ہیں، ان کے ساتھ لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان نے بھی اس شہر کو اپنا ہدف بنا لیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس نظر آتے ہیں۔ کراچی کے تشدد کی ذمے داری ماضی میں سیاسی جماعتوں پر ڈالی جاتی تھی اور حقیقی اور بنیادی کام سے انحراف کیا گیا۔ آج ایک بار پھر کراچی کے تشدد کی ذمے داری کالعدم مذہبی شدت پسند تنظیموں کے سر ڈال کر سلامتی کے ضامن ادارے اپنی ذمے داریوں سے اپنے آپ کو عہدہ برآ سمجھ رہے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ یہ خبر سنا چکے ہیں کہ ماہ فروری میں کراچی میں گھمسان کا رن پڑے گا اور اس کا آغاز 31 جنوری سے ہی ہو چکا جس دن کم سے کم پندرہ افراد جس میں تین عالم دین بھی شامل تھے، لقمہ اجل بنے۔ لیکن آج تک کسی کا قاتل کیفر کردار تک نہ پہنچایا جا سکا۔ گزشتہ روز جامعہ بنوریہ کے جن علمائے دین کو قتل کیا گیا، ان کی CCTV فوٹیج اتنی واضح ہے کہ قاتلوں کو پہچاننے میں دقت نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن ہمارے ادارے تا حال کوئی گرفتاری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ جب کوئی ایسا بڑا واقعہ ہوتا ہے تو شہر کراچی کے انتظامی سربراہ ہائی الرٹ جاری کر دیتے ہیں لیکن یہ امر بتانے سے قاصر ہیں کہ ہائی الرٹ کو ڈی الرٹ کرتا کون ہے؟ جب کہ سر دست شہر کراچی میں فوجی دستے بھی ووٹر لسٹوں کی تصحیح کے سلسلے میں شہر میں موجود ہیں جس میں قتل و غارت رکتی نظر نہیں آتی۔
بنیادی طور پر پولیس اور وہ ادارے جو خفیہ ایجنسیز کہلاتے ہیں ان کی ذمے داری ہے کہ وہ امن و امان قائم کرنے اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کی بنیادی ذمے داری ہر قیمت پر ادا کریں۔ دوسری جانب سیاسی جماعتیں کسی بھی سیاسی دبائو سے انکار کر رہی ہیں تو وہ کون سے عوامل ہیں جو امن قائم کرنے کی راہ میں حائل ہیں؟ اس کی وضاحت لازمی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان اداروں کو تکنیکی اعتبار سے اور تربیت کے اعتبار سے بھی عہد حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ کراچی سے منتخب ہونے والی سب سے بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ بھی اپنے تحفظات کا اظہار مسلسل کر رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ ہائوس اور گورنر ہائوس میں مسلسل اجلاس جاری ہیں۔ یقیناً اس میں معلومات کا تبادلہ بھی ہوتا ہو گا۔
حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ ان معلومات پر تحقیق کر کے ضروری کارروائی عمل میں لائے کیونکہ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ حکومتی ادارے متحدہ قومی موومنٹ کی تجاویز کو نظر انداز کر ر ہے ہیں۔ گزشتہ روز لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا کہ شہر کراچی میں دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں اور حکومت امن قائم کرنے میں ناکام ہے۔ ماضی میں کراچی کا تشدد سیاسی نظر آتا تھا۔ لیکن درحقیقت اس وقت بھی لینڈ مافیا اور ڈرگ مافیا کے ہاتھوں اس شہر کا امن تباہ کیا جا رہا تھا اور آج بھی مذہبی عوامل ڈرگ مافیا اور لینڈ مافیا کا کردار بڑا گہرا نظر آتا ہے۔ اب اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ مکمل طور پر ایک انتظامی مسئلہ ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں تشدد کی نہ صرف مذمت کرتی ہیں بلکہ اس سے کسی بھی قسم کی وابستگی سے انکاری ہیں اور یہاں تک اس پر اتفاق رائے ہے کہ اگر کسی سیاسی جماعت کا کارکن بھی اس تشدد میں ملوث ہے تو اسے قانون اپنی گرفت میں لے۔
حکومت کو چاہیے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ضروری اسلحہ اور ٹیکنالوجی فراہم کرے۔ اسلحہ خواہ شمال مغرب سے آ رہا ہو یا سمندر کے راستے سے، اس پائپ لائن کو کاٹا جائے اور پولیس سے روزانہ کی بنیادوں پر سوال و جواب کیا جائے کہ وہ اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب ہیں۔ جرم و سزا کے برق رفتار نظام کو قائم کر کے تمام ملزمان کا فیصلہ کیا جائے کہ آیا وہ مجرم ہیں یا بے قصور ہیں۔ کوئی وجہ نہیں کہ امن بحال نہ ہو سکے۔ اگر نیت صاف ہو تو منزل آسان ہوتی ہے۔ کسی بھی قسم کے سیاسی مقاصد کے لیے شہر کراچی کو تختہ مشق نہ بنایا جائے اور اس قسم کے بیانات سے اجتناب کیا جائے کہ شہر کراچی میں انسان کی لڑائی ہو سکتی ہے اور یہ شہر خدانخواستہ چھن بھی سکتا ہے۔ شہر کراچی نہ صرف پاکستان کی شہ رگ، تجارتی مرکز، درآمدات و برآمدات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے بلکہ پاکستان کا پہلا دارالخلافہ قائد اعظم کا گھر اور بانیانِ پاکستان کا مسکن ہے۔ اس کی حفاظت ملک کی حفاظت ہے۔ اس کی ترقی ملک کی ترقی ہے۔ لہٰذا تمام تر ترجیحات کو بالائے طاق رکھ کر اس کے امن کو بحال کرنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا جائے۔