کرن کوئی آرزو کی لاؤ آخری حصہ
ہمارے نامراد رہنماؤں اور سخت دل ارباب اختیار نے ہم سے تو ہماری حس لطیف جیسی متاع بے بہا بھی چھین لی۔
افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما اور ارباب اختیارواقتدار،اخلاقیات کی مبادیات سے بھی بری الذمہ اور مستثنیٰ بلکہ بے نیاز ہوچکے ہیں۔ ان کے لیے اختیارات کا بے جا استعمال اور دروغ حلفی ایک معمول کی بات ہے۔ دوسری جانب ہمارے ناپسندیہ ملک امریکا کو دیکھیے کہ ان دونوں بدعنوانیوں کے ارتکاب کو ان کے دستور میں ملک سے غداری کے مماثل جرم قراردیا گیا ہے اور تاریخی اعتبار سے امریکا کے سترہویں اور ابراہام لنکن کے نائب اینڈریو جانسن کو اختیارات کے غیر محتاط اور بے جا استعمال پر امپیچ منٹ (Impeachment) کا سامنا کرنا پڑا جب کہ امریکا کے بیالیسویں صدر بل کلنٹن کو دروغ حلفی اور تفتیش اور انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے جرم میں مواخذہ Impeachment کے لیے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑا۔
اینڈریو جانسن صرف ایک ووٹ سے اور بل کلنٹن سترہ ووٹوں سے بمشکل سزا سے بچ سکے۔ یہ بھی امریکا کے اولین معماروں کی دور اندیشی اور بالغ نظری کا ثبوت ہے کہ اینڈریو جانسن پر فرد جرم عائد کرنے سے تقریباً سو سال پہلے بنجامن فرینکلن نے اس قانون کا مسودہ اس اعلان کے ساتھ پیش کیا تھا کہ چونکہ بددیانت اور بد عنوان سربراہ اور دوسرے بااختیار افراد کو ان کے عہدوں سے بے دخل کرنے کا واحد طریقہ ان کا قتل ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس قانون کے ذریعے ان کی برطرفی کا زیادہ آسان طریقہ اختیار کیا جائے چنانچہ ڈھائی سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا کہ یہ قانون امریکا میں نافذ العمل ہے اور صرف دو صدور اس کے تحت قابل مواخزہ قرار پائے اور بری ہوئے۔
ایک سرمایہ دارانہ نظام کے علمبردار ملک کا یہ پہلو بھی قابل ستائش ہے کہ وہاں صدارتی حلف برداری کے جشن کے موقعے پر نمایندہ شاعروں نے اپنی یادگار نظمیں سنائیں۔ اس کی با ضابطہ ابتداء 1961 میں جان ایف کینیڈی کی حلف برداری کے موقعے پر 86 سال کی عمر میں رابرٹ فراسٹ نے اپنی نظم The Gift Outnight پڑھ کر کی۔ اس روایت کو بل کلنٹن نے 1993 اور 1997 میں بالترتیب مایا انجیلو کی نظم On the Pulse or Morning اور ملر ولیمز کی نظم Of History and Hope سے قائم رکھا اور بارک اوباما نے 2009 میں الزبتھ الیگزنڈر کی نظم Prose Song For the day اور 2013 میں رچرڈ بلانکو کی نظم On Today پڑھواکر اس خوشگوار روایت کو آگے بڑھایا۔
بتانا صرف یہ مقصود ہے کہ وہ قوم جس کے رہنماؤں نے ان گنت محاذوں پر اپنی قوم کے مفاد میں جنگ چھیڑ رکھی ہے، اسی قوم کے وہی رہنما اپنے لوگوں میں حس لطیف کی بیداری کے لیے اور فکر و تخیل کی ہم آہنگی اور بلند پروازی سے روشناس کرنے کے اور ان اعلیٰ اقدار کو فروغ دینے کے لیے حلف برداری جیسے تاریخی اور یادگار مواقعوں کو انتہائی خوش اسلوبی سے استعمال کرتے ہیں۔ ایک ہم ہیں جو کرہ ارض پر محض ایک مفلوک الحال قوم ہیں جو بدطینت اور بدعنوان حکمرانوں اور اہلکاروں کے ہاتھوں تباہی و بربادی کے دلدل میں پھنستی اور دھسنتی چلی جارہی ہے۔ اور جس کے لیڈر رہنما اور اہل و دانش بصد فخر و انبساط جلسے، جلوسوں، اجتماعات، پریس کانفرنسوں، ٹاک شوز غرض کہ ہر موقعے پر نفرت، جہالت، الزامات، توہین، دھمکیوں اور دشنام طرازی سے قوم میں ایسی کثافت، سخت دلی اور منافقت اور سنگدلی کو فروغ دے رہے ہیں جس سے محبت، یگانگت، تہذیب، ہم آہنگی، ذوق لطیف، غرض کہ ہماری تہذیب کی تمام اعلیٰ روایات زوال پذیر ہونے کے بعد اب ناپید ہوتی چلی جارہی ہے۔
ہر طرف نااتفاقی، ناامیدی اور مایوسی کے سائے جو روز بروز گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ تو پھر وہی ہونا چاہیے جو ہورہا ہے۔ ایسے ہی کچھ حالات تھے جب دستوفسکی نے Notes from underground میں 1864 میں ایک انتہائی المناک جملہ لکھا کہ ''کاش! میں ایک کیڑا ہوتا'' تو اس کے تقریباً پچاس سال بعد فرانز کافکا نے اس جملے کی غمگینی اور المناکی سے متاثر ہوکر اپنی شہرہ آفاق کہانی میٹامار فوسس (Metamorphosis) لکھی جو آج دنیا کی تمام مشہور یونیورسٹیوں میں فکرو ادب کے طالب علموں کو پڑھائی جاتی ہے۔ دستوفسکی اور فرائز کافکا کے ادوار کو کسی اعتبار سے خوشگوار نہیں کہا جاسکتا، مگر احساس لطیف کے کیسے عہد آفریں چراغ روشن تھے۔ ہمارے نامراد رہنماؤں اور سخت دل ارباب اختیار نے ہم سے تو ہماری حس لطیف جیسی متاع بے بہا بھی چھین لی۔ بقول فیض اب ضرور ہے کہ ''کرن کوئی آرزو کی لاؤ کہ سب دروبام بجھ گئے ہیں۔''
اینڈریو جانسن صرف ایک ووٹ سے اور بل کلنٹن سترہ ووٹوں سے بمشکل سزا سے بچ سکے۔ یہ بھی امریکا کے اولین معماروں کی دور اندیشی اور بالغ نظری کا ثبوت ہے کہ اینڈریو جانسن پر فرد جرم عائد کرنے سے تقریباً سو سال پہلے بنجامن فرینکلن نے اس قانون کا مسودہ اس اعلان کے ساتھ پیش کیا تھا کہ چونکہ بددیانت اور بد عنوان سربراہ اور دوسرے بااختیار افراد کو ان کے عہدوں سے بے دخل کرنے کا واحد طریقہ ان کا قتل ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس قانون کے ذریعے ان کی برطرفی کا زیادہ آسان طریقہ اختیار کیا جائے چنانچہ ڈھائی سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا کہ یہ قانون امریکا میں نافذ العمل ہے اور صرف دو صدور اس کے تحت قابل مواخزہ قرار پائے اور بری ہوئے۔
ایک سرمایہ دارانہ نظام کے علمبردار ملک کا یہ پہلو بھی قابل ستائش ہے کہ وہاں صدارتی حلف برداری کے جشن کے موقعے پر نمایندہ شاعروں نے اپنی یادگار نظمیں سنائیں۔ اس کی با ضابطہ ابتداء 1961 میں جان ایف کینیڈی کی حلف برداری کے موقعے پر 86 سال کی عمر میں رابرٹ فراسٹ نے اپنی نظم The Gift Outnight پڑھ کر کی۔ اس روایت کو بل کلنٹن نے 1993 اور 1997 میں بالترتیب مایا انجیلو کی نظم On the Pulse or Morning اور ملر ولیمز کی نظم Of History and Hope سے قائم رکھا اور بارک اوباما نے 2009 میں الزبتھ الیگزنڈر کی نظم Prose Song For the day اور 2013 میں رچرڈ بلانکو کی نظم On Today پڑھواکر اس خوشگوار روایت کو آگے بڑھایا۔
بتانا صرف یہ مقصود ہے کہ وہ قوم جس کے رہنماؤں نے ان گنت محاذوں پر اپنی قوم کے مفاد میں جنگ چھیڑ رکھی ہے، اسی قوم کے وہی رہنما اپنے لوگوں میں حس لطیف کی بیداری کے لیے اور فکر و تخیل کی ہم آہنگی اور بلند پروازی سے روشناس کرنے کے اور ان اعلیٰ اقدار کو فروغ دینے کے لیے حلف برداری جیسے تاریخی اور یادگار مواقعوں کو انتہائی خوش اسلوبی سے استعمال کرتے ہیں۔ ایک ہم ہیں جو کرہ ارض پر محض ایک مفلوک الحال قوم ہیں جو بدطینت اور بدعنوان حکمرانوں اور اہلکاروں کے ہاتھوں تباہی و بربادی کے دلدل میں پھنستی اور دھسنتی چلی جارہی ہے۔ اور جس کے لیڈر رہنما اور اہل و دانش بصد فخر و انبساط جلسے، جلوسوں، اجتماعات، پریس کانفرنسوں، ٹاک شوز غرض کہ ہر موقعے پر نفرت، جہالت، الزامات، توہین، دھمکیوں اور دشنام طرازی سے قوم میں ایسی کثافت، سخت دلی اور منافقت اور سنگدلی کو فروغ دے رہے ہیں جس سے محبت، یگانگت، تہذیب، ہم آہنگی، ذوق لطیف، غرض کہ ہماری تہذیب کی تمام اعلیٰ روایات زوال پذیر ہونے کے بعد اب ناپید ہوتی چلی جارہی ہے۔
ہر طرف نااتفاقی، ناامیدی اور مایوسی کے سائے جو روز بروز گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ تو پھر وہی ہونا چاہیے جو ہورہا ہے۔ ایسے ہی کچھ حالات تھے جب دستوفسکی نے Notes from underground میں 1864 میں ایک انتہائی المناک جملہ لکھا کہ ''کاش! میں ایک کیڑا ہوتا'' تو اس کے تقریباً پچاس سال بعد فرانز کافکا نے اس جملے کی غمگینی اور المناکی سے متاثر ہوکر اپنی شہرہ آفاق کہانی میٹامار فوسس (Metamorphosis) لکھی جو آج دنیا کی تمام مشہور یونیورسٹیوں میں فکرو ادب کے طالب علموں کو پڑھائی جاتی ہے۔ دستوفسکی اور فرائز کافکا کے ادوار کو کسی اعتبار سے خوشگوار نہیں کہا جاسکتا، مگر احساس لطیف کے کیسے عہد آفریں چراغ روشن تھے۔ ہمارے نامراد رہنماؤں اور سخت دل ارباب اختیار نے ہم سے تو ہماری حس لطیف جیسی متاع بے بہا بھی چھین لی۔ بقول فیض اب ضرور ہے کہ ''کرن کوئی آرزو کی لاؤ کہ سب دروبام بجھ گئے ہیں۔''