اقسام افسران بزبان افسران

’’کاروباری افسر‘‘ عموماً با رُعب اور امیر ہوتا ہے اس لیے یہ کئی دوسرے سرکاری افسران کا کفیل ہوتا ہے


Rafiuzzaman Zuberi July 09, 2017

محمد جمیل بھٹی کو طالب علمی کے زمانے سے بیوروکریسی سے سخت نفرت تھی۔ وہ اس کا حصہ بننے کا کبھی خواب میں بھی تصور نہیں کرتے تھے۔ پھر ہوا یہ کہ وہ اس کا حصہ بن گئے اور تیس سال اس میں گزار دیے۔ اس دوران میں عوام، سیاست، حکومت اور اداروں کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔

ایک زبردست مشاہدہ ان کو یہ ہوا کہ جس طرح پھولوں، پودوں، جانوروں اور انسانوں کی قسمیں ہوتی ہیں، اسی طرح افسروں کی بھی قسمیں ہوتی ہیں۔ چنانچہ انھوں نے یہ سوچ کر کہ لوگوں کو اپنے مشاہدے سے کیوں محروم رکھا جائے ایک کتاب بہ عنوان ''اقسام افسران بزبان افسران'' لکھ ڈالی۔ اس کتاب میں انھوں نے افسروں کی بڑی بڑی قسمیں بتائی ہیں اور ان کی الگ الگ خصوصیات کا ذکر کیا ہے۔

جمیل بھٹی لکھتے ہیں ''صاحب افسر۔ یہ سرکاری افسران کی بڑی اعلیٰ قسم ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے انھیں آئی سی ایس یعنی انڈین سول سروس کا خطاب دیا جاتا تھا۔ آج کے صاحب افسر میں انگریزی دورکی خصوصیات بدرجہ اتم موجود ہیں۔ یہ عموماً انگریزی لباس زیب تن کرتا ہے، یہ دفتر میں تبدیلی لانے اور دیر سے آنے کا شوقین ہوتا ہے۔ چنانچہ نئی جگہ پر آتے ہی کمرے کا رنگ، پردے، فرنیچر اور بعض اوقات عملہ بھی تبدیل کروا دیتا ہے۔ یہ میٹنگ کرنے کا شیدائی ہوتا ہے۔ اس سے ملاقات اگرچہ مشکل ہے لیکن اگر اہم سیاسی شخصیات کے نام اور پتے معلوم ہوں تو اس سے کام نکالے جاسکتے ہیں۔''

صاحب افسرکی ایک مقامی قسم ''جی دار افسر'' کی ہے۔ یہ افسر خاندانی اثرورسوخ والے ہوتے ہیں اور صرف ان محکموں میں کام کرتے ہیں جو ان کو یا ان کے گھر والوں کو پسند آجائے۔ سرکاری افسروں کی ایک قسم وہ ہے جو ملک میں عوامی بیداری سے وجود میں آئی ہے۔ ان کے دروازے عوام کے لیے کھلے رہتے ہیں۔ یہ خود کام نہیں کرتے چند عوامی نمائندے چن لیتے ہیں اور ان سے کام کراتے ہیں۔ ان کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ یہ علاقے کے ایم این اے اور ایم پی اے سے ذاتی مراسم رکھتے ہیں۔

یہ ان محکموں میں کام کرنا پسند کرتے ہیں جہاں عوام سے ملنے کے اور ان کے مسائل حل کرنے کے لیے وافر مقدار میں مادی وسائل حاصل ہوں۔جمیل بھٹی بتاتے ہیں کہ افسروں کی ایک قسم ادیب افسر ہے۔ یہ وہ قسم ہے جو ادبی حلقوں میں اعلیٰ افسرکے طور پر پہچانی جاتی ہے لیکن اصل میں یہ نہ ادیب ہوتے ہیں اور نہ اچھے افسر۔ ادیب افسر سیاسی حلقوں میں مقبول ہوتے ہیں جو انھیں اپنے درباروں میں بلاکر اپنے مرتبے میں اضافہ کرتے ہیں۔ ان کی ادبی شخصیت ان کی افسری کے باعث اور ان کی افسری ادبی پہچان کی وجہ سے فروغ پاتی ہے۔

وہ لکھتے ہیں۔ ''دیانت دار افسر۔ افسروں کی ایک ناپید قسم ہے جو پاکستان بننے کے بعدکم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ افسروں کی یہ قسم دفتروں میں اپنے کام سے کام رکھتی ہے۔ یہ عموماً سخت مزاج، تنگ نظر، سڑیل، روکھے افسرکہلائے جاتے ہیں۔ ان افسروں کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ یہ بڑے بڑے سرکاری فنکشنوں میں نظر نہیں آتے۔ افسروں کی اس قسم کا فائدہ عام لوگوں سے زیادہ ان کے اعلیٰ افسروں کو ہوتا ہے جن کو ان کی بدولت سرخروئی ملتی ہے۔ سیاسی اور با اثر کاروباری لوگ ان سے پرہیز کرتے ہیں اور ان کو کالی بلی سمجھتے ہیں۔''

ایک قسم شریف افسرکی ہے لیکن شریف سے مراد نیک اور ایمان دار ہرگز نہیں۔ یہ قسم خالصتاً نوکری پیشہ ہوتی ہے یعنی یہ افسری کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرسکتے۔ یوں تو خوشامد ہر افسر کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے لیکن شریف افسر کا یہ ایک اہم ہتھیار ہے۔ وہ اپنے اعلیٰ افسرکی خوشامدی کرتا ہے کہ اس کی پی آر اچھی رہے۔ عوام کی خوشامد کرتا ہے کہ وہ مشتعل نہ ہوں کہ ان کا کام نہ ہوا، اپنے ماتحتوں کی خوشامد کرتا ہے وہ مسائل پیدا نہ کریں۔

دوسرے الفاظ میں وہ دیہاڑی مزدور کی طرح ہر دن اچھا اور آرام سے گزرنے کا انتظار کرتا ہے۔''مسکین افسر'' بھی افسرکی ایک بے ضرر قسم ہے۔ نوکری میں یہ کسی کی ذاتی مہربانی کی وجہ سے آتے ہیں اور آخری دم تک محسن اور نوکری کی طرف سے خائف رہتے ہیں کہ کہیں ناراض نہ ہوجائے۔ ایسے افسروں کی خاصی تعداد نیم سرکاری اور مقامی حکومتوں کے اداروں میں پائی جاتی ہے۔

محمد جمیل بھٹی نے جن اور افسروں کی قسموں کا ذکر کیا ہے ان میں پاگل افسر ،کاروباری افسر اور بینکنگ افسر شامل ہیں۔''پاگل افسر'' کے بارے میں وہ لکھتے ہیں ''یہ عموماً درمیانے درجے کے پڑھے لکھے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور محب وطن والدین، تعلیم و تربیت، دوست اور اساتذہ کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ چنانچہ سب اچھی خوبیاں ان کے خون میں شامل ہوتی ہیں یہ لوگ نہایت حساس ہوتے ہیں لیکن حساس اداروں میں نہیں ہوتے۔ یہ معاشرے کے خاموش سپاہی ہوتے ہیں۔''

''کاروباری افسر'' عموماً با رُعب اور امیر ہوتا ہے اس لیے یہ کئی دوسرے سرکاری افسران کا کفیل ہوتا ہے اور اپنی ان ہی نیکیوں کی وجہ سے اپنے حلقوں میں رشک کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔''بینکنگ افسر'' بیوروکریٹ کی ایک خفیہ قسم ہے۔ ان کے اصلی کاموں اورکارناموں کا کسی کو پتا نہیں چلتا یہ چونکہ ٹیکنیکل لوگ ہیں اس لیے ان کے کردار کو سمجھنا بڑا مشکل ہے۔ یہ اپنی مہارت سے عوام کے پیسے عوام سے اکٹھے کرکے عوام سے خرچ کرواتے ہیں۔ یہ ملکی اور عوامی سرمائے کو منٹوں میں سرمایہ کا قبرستان بنانے پر قدرت رکھتے ہیں۔

بینکنگ افسران کی ذاتی زندگی بھی بڑی مشکوک ہوتی ہے۔ ان کے چہروں پر ، گھروں میں بھی کاروباری مسکراہٹ ہوتی ہے۔ جمیل بھٹی اکاؤنٹنٹ جنرل پنجاب رہ چکے ہیں۔ ایک سرکاری ادارے میں تدریسی فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔ انھوں نے افسروں کی طرح سرکاری محکموں کی خصوصیات کا ذکر بھی کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ انکم ٹیکس، کسٹمز، آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس، پولیس، تعلیم، ہر محکمے کی ایک الگ اندرونی ثقافت ہے۔

جمیل بھٹی نے ''پڑھایا اور سرکاری ملازمین'' کے عنوان سے ایک ایسے موضوع پر بھی اظہار خیال کیا ہے جو تمام ملازمت پیشہ خصوصاً سرکاری ملازمین کے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''ہمارے ایک دوست ریٹائرمنٹ کے قریب باباجی کے پاس گئے اور مایوسی میں عرض کیا کہ میں بوڑھا ہورہا ہوں، مجھے سمجھ نہیں آتا کہ کیا کروں۔ بابا جی نے فرمایا آپ کو کیسے پتا چل گیا کہ آپ بوڑھے ہورہے ہیں جب کہ میں آپ سے بہت بڑا ہوں مجھے یہ پتا نہیں چلا کہ میں بوڑھا ہوگیا ہوں۔ بولے جناب میں اسی سال ریٹائر ہورہا ہوں۔ باباجی فرمانے لگے۔

ریٹائرمنٹ کی ساٹھ سال عمر تو سرکاری عمر ہے اور سرکار کو ابھی اللہ نے یہ اختیار نہیں دیا ہے کہ وہ بوڑھا ہونے اور مرنے کی عمر کا تعین کرے۔ لہٰذا اگر اﷲ نے آپ کی عمر سو سال لکھ دی ہے تو اس کیفیت میں بڑھاپے کی صورت میں آپ کے باقی سال آپ کے لیے اور آپ کے خاندان اور معاشرے کے لیے ایک عذاب بن جائیںگے کیونکہ آپ کو بقایا چالیس سال تو گزارنے ہی ہیں اور مایوسی کی حالت میں چند پل گزارنا بھاری ہوتا ہے کہاں چالیس سال۔''

محمد جمیل بھٹی کہتے ہیں کہ ایک ذاتی تحقیق کے مطابق کسی بھی ملک میں اس کے عوام کا دعاؤں پر انحصار اس ملک کی بیوروکریسی کی نا اہلی پر منحصر ہے، یعنی جتنی زیادہ بیوروکریسی اور اس کا انتظامی ڈھانچہ نااہل اور نالائق ہوگا عوام دعاؤں کی طرف زیادہ رجوع کریںگے۔کسی ترقی یافتہ ملک میں کسی کو بجلی لگوانے، اسپتال یا اسکول میں داخلے کے لیے دعائیں نہیں مانگنا پڑیں ۔ ہمارے ماں باپ کو یہ بھی دعا کرنی پڑتی ہے کہ بچے ماسٹرکی اور پولیس کی پٹائی سے بچ کر خیریت سے گھر پہنچ جائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں