چیئرمین ایس ای سی پی کیخلاف ریکارڈ ٹمپرنگ کے الزامات کی تصدیق
ایف آئی اے تحقیقاتی ٹیم نے 28 صفحات پرمشتمل انکوائری رپورٹ سپریم کورٹ جمع کرادی
MULTAN:
سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کیخلاف ریکارڈ ٹمپرنگ کے الزامات کی تحقیقات کرنیوالی وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی ٹیم نے شریف خاندان کی ملکیت کمپنیوں کے ریکارڈ میں ٹمپرنگ کرنے پر چیئرمین ایس ای سی پی کیخلاف ایف آئی آردرج کرنیکی سفارش کی ہے۔
جسٹس اعجازافضل خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے 19 جون کو ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو ہدایت کی تھی کہ شریف خاندان کی کمپنیوں کے ریکارڈ میں ایس ای سی پی کے جعلسازی کرنے سے متعلق جے آئی ٹی کے الزامات کی تحقیقات کی جائے جس کے بعد ایف آئی اے کی ایک 4 رکنی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔
ایف آئی اے کی ٹیم نے ہفتہ کو سپریم کورٹ میں 28 صفحات پر مشتمل انکوائری رپورٹ جمع کرائی ہے جس میںشریف خاندان کی کمپنیوں ریکارڈ میں رد وبدل کیے جانے کے حوالے سے موقف کی تائید کی ہے۔ رپورٹ کی نقل ایکسپریس ٹریبیون نے حاصل کر لی ہے۔
ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا ہے کہ ایف آئی اے کی ٹیم نے ظفر حجازی کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے ماتحت عملے کو ناجائز کام کرنے کے لیے غیر قانونی احکامات دیئے اور دباؤ ڈالا۔ اس لیے ان کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعات 466اور472 اور پاکستان کریمنل ایکٹ مجریہ 1947 کی شق نمبر 5کی ذیلی شق نمبر (2)کے تحت ایف آئی آر درج کی جائے۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایف آئی اے کی ٹیم نے غیر قانونی احکامات ماننے والے دو ماتحت افسران کو بھی غفلت کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ اس لیے ان غیر ذمہ دار افسران کے خلاف بھی محکمانہ کارروائی عمل میں لائی جائے۔
ذرائع کے مطابق حکومتی عہدیداروں میں اس رپورٹ کے بعد تشویش پائی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل میں اٹارنی جنرل آف پاکستان نے انٹیلی جنس بیورو کے طریقہ کار کے حوالے سے ایک کلاسیفائیڈ رپورٹ جمع کرائی ہے۔
ایک سینئر قانونی عہدیدار نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا ہے کہ آئی بی نے بینچ کے اس سوال کے حوالے سے اپنا موقف ایک سر بمہر لفافے میں جمع کرا دیا ہے کہ کیوں بیورو نے نادرا سے رابطہ کیا اور جے آئی ٹی کے ایک رکن کی درخواست نادرا سے حاصل کر کے یہ معلومات حسین نواز کو دیں جو کہ ایک غیر سرکاری شخص ہیں۔
سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کیخلاف ریکارڈ ٹمپرنگ کے الزامات کی تحقیقات کرنیوالی وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی ٹیم نے شریف خاندان کی ملکیت کمپنیوں کے ریکارڈ میں ٹمپرنگ کرنے پر چیئرمین ایس ای سی پی کیخلاف ایف آئی آردرج کرنیکی سفارش کی ہے۔
جسٹس اعجازافضل خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے 19 جون کو ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو ہدایت کی تھی کہ شریف خاندان کی کمپنیوں کے ریکارڈ میں ایس ای سی پی کے جعلسازی کرنے سے متعلق جے آئی ٹی کے الزامات کی تحقیقات کی جائے جس کے بعد ایف آئی اے کی ایک 4 رکنی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔
ایف آئی اے کی ٹیم نے ہفتہ کو سپریم کورٹ میں 28 صفحات پر مشتمل انکوائری رپورٹ جمع کرائی ہے جس میںشریف خاندان کی کمپنیوں ریکارڈ میں رد وبدل کیے جانے کے حوالے سے موقف کی تائید کی ہے۔ رپورٹ کی نقل ایکسپریس ٹریبیون نے حاصل کر لی ہے۔
ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا ہے کہ ایف آئی اے کی ٹیم نے ظفر حجازی کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے ماتحت عملے کو ناجائز کام کرنے کے لیے غیر قانونی احکامات دیئے اور دباؤ ڈالا۔ اس لیے ان کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعات 466اور472 اور پاکستان کریمنل ایکٹ مجریہ 1947 کی شق نمبر 5کی ذیلی شق نمبر (2)کے تحت ایف آئی آر درج کی جائے۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایف آئی اے کی ٹیم نے غیر قانونی احکامات ماننے والے دو ماتحت افسران کو بھی غفلت کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ اس لیے ان غیر ذمہ دار افسران کے خلاف بھی محکمانہ کارروائی عمل میں لائی جائے۔
ذرائع کے مطابق حکومتی عہدیداروں میں اس رپورٹ کے بعد تشویش پائی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل میں اٹارنی جنرل آف پاکستان نے انٹیلی جنس بیورو کے طریقہ کار کے حوالے سے ایک کلاسیفائیڈ رپورٹ جمع کرائی ہے۔
ایک سینئر قانونی عہدیدار نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا ہے کہ آئی بی نے بینچ کے اس سوال کے حوالے سے اپنا موقف ایک سر بمہر لفافے میں جمع کرا دیا ہے کہ کیوں بیورو نے نادرا سے رابطہ کیا اور جے آئی ٹی کے ایک رکن کی درخواست نادرا سے حاصل کر کے یہ معلومات حسین نواز کو دیں جو کہ ایک غیر سرکاری شخص ہیں۔