ہاکی کا زوال دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے سابق اسٹارز
قومی کھیل کو مکمل تباہی سے بچائیں، ورنہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں ہاکی کا کوئی نام لینے والا بھی نہیں ہوگا،قمر ضیا
سابق اسٹارز کا کہنا ہے کہ ملک میں ہاکی کا زوال دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔
نمائندہ ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے دور کے عظیم فارورڈ اولمپئن سمیع اللہ خان نے کہاکہ سنہرا دور واپس لانے کی خواہش ہے لیکن پی ایچ ایف کے خلاف کوئی پریشر گروپ نہیں بنائیں گے، ایسی کاوش میں ساتھ دینے کی حامی بھرنے والے بڑے بڑے کھلاڑی معمولی مراعات کے لالچ میں اکیلا چھوڑ جاتے ہیں، قومی فیڈریشن کی باگ ڈور صحیح ہاتھوں میں ہونی چاہیے۔
دنیائے ہاکی میں فلائنگ ہارس کے نام سے مقبول اولمپئن سمیع اللہ خان نے کہا کہ ملک میں ہاکی کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا، ہاکی کا بیڑا غرق کردیا گیا، قومی فیڈریشن میں تبدیلی ناگزیر ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ پی ایچ ایف کے صدر اور سیکریٹری اپنے عہدوں سے فوری طور پر مستعفی ہوجائیں، ہاکی کی بہتری کیلیے نیک نیتی سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، میرٹ کو اہمیت دی جائے، دوستوں میں بندر بانٹ کا سلسلہ اس کھیل کو مزید نقصان پہنچا رہاہے، ضلعی سطح پر ہاکی زوال پذیر اورکھلاڑی پریشانی کا شکار ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں سمیع اللہ خان نے کہا کہ ملک میں ہاکی کی بقا اوراستحکام کیلیے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کروںگا، اس حوالے سے دوستوں سے رابطوں کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن اس حوالے سے ماضی میں تلخ تجربات کا سامنا رہا، محنت و تگ و دو کے بعد اپنے دور کے بہترین کھلاڑیوں کو یکجا کرتے رہے لیکن بیشترعظیم کھلاڑی یکے بعد دیگرے بکتے رہے اور فیڈریشن کی جانب سے چھوٹی چھوٹی پیشکشوں پر سجدہ ریزہوتے چلے گئے، چنانچہ اب پی ایچ ایف کے خلاف پریشیر گروپ بنانے کا کوئی فائدہ نہیں لیکن ملک میں ہاکی اور اس کے کھلاڑیوں کے لیے ہم خیالوں کوجمع کرکے ہرسطح پرآواز اٹھائی جائے گی۔
سابق اولمپئن نے کہا کہ اگر ایمان داری کے ساتھ لائحہ عمل تیار کیا جائے تو ملک میں آج بھی اچھے کھلاڑی ابھر کر سامنے آسکتے ہیں، کرکٹ کی طرح منصوبہ بندی کرکے ملک بھر میں اوپن ٹرائلز کے بعد میرٹ کی بنیاد پرانتخاب کرکے 200 سے 250کھلاڑیوں کی بھر پور تربیت کی جائے، اگر ایسا ہوجائے تو پاکستان اگلے 4 سے 5 سال میں ہاکی میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرسکتا ہے۔
دوسری جانب پاکستان ہاکی کی پستی اور زوال کے سدباب کیلیے کوشاں ایک اورسابق اولمپئن گول کیپر قمر ضیا نے کہا کہ ارباب اختیار ہوش کے ناخن لیں اور قومی ہاکی کو مکمل تباہی سے بچائیں، ورنہ وہ دن دور نہیں کہ پاکستان میں ہاکی کا کوئی نام لینے والا بھی نہیں ہوگا، ذاتی مفادات کی جنگ نے کھلاڑیوں کو ذہنی اذیت وکشمکش میں مبتلا کردیا ہے، وہ سخت پریشانی کا شکار ہونے کے باعث کھیل سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں، قومی فیڈریشن اپنے مقاصد سے دور ہوتی چلی جارہی ہے، بس من پسند اور دوستوں کو نوازنے کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے، میرٹ کی دھجیاں بکھیردی گئی ہیں، جھوٹے وعدے اور تسلیاں دی جارہی ہیں جبکہ حقائق اس کے بر عکس ہیں۔
قمر ضیا نے کہا کہ میں نے ہر دور میں فیڈریشن کی ناکامیوں کو سامنے لانے کی کوشش کی ، مجھے اس راہ پر چلنے سے روکنے کیلیے بے شمار مرتبہ مراعات اورسہولیات دینے کی پیشکش ہوئی لیکن میں نے ملک کے وسیع تر مفاد کو فوقیت دی اور اپنے اصولی موقف پر قائم رہا، پاکستان ہاکی کی بحالی کیلیے سب کو مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، ذاتی فائدوں کی بجائے قوم اورکھیل کی بھلائی کے لیے سنجیدگی سے جدو جہد مقاصد کے حصول میں سود مند رہے گی، انھوں نے کہا کہ گراس روٹ لیول پر کھلاڑیوں کو تربیت دے کر مستقبل میں بہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
نمائندہ ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے دور کے عظیم فارورڈ اولمپئن سمیع اللہ خان نے کہاکہ سنہرا دور واپس لانے کی خواہش ہے لیکن پی ایچ ایف کے خلاف کوئی پریشر گروپ نہیں بنائیں گے، ایسی کاوش میں ساتھ دینے کی حامی بھرنے والے بڑے بڑے کھلاڑی معمولی مراعات کے لالچ میں اکیلا چھوڑ جاتے ہیں، قومی فیڈریشن کی باگ ڈور صحیح ہاتھوں میں ہونی چاہیے۔
دنیائے ہاکی میں فلائنگ ہارس کے نام سے مقبول اولمپئن سمیع اللہ خان نے کہا کہ ملک میں ہاکی کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا، ہاکی کا بیڑا غرق کردیا گیا، قومی فیڈریشن میں تبدیلی ناگزیر ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ پی ایچ ایف کے صدر اور سیکریٹری اپنے عہدوں سے فوری طور پر مستعفی ہوجائیں، ہاکی کی بہتری کیلیے نیک نیتی سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، میرٹ کو اہمیت دی جائے، دوستوں میں بندر بانٹ کا سلسلہ اس کھیل کو مزید نقصان پہنچا رہاہے، ضلعی سطح پر ہاکی زوال پذیر اورکھلاڑی پریشانی کا شکار ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں سمیع اللہ خان نے کہا کہ ملک میں ہاکی کی بقا اوراستحکام کیلیے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کروںگا، اس حوالے سے دوستوں سے رابطوں کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن اس حوالے سے ماضی میں تلخ تجربات کا سامنا رہا، محنت و تگ و دو کے بعد اپنے دور کے بہترین کھلاڑیوں کو یکجا کرتے رہے لیکن بیشترعظیم کھلاڑی یکے بعد دیگرے بکتے رہے اور فیڈریشن کی جانب سے چھوٹی چھوٹی پیشکشوں پر سجدہ ریزہوتے چلے گئے، چنانچہ اب پی ایچ ایف کے خلاف پریشیر گروپ بنانے کا کوئی فائدہ نہیں لیکن ملک میں ہاکی اور اس کے کھلاڑیوں کے لیے ہم خیالوں کوجمع کرکے ہرسطح پرآواز اٹھائی جائے گی۔
سابق اولمپئن نے کہا کہ اگر ایمان داری کے ساتھ لائحہ عمل تیار کیا جائے تو ملک میں آج بھی اچھے کھلاڑی ابھر کر سامنے آسکتے ہیں، کرکٹ کی طرح منصوبہ بندی کرکے ملک بھر میں اوپن ٹرائلز کے بعد میرٹ کی بنیاد پرانتخاب کرکے 200 سے 250کھلاڑیوں کی بھر پور تربیت کی جائے، اگر ایسا ہوجائے تو پاکستان اگلے 4 سے 5 سال میں ہاکی میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرسکتا ہے۔
دوسری جانب پاکستان ہاکی کی پستی اور زوال کے سدباب کیلیے کوشاں ایک اورسابق اولمپئن گول کیپر قمر ضیا نے کہا کہ ارباب اختیار ہوش کے ناخن لیں اور قومی ہاکی کو مکمل تباہی سے بچائیں، ورنہ وہ دن دور نہیں کہ پاکستان میں ہاکی کا کوئی نام لینے والا بھی نہیں ہوگا، ذاتی مفادات کی جنگ نے کھلاڑیوں کو ذہنی اذیت وکشمکش میں مبتلا کردیا ہے، وہ سخت پریشانی کا شکار ہونے کے باعث کھیل سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں، قومی فیڈریشن اپنے مقاصد سے دور ہوتی چلی جارہی ہے، بس من پسند اور دوستوں کو نوازنے کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے، میرٹ کی دھجیاں بکھیردی گئی ہیں، جھوٹے وعدے اور تسلیاں دی جارہی ہیں جبکہ حقائق اس کے بر عکس ہیں۔
قمر ضیا نے کہا کہ میں نے ہر دور میں فیڈریشن کی ناکامیوں کو سامنے لانے کی کوشش کی ، مجھے اس راہ پر چلنے سے روکنے کیلیے بے شمار مرتبہ مراعات اورسہولیات دینے کی پیشکش ہوئی لیکن میں نے ملک کے وسیع تر مفاد کو فوقیت دی اور اپنے اصولی موقف پر قائم رہا، پاکستان ہاکی کی بحالی کیلیے سب کو مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، ذاتی فائدوں کی بجائے قوم اورکھیل کی بھلائی کے لیے سنجیدگی سے جدو جہد مقاصد کے حصول میں سود مند رہے گی، انھوں نے کہا کہ گراس روٹ لیول پر کھلاڑیوں کو تربیت دے کر مستقبل میں بہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔