مہاجر سیاست اور باریک بینی
آج جن مسائل کا تذکرہ کراچی، حیدرآباد کے سیاسی حضرات کررہے ہیں وہ ان مسائل کو پرویز مشرف کے دور میں حل کرواسکتے تھے۔
ایم کیو ایم پاکستان نے اپنا ناتا بانی تحریک سے غالباً 22 اگست 2016 کو توڑ لیا تھا، جب پاکستان مخالف نعرے لگانے کے بعد ایک نجی چینل پر حملہ بھی کیا گیا اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مستقبل میں ان کے مل بیٹھنے کے زمانے بھی چلے گئے۔ ویسے تو ایسی خبریں اخبارات میں آتی رہتی ہیں کہ الیکشن کے زمانے میں ایم کیو ایم اور ایم کیو ایم پاکستان دلوں کی کدورتیں دھوکر شاید پھر ایک مسلے پر کھڑے ہوجائیں جو سیاسی طور پر ناممکن نظر آتا ہے۔
میرا ناقص ذہن اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اب ایم کیو ایم پاکستان کو عملی طور پر کام کرنا ہوگا، کیونکہ 2013 کے الیکشن میں ایک طبقہ وہ تھا جو ماضی میں خاموش ہوکر گھر بیٹھ گیا تھا۔ یہ تعلیم یافتہ طبقہ ضرور تھا مگر آسودہ اور خوشحال نہیں تھا۔ پھر نہ جانے اس طبقے نے، جو ایم کیو ایم کا ماضی میں ووٹر تھا، تحریک انصاف کو ووٹ دے کر کراچی کی سیاسی تاریخ بدل دی۔
شاید وہ طبقہ تبدیلی چاہتا تھا مگر افسوس کہ عمران خان کے وہ ساتھی جو کراچی سے ایک نئی تاریخ کو جنم دے کر آئے، انھوں نے اور ان کے لیڈر نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ ایم کیو ایم کو ایک نئی سوچ میں ڈال دیا کہ ایسا بھی ہوسکتا تھا۔ پھر اس شہر میں بلدیاتی الیکشن ہوئے۔
تحریک انصاف بہت پرامید تھی مگر وہ خاموش طبقہ جس نے کافی عرصے کے بعد کراچی میں تحریک انصاف کو ووٹ دیا وہ گھر سے نہیں نکلا، اس نے کسی کو بھی ووٹ نہیں دیا اور یوں تحریک انصاف کراچی اور حیدرآباد سے بلدیاتی الیکشن میں ناکام ہوئی۔ اب کراچی اور حیدرآباد میں تعلیم یافتہ طبقہ سیاسی گفتگوسننے کے موڈ میں نہیں، وہ عملی کام دیکھنا چاہتاہے، وہ تھک گیا ہے۔ رہا معاملہ غیر تعلیم یافتہ طبقے کا تو ان کی وجہ سے کراچی سے لے کر خیبر تک پارٹیاں حکومتیں کررہی ہیں۔ اب وہ کیسی حکومت کررہی ہیں یہ عوام کے سامنے ہے۔
2018 کا تو کچھ نہیں کہہ سکتے، ہاں 2023 میں یقیناً تبدیلی ایسی آئے گی کہ یہ سیاست دان سوچ بھی نہیں سکتے۔ سوشل میڈیا نے نوجوانوں کو جگادیا ہے اور جو غیر تعلیم یافتہ ہیں وہ بھی مستفید ہورہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے انتشار میں عوام فیصلہ نہیں کرسکی کہ ایم کیو ایم لندن اور پاکستان کیا یکجا ہوجائیں گے اور اس غیر یقینی سیاست کی وجہ سے سیاسی اور مذہبی جماعتیں ہوسکتا ہے کہ ایک پلیٹ فارم پر آجائیں، کیونکہ پی پی نے میئر کے اختیارات تقریباً ختم کرکے ترقیاتی کام شروع کردیے ہیں، تاکہ وہ 2018 کا الیکشن جیت کی صورت میں اپنے نام کراسکے۔
ادھر گورنر بھی میئر سے ملے اور انھیں اختیارات دینے کا مطالبہ بھی کیا۔ ایم کیو ایم پاکستان کو سنجیدگی سے سیاست کی طرف قدم بڑھانے ہوںگے اور انھوں نے اس طرف توجہ نہ دی تو کوئی اتحاد (جو بڑے پیمانے) پر ہونے والا ہے وہ کراچی اور حیدرآباد کی سیاست کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ لہٰذا ایم کیو ایم پاکستان کو نئی سیاسی حکمت عملی کی طرف توجہ دینی ہوگی۔
بقول فاروق ستار اگلا وزیراعلیٰ ایم کیو ایم سے ہوگا۔ وسیم اختر جب میئر بنے تو جماعت اسلامی نے انھیں مبارکباد دی، گورنر نے خوشی کا اظہار کیا، کراچی کی سیاست میں ایک بھونچال نظر آرہا ہے۔ کراچی اور حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے سیاست دان سوچ رہے ہیں کہ 2018 کے الیکشن میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
آج جن مسائل کا تذکرہ کراچی، حیدرآباد کے سیاسی حضرات کررہے ہیں وہ ان مسائل کو پرویز مشرف کے دور میں حل کرواسکتے تھے کہ ان کے مکمل اختیارات تھے، اس کے بعد پی پی پی میں بھی وہ شراکت اقتدار رہے۔ مگر اس وقت کی سیاست اور آج کی سیاست میں بہت فرق آچکا ہے، اب سیاسی بیانات سے کام نہیں چلے گا۔ جب پاکستان کی سیاسی جماعتیں عوام کی ترقی اور خوشحالی کی بات کرتی ہیں تو پنڈال میں تو معصوم لوگ بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہی وہ سادہ لوگ ہیں جو حق تلفیوں کے باوجود انھیں اسمبلیوں میں بھیج دیتے ہیں، جب کہ تعلیم یافتہ طبقہ ان کے خطاب سن کر ہنستا ہے اور ان کی سوچ پر ماتم کرتا ہے۔
تمام سیاسی جماعتیں اقتدار کے مزے لوٹتی رہیں مگر یہ قوم کے لیے دل و جان سے جھوٹ بولتے ہیں جب یہ اقتدار میں نہیں ہوتے۔ مگر اب وہ زمانہ گیا جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ مصطفی کمال نے پاک سرزمین پارٹی بنالی اور وہ شب و روز سیاسی جگہ بنانے کی کوششیں کررہے ہیں۔ ادھر آفاق احمد ایم کیو ایم کو پھر سے زندہ کررہے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان فاروق ستار کی موجودگی میں اپنے وجود کو برقرار رکھنے میں کوشاں ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف، جن کی حکومت میں ایم کیو ایم نے بہت اچھے دن گزارے، ان کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے تمام دھڑے ایک ہوجائیں۔
یہ بات فاروق ستار کے سوچنے کی ہے کہ وہ کہاں تک صحیح کہہ رہے ہیں۔ مصطفیٰ کمال، آفاق احمد اور فاروق ستار کو ایک ٹیبل پر بیٹھنا چاہیے۔ اگر اس وقت انھوں نے مل بیٹھ کر فیصلہ کرلیا تو ہوسکتا ہے کہ کراچی اور حیدرآباد کی سیاست ایم کیو ایم پاکستان کے دائرے میں رہے اور اگر یہ ایک پلیٹ فارم پر نہ آئے تو سیاست میں سب چلتا ہے۔ جماعت اسلامی، تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی، سنی تحریک، پاک سرزمین پارٹی، باہمی اتحاد سے ایم کیو ایم پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرسکتی ہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان کو اپنے ووٹر کے مسائل پر نئے سرے سے توجہ دینی ہوگی کیونکہ ماضی کی سیاست اب کامیاب نہیں ہوگی۔ انھیں تعلیم یافتہ طبقے کو بھی اپنی ووٹر لسٹ میں شامل کرنا ہوگا۔ اگر نیا اتحاد تشکیل دیا گیا (ایم کیو ایم پاکستان) کے علاوہ تو ایم کیو ایم پاکستان کی سیاست کو نئے رخ کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ جماعت اسلامی، پاک سرزمین پارٹی اور تحریک انصاف کے ووٹر تو ہیں، اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
کراچی کے کچھ علاقے عوامی نیشنل پارٹی (ولی خان گروپ) کے زیر اثر ہیں، جن میں کیماڑی، بلدیہ، شیر شاہ، گلبائی، ماری پور، بغدادی، منظور کالونی۔ ان میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے ووٹر اکثریت سے پائے جاتے ہیں اور یہ وہ علاقے ہیں جہاں ماضی میں ہڑتالیں کامیاب نہیں ہوتی تھیں اور ایم کیو ایم کو ووٹ بہت کم پڑتے تھے۔ لہٰذا فاروق ستار سنجیدگی سے ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کو یکجا کریں اور اپنے ووٹر کے لیے اچھا انتخاب کریں۔ ویسے بھی فاروق ستار کہہ چکے ہیں کہ بانی متحدہ مہاجروں کا نام استعمال نہ کریں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ فاروق ستار سنجیدگی کی سیاست کرنے کے موڈ میں نظر آرہے ہیں۔
72 سال سے مہاجر رہنے والے بھی ایسا لگتا ہے کہ مہاجر سیاست سے تنگ آگئے ہیں، کیونکہ ان کے اور ان کی اولاد کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ فاروق ستار سیاست کو بہت باریک بینی سے دیکھیں کہ 19 الیکشن جیتنے کے بعد بھی اس قوم کو کچھ نہیں ملا۔ لہٰذا وہ اچھی بصیرت سے بھرپور فیصلے اپنے ووٹرز کے لیے کریں، سب ایک ہوجائیں۔
میرا ناقص ذہن اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اب ایم کیو ایم پاکستان کو عملی طور پر کام کرنا ہوگا، کیونکہ 2013 کے الیکشن میں ایک طبقہ وہ تھا جو ماضی میں خاموش ہوکر گھر بیٹھ گیا تھا۔ یہ تعلیم یافتہ طبقہ ضرور تھا مگر آسودہ اور خوشحال نہیں تھا۔ پھر نہ جانے اس طبقے نے، جو ایم کیو ایم کا ماضی میں ووٹر تھا، تحریک انصاف کو ووٹ دے کر کراچی کی سیاسی تاریخ بدل دی۔
شاید وہ طبقہ تبدیلی چاہتا تھا مگر افسوس کہ عمران خان کے وہ ساتھی جو کراچی سے ایک نئی تاریخ کو جنم دے کر آئے، انھوں نے اور ان کے لیڈر نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ ایم کیو ایم کو ایک نئی سوچ میں ڈال دیا کہ ایسا بھی ہوسکتا تھا۔ پھر اس شہر میں بلدیاتی الیکشن ہوئے۔
تحریک انصاف بہت پرامید تھی مگر وہ خاموش طبقہ جس نے کافی عرصے کے بعد کراچی میں تحریک انصاف کو ووٹ دیا وہ گھر سے نہیں نکلا، اس نے کسی کو بھی ووٹ نہیں دیا اور یوں تحریک انصاف کراچی اور حیدرآباد سے بلدیاتی الیکشن میں ناکام ہوئی۔ اب کراچی اور حیدرآباد میں تعلیم یافتہ طبقہ سیاسی گفتگوسننے کے موڈ میں نہیں، وہ عملی کام دیکھنا چاہتاہے، وہ تھک گیا ہے۔ رہا معاملہ غیر تعلیم یافتہ طبقے کا تو ان کی وجہ سے کراچی سے لے کر خیبر تک پارٹیاں حکومتیں کررہی ہیں۔ اب وہ کیسی حکومت کررہی ہیں یہ عوام کے سامنے ہے۔
2018 کا تو کچھ نہیں کہہ سکتے، ہاں 2023 میں یقیناً تبدیلی ایسی آئے گی کہ یہ سیاست دان سوچ بھی نہیں سکتے۔ سوشل میڈیا نے نوجوانوں کو جگادیا ہے اور جو غیر تعلیم یافتہ ہیں وہ بھی مستفید ہورہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے انتشار میں عوام فیصلہ نہیں کرسکی کہ ایم کیو ایم لندن اور پاکستان کیا یکجا ہوجائیں گے اور اس غیر یقینی سیاست کی وجہ سے سیاسی اور مذہبی جماعتیں ہوسکتا ہے کہ ایک پلیٹ فارم پر آجائیں، کیونکہ پی پی نے میئر کے اختیارات تقریباً ختم کرکے ترقیاتی کام شروع کردیے ہیں، تاکہ وہ 2018 کا الیکشن جیت کی صورت میں اپنے نام کراسکے۔
ادھر گورنر بھی میئر سے ملے اور انھیں اختیارات دینے کا مطالبہ بھی کیا۔ ایم کیو ایم پاکستان کو سنجیدگی سے سیاست کی طرف قدم بڑھانے ہوںگے اور انھوں نے اس طرف توجہ نہ دی تو کوئی اتحاد (جو بڑے پیمانے) پر ہونے والا ہے وہ کراچی اور حیدرآباد کی سیاست کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ لہٰذا ایم کیو ایم پاکستان کو نئی سیاسی حکمت عملی کی طرف توجہ دینی ہوگی۔
بقول فاروق ستار اگلا وزیراعلیٰ ایم کیو ایم سے ہوگا۔ وسیم اختر جب میئر بنے تو جماعت اسلامی نے انھیں مبارکباد دی، گورنر نے خوشی کا اظہار کیا، کراچی کی سیاست میں ایک بھونچال نظر آرہا ہے۔ کراچی اور حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے سیاست دان سوچ رہے ہیں کہ 2018 کے الیکشن میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
آج جن مسائل کا تذکرہ کراچی، حیدرآباد کے سیاسی حضرات کررہے ہیں وہ ان مسائل کو پرویز مشرف کے دور میں حل کرواسکتے تھے کہ ان کے مکمل اختیارات تھے، اس کے بعد پی پی پی میں بھی وہ شراکت اقتدار رہے۔ مگر اس وقت کی سیاست اور آج کی سیاست میں بہت فرق آچکا ہے، اب سیاسی بیانات سے کام نہیں چلے گا۔ جب پاکستان کی سیاسی جماعتیں عوام کی ترقی اور خوشحالی کی بات کرتی ہیں تو پنڈال میں تو معصوم لوگ بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہی وہ سادہ لوگ ہیں جو حق تلفیوں کے باوجود انھیں اسمبلیوں میں بھیج دیتے ہیں، جب کہ تعلیم یافتہ طبقہ ان کے خطاب سن کر ہنستا ہے اور ان کی سوچ پر ماتم کرتا ہے۔
تمام سیاسی جماعتیں اقتدار کے مزے لوٹتی رہیں مگر یہ قوم کے لیے دل و جان سے جھوٹ بولتے ہیں جب یہ اقتدار میں نہیں ہوتے۔ مگر اب وہ زمانہ گیا جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ مصطفی کمال نے پاک سرزمین پارٹی بنالی اور وہ شب و روز سیاسی جگہ بنانے کی کوششیں کررہے ہیں۔ ادھر آفاق احمد ایم کیو ایم کو پھر سے زندہ کررہے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان فاروق ستار کی موجودگی میں اپنے وجود کو برقرار رکھنے میں کوشاں ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف، جن کی حکومت میں ایم کیو ایم نے بہت اچھے دن گزارے، ان کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے تمام دھڑے ایک ہوجائیں۔
یہ بات فاروق ستار کے سوچنے کی ہے کہ وہ کہاں تک صحیح کہہ رہے ہیں۔ مصطفیٰ کمال، آفاق احمد اور فاروق ستار کو ایک ٹیبل پر بیٹھنا چاہیے۔ اگر اس وقت انھوں نے مل بیٹھ کر فیصلہ کرلیا تو ہوسکتا ہے کہ کراچی اور حیدرآباد کی سیاست ایم کیو ایم پاکستان کے دائرے میں رہے اور اگر یہ ایک پلیٹ فارم پر نہ آئے تو سیاست میں سب چلتا ہے۔ جماعت اسلامی، تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی، سنی تحریک، پاک سرزمین پارٹی، باہمی اتحاد سے ایم کیو ایم پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرسکتی ہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان کو اپنے ووٹر کے مسائل پر نئے سرے سے توجہ دینی ہوگی کیونکہ ماضی کی سیاست اب کامیاب نہیں ہوگی۔ انھیں تعلیم یافتہ طبقے کو بھی اپنی ووٹر لسٹ میں شامل کرنا ہوگا۔ اگر نیا اتحاد تشکیل دیا گیا (ایم کیو ایم پاکستان) کے علاوہ تو ایم کیو ایم پاکستان کی سیاست کو نئے رخ کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ جماعت اسلامی، پاک سرزمین پارٹی اور تحریک انصاف کے ووٹر تو ہیں، اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
کراچی کے کچھ علاقے عوامی نیشنل پارٹی (ولی خان گروپ) کے زیر اثر ہیں، جن میں کیماڑی، بلدیہ، شیر شاہ، گلبائی، ماری پور، بغدادی، منظور کالونی۔ ان میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے ووٹر اکثریت سے پائے جاتے ہیں اور یہ وہ علاقے ہیں جہاں ماضی میں ہڑتالیں کامیاب نہیں ہوتی تھیں اور ایم کیو ایم کو ووٹ بہت کم پڑتے تھے۔ لہٰذا فاروق ستار سنجیدگی سے ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کو یکجا کریں اور اپنے ووٹر کے لیے اچھا انتخاب کریں۔ ویسے بھی فاروق ستار کہہ چکے ہیں کہ بانی متحدہ مہاجروں کا نام استعمال نہ کریں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ فاروق ستار سنجیدگی کی سیاست کرنے کے موڈ میں نظر آرہے ہیں۔
72 سال سے مہاجر رہنے والے بھی ایسا لگتا ہے کہ مہاجر سیاست سے تنگ آگئے ہیں، کیونکہ ان کے اور ان کی اولاد کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ فاروق ستار سیاست کو بہت باریک بینی سے دیکھیں کہ 19 الیکشن جیتنے کے بعد بھی اس قوم کو کچھ نہیں ملا۔ لہٰذا وہ اچھی بصیرت سے بھرپور فیصلے اپنے ووٹرز کے لیے کریں، سب ایک ہوجائیں۔