فطرت سے جنگ نہیں دوستی کی جائے

یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ اس حوالے سے ہماری حکومتوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات ہمیشہ ہی ناکافی ہوتے ہیں۔

mehmoodenv@gmail.com

SRINAGAR:
فطرت کو مسخر کرنے والی منفی انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں کرہ ارض کی بقا پر سوالیہ نشان لگانے والی حقیقت آج موسمیاتی تبدیلیوں کے روپ میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں ہے جو ان کے اثرات سے محفوظ ہو، دنیا بھر کے سائنسدان موسمیاتی تبدیلی کی حقیقت کو سائنسی بنیادوں پر تسلیم کرچکے ہیں یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر کی حکومتیں انفرادی اور اجتماعی طور پر اس سے نبرد آزما ہوتے ہوئے اس سے مطابقت پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتی ہیں تو دوسری جانب عالمی سطح پر اس کے اثرات کو کم سے کم رکھنے کے لیے بین الاقوامی معاہدے کیے جارہے ہیں۔

اس ضمن میں ہونے والا سب سے بڑا عالمی معاہدہ دسمبر 2015 میں فرانس کے شہر پیرس میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی سربراہی کانفرنس میں منظور کیا گیا جس میں طے کیا گیا جس کے تحت عالمی درجہ حرارت کو دو ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کیا جائے گا۔

2013-14 میں جاری ہونے والی انٹر گورنمنٹل پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی 5 ویں تجزیاتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ عالمی درجہ حرارت کو 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم رکھنے کے لیے 2050 تک دنیا کو زہریلی گیسوں کے اخراج میں 40 سے 70 فیصد کمی لانا ہوگی جب کہ 2100 تک اسے مرحلہ وار صفر پر لانا ہوگا۔ پیرس عالمی معاہدہ نومبر 2016 سے نافذ العمل ہوا۔ پاکستان نے بھی نومبر 2016 میں پیرس معاہدے کی توثیق کی۔ واضح رہے کہ اپریل 2016 میں عالمی زمینی اور سمندروں کی سطح کا اوسط درجہ حرارت 1.10 ریکارڈ کیا گیا۔

موسمیاتی تبدیلی سے جڑے موسموں کی شدت کے مختلف عوامل میں سے ایک بارشوں اور ان کے پیٹرن میں تبدیلی ہے۔ ماہرین کے نزدیک بارشوں کی پیش گوئی کرنا درجہ حرارت کی پیش گوئی سے زیادہ مشکل امر سمجھا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے موسموں میں آنے والی شدت خصوصاً موسمی بارشوں کی شدت کی کی پیشن گوئی کرنا اب دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے لیے بھی مشکل ہوتا جارہا ہے۔ جس کے باعث میں خصوصاً ایشیائی ملکوں جہاں دنیا کی غریب آبادی کی سب سے زیادہ تعداد رہائش پذیر ہے سیلابوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جس کے نتیجے میں لینڈ سلائیڈنگ کے علاوہ املاک، فضلوں، لائیو اسٹاک کی تباہی کے علاوہ سڑکوں، پلوں اور کمیونیکیشن کے ذرایع کی تباہی کے ساتھ ماحولیاتی مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ خود پاکستان 2010 سے شدید بارشوں کے باعث سیلابوں کی زد میں ہے جس کے نتیجے میں ہونے والی تباہیوں کے مناظر کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔

رواں مون سون کی بارشوں کی تباہ کاریاں ایک مرتبہ پھر ہمارے سامنے آچکی ہیں جہاں چین، ہندوستان، بنگلہ دیش، سری لنکا سمیت دنیا کے کئی ملکوں اور پاکستان کے متعدد علاقے سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں لوگوں کو شدید جانی و مالی نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔

ذرائع ابلاغ سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق بنگلہ دیش میں آنے والی بارشوں نے شدید تباہی مچائی خصوصاً پہاڑی علاقوں میں جہاں حکومت کو متاثرین کے لیے کیمپ قائم کرنا پڑے جس میں 5 ہزار سے زائد افراد موجود ہیں جب کہ متاثرہ لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے جس کے باعث حکومت نے 15 جولائی تک کیمپوں کو کھلے رکھنے کا اعلان کیا ہے، 200 سے زائد افراد اب تک ہلاک ہوچکے ہیں۔

بھارت میں بھی صورتحال اس حوالے سے زیادہ بہتر نظر نہیں آتی جہاں سالانہ بارشوں کا 80 فیصد مون سون میں ہی برستا ہے۔ ساحلی خطے امریلی میں ہونے والی شدید بارشوں کے باعث گذشتہ 90 برس میں آنے والا بدترین سیلاب قرار دیا جارہا ہے، ممبئی سمیت ملک کے مختلف بڑے شہر بھی شدید بارشوں سے متاثر ہوئے واضح رہے کہ ہندوستان میں ہونے والی مون سون کی بارشوں میں اکثر سیلاب کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔


پاکستان بھی مون سون میں ہونے والی بارشوں اور غیر متوقع طور پر ہونے والی بارشوں کے سنگین نتائج گذشتہ کئی برسوں سے بھگت رہا ہے جس کے نتیجے میں گلگت بلتستان سمیت کے پی کے اور پنجاب کے مختلف علاقے شدید متاثر ہوتے ہیں۔ ان علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ، سیلاب، کھڑی فضلوںکی تباہی، لائیو اسٹاک کے ساتھ بڑے پیمانے پر لوگ بے گھر ہوجاتے ہیں اور یہ سلسلہ گذشتہ کئی سالوں سے مسلسل جاری ہے۔

اس وقت ملک کے ہر حصے میں بارشیں وقفے وقفے سے جاری ہیں۔ کے پی کے شمالی علاقوں اور پنجاب میں زیادہ جب کہ سندھ اور بلوچستان میں بارشیں کم ہورہی ہیں۔ لیکن 2010 سے ان بارشوں کے باعث چھوٹے بڑے سیلاب بھی آرہے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق مون سون کی بارشوں سے متعدد ہلاکتوں، املاک کے علاوہ فضلوں کو بھی خاصا نقصان ہوا ہے۔

یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ اس حوالے سے ہماری حکومتوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات ہمیشہ ہی ناکافی ہوتے ہیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا ان ناکافی اقدامات کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کے حوالے سے حکومت کی ناقص کارکردگی کو اجاگر کرتے ہیں جو کہ کسی حد تک درست بھی ہے۔

ایک اہم بات جو ہم سب کو یاد رکھنی ضروری ہے کہ وہ یہ کہ پاکستان کا شمار ان ملکوں میں کیا جانے لگا ہے جو پانی کی کمی کا شکار ہیں اور اس حوالے سے صورتحال دن دبدن تشویشناک ہوتی جارہی ہے۔ سال کے تقریباً 100 دنوں جس میں مون سون کی بارشوں کا پانی شامل ہے ہمارے پاس پانی کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک بارشوں کے پانیوں کو محفوظ کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھار ہے ہیں۔

پاکستان میں پانی کو ذخیرہ کرنے کے حوالے سے صوبوں کے درمیان متعدد تنازعات موجود ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم بارشوں میں آنے والے اضافی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے آج تک کسی بھی قسم کی ٹھوس حکمت عملی ترتیب نہیں دے سکے ہیں اور وہ اضافی پانی جسے استعمال کرکے ہم پانی کی کمی کے حوالے سے پیدا ہونے والے مسائل کو کم کرسکتے تھے سے محروم ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے سبب جہاں پانی کی کمی ہوتی جارہی ہے۔ وہی دنیا کی باخبر اور باشعور اقوام اپنے اضافی پانیوں کو محفوظ کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کررہی ہیں۔ بارشوں کے پانی کو چھوٹی ذخیرہ گاہوں میں اسٹور کرنے کے ساتھ زیر زمین پانی کو ریچارج کیا جارہا ہے۔

ذرائع ابلاغ کے نمایندوں کی ذمے داری ہے کہ وہ مون سون کی بارشوں کے حوالے سے اٹھائے جانے والے ناقص اقدامات کی نشاندہی ضرور کریں لیکن اس کے ساتھ حکومتوں اور عوام کی توجہ اس جانب بھی مبذول کرائیں کہ وہ ملک میں آنے والے اس اضافی پانی کو ہر ممکن طریقے سے محفوظ کریں اور یہ اقدامات انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر ہونے چاہئیں۔

بارشوں کے پانی کو ذخیرہ کرنے کی آگہی دینے کی ذمے داری جہاں میڈیا کی ہے وہی ملک کے سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی ، ادارہ جاتی تنظیمیں سمیت ملک کے تمام اسٹیک ہولڈر کو بھی اس آگہی مہم میں شریک ہوناہوگا کیونکہ ہم سب من حیث القوم پانی کی کمی کا شکار ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ آیندہ آنے والے مون سون کی بارشوں سے پہلے متعلقہ حکومتی ادارے بڑے پیمانے پر ایسی آگہی مہم کی منصوبہ بندی کریں جس میں عوام کو بارشوں کے پانی کو گھروں میں محفوظ کرنے کے ایسے آسان طریقے بتائیں جائیں جنھیں اختیار کرکے وہ کچھ دنوں کا پانی محفوظ کرسکیں۔ یہ ابتدا ہوگی لیکن آنے والے وقتوں میں جس طرح پانی کی شدید کمی کا اندیشہ ماہرین ظاہر کررہے ہیں وہ ان کو کم کرنے میں معاون و مددگار ضرور ثابت ہوگا۔ ضرورت ہے کہ فطرت سے لڑنے کے بجائے اس سے دوستی اور محبت کی جائے۔
Load Next Story