تباہ حال حلقہ 114

تباہ حال کراچی کا حلقہ پی ایس 114 اپنے حلقے میں ان تمام لیڈران کو خوش آمدید کہتا ہے۔

سب سے بڑے شہر کراچی کے حلقہ پی ایس 114 میں کل اتوار ضمنی انتخاب کا دنگل ہوا۔ یہ حلقہ شہر کی اہم ترین سڑک شارع فیصل پر واقع ہے۔ بلوچ کالونی پل، غریب بستی عمر کالونی، قدیم بلوچ آبادی بلوچ کالونی جدید ترین آبادی ایڈمنسٹریشن سوسائٹی جہاں کاروباری برادری دہلی پنجابی سوداگران کے عالی شان بنگلے ہیں، مگر اس سوسائٹی کا حال یہ ہے کہ تمام سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں جگہ جگہ گڑھے بن چکے ہیں، گٹر ابل رہے ہیں اور گندا پانی سوسائٹی کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر مستقل بنیاد میں کھڑا ہے۔

اسی سوسائٹی سے گندے پانی کا نالا گزرتا ہے۔ یہ نالا پی ای سی ایچ ایس بلاک 6 سے بہتا ہوا ایڈمنسٹریشن سوسائٹی بلاک 7 سے گزرتا ہوا محمود آباد نمبر 6 کی طرف نکل جاتا ہے اور آگے پتا نہیں کدھر جاتا ہے۔ اس نالے میں سارا سال کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا ہے۔ بارش ہونے کی صورت میں نالے کا کچراگھروں میں داخل ہوجاتا ہے اور ان حالات کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

ایڈمنسٹریشن سوسائٹی ملحق محمود آباد کا گنجان آباد علاقہ ہے۔ جس کا مین روڈ ٹوٹا پھوٹا ہے۔ محمود آباد نمبر6 مین روڈ نالے کے کنارے کچرے کا پہاڑ ہمہ وقت موجود رہتا ہے تعفن کی وجہ سے سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے۔ حلقہ نمبر 114 میں محمود آباد کے علاوہ گنجان آباد بستیاں بنام لیاقت اشرف کالونی، منظور کالونی، ہل ٹاؤن، اعظم ٹاؤن (اعظم بستی)، چنیسر گوٹھ، اختر کالونی، کالا پل آباد ہیں اور ان تمام بستیوں کا حال بھی تباہ و برباد ہے۔

اسی حلقے پی ایس 114 صوبائی اسمبلی سندھ کے لیے ضمنی الیکشن ہوا۔ جب یہ کالم شایع ہوگا الیکشن کا نتیجہ بھی آچکا ہوگا۔ اس ضمنی الیکشن کے لیے ملکی سطح کے سیاست دان خطاب فرمانے کے لیے تشریف لاچکے ہیں، جن کے اسمائے گرامی ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری، اعتزاز احسن، قمر الزماں کائرہ، مشاہد اللہ خان، سراج الحق، سلیم ضیا، حافظ نعیم الرحمن، فاروق ستار اور شیخ رشید خیر سے ان تمام لیڈران کی قیمتی گاڑیاں ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر ہچکولے کھاتی گندے پانی میں ڈوبتی، پھرتی چل رہی ہوں گی، تعفن زدہ حلقہ 114 میں گھومتے پھرتے، ریلیاں نکالتے، جلسے کرتے، تقریریں کرتے، یہ قومی رہنما ناک پر رومال رکھ کر یا بدبو برداشت کرتے آئے اور گئے ہوں گے۔ قائداعظم سے ہی ان کا دامن پکڑ کر اپنا دکھڑا رو لیتے ہیں۔

بابا مر گیا ایں تے مروا گیا ایں
سانوں دس توں کیناں دے پا گیا ایں

الیکشن حلقہ پی ایس 114 ہوجائے گا، مقابلہ بڑا کانٹے دار ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی اور ایم کیو ایم (پاکستان) کے کامران ٹیسوری میں زبردست مقابلہ ہوگا۔ ساتھ ساتھ ن لیگ کے علی اکبر گجر ایڈووکیٹ، تحریک انصاف کے انجینئر نجیب ہارون اور جماعت اسلامی کے ظہور احمد جدون بھی مقابلہ کریں گے۔

تباہ حال کراچی کا حلقہ پی ایس 114 اپنے حلقے میں ان تمام لیڈران کو خوش آمدید کہتا ہے اور دعا کرتا ہے کہ یہ تمام لیڈران ساتھ خیریت کے اپنے محلوں، حویلیوں میں پہنچ جائیں، انھیں چکن گنیا، ڈینگی، نگلیریا نہ ہوجائے۔ باقی حلقے میں رہنے والوں نے تو اس گندگی میں رہنا ہے، ان کا اللہ وارث ہے۔ یہ لیڈران تو پل دو پل کے ساتھی تھے، ہوا کے جھونکے کی طرح آئے تھے اور چلے گئے۔ اب ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے نکلیں گے۔ ووٹرز کو گھروں سے نکالا جائے گا۔ شام پانچ چھ بجے تک یہ سلسلہ رہے گا اور پھر لوگ گھروں میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ جائیں گے۔ رات بھر نتائج آتے رہیں گے اور آخر جیتنے والے امیدوار کا نام سامنے آجائے گا۔

میں حلقہ پی ایس 114 کا رہائشی ہوں، میں بھی ووٹ ڈالنے جاؤں گا۔ اتوار 9 جولائی الیکشن کا دن تھا۔ صبح گھر سے نکلا تو میں نے دیکھا۔ میرے بازار کی تباہ حال سڑک پر کام ہو رہا تھا۔ بڑی تعداد میں مزدور لگے ہوئے تھے۔ اور میں سوچ رہا ہوں یہ لیپا پوتی کس کام کی کہ جب سیوریج لائنیں ٹھیک نہیں ہوں گی تو یہ سڑک بنانے کا کیا فائدہ۔ اس طرح تو یہ سڑکیں کئی بار بن چکیں اور چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات کی طرح ہم نے ان سڑکوں کا حشر بھی دیکھا ہے۔ اب بھی دیکھیں گے۔ فیض صاحب سے نہایت معذرت کے ساتھ:


ہم دیکھیں گے

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

ہم دیکھیں گے

یہ ٹوٹی سڑکیں، بہتے گٹر
عبرت کے نشاں یہ کوڑے گھر

بیماریوں کے یہ اڈے ہیں
پھڈے بازوں کے پھڈے ہیں

ووٹوں کے یہ میلے ٹھیلے ہیں
نوٹوں کے یہ میلے ٹھیلے ہیں

کل تک یہ سارے جھمیلے ہیں
اور پھر وہی غم کے ڈیرے ہیں

ہم دیکھیں گے
Load Next Story