پرانا پاکستان
دراصل ہمیں نئے پاکستان کی نہیں بلکہ پرانے پاکستان کی ضرورت ہے۔
سوشل میڈیا پرصرف چالیس سے پچاس برس پہلے سبی شہرکی ایک تصویرلگائی گئی ہے۔ بتاتاچلوں سبی بلوچستان میں ہے اور ملک کے گرم ترین علاقوں میں شمارکیاجاتاہے۔ شہرکی پہچان ہی یہ ہے کہ موسم گرما میں قیامت خیز گرمی پڑتی ہے۔مگراس تصویرمیں موسم کی حدت اورشدت کے متعلق کچھ بھی نہیں ہے۔
دراصل یہ تین مغربی خواتین کی نایاب تصویر ہے۔ جس میں وہ بطور سیاح بلوچستان آئی ہوئی ہیں۔سبی چوک میں رکی ہیں اورانتہائی اطمینان سے چوک میں بیٹھی ہوئی ہیں۔ان کی عمریں بیس اورتیس برس کے درمیان ہے ۔ انتہائی اہم بات یہ بھی ہے کہ ان کے چہروں پرمسکراہٹ ہے، خوف کانام ونشان نہیں۔ سب نے مغربی لباس زیب تن کررکھاہے۔یہ ہماری اوائل عمری کا پاکستان تھا۔جس کاآج تصوربھی نہیں کیاجاسکتا۔
قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد تک ہمارا ملک سیاحوں کے لیے جنت کادرجہ رکھتاتھا۔جرائم سے تقریبا ًپاک ، عام لوگ مغربی سیاحوں کا دل کھول کرخیرمقدم کرتے تھے۔ ہمارا علاقہ ترقی یافتہ ملکوں کی طرح تھا۔ مذہبی شدت پسندی اورکسی قسم کی انتہاپسندی سے پاک۔ گورے گاڑیوں اور سائیکلوں پرہرعلاقے میں گھومتے رہتے تھے۔ یہ منظرہر شہر میں ہروقت دیکھنے کو ملتا تھا۔
سب کومعلوم ہے کہ اس جنت نظیرملک کوکیسے دھکے مارمارکردہشت گردی کے جہنم میں بدل دیا گیا۔ پچاس برس پہلے کاکراچی کیا تھا۔اس پربات کرتے ہوئے دکھ ہوتاہے۔ اس شہرمیں سارا سال سیاح دیوانوں کی طرح آتے تھے۔ مسلمان دنیامیں اس شہر کاکوئی ثانی نہیں تھا۔بلندوبالاعمارتیں،کشادہ اور صاف سڑکیں، دلفریب ساحل سمندراورزندگی کے تمام لوازمات۔ایک سے بڑھ کرایک بڑھیا ہوٹل اور ہر ہوٹل میں طلسم ہوشربا زندگی۔یہ نہیں کہ غربت نہیں تھی۔مگر آج کی بھیانک فاقہ کشی قطعاً نہیں تھی۔
کراچی ائیرپورٹ دنیاکی ہربین الاقوامی فضائی کمپنی کامرکزتھا۔ایسی ایسی کمپنیوں کے جہاز ائیر پورٹ موجودہوتے تھے،جن کانام بھی اب بھول چکے ہیں۔ جیسے برٹش ائیرویز، لفتھانسا، ائیرفرانس اوراسی اسٹینڈر کی کئی ائر لائنز۔ہر فضائی کمپنی کراچی میں ہوائی جہازوں میں تیل بھراتی تھیں۔
پاکستان کوکس قدر غیر ملکی سرمایہ بغیرکسی تردد کے مل جاتاتھا،شائداب تو خواب ہی لگتا ہے۔ یا شائد جھوٹ۔اس کراچی کے ساتھ کیاسلوک کیاگیا،کیاآپ یقین کرینگے کہ اس شہر میں پانچ سوسینما ہال تھے۔چالیس سے اوپرنائٹ کلب، لاتعداد پب اوردنیاکے سب سے دیدہ زیب سمندری ساحل تھے۔پھر ایک مذہبی جماعت کے پیروکاروں نے 1977کے بعدکراچی میں مخصوص دکانوں"پر حملے کیے۔ یوں ایک نیا منظر سامنے آیا۔
پنجاب کی طرف آئیے۔لاہورحقیقتاً مغربی سیاحوں سے اَٹا رہتا تھا۔مال روڈ پرایک درمیانے درجہ کاہوٹل تھا۔ انٹرنیشنل ہوٹل۔اس کے باہردرجنوں غیرملکی بسیں کھڑی ہوتی تھیں۔مختلف رنگ اور جسامت کی یہ بسیں اس وقت کم ازکم ہمارے ملک میں ناپیدتھیں۔
دراصل یہ غیرملکی سیاحوں کے لیے بنائی گئیں تھی۔سفیدفام سیاح ایران،افغانستان، پاکستان اور دیگرممالک میں بسوں پر آزادی سے سفر کرتے تھے۔ عام مقامی بسوں میں بھی مغربی سیاح موجود ہوتے تھے۔ صرف انٹرنیشنل ہوٹل میں ہروقت، سیکڑوں لوگ موجود رہتے تھے۔آج مال روڈ پر انٹرنیشنل ہوٹل خاموش اور تاریک کھڑاہوا ہے۔کسی اداس اورغم زدہ مسافرکی طرح۔ درمیانے درجے کے اس ہوٹل کوبندہوئے دہائیاں بیت چکی ہیں۔
مال روڈ کے ہرموڑپرسیاح ہی سیاح نظرآتے تھے۔ مال روڈپرہی انٹرکانٹیننٹل ہوٹل تھا۔اس کے ساتھ ایک خوبصورت گالف کورس بھی تھا۔گالف کورس توکب کاختم ہوگیا۔اس ہوٹل میں بھی مقامی اورغیرملکی لوگ کثرت سے موجود رہتے تھے۔بغیرکسی خوف کے۔ آواری کی جگہ ایک اورہوٹل ہوا کرتا تھا۔مال روڈ پرہی انڈس ہوٹل بھی تھا جو غیرملکی اوسط درجے کے لوگوں کے لیے مخصوص تھا۔ اس کی خصوصیت اس کے میوزک رومز تھے۔
دنیا بھر کا میوزک ہوٹل کی انتظامیہ نے بڑی محنت سے جمع کر رکھا تھا۔گلبرگ میں مغل ہوٹل اورمین مارکیٹ میں زنوبی ہوٹل انتہائی زندہ دل ماحول کی آماجگاہ تھے۔قصہ کوتاہ یہ کہ لاہورکے چپہ چپہ پر سیاحوں کاہجوم تھا۔کیاآج کی نسل اس پرانے لاہور کو چشم تصورمیں بھی دیکھ سکتی ہے۔جواب نفی میں ہے۔ ہاں، آج کے اس مبینہ پاکیزہ شہرمیں چھپ کر ہر دھندا ہورہا ہے، کوئی اسے روک نہیں سکتا۔
بڑے شہروں میں سیاحوں کی آؤبھگت اور آزاد ماحول کورہنے دیجیے۔ہماری ریل گاڑیوں میں اَن گنت مغربی لوگ سفرکرتے تھے۔بڑی ٹرینوں کی بات نہیں کررہا۔ایک پسنجرٹرین پرتاندلیانوالہ سے لاہور آرہا تھا۔ حیرت ہوئی جب کہ اس ریل گاڑی پر گورے نظرآئے۔کئی اسٹیشنوں پر رک کر قلفیاں خریدتے تھے اور نشست پربیٹھ کرلطف اندوز ہوتے نظر آرہے تھے۔
یہی حال گوری خواتین کا تھا۔ کسی نے بھی کرتاشلوارنہیں پہن رکھا تھا۔اپنے ملکی لباس یعنی ڈھیلی ڈھالی اسکرٹ میں ملبوس۔ ان خواتین کوکوئی بھی پاکستانی گھور نہیں رہا تھا۔ اب تو پاکستانی مردوں کی نظر کی پیاس مشہور ہے، یہ سماجی رویے ہماری دوعملی اور پسماندہ معاشرے کی مثال۔
انڈیاسے ہربرس سیکڑوں سکھ مذہبی رسومات پوری کرنے کے لیے پاکستان آتے تھے۔رنگ برنگی پگڑیاں پہنے ہوئے مرد،ہمیشہ ہمارے ملک سے پلاسٹک کے واٹرکولر ضرورخریدتے تھے۔ہاتھ میں شوخ رنگوں کے واٹر کولر تھامے ہوئے سکھ مرداورخواتین عام نظرآتے تھے۔
اکثراوقات دیکھنے میں آیاکہ کوئی طالبعلم موٹرسائیکل پران کے قریب رکتا تھا۔ موٹرسائیکل پربٹھاکر منزل تک باآسانی چھوڑ آتا تھا۔ یہ رویہ توبڑی دیرجاری رہا۔ہال روڈ لاہورمیں کے ای میڈیکل کالج کے طلباء اکثراپنی موٹرسائیکل پرغیرملکی سیاحوں بشمول سکھوں کو سیر سپاٹا کراتے رہتے تھے۔
آج کے کراچی اور لاہورمیں غیرملکی سیاح ناپید ہیں۔کوئی کسی کام سے آتاہے تومجبوراًآتاہے۔ہوٹل سے باہرنہیں نکلتا۔ڈرا اورسہما رہتاہے۔ جلدازجلد کام ختم کرکے یہاں سے بھاگنے بلکہ فرارہونے کی کوشش کرتا ہے ۔اب یہاں مقامی سیاحت ہے۔ تفریح سے محروم لوگ ہزاروں نہیں،لاکھوں کی تعداد میں شمالی علاقوں میں جاتے ہیں۔ وہاں درمیانے درجے کے ہوٹل اور ریستوران مقامی سیاحوں کی چمڑی ادھیڑ لیتے ہیں۔ ادنیٰ ترین کمرے سات سے بارہ ہزارتک ملتے ہیں۔
غلاظت، گندگی، بدتمیزی اور بدتہذیبی الگ دیکھنے کوملتی ہے۔پرانے پاکستان میں کوئی موٹروے نہیں تھا۔کوئی بہترین سڑکیں نہیں تھیں لیکن معاشرہ کھلا اور ریاست لبرل تھی ۔نتیجہ سامنے تھاکہ غیرملکی اورملکی سیاح ہر طرف نظر آتے تھے۔خوشی اورسکون سے چند دن گزار کر پھر اپنے اپنے ملکوں اور شہروں کی طرف رواں دواں ہوجاتے تھے۔ملک اپنے اس ماحول کی بدولت بھرپور ترقی کر رہا تھا۔ ترقی یافتہ معاشرے کی تمام خصوصیات پاکستان میں موجود تھیں۔
اب پاکستان ایک مختلف ملک بن چکا ہے۔ سارا دن بتایاجاتاہے کہ ملک تنہائی کاشکارنہیں اور بے جان قسم کے میلے اورفنکشنز کراکرثابت کرتے ہیں کہ ہم ثقافتی گھٹن کا شکار نہیں دنیاکے لیکن ہمیں بھی معلوم ہے اور دنیاکوبھی پتہ ہے کہ ہمارامعاشرہ شدت پسندی کے مہلک مرض میں مبتلا ہے۔ہمارے چندحلقے یقین دلاچکے ہیں کہ دنیاکی کوئی اہمیت نہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ ہم ایک بے جان معاشرے میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ جہاں لفظوں اورعملی زندگی میں ہزاروں نوری سالوں کافرق ہے۔
تین ممالک یعنی چین، سعودی عرب اور ترکی اپنے اپنے مفادکی خاطرہمیں کچھ کچھ گھاس ڈالتے ہیں۔کوئی یہ بات کرنے کوتیارنہیں کہ ہم بین الاقوامی سطح پرتنہا نہیں بلکہ مکمل طورپرتنہائی کاشکار ہیں۔ جھوٹ کے سہارے ہم اپنی ساکھ اورقدرکوکیسے بہتر کر پائیں گے۔کسی کے پاس اس اہم ترین سوال کا تسلی بخش جواب نہیں۔ دراصل ہمیں نئے پاکستان کی نہیں بلکہ پرانے پاکستان کی ضرورت ہے۔