انسداد منشیات کی عدالت مجرموں کو رہا کرنے لگی ہائیکورٹ نے فیصلے طلب کرلیے

خصوصی عدالت کاملزمان کی رہائی کیلیےتکنیکی بنیادیں تلاش کرنےکاجوازنہیں،بینچ نے عدالت کے تمام فیصلوں کی تفصیل طلب کرلی.

فیصلوں سے نظر ثانی اور اپیل سے محروم ہوجاتے ہیں، اقبال جرم کرنیوالے ملزمان کو بھی رہا کیا گیا، اے این ایف ،رہا ہونیوالوں کو نوٹس۔ فوٹو: فائل

سندھ ہائیکورٹ نے امتناع منشیات کی خصوصی عدالت کے فیصلوں پر افسوس اور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے آبزرو کیا ہے کہ امتناع منشیات کی خصوصی عدالت ملزمان کو رہا کرنے کیلیے ایسی تکنیکی بنیادیں تلاش کرتی ہے جن کا کوئی جواز نہیں۔

جسٹس سجادعلی شاہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے ممبر انسپکشن ٹیم سندھ ہائیکورٹ کو ہدایت کی ہے کہ مذکورہ عدالت کے تمام فیصلوںکی تفصیلات جمع کرکے سندھ ہائیکورٹ کے ایک ہی بینچ کے روبرو پیش کریں،دو رکنی بینچ نے ماتحت عدالت کے متعلق اس فیصلے کی نقل اور اس مقدمے کے حقائق چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کو پیش کرنیکی ہدایت کی،فاضل اپیلیٹ بینچ نے کہا کہ ماتحت عدالت کے سربراہ ملزمان کی بریت کا فیصلہ ایسی تکنیکی بنیادوں پر کرتے ہیں یا کم سے کم سزادیتے ہیں کہ منشیات کے خاتمے کے متعلق اداروں کو ان فیصلوںکے خلاف نظرثانی اوراپیل کے حق سے محروم ہونا پڑتا ہے۔

جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں ملوث 4 ملزمان کی بریت سے متعلق ذاکرحسین پر مشتمل امتناع منشیات کی خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اینٹی نارکوٹکس فورس کی جانب سے دائر کردہ اپیل کی سماعت کی،اپیلیٹ بینچ نے آبزروکیا کہ مذکورہ خصوصی عدالت کے جج ملزمان کو بری کرنے کیلیے ایسی تکنیکی خامیاں تلاش کرتے ہیں جو انتہائی معمولی ہوتی ہیں،اینٹی نارکوٹکس فورس کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ کراچی ایئرپورٹ کے بین الاقوامی لائونج سے ایک خاتون سمیت 4 ملزمان کو گرفتار کرکے ان کے قبضے سے 50 کلوگرام ہیروئن برآمد کی گئی اور ملزمان کے خلاف امتناع منشیات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔


 



عدالت کو بتایا کہ ملزمان میں سے3 مرد ملزمان نے اقبال جرم کیا، مگر ملزمان کو صرف 6 سال قید کی سزا سنائی گئی اور بعدازاں بری کردیا گیا، بریت کیلیے خصوصی عدالت نے یہ ایک معمول کی تکنیکی خامی کا جواز فراہم کیا کہ مقدمے کے شواہد 18ماہ بعد پیش کیے گئے اور دیگر معمولی تکنیکی جواز پر مقدمے کا فیصلہ 13جولائی2011کو سنایا،ملزمان کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ382 کا بھی فائدہ دیا گیا،ملزمان کی سزا15جولائی2011 کومکمل ہوئی اور اگلے ہی روز ملزمان رہا ہوگئے۔

اے این ایف نے موقف اختیارکیا کہ امتناع منشیات ایکٹ 1997کے تحت ایک کلو گرام منشیات رکھنے کا جرم ثابت ہونے پر سزائے موت یا عمرقید دی جاتی ہے جبکہ عدالت بہت نرمی اختیار کرے تو کم از کم 14سال قید سنانے کا اختیار رکھتی ہے مگر مذکورہ خصوصی عدالت نے اقبال جرم کے باوجود محض 6 سال کی سزا سنائی جس کی مدت اگلے روز ہی ختم ہورہی تھی، سندھ ہائی کورٹ نے مذکورہ عدالت کے تمام فیصلے طلب کرتے ہوئے رہا ہونیوالے ملزمان کو 19فروری کے لیے نوٹس جاری کردیے۔
Load Next Story