دلیر سرکاری افسر
سرکاری ملازمین کو ہندتوا کا لبادہ اوڑھے دیکھنا بہت ہی المناک ہے۔
سرکاری افسر ریٹائرمنٹ کے بعد سنیاس لے لیتے ہیں۔ تاہم کچھ جرات مند افسروں نے عدم رواداری کا شکا ر ہونے والے بھارتی معاشرے کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ انھوں نے اپنے کھلے خط میں کہا '' ایسا نظر آ رہا ہے کہ بڑھتی مذہبی عدم رواداری کا خصوصی نشانہ مسلمان ہیں۔ ''
واضح طور پر اس خط میں جن جذبات کا اظہار کیا گیا ہے، ان کا نہ تو ذکر کیا گیا ہے اور نہ ہی بحث کی گئی ہے۔ بی جے پی جو معاشرتی رویوں کے اتار چڑھاؤ کا تعین کرتی ہے غالباً اس پر بحث چاہتی ہی نہیں تھی بلکہ چاہتی تھی یہ معاملہ دب جائے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو ان کا حق نہیں مل رہا۔ مسلمانوں کی سترہ کروڑ کی آبادی بھارت کی ایک ارب بیس کروڑمجموعی آبادی کا بارہ فیصد ہے۔ جیسا کہ جسٹس راجندر سچر کی رپورٹ میں توجہ دلائی گئی ہے کہ مسلمانوں سے دلتوں سے بھی بدتر سلوک کیا جا رہا ہے۔
جسٹس سچر رپورٹ ایک دہائی پرانی ہے تاہم اس کی سفارشات پرآج تک عمل نہیں کیا گیا ہے حتٰی کہ کانگریس جماعت نے اس کو نظر انداز کیا،حالانکہ توقع تھی وہ رپورٹ میں دی گئی سفارشات پر کام کرے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بی جے پی کے برسراقتدار آنے سے پہلے ایک نرم قسم کی ہندتوا ملک میں پھیل چکی تھی۔مجھے علم ہے کہ سفارشات پر عمل درآمد نہ ہونے پر جسٹس سچر نے اس وقت وزیراعظم من موہن سنگھ سے شکوہ کیا تھا کہ اگر حکومت سفارشات پر عمل درآمد کرنے میں سنجیدہ نہیں تھی تو ان کا اور کمیشن کے دوسرے ارکان کا وقت کیوں برباد کیا گیا؟
اطلاعات کے مطابق انھوں نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا اور کہا کہ عمل درآمد کی راہ میں بیوروکریسی حائل ہے اور مسلمانوں سے جو وعدہ کیا گیا تھا وہ کاغذوں تک ہی محدودہے۔ مسلمان اپنے شکوہ اور شکایات کی جانب توجہ مبذول کرانے کے لیے کبھی کبھار اس رپورٹ کا تذکرہ کرتے ہیں، مگر میڈیا نے اس رپورٹ کے بارے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی ہے۔ میڈیا کا جھکاؤ ہند توا کی جانب ہے۔پلرول ازم (اجتماعیت) کی آواز بہت ہی نحیف ہے۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ جو اجتماعیت کی بات کرتے ہیںانھیں حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور انھیں اپنے ذاتی فائدے کے لیے مسلم نواز تصور کیا جاتا ہے۔
بی جے پی کا فلسفہ غالب ہو چکا ہے۔ کانگریس جماعت جو اپنا تعلق ان سے جوڑتی ہے جنہوں نے آزادی کے لیے جدوجہد کی یہ بات کہ یہ ملک ذاپ پات کے امیتاز کے بغیر ہر کسی کا ہے اب قابل اعتبار نہیں ہے۔کانگریس ایک خاندان کی اجارہ داری ہے اور وہ اس میں کسی کو حصہ دار نہیں بناتے۔ حتٰی کہ جماعت کی ورکنگ کمیٹی جو خبروں میں رہتی تھی کا وجو د ہی نہیں ہے۔ کسی نے بھی اے آئی سی سی اور پارٹی کے صدارتی انتخابات کے بارے میں کبھی نہیں سنا ہے۔
سونیا گاندھی نے اپنے بیٹے راہول کو مختار کل بنانے کی تگ و دو میں اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ مخالفت میں کوئی آواز بلند نہ ہو۔ پارٹی کے سینئر ارکان اپنی مایوسی کا کھلے بندوں اظہار کرتے ہیں۔ نئے اور نوجوان ارکان کی آواز کو وہ خاطر میں ہی نہیں لاتی ہیں کیونکہ انھوں نے صدارت خاص راہول کے لیے رکھی ہے۔ راہول انھیں اتنا محبوب ہے کہ انھوں نے اپنی ہی بیٹی پریانیکا جو عوام میں زیادہ مقبول ہے کو بھی پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔ ان کی مقبولیت کا پہلو یہ ہے کہ وہ اپنی دادی اندرا گاندھی سے مشابہت رکھتی ہیں۔
اس بات کو رہنے دیں کہ اندراگاندھی میں کئی منفی باتیں تھیں۔ یہ کہ ایمرجنسی کے نفاذ کے دوران مقدمہ کے بغیر ایک لاکھ افراد کوحراست میں رکھ کر زیادتیاں کی گئیں۔ شاکمیشن جس ایمرجنسی کے دوران عوام سے ہونے والی بدسلوکی بے نقاب کرنے کے لیے کھلی سماعت کی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ جسٹس جگ موہن لعل سنہا کی جا نب سے چھ سال کے لیے نااہل قرار دیے جانے پر اندرا گاندھی نے اپنی سیٹ بچانے کے لیے ایمرجنسی نافذ کی۔ بعد ازاں انھوں نے اپنے چھوٹے بیٹے سنجے کو اپنے تنگ نظر ساتھیوں کے ساتھ ملک چلانے کی اجازت دی۔
ان دنوں محدود چند حاضر سروس اور ریٹائرڈ سرکاری افسروں نے جابرانہ حاکمیت کی حکم عدولی کی اور ایمرجنسی کے دوران جرات دکھانے پر سزا بھی بھگتی۔ جو بھی اندراگاندھی کو چیلنج کرتا تھا وہ اسے عہدے سے ہٹا دیتی تھیں۔ نریندر مودی کی حکومت ایک شخص اور اس کے طرزعمل کو فروغ دینے کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ زیادہ ہندتوا کے بارے میں ہے جو اسے اور زیادہ بدتر بناتی ہے۔ ایک شخص کو تو کسی بھی وقت ہٹایا جا سکتا ہے مگر تصورات اور خیالات کو ختم کرنا بہت مشکل ہے۔
مطلق العنانی اور جمہوریت میں فرق یہ ہے مطلق العنانی میں ایک شخص لوگوں کو بدلنے کی کوشش کرتا ہے اور جمہوریت میں لوگ اعلیٰ قیادت کو تبدیل کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ ہندتوا بمقابلہ اجتماعیت ہے۔ ایک شخص کے جبر کی جگہ نظریے کے جبر نے لے لی ہے۔ جس طرح جو عید کی خریداری کر کے واپس گھر جانے والے جنید کو چاقو کے وار کرکے قتل کیا گیا وہ نظریے کے جبر کی مثال ہے۔ اس کے قتل کے ذمے دار افراد نے اس کے مسلمان ہونے کی وجہ سے پہلے اس سے زیادتی کی۔
المیہ یہ ہے کہ جن افراد نے آزاد ہندوستان کے لیے جدوجہد کی وہ کسی کھاتے میں نہیں ہیں اور جو اس جدوجہد میں پیش پیش نہیں تھے وہ ملک پر حکومت کر رہے ہیں۔ ہندتوا کی آوازیں اس وقت کہاں تھیں جب گوروںنے جواہر لعل نہرو، مہاتما گاندھی اور مولانا آزاد کو کوڑے مارے تھے؟کچھ لبرل آوازیں ایسی ہیں جو تحریک آزادی اور اس کی قیادت کرنے والے مہاتما گاندھی کو یاد کرتی ہیں، مگر حکمران جماعت کا زور اس فلسفہ پر ہے جس کو کثیر ثقافتی ملک میں جس کے لیے وطن جدوجہد کر رہا تھا میں نا پسند کیا جاتا تھا۔
سرکاری ملازمین کو ہندتوا کا لبادہ اوڑھے دیکھنا بہت ہی المناک ہے۔ اترپردیش میں جہاں بی جی پی برسراقتدار آئی ہے، وزیراعلیٰ ادیتہ ناتھ یوگی نے اپنی پارٹی کے فلسفہ کے قریب سمجھے جانے والے افسروں کو تعینات کرنے کے لیے چھبیس سیکریٹریوں کو تبدیل کر دیا ہے۔یہ مرکز سے بہت ہی مختلف ہے جہاں اطلاع کے مطابق وزیراعظم اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے نہ نبھانے والے سیکریٹریوں کو وارننگ دیتے ہیں۔
سول سروس مودی کو ایک ایسے حکمران کے طور پر دیکھتی ہے جو کام کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ اب تک ایسے بہت کم شواہد ہیں کہ نریندر مودی نظریہ سے بالا تر ہوسکتے ہیں۔ ان کے پانچ سالہ مدت کے دو سال ابھی باقی ہیں۔ شاہد اب وہ ملک کو پارٹی سے مقدم رکھنے کے لیے کچھ سخت فیصلے کریں۔
(ترجمہ :تجمل یوسف)