صحت مند معاشرہ ہمارا مشن ہے فوڈ اتھارٹی کادائرہ کار بڑھایا جارہا ہے نورالامین مینگل

ڈائریکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی نورالامین مینگل کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو


فوڈ سکیورٹی کے بعد اب فوڈ سیفٹی پر فوکس کر رہے ہیں، ڈائریکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی۔ فوٹو: ایکسپریس

ڈائریکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی نور الامین مینگل کا کہنا ہے کہ غذائیت سے بھرپور خوراک صحت مند زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے جس کے لیے دنیا بھر میں کام ہورہا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں ناقص اور ملاوٹ زدہ اشیاء کی بھرمار ہے جن کی وجہ سے لوگوں کو مختلف قسم کی بیماریاں لاحق ہورہی ہیں۔ سبزیاں، پھل، مشروبات، گھی، تیل، دودھ غرض کے کھانے پینے کی کوئی بھی چیز ملاوٹ سے پاک نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بیمار اور مردہ جانوروں کے گوشت کے ساتھ ساتھ حرام جانوروں کا گوشت بھی بعض جگہ فروخت ہورہا ہے جو انتہائی افسوسناک ہے۔ ملاوٹ پر قابو پانے کیلئے حکومت کام کررہی ہے۔ اس سلسلے میں پنجاب فوڈ اتھارٹی بنائی گئی ہے جو کافی متحرک نظر آرہی ہے۔

حکومت کی جانب سے دعوے تو بہت کیے جارہے ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کس حد تک کامیابی ہوتی ہے۔ حکومت ملاوٹ روکنے کے لیے کیا اقدامات کررہی ہے؟ وفاقی و صوبائی سطح پر کس طرح کام ہورہا ہے؟ فوڈ سیفٹی کے حوالے سے حکومت کا کیا لائحہ عمل ہے و اس طرح کے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے کے لیے گزشتہ دنوں پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل نور الامین مینگل کو ''ایکسپریس فورم'' میں مدعو کیا گیا جس میں ان سے سیرحاصل گفتگو ہوئی جو نذر قارئین ہے۔



نورالامین نے کہا کہ جب بطور ڈائریکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی کا چارج سنبھالا تو سب سے پہلے پنجاب فوڈ اتھارٹی ایکٹ 2011ء کا تفصیلی مطالعہ کیا۔ مجھے احساس ہوا کہ یہ ایکٹ انتہائی جامع ہے جس کے تحت ایک بہت بڑا ادارہ بننا چاہیے تھا مگر ہم نے اسے لاہور تک محدود رکھا ہوا تھا۔ درحقیقت یہ ایکٹ فارم سے مارکیٹ اور انڈسٹری سے گھر کی میز تک ہر چیز کا احاطہ کرتا ہے۔ اس ایکٹ میں چھوٹی سے چھوٹی چیز کا خیال رکھا کیا گیا ہے یہاں تک کہ کھانے کی چیز کو اخبار میں پیک کرنے کی بھی ممانعت ہے کیونکہ اس کاغذ میں رنگ اور سیاسی کی صورت میں کیمیکل ہوتا ہے جو نقصان دہ ہے۔

اسی طرح چکن فیڈ کے حوالے سے بھی فوڈ اتھارٹی کے پاس اختیارات ہیں کہ اسے چیک کرے کیونکہ اگر اس میں کوئی ناقص یا نقصاندہ چیز شامل ہو تو اس سے مرغی کی صحت متاثر ہوسکتی ہے اور اسے کھانے والا انسان بیماریوں کا شکار ہوسکتا ہے۔ میرے نزدیک فوڈ اتھارٹی کا محکمہ 1947ء میں بننا چاہیے تھا مگر نہیں بنا جس کی وجہ سے آج ہمیں خوراک کے مسائل درپیش ہیں۔بچے غذائی کمی کا شکار ہیں، خواتین میں وٹامن و فولاد کی کمی ہے جبکہ مردوں میں بھی ایسے مسائل ہیں۔ مہذب معاشروں میں فوڈ سکیورٹی اور فوڈ سیفٹی کو یقینی بنایا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو خوراک کی کمی اور بیماریوں سے بچایا جا سکے۔

ماضی میں فوڈ سکیورٹی پر کام ہوا اس کیلئے پاسکو و دیگر ادارے موجود تھے لیکن فوڈ سیفٹی معیار پر توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی اس کیلئے کوئی ادارہ قائم ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے فوڈ سیفٹی کا محکمہ ہی موجود نہیں تھا جس کی وجہ سے مسائل بہت زیادہ ہیں تاہم اب وزیراعلیٰ پنجاب نے فوڈ سیفٹی کیلئے ایک بااختیار ادارہ قائم کیا ہے جس کے پاس غیر معیاری اشیاء بنانے والوں کوبغیر نوٹس کے سربمہر کرنے کا اختیار موجود ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی ایک مضبوط اتھارٹی ہے جبکہ کسی اور اتھارٹی کے پاس اتنے اختیارات نہیں ہیں۔

فوڈ سیفٹی ایکٹ پڑھنے کے بعد میں نے لائحہ عمل تیار کیا کہ کس طرح آگے بڑھنا چاہیے۔ اس کے لیے سب سے پہلے سٹرکچرل ریفارمز کی ضروت تھی۔ ہمارے پاس صرف ایک ڈائریکٹر جبکہ دو ڈپٹی ڈائریکٹر تھے مگر اب محکمے میں 11ڈائریکٹر موجود ہیں جو مختلف چیزوں پر کام کررہے ہیں۔ غیر معیاری اشیاء کے تدارک اور جعلی فوڈ انسپکٹرز کے خلاف انٹیلی جنس بیسڈ کارروائیاں کی جارہی ہیں۔ آگاہی دینا انتہائی ضروری ہے،اس پر بھی ایک ڈائریکٹر کام کررہے ہیں۔ آگاہی صرف عام لوگوں کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ یہ خوراک کا کاروبار کرنے والوں کا بھی حق ہے۔ اس حوالے سے بھرپور کام ہورہا ہے تاکہ خامیوںکو دور کیا جاسکے۔

ہمارا آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ قائم ہوچکا ہے جس کے ذریعے برانڈ کی رجسٹریشن کے لیے اب کاغذی درخواست کی ضرورت نہیں بلکہ آن لائن درخواست دی جاسکتی ہے۔ ہمارے محکمے میں ڈائریکٹر مانیٹرنگ بھی موجود ہیں جن کا کام چیزوں کو مانیٹر کرنا ہے۔ ہم نے لاہور میں سختی کی تو ملاوٹ و کرپٹ مافیا دیگر علاقوں کا رخ کرگیا۔ اب ہم اسے پورے پنجاب میں پھیلانے پر کام کررہے ہیں اور رواں سال اس میں کافی حد تک کامیابی ہوجائے گی۔ اس کیلئے وزیراعلیٰ پنجاب نے 63کروڑ روپے کے فنڈز بھی جاری کیے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے تمام محکموں سے ہر قسم کی اجازت لے دی ہے تاکہ کسی بھی کام میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ خوراک کے حوالے سے قانون سازی میں کمی تھی۔ ہم نے 9ریگولیشن بنائے جبکہ 1963ء کے فوڈ سیفٹی سٹینڈرڈز کو بھی اپ ڈیٹ کیا۔

دیسی کھانے، آلو چاٹ، سری پائے وغیرہ اس میں شامل نہیں تھے جبکہ اب 16اشیاء کو اس میں شامل کردیا گیا ہے۔ پہلی مرتبہ الکوحل بھی اس میں شامل کی گئی ہے تاکہ اس کا معیار چیک کیا جاسکے۔الکوحل کو فوڈ ڈیپارٹمنٹ کے دائرہ کار میں شامل کرنے کا مقصد شراب کا فروغ نہیں ہے بلکہ اقلیتوں کی صحت کا تحفظ ہے۔ غیر قانونی شراب بنانے والوں کے خلاف تو کارروائی ہوتی رہی ہے تاہم اب لائسنس یافتہ کمپنیوں کا معیار بھی چیک کیا جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ شراب کی بوتل پر اس کے نقصانات کے حوالے سے آگاہی پیغام دینے کا پابند بھی کیا جائے گا۔

قیام پاکستان سے اب تک 3شراب کی فیکٹریاں ہیں۔ چونکہ یہ اسلامی ملک ہے اس لیے نئی فیکٹری نہیں لگائی گئی تاہم معیار چیک کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ بعض علاقوں میں غیر قانونی شراب کی بھٹیاں قائم ہیں، اگر یہ صحیح شراب بھی بنا رہی ہیں تو ان کی پکڑ ہونی چاہیے کیونکہ اس کی اجازت نہیں ہے۔ الکوحل بنانے والی فیکٹریوں کی آج تک انسپیکشن نہیں ہوئی ۔ دنیا بھر میں فوڈ اتھارٹیز ہی ان کا معیار چیک کرتی ہیں۔ اگر سیفٹی کے مسائل ہوئے تو ہم ان فیکٹریوں کو بند بھی کرسکتے ہیں۔

فوڈ سیفٹی کے معیارات کے حوالے سے کتابچہ پہلے 80صفحات پر مشتمل تھا مگر اب اس کے 600 صفحات ہیں۔اسے شائع کرکے تقسیم کیا جائے گا اورپھر اس پر عملدرآمد ہوگا۔ جامع قانون بن چکا ہے جبکہ 3سے 4برسوں میںاس پر صحیح معنوں میں عملدرآمد ہوجائے گا۔ ہم نے یورپ و دیگر ترقی یافتہ ممالک کے معیار کو مدنظر رکھا ہے۔ اس حوالے سے آٹے، دودھ و دیگر کھانے پینے والی اشیاء میں خاص اجزاء شامل کرنے کو لازم قرار دے دیا گیا ہے تاکہ لوگوں کو اچھی غذاء کی فراہمی ممکن ہوسکے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی اب ایک ادارہ بن چکی ہے۔ 450فوڈ ٹیکنالوجسٹ ہیں جبکہ ان کی مدد کیلئے 2000 ملازمین ہیں۔

فوڈ ایمبیسڈر پروگرام کے تحت طلباء کو بھی آن بورڈ لیا جا رہا ہے تاکہ وہ اپنے تعلیمی اداروں و دیگر جگہوں پر غیر معیاری اشیاء کی فروخت کرنے والوں پر نظر رکھیں اور بعدازاں ان عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ اس وقت فوڈ سیفٹی آفیسرز کی ڈیمانڈہے۔ اس کو پورا کرنے کیلئے ہم چھ ماہ پر مشتمل انٹرن شپ پروگرام متعارف کروارہے ہیں جس میںلوگوں کو فوڈ سیفٹی کی تربیت دی جائے گی۔ بعد ازاں یہ فوڈ سیفٹی افسران مختلف فیکٹریوں کی فوڈ سیفٹی میں مشاورت کریں گے۔ ہر تحصیل میں ایک انٹرن فوڈ سیفٹی ٹیم کا حصہ ہوگا جبکہ اسے ماہانہ 10ہزار روپے وظیفہ دیا جائے گا۔

20 لاکھ کے قریب ڈھابے اور ریڑھیاں ہیں جنہیں چیک کرنا مشکل ہے۔ اس لیے ہم سپلائرز پر نظر رکھے ہوئے ہیں تاکہ ناقص اشیاء کی سپلائی روکی جا سکے۔ لاہور میں ریستوران ، جوس کارنر و غیرہ کے مابین مقابلے کی فضا پیدا کرنے کیلئے ''کیفے آف دی منتھ'' اور ''جوس کارنر آف دی منتھ'' کی ریٹنگ جاری کی جائے گی، اس کے لیے محکمے کی ٹیم ان کا معیار چیک کرنے کے بعد فیصلہ دے گی۔ اس طرح لوگ خود اس دوڑ میں بھاگیں گے اور معیار میں بہتری آئے گی۔

پنجاب فوڈ اتھارٹی کی وجہ سے اب کھانے پینے کے کاروبار میں پیشہ وارانہ مہارت اور معیار کا خیال رکھا جا رہا ہے جس سے بہتری آرہی ہے۔ ہمارا مشن صحت مند معاشرہ ہے کیونکہ زیادہ تر بیماریاں غیر معیاری اشیائے خورو نوش کی وجہ سے ہورہی ہیں۔ اگر فوڈ انڈسٹری ٹھیک ہوجائے تو ہسپتالوں کا بوجھ ایک چوتھائی رہ جائے گا اور ہمیں نئے ہسپتال بنانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ کھلی چیزوں کی فروخت میں ملاوٹ زیادہ ہے، اب ہم دودھ و دیگر اشیاء کی پیکنگ کے حوالے سے اقدامات اٹھا رہے ہیں تاکہ ملاوٹ پر قابو پایا جاسکے۔ اس کے لیے یہ لازمی قرار دیا جائے گا کہ جس جگہ دودھ حاصل کیا جارہا ہے وہاں ہی اس کی پروسیسنگ ہو اور اسے پیک کیا جائے۔ اس کے لیے پانچ برس کا وقت دیا ہے جبکہ کھلے مصالحہ جات کیلئے ڈیڑھ برس کی مہلت دی گئی ہے، اس کے بعد ان سب کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

ناقص گھی و تیل بیماریوں کا سبب بن رہا ہے جو کینسر اور کم عمر کی طرف لے جارہا ہے۔ گھی و تیل کا کاروبار کرنے والوں کے ساتھ دو میٹنگز ہوئی ہیں، انہیں معیار کو بہتر بنانے کیلئے مناسب وقت دیا گیا جس کے بعد سخت کارروائی کی جائے گی۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی بہتر کام کررہی ہے، فیکٹری، ریستوران و دیگر جگہوں پر ہم چیکنگ کررہے ہیں جبکہ نیوٹریشن انڈیکس پر بھی ہماری نظر ہے اور ہم حکومت کو بہتری کیلئے سفارشات بھی دے رہے ہیں۔ میرے نزدیک یہ اتھارٹی بہترین ہے دیگر صوبوں کو بھی جلد از جلد اسے قائم کرنا چاہیے تاکہ صحت مند خوراک یقینی بنائی جاسکے۔

جب بڑی فیکٹریوں کو دس لاکھ روپے جرمانہ کیا جاتا تھا تو وہ جرمانے کی رقم با آسانی ادا کردیتے تھے مگر ناجائز کام جاری رکھتے ہیں۔ اس لیے اب جرمانے کی رقم ڈیڑھ لاکھ سے بڑھا کر ڈیڑھ کروڑ روپے کردی گئی ہے تاکہ انہیں روکا جاسکے۔ ماضی میں جس طرح شک کی بنیاد پر حرام گوشت پکڑے جانے کی تشہیر کی گئی اس سے نہ صرف عوام کو پریشانی ہوئی بلکہ پاکستان کی ساکھ بھی متاثر ہوئی۔ میڈیا پر بریکنگ نیوز دی جاتی رہی جبکہ بعدازاں اس گوشت کی ڈی این اے رپورٹ بھی ظاہر نہیں کی گئی۔ اب اس روایت کا خاتمہ کردیا گیا ہے جبکہ بعض افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی بھی کی گئی ہے۔

میں نے تمام افسران کو ہدایت جاری کی ہے کہ جب تک سائنسی بنیادوں پر کوئی چیز غلط ثابت نہیں ہوتی تب تک اس پر کوئی بیان سامنے نہیں آنا چاہیے۔ فش، ڈیری اور پولٹری فارموں میں جانوروں، مچھلیوں اور مرغیوں کو دی جانے والی خوراک کو عالمی معیار کے مطابق چیک کیا جارہا ہے جبکہ فیڈ بنانے والی کمپنیوں کو بھی اچھے معیار کی فیڈ بنانے کا پابند کررہے ہیں۔ اس حوالے سے معیار بنایا جارہا ہے جبکہ فیڈ میں ادویات اور سٹیرائڈز استعمال کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔

پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ مرغیوں کے حوالے سے محکمہ لائیو سٹاک کام کرے گا لیکن جب یہ مرغیاں مارکیٹ میں آجاتی ہیں تو اس پر فوڈ اتھارٹی کام کرسکتی ہے کیونکہ یہ بھی خوراک ہے۔ اس لیے اب تک ٹولنٹن مارکیٹ میں ہزاروں مردہ مرغیوں کو تلف کیا گیا ہے جبکہ بیمار مرغیوں کو ذبح کرکے جلا دیا گیا اور ذمہ داروں کو سخت سزا بھی دی گئی ہے۔ ہم ایسا کاروبار کرنے والوں کا لائسنس بھی منسوخ کررہے ہیں تاکہ انہیں روکا جاسکے۔ ہفتے میں ایک ،ایک دن گوشت اوردودھ کا معیار چیک کیا جاتا ہے، ہم اپنی لیب کے بجائے دیگر لیبارٹیوں سے ٹیسٹ کروا رہے ہیں تاکہ کسی قسم کا کوئی شک نہ رہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔