دران بیچ سمندری کچھوؤں کی افزائش گاہ

میرین ڈرائیو اور کمرشل زون بننے کے بعد سمندری حیات خاص کر کچھوے کی معدوم ہوتی نسل پر اُس کے منفی اثرات ہوسکتے ہیں۔


ظریف بلوچ July 10, 2017
دران کے علاوہ اسٹولا جزیرہ اور اورماڑہ کے ساحل تک سبز کچھوے پائے جاتے ہیں، اور ان علاقوں میں سبز کچھوؤں کی زبردست افزائش نسل ہوتی ہے۔

مکران کے ساحلی علاقوں میں قدرتی حُسن کے ایک سے بڑھ کر ایک نہ ختم ہونے والے دلکش مناظر کا سلسلہ موجود ہے۔ مکران کے ساحل کنارے ہنگول کے سنگلاخ اور لاوا اُبلتے ہوئے آتش فشاں پہاڑ، کنڈ ملیر کی پہاڑیاں، صحرائی اور سمندری مناظر اور پاکستان کا سب سے بڑا جزیرہ اسٹولا بھی موجود ہے جو اپنی خوبصورتی اور سمندری حیات کی وجہ سے سیاحوں کو ملک کے طول و عرض سے اپنی جانب کھینچ کر لاتا ہے۔

مکران کے سیاحتی پوائنٹ میں سے ایک اہم اور تاریخی علاقہ جیوانی کے علاقے میں موجود ''دران بیچ'' بھی ہے۔ جیوانی ضلع گوادر کی تحصیل ہے جس کی سرحدیں ایران بارڈر سے ملتی ہیں۔ یہ گوادر سے نوے (90) کلومیٹر دور مغرب میں واقع ہے، اور دران بیچ جیوانی شہر سے 10 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ایک اہم سیاحتی مرکز ہے جو ایک کچی اور دشوار گزار سڑک سے گزر کر آتا ہے۔ تین اطراف پہاڑوں کے دامن میں واقع دران بیچ کچھوؤں کی افزائشِ نسل کے حوالے سے ایک محفوظ پناہ گاہ ہے۔ دران ایک ریتیلا ساحل ہے اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق بھی دران بیچ سمندری حیات کے لئے محفوظ پناہ گاہ ہے۔

میرین بیالوجسٹ فشریز اسد اللہ بلوچ کہتے ہیں کہ دران کے علاوہ اسٹولا جزیرہ اور اورماڑہ کے ساحل تک میں بھی سبز کچھوے پائے جاتے ہیں، اور اِن علاقوں میں سبز کچھوؤں (Green turtle) کی افزائش نسل ہوتی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے ساحل پر پانچ اقسام کے سمندری کچھوے پائے جاتے ہیں اور زیادہ تر سبز کچھوے (Chelonia mydas) دران بیچ پر پائے جاتے ہیں۔



سماجی کارکن اور رائٹر گلزار گچکی کا کہنا ہے کہ دران بلوچستان کا ایک اہم ساحل ہے جو کہ کچھوؤں کی افزائشِ نسل، بین الاقوامی ایکو سسٹم، ماحولیات اور میرین لائف پروٹیکشن کے لئے اہم ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ دران بیچ چونکہ آبادی سے دور اور کمرشل ایریا نہ ہونے کی وجہ سے کچھووں کے لئے اہم اور محفوظ ہے، یہاں وہ آسانی کے ساتھ آتے جاتے ہیں اور اِس ساحل پر انڈے دیتے ہیں۔ دران بیچ کی میرین لائف پروٹیکشن کے حوالے سے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے مختلف پراجیکٹ پر کام کیا ہے۔



ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے دران بیچ کے تحفظ کے حوالے سے میرین ٹرٹل کنزرویشن پروگرام 2000ء میں شروع کیا تھا۔ یہ پروگرام Nest پروٹیکشن پر فوکس تھا۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق آبادی سے دور ہونے کی وجہ سے مقامی لوگوں کو سمندری حیات کی افادیت کی زیادہ معلومات نہیں ہیں، جبکہ کچھوؤں کے انڈوں کو جنگلی جانوروں سے بھی خطرات لاحق ہیں۔

2008ء میں وزارت جنگلی حیات پاکستان نے ویٹ لینڈ پروگرام کی منصوبہ بندی کی تھی جس میں سمندری کچھوؤں کو سیٹلائیٹ ٹرانسمیٹر لگائے گئے تھے تاکہ اُن کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے ساتھ یہ مشاہدہ کیا جائے کہ پاکستان میں پائے جانے والے میرین ٹرٹل کہاں تک سفر کرتے ہیں۔ اِس حوالے سے گوادر سے تعلق رکھنے والے عبدالرحیم بلوچ جو کہ ماہر حیاتیات اور میرین لائف پر کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ یہ ٹرانسمیٹر جو کہ کچھوؤں کو لگائے گئے تھے اُن سے یہ اندازہ ہوا کہ مکران کے ساحلی علاقوں میں پائے جانے والے کچھوؤں نے دبئی، ایران، بھارت اور عمان کے ساحل تک کا سفر طے کیا۔

اسد اللہ بلوچ کہتے ہیں کہ میرین ٹرٹل کا نیسٹنگ سیزن جولائی میں شروع ہوتا ہے لیکن نومبر میں اِس کا سیزن عروج پر ہوتا ہے اور کچھوے ساحل کنارے پر نیسٹ میں انڈہ دینے کے بعد واپس سمندر میں جاتے ہیں۔ عبدالرحیم بلوچ کہتے ہیں کہ کچھوؤں کی نسل انتہائی معدوم ہوتی جارہی ہے اور ہزار میں سے سے صرف ایک بچہ زندہ بچتا ہے، اور انڈہ دینے کے بعد 40 سے 45 دنوں کے بعد ان انڈوں سے بچے پیدا ہوتے ہیں۔



نیسٹگ علاقہ کی پروٹیکشن اہم ہے کیونکہ لوگوں میں سمندری حیات کے حوالے سے شعور کی کمی کی وجہ سے لوگ کچھوے کے انڈے استعمال کرتے ہیں، جبکہ بعض لوگ فالج کے مرض کے علاج کے لئے کچھوے کے خون کو استعمال کرتے ہیں، جس سے کچھوے کی نسل کو خطرات لاحق ہیں۔

دران بیچ سیاحوں کے لئے ایک بہترین پکنک پوائنٹ بھی ہے، جہاں سیاحوں کی بڑی تعداد آتی ہے۔ عید اور چھٹیوں کے موقع پر یہاں سیاحوں کا رش لگ جاتا ہے۔ دران بیچ میں بڑ کے درخت بھی پائے جاتے ہیں جنہیں مقامی افراد 'کرگ' کہتے ہیں۔

گوادر کے ڈویلپمنٹ پروگرام کو مدنظر رکھتے ہوئے اِس بات کے قوی امکانات ہیں کہ میرین ڈرائیو اور کمرشل زون بننے کے بعد میرین لائف خاص کر کچھوے کی معدوم ہوتی نسل پر اُس کے منفی اثرات ہوسکتے ہیں۔ دوسری جانب پریشان کن امر یہ ہے کہ اِس وقت دران کی میرین لائف کی پروٹیکشن پر کوئی ادارہ کام نہیں کررہا ہے، جبکہ ماہرین نے اِس بات پر زور دیا ہے کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف کو اپنا پروگرام جاری رکھنا چاہیئے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصرمگر جامع تعارف کیساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں