سپریم کورٹ نے ’’جنگ گروپ‘‘ کو نوٹس جاری کردیا
عدالت عظمیٰ نے جے آئی ٹی معاملات آئی ایس آئی کے حوالے کرنے کی خبر شائع کرنے کا نوٹس لیا
سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی امور آئی ایس آئی کے حوالے کرنے کی متنازع خبر شائع کرنے پر روزنامہ جنگ کونوٹس جاری کرتے ہوئے 7 روز میں جواب طلب کرلیا۔
سپریم كورٹ نے جے آئی ٹی امور آئی ایس آئی كے حوالے كرنے كی متنازع خبر شائع كرنے اور پاناما بینچ كے فاضل جج كو فون كرنے پر روزنامہ جنگ كواظہار وجوہ كانوٹس جاری كرتے ہوئے 7 روز میں جواب طلب كرلیا۔ عدالت عظمی نے جنگ گروپ اور دی نیوز كے مالكان میر شكیل الرحمان، میر جاوید الرحمان اور خبر دینے والے رپورٹر احمد نورانی كو شوكاز نوٹس جاری كردیا۔
جسٹس اعجاز نے ریماركس دیئے كہ دی نیوز اور جنگ گروپ كی خبر براہ راست توہین عدالت ہے اس لیے عدالت میں پیش ہو كر وضاحت كریں كہ آئین كی شق 204 كے تحت كیوں نہ آپ كے خلاف توہین عدالت كی كارروائی كی جائے۔ عدالت نے سركاری اشتہارات كی مد میں ان اخبارات كو دی گئی رقوم كی تفصیلات بھی طلب كرلی ہیں۔
سپریم كورٹ نے اٹارنی جنرل كو سركاری اشتہارات كی تفصیلات فراہم كرنے كا حكم دیتے ہوئے كہا كہ بتایا جائے كہ حكومت نے كس میڈیا گروپ كو كتنے اشتہار دیے۔ جسٹس اعجاز افضل خان كا كہنا تھا 21جون كو جنگ اور دی نیوز میں غلط خبر شائع كی گئی اس رپورٹر نے بینچ كے ایك ركن سے رابطہ كیا اور سیكیورٹی كے معاملات كے بارے میں پوچھا اس كو كہا گیا كہ ججز عدالت میں فیصلوں كے ذریعے بولتے ہیں تاہم اس كے باوجود خبرشائع كی گئی۔
اس موقع پر جج نے کمرہ عدالت میں موجود جنگ گروپ کے نمائندے کو روسٹرم پر طلب کرکے خبر سے متعلق استفسار کیا، جس پر جنگ گروپ کے نمائندے نے کہا کہ جس رپورٹر نے خبر شائع کی، وہ میں نہیں۔ جسٹس اعجاز نے ریمارکس دیے کہ جس نے خبر فائل کی وہ چھپ کر بیٹھا ہے، جنگ کے رپورٹر احمد نورانی نے جج سے رابطہ کرنے کی جرات کیسے کی۔
جسٹس اعجاز نے کہا کہ عدالت کے جواب کے باوجود صحافی نے دو بار رابطے کی کوشش کی، دی نیوز اور جنگ گروپ کی یہ خبر براہ راست توہین عدالت ہے، ماضی میں بھی ایک وزیراعظم نے جج سے رابطے کی کوشش کی جس کا نتیجہ سب کو پتہ ہے۔
سپریم كورٹ نے جے آئی ٹی امور آئی ایس آئی كے حوالے كرنے كی متنازع خبر شائع كرنے اور پاناما بینچ كے فاضل جج كو فون كرنے پر روزنامہ جنگ كواظہار وجوہ كانوٹس جاری كرتے ہوئے 7 روز میں جواب طلب كرلیا۔ عدالت عظمی نے جنگ گروپ اور دی نیوز كے مالكان میر شكیل الرحمان، میر جاوید الرحمان اور خبر دینے والے رپورٹر احمد نورانی كو شوكاز نوٹس جاری كردیا۔
جسٹس اعجاز نے ریماركس دیئے كہ دی نیوز اور جنگ گروپ كی خبر براہ راست توہین عدالت ہے اس لیے عدالت میں پیش ہو كر وضاحت كریں كہ آئین كی شق 204 كے تحت كیوں نہ آپ كے خلاف توہین عدالت كی كارروائی كی جائے۔ عدالت نے سركاری اشتہارات كی مد میں ان اخبارات كو دی گئی رقوم كی تفصیلات بھی طلب كرلی ہیں۔
سپریم كورٹ نے اٹارنی جنرل كو سركاری اشتہارات كی تفصیلات فراہم كرنے كا حكم دیتے ہوئے كہا كہ بتایا جائے كہ حكومت نے كس میڈیا گروپ كو كتنے اشتہار دیے۔ جسٹس اعجاز افضل خان كا كہنا تھا 21جون كو جنگ اور دی نیوز میں غلط خبر شائع كی گئی اس رپورٹر نے بینچ كے ایك ركن سے رابطہ كیا اور سیكیورٹی كے معاملات كے بارے میں پوچھا اس كو كہا گیا كہ ججز عدالت میں فیصلوں كے ذریعے بولتے ہیں تاہم اس كے باوجود خبرشائع كی گئی۔
اس موقع پر جج نے کمرہ عدالت میں موجود جنگ گروپ کے نمائندے کو روسٹرم پر طلب کرکے خبر سے متعلق استفسار کیا، جس پر جنگ گروپ کے نمائندے نے کہا کہ جس رپورٹر نے خبر شائع کی، وہ میں نہیں۔ جسٹس اعجاز نے ریمارکس دیے کہ جس نے خبر فائل کی وہ چھپ کر بیٹھا ہے، جنگ کے رپورٹر احمد نورانی نے جج سے رابطہ کرنے کی جرات کیسے کی۔
جسٹس اعجاز نے کہا کہ عدالت کے جواب کے باوجود صحافی نے دو بار رابطے کی کوشش کی، دی نیوز اور جنگ گروپ کی یہ خبر براہ راست توہین عدالت ہے، ماضی میں بھی ایک وزیراعظم نے جج سے رابطے کی کوشش کی جس کا نتیجہ سب کو پتہ ہے۔