جے آئی ٹی کی وزیراعظم کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کرنے کی سفارش

شریف خاندان کی آمدن اور طرز رہائش مطابقت نہیں رکھتیں، جے آئی ٹی رپورٹ

شریف فیملی کی آف شورکمپنیوں کو برطانیہ میں فنڈز کی ترسیل کے لیے استعمال کیا گیا، جے آئی ٹی رپورٹ : فوٹو: فائل

پاناما کیس کی جے آئی ٹی کا کہنا ہے کہ شریف خاندان کی آمدن اور طرز رہائش مطابقت نہیں رکھتیں لہذٰا ان کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کیا جائے۔

سپریم کورٹ میں پاناما کیس کے حوالے سے جے آئی ٹی کی پیش کردہ رپورٹ ایکسپریس نیوز نے حاصل کرلی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عدالت نوازشریف، حسین اور حسن کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کرے۔

پاناما لیكس معاملہ كی تحقیقات كرنے والی مشتركہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) كی طرف سے شریف خاندان كے رہن سہن اور ذرائع آمدن كے درمیان عدم توازن كی نشاندہی كرتے ہوئے نتیجہ اخذ كیا ہے كہ اگر كسی كے خلاف معلوم ذرائع سے زائد كے اثاثے ہوں تو ان كے خلاف نیب آرڈیننس كے تحت كارروائی كی جاسكتی ہے۔



جے آئی ٹی نے رپورٹ میں شریف خاندان كی 3 مزید آف شوركمپنیز كا انكشاف بھی ہوا ہے جو كہ الانا سروسز، لینكن ایس اے اور ہلٹن انٹرنیشنل سروسز ہیں، اس سے قبل نیلسن، نیسكول اور كومبر گروپ نامی كمپنیز منظرعام پر آئی تھیں جب کہ آف شور كمپنیوں نیلسن اور نیسكول مریم نواز كی ملكیت ہیں۔



رپورٹ میں بتایا گیا کہ بےقاعدہ ترسیلات لندن کی ہل میٹل کمپنی، یو اے ای کی کیپٹل ایف زیڈ ای کمپنیوں سےکی گئیں، رقوم سعودی عرب میں ہل میٹل کمپنی کی جانب سے ترسیل کی گئیں، نوازشریف اور ان کے صاحبزادے حسین اور حسن نواز جےآئی ٹی کے سامنے رقوم کی ترسیلات کی وجوہات بھی نہیں بتا سکے، مدعاعلیہان کی ظاہرکردہ دولت اور ذرائع آمدن میں واضح فرق ہے پاکستان میں موجود کمپنیوں کا مالیاتی ڈھانچہ مدعاعلیہان کی دولت سے مطابقت نہیں رکھتا جب کہ شریف خاندان کی آمدن اور طرز رہائش بھی ایک جیسا نہیں۔




رپورٹ میں جے آئی ٹی نے شریف خاندان كی منی ٹریل پر عدم اطمینان كا اظہار بھی كیا ہے اور كہا ہے كہ مریم نواز كی نیسكول اور نیلسن كمپنیوں كی ملكیت ثابت ہو گئی ہے، شریف خاندان كی بڑی رقوم اور تحائف میں بہت بے ضابطگیاں ہیں، وزیر اعظم اور ان كے بچوں كی ظاہر آمدن اور اثاثوں میں واضح تضاد ہے۔

جے آئی ٹی كی رپورٹ میں مزید كہا گیا ہے كہ اسی اور نوے كی دہائی میں آف شور كمپنیاں بنانے كے وقت نواز شریف كے پاس سركاری عہدہ بھی تھا، یو اے ای كی كمپنی ایف زیڈ ای سے بھی غیرقانونی ترسیلات كی گئیں ، یہ كمپنیاں بینكوں اور دوسرے اداروں سے قرض لے كر بنائی گئیں، كمپنیوں كے قیام كے وقت معمولی رقم مالكان نے اپنی طرف سے دی، اكثر كمپنیاں مكمل طور پر فنكشنل نہیں ہیں یا خسارے میں جا رہی ہیں، ان كمپنیوں میں محمد بخش ٹیكسٹائل ملز، حدیبیہ پیپر ملز، حدیبیہ انجینئرنگ كمپنی، حمزہ بورڈ ملز، مہران رمضان ٹیكسٹائل ملز شامل ہیں ۔ خراب كاركردگی اور نقصان میں جانے كے باعث چند سالوں كے علاوہ ان كمپنیوں كے منافع كو ظاہر نہیں كیا گیا۔

جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں مزید كہا ہے كہ طارق شفیع بی سی سی آئی كے 9 ملین درہم كے ڈیفالٹر تھے، یو اے ای حكومت نے طارق شفیع كے تمام ریكارڈ كو جھٹلایا، ال احالی سٹیل كی فروخت كا معاہدہ جعلی ہے، 1980ءمیں ال احالی سٹیل كے 25 فیصد شیئرز كی فروخت كا ریكارڈ موجود نہیں ہے۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: پاناما جے آئی ٹی کے حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں پی

جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں كہا یہ بات كہ لندن كی پراپرٹیز اس بزنس كی وجہ سے تھیں یہ آنكھوں میں دھول جھونكنے كے مترادف ہے، حسن نواز كی لندن میں جو فلیگ شپ اونر كمپنی اور جائیدادیں ہیں اس میں بھی تضاد پایا جاتا ہے كیونكہ برطانیہ كی كمپنیاں نقصان میں تھیں مگر بھاری رقوم كی ریوالونگ میں مصروف تھیں۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا چیرمین ایس ای سی پی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم

رپورٹ میں استدعا کی گئی ہے کہ جے آئی ٹی مجبور ہے کہ معاملے کو نیب آرڈیننس کے تحت ریفر کردے کیوں کہ نیب آرڈیننس سیکشن 9 اے وی کے تحت یہ کرپشن اور بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے۔
Load Next Story