نریندر مودی کی اسرائیل یاترا

کسی بھی بھارتی وزیراعظم کا اسرائیل کا یہ پہلا دورہ تھا۔


Shakeel Farooqi July 11, 2017
[email protected]

KARACHI: بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے پیروں میں آج کل بلیاں بندھی ہوئی ہیں۔ وہ ایک کے بعد ایک وِدیش یاترائیں کرنے میں مصروف ہیں۔ ایک یاترا ختم ہوتے ہی دوسری یاترا شروع ہوجاتی ہے۔ ان تمام یاتراؤں کا مقصد بھارت کے لیے ہتھیار بٹورنا اور پاکستان کے خلاف جارحانہ سفارت کاری کی تیزتر کرناہے تاکہ پاکستان کو کمزور کیا جاسکے اور نیچا دکھایا جاسکے۔

مودی جو عملاً ''موذی'' کہلانے کے مستحق ہیں۔ سب سے پہلے دوڑے دوڑے امریکا گئے جہاں انھوں نے امریکی صدر کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے کی کوشش کی۔ یاد رہے کہ یہ وہی امریکا ہے کہ جس نے کسی زمانے میں ان کے امریکا میں داخل ہونے پر سخت پابندی لگائی ہوئی تھی۔

یہ وہ وقت تھا جب مودی کی بدنامی دنیا بھر میں اپنے عروج پر تھی۔ کیونکہ ان کے ہاتھ مسلمانوں کے خون میں رنگے ہوئے تھے۔ ویسے ان کی مسلم دشمنی میں تو اب بھی کوئی کمی نہیں لیکن فرق یہ ہے کہ اب وہ بھارت کے وزیراعظم ہیں۔ چنانچہ اب ان کی حیثیت بہت مختلف ہے۔ یوں بھی ان میں اور امریکا کے موجودہ صدر ٹرمپ میں اس لیے بھی گاڑھی چھن رہی ہے کہ دونوں ہی مسلمانوں کے ازالی دشمن اور خون کے پیاسے ہیں۔ گویا:

کُند ہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر باز با باز

امریکا یاترا میں مودی کی یہی کوشش تھی کہ کسی طرح صدر ٹرمپ پر زیادہ سے زیادہ ڈورے ڈالے جائیں اور انھیں بھارت کے حق میں اور پاکستان کے خلاف رام کیا جائے۔ ان کا بس چلتا تو وہ پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دلوادیتے۔ مگر اس معاملے میں انھیں منہ کی کھانا پڑی۔اس کے علاوہ وہ مسئلہ کشمیر کے بارے میں بھی امریکی پالیسی کا رخ تبدیل کرانے میں بھی بری طرح ناکام رہے۔ اس لحاظ سے ان کی امریکا یاترا کچھ زیادہ کامیاب ثابت نہ ہوسکی۔ وہ پاکستان کے خلاف اپنی مذموم ڈپلومیٹک سازش میں اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کرسکے اور اپنا بنیادی ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہوگئے۔

امریکا کے بعد مودی نے اگلا پڑاؤ اسلام اور مسلمانوں کے ازلی دشمن اسرائیل میں ڈالا اور تل ابیب کی دھرتی پر قدم رکھے جہاں ان کا پُر جوش سواگت ہونا ایک فطری طور پر متوقع امر تھا۔ مسلمانوں کے قاتل کی راہ میں سرخ قالین بچھایا گیا جو مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کی علامت تھا۔ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے بڑے پیار سے اپنے ہم تماش سے جھپی ڈالی اور بغل گیر ہوئے۔ اس منظر کو دیکھ کر ہمیں پنجابی زبان کی یہ دلچسپ کہاوت یاد آگئی کہ '' رب ملائی جوڑی، ایک اندھا ایک کوڑھی''

کسی بھی بھارتی وزیراعظم کا اسرائیل کا یہ پہلا دورہ تھا۔ تاہم اس سے قبل بھارت کے صدر پرنام مکھرجی اور بھارت کے سابق وزیراعظم من موہن سنگھ بحیثیت وزیر خزانہ اسرائیلی قائد رابین کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے اسرائیل کا دورہ کرچکے تھے۔ بھارت نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کانگریسی وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ کی حکومت کے دوران 1992 میں قائم ہوئے تھے جوکہ بھارتی خارجہ پالیسی کی ایک انقلابی تبدیلی تھی۔ کیونکہ اس سے قبل نہ صرف بھارت نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تھا بلکہ پی ایل او کی زبردست حمایت کی تھی۔ پنڈت جواہر لال نہرو کی بیٹی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی فلسطینی رہنما یاسر عرفات کو اپنا بھائی مانتی تھیں اور یاسر عرفات انھیں بہن کہہ کر مخاطب ہوا کرتے تھے۔

مگر اب مودی کی اسرائیل یاترا نے فلسطینیوں کے ساتھ بھارت کے تعلقات کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ مئی کے مہینے میں فلسطینی رہنما محمود عباس نے نئی دہلی کا مختصر دورہ کیا تھا جس میں بھارت کی موجودہ قیادت نے کسی گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ اسرائیلی حکمرانوں اور بھارت کی موجودہ قیادت کے درمیان ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ دونوں ہی آزادی کی جد وجہد کو طاقت کے بل بوتے پر کچلنے کی سر توڑ کوشش میں مصروف ہیں۔

اسرائیل فلسطینیوں پر مظالم ڈھارہا ہے جب کہ بھارت نے آزادی کے متوالے کشمیریوں پر مظلم و تشدد کی انتہاء کر رکھی ہے۔ گویا دونوں ہی خون آشام بھیڑیے بنے ہوئے ہیں اور انسانی آزادی کا چیمپئن امریکا ایک خاموش تماشائی کی طرح اس ظلم و ستم کو بے حسی سے دیکھ رہا ہے۔ اس سے قبل مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی سعودی عرب کا دورہ بھی کرچکے ہیں اور اس کے علاوہ دیگر مسلم ممالک بشمول افغانستان اور ایران کی یاترائیں بھی کرچکے ہیں جس کے حوالے سے صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ:

یزید سے بھی مراسم حسین کو بھی سلام

مسلم ممالک کو سوچنا چاہیے کہ وہ نریندر مودی کے مذموم ارادوں اور مقاصد کو پوری طرح سے سمجھیں اور اس کے بچھائے ہوئے جال میں پھنسنے سے گریزکریں۔ سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ ایک طرف ہنود و یہود کا گٹھ جوڑ زور پکڑ رہا ہے اور دوسری جانب مسلم ممالک ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے بھڑنے اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں۔

اسرائیل اور بھارت کا یہ گٹھ جوڑ در اصل اسلامی دنیا کے لیے خطرے کی ایک زبردست گھنٹی ہے۔ یہ بات انتہائی قابل غور اور خوش آیند ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اس صورت حال کا فوری نوٹس لیا ہے اور اپنے ملک کی عدلیہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں مظلوم مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف ان کی حمایت میں آواز بلند کرے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے 2010 میں بھی مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے صدائے احتجاج بلند کی تھی۔ اس وقت انھوں نے کہا تھا ''اسلامی امہ کے بنیادی فرائض میں یہ بات شامل ہونی چاہیے کہ وہ فلسطینی قوم اور غزہ کے محصور عوام کے حق میں آواز بلند کریں اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی جد وجہد کی حمایت کریں۔''

پاکستانی قیادت کو مودی کی ان یاتراؤں سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور اس حقیقت کو فراموش نہ ہیں کرنا چاہیے کہ سانپ کو کتنا بھی دودھ کیوں نہ پلادیں۔ اس کے زہر میں کوئی کمی نہیں آتی اور وہ ڈسنے کی فطرت سے کبھی باز نہیں آسکتا۔ چنانچہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ بھارت اسرائیل تعلقات کے تناظر میں اپنی خارجہ پالیسی کو نئے سرے سے ترتیب دے اور قومی سلامتی کی ترجیحات سے مربوط رکھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔