نواز ووٹ بینک اور اینٹی نواز ووٹ بینک
2018ء کے انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کو مرکز اور پنجاب میں حکومت سازی میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔
ذرایع ابلاغ خصوصاً الیکٹرانک میڈیا پر اُٹھنے والے شور اور عدالت عظمیٰ میں پانامہ لیکس پر چلنے والے کیس سے قطع نظر برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت ووٹ بینک نواز شریف ووٹ اور اینٹی نواز شریف ووٹ پر مشتمل ہے۔ میاں محمد نواز شریف کی زیر قیادت مسلم لیگ (ن)نے یہ مقام تیس برسوں کی سیاسی جدوجہد سے حاصل کیا ہے۔
1947ء کے بعد پاکستان میں ووٹ بینک اپنے نام کرنے کا اعزاز سب سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے نام ہوا۔ اس اعزاز کی بدولت ان کی قائم کردہ جماعت پیپلز پارٹی دہائیوں تک پارلیمانی سیاست میں حاوی رہی۔
رائے عامہ کے کئی جائزوں کے مطابق اب نواز شریف ووٹ بینک اتنا مستحکم ہوچکا ہے کہ 2018ء کے انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کو مرکز اور پنجاب میں حکومت سازی میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ ایسا کیوں کر ہوگا؟ یہ جاننے کے لیے پاکستان میں ووٹر کے رویوں اور ووٹنگ کے رجحانات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔گزشتہ کئی عام انتخابات اور ضمنی انتخابات کے تجزیوں سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں اکثر ووٹرز امیدوار کی اہلیت اور اس کی جماعت کی کارکردگی کو کم اور امیدوار یا ا س جماعت کے ساتھ اپنی وابستگی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
کراچی، حیدرآباد اور دیگر چند شہروں کو چھوڑ کر اکثر حلقوں میں ذات برادری، دولت اور اثر و رسوخ ، کسی امیدوار کو ووٹ ملنے یا نہ ملنے کے فیصلوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ انتخابی امیدوار کا تعلیم یافتہ نہ ہونا، مالی بدعنوانیوں ، قانون کی پاسداری نہ کرنے جیسے واقعات میں ملوث ہونا، اکثر ووٹرز کے لیے اہمیت نہیں رکھتے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کرپشن، ہمارے یہاں پڑھے لکھے لوگوں، اخباری صفحات اور ٹی وی پروگرامز کے لیے تو ایک اچھا موضوع ہے لیکن اکثر ووٹرز کے لیے سیاسی لوگوں کا کرپشن میں ملوث ہونا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ معاشرے میں پھیلی ہوئی اس سوچ کی کئی وجوہات ہیں۔
ہم اخباری صفحات، ٹی وی پروگرامز یا عدالتی فورمز پر اکثر مثالی یا کتابی باتیں کرتے ہیں۔ بازاروں میں، دفتروں میں، اسکولوں اور کالجوں میں عملی طور پر بہت کچھ مختلف بلکہ ناجائز ہورہا ہوتا ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال پیش کرتا ہوں ۔ کئی تعلیمی اداروں میں طالب علموں سے جو فیس لی جاتی ہے اس کی تو باقاعدہ رسید دے دی جاتی ہے۔ دیگر اخراجات کے نام پر کئی دوسری وصولیابیوں کی کوئی رسید جاری نہیں کی جاتی، یہ بات اسکول میں پڑھنے والے بچے بھی نوٹ کرتے ہیں اور ان کے والدین بھی اس طرز عمل کو تسلیم کررہے ہیں۔
کئی تعلیمی اداروں، کاروباری، صنعتی اداروں میں اساتذہ یا ورکرز کو تنخواہ کم دی جاتی ہے لیکن ان سے دستخط زیادہ رقم کے واؤچرز پر لیے جاتے ہیں۔ مشہور ہے کہ کئی سرکاری اداروں میں صرف ٹھیکوں کے حصول پر ہی نہیں بلکہ ادائیگیوں کے وقت بھی ایک خاص رقم انڈر دی ٹیبل ادا کرنا پڑتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ان کے رشتہ داروں میں، جاننے والوں میں ، محلے والوں میں کون کون اپنی قانونی آمدنی سے بڑھ کر زندگی کو انجوائے کررہا ہے۔ لیکن ایسے لوگوں کو معاشرے میں کسی ناپسندیدگی کا کوئی سامنا نہیں ہے بلکہ ایسے امیروں کا حلقہ احباب زیادہ وسیع ہے۔
کرپشن یا ناجائز آمدنی کوئی بیس پچیس سال پرانا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ہمیشہ سے ناصرف پاکستان بلکہ برصغیر کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔
بانی ٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی گیارہ اگست 1947ء کی تقریر کا صحافی، دانشور، سیاست دان اور دوسرے طبقوں سے وابستہ افراد اکثر حوالہ دیتے ہیں۔ میں نے بحیثیت طالب علم اس تقریرکا کئی بار مطالعہ کیا ہے۔ان مطالعوں میں کئی نکات کے علاوہ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ 1947ء سے پہلے ہندوستان میں بددیانتی اور اقربا پروری عام تھی، 11 اگست کو قائد اعظم کی تقریر کے چند نکات کی تلخیص ملاحظہ فرمائیے
''انڈیا جس بہت بڑی برائی میں مبتلا ہے وہ ہے رشوت اور کرپشن۔ درحقیقت یہ معاشرے کے لیے زہر ہے۔ بلیک مارکیٹنگ ایک اور لعنت ہے۔ یہ سماج کے خلاف ایک بہت بڑا جرم ہے۔ ایک اور چیز جو مجھے (قائد اعظم کو ) بہت تکلیف دیتی ہے وہ اقرباپروری اور بدعنوانی ہے۔''
ہندوستانی معاشرے میں پائی جانے والی ان سنگین خرابیوں کا ذکر پاکستان کے قیام سے چند دن پہلے کرنے کا مقصد بالکل واضح تھا ۔ قائد اعظم ہندوستانی معاشرے کی برائیاں بیان نہیں کررہے تھے بلکہ خرابیوں کا ذکر کرکے نئی مملکت پاکستان کے عوام کو ان خرابیوں سے بچانا چاہ رہے تھے۔
افسوس کہ نئی مملکت پاکستان میں نہ رشوت کا انسداد ہوا نہ قائد اعظم کی نشاندہی کردہ دیگر خرابیوں کا۔ رشوتوں اور بدعنوانیوں کا ایک سلسلہ ہجرتوںکے فوراً بعد ہوشیار اور چالاک لوگوں کی جانب سے جائیدادوں کے جھوٹے کلیمز کی صورت میں بھی شروع ہوگیا تھا۔
اپنے والدین سے اور دوسرے بزرگوں سے سنا ہے کہ 50اور 60کی دہائی میں رشوت لینے والا سرکاری اہلکار اپنی ناجائز دولت چھپا کر اور اپنی نظریں جھکا کر رکھتا تھا، اب یہ تکلف ختم ہوگیا ہے۔ کرپشن حقوق العباد کی نفی اور دوسروں کی حق تلفی ہے۔ صرف سرکاری افسران، بلیک مارکیٹ کرنے والے، ملاوٹ کرنے والے ہی نہیں بلکہ معاشرے کے دوسرے افراد بھی کسی نہ کسی طرح اجتماعی طور پر حق تلفی میں شریک ہوتے ہیں۔
قانون کہتا ہے کہ رکن اسمبلی اور حکمرانوں کو صادق اور امین ہونا چاہیے، دراصل یہاں صادق اورا مین وہ ہے جسے کسی عدالت نے بددیانت قرار نہ دیا ہو، اصل صورتحال کیا ہے یہ تو سب کے سامنے ہے۔ پاکستان کی ایکسپورٹ روز بروز کم اور امپورٹ زیادہ ہوتی جارہی ہے، روپے کی قدر گھٹ رہی ہے۔ ٹیکسٹائل سکڑ اور دیگر صنعتی شعبے سخت بحران کا سامنا کررہے ہیں۔ لیکن عام ووٹرز اپنے ووٹ کا فیصلہ ان امور کو دیکھ کر نہیں کرتے۔ اکثر ووٹرز جذبات یا وابستگی پر فیصلہ کرتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے پولیٹیکل ایڈوائزر ز، الیکشن پلانرز اور میڈیا منیجرز دوسری جماعتوں کی نسبت ووٹرز کے رویوں کو بہتر طور پرسمجھتے ہیں۔
............
شریف فاروق کی رحلت
تحریک پاکستان کے سرگرم رکن، قائد اعظم کے مشن کے سچے اور پکے خدمت گار ، ایک پروفیشنل صحافی، روزنامہ جہاد کے بانی شریف فاروق کی رحلت، اہل صحافت کے لیے ایک بڑا نقصان ہے ۔ شریف فاروق اُن آخری چند اصحاب میں سے تھے جنہوں نے پاکستان نہ صرف بنتے دیکھا بلکہ حصول پاکستا ن اور تعمیر وتحفظ پاکستانی کی جدوجہد میں بھی حصہ لیا۔
شریف فاروق عفو ودرگزرکرنے ، دوسروں کے کام آنے والے ایک اعلیٰ ظرف انسان تھے ۔ آپ بہت صابر بھی تھے۔ گزشتہ چند برسوں میں انھوں نے یکے بعد دیگرے اپنے دو صاحبزادگان کی وفات کے صدمے بھی بہت صبر کے ساتھ سہے۔ شریف فاروق کئی خوبیوں کا مجموعہ اور لوگوں کے لیے ایک بڑے استاد کی حیثیت رکھتے تھے۔
یقین ہے کہ ان کے صاحبزادے اور صحافت میں ان کے وارث طاہر فاروق اپنے والد کے افکار اور ان کے مشن کو مسلسل فروغ دیتے رہیں گے ۔
............
ضیاء شاہد کے مضامین کا ایک مجموعہ
پاکستان کے سینئیر صحافی ، روزنامہ خبریں کے ایڈیٹر انچیف اور سی پی این ای کے صدر ضیاء شاہد کی صحافتی خدمات کا دائرہ پچاس سال سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ ضیاء شاہد کی حالیہ طبع شدہ کتاب ''پاکستان کے خلاف سازش''، ان کے مضامین کا ایک مجموعہ ہے۔ اس کتاب کے حوالے سے کراچی میں منعقدہ ایک تقریب میں مصنف کے علاوہ تحریک پاکستان کے معروف کارکن آزاد بن حیدر، پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر ، ہارون گھرانے کے رکن، سندھ اسمبلی کے سابق اسپیکر اور اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مندوب حسین ہارون ، پاک سرزمین پارٹی کے رضا ہارون، جماعتِ اسلامی کے برجیس طاہر، اے پی این ایس کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور کراچی یونیورسٹی سے پولیٹیکل ڈائنامکس آف سندھ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر تنویر اے طاہر نے بہت معلوماتی اور فکر انگیز گفتگو کی۔
سی پی این ای کے نائب صدرعامر محمود اور راقم الحروف نے چند سوالات اکابرین کے سامنے رکھے ۔ ایسی کتابوں اور نشستوں کی نہ صرف سیاست و صحافت سے وابستہ افراد بلکہ کالج اور یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہماری نئی نسل کو بھی بہت ضرورت ہے۔
1947ء کے بعد پاکستان میں ووٹ بینک اپنے نام کرنے کا اعزاز سب سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے نام ہوا۔ اس اعزاز کی بدولت ان کی قائم کردہ جماعت پیپلز پارٹی دہائیوں تک پارلیمانی سیاست میں حاوی رہی۔
رائے عامہ کے کئی جائزوں کے مطابق اب نواز شریف ووٹ بینک اتنا مستحکم ہوچکا ہے کہ 2018ء کے انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کو مرکز اور پنجاب میں حکومت سازی میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ ایسا کیوں کر ہوگا؟ یہ جاننے کے لیے پاکستان میں ووٹر کے رویوں اور ووٹنگ کے رجحانات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔گزشتہ کئی عام انتخابات اور ضمنی انتخابات کے تجزیوں سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں اکثر ووٹرز امیدوار کی اہلیت اور اس کی جماعت کی کارکردگی کو کم اور امیدوار یا ا س جماعت کے ساتھ اپنی وابستگی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
کراچی، حیدرآباد اور دیگر چند شہروں کو چھوڑ کر اکثر حلقوں میں ذات برادری، دولت اور اثر و رسوخ ، کسی امیدوار کو ووٹ ملنے یا نہ ملنے کے فیصلوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ انتخابی امیدوار کا تعلیم یافتہ نہ ہونا، مالی بدعنوانیوں ، قانون کی پاسداری نہ کرنے جیسے واقعات میں ملوث ہونا، اکثر ووٹرز کے لیے اہمیت نہیں رکھتے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کرپشن، ہمارے یہاں پڑھے لکھے لوگوں، اخباری صفحات اور ٹی وی پروگرامز کے لیے تو ایک اچھا موضوع ہے لیکن اکثر ووٹرز کے لیے سیاسی لوگوں کا کرپشن میں ملوث ہونا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ معاشرے میں پھیلی ہوئی اس سوچ کی کئی وجوہات ہیں۔
ہم اخباری صفحات، ٹی وی پروگرامز یا عدالتی فورمز پر اکثر مثالی یا کتابی باتیں کرتے ہیں۔ بازاروں میں، دفتروں میں، اسکولوں اور کالجوں میں عملی طور پر بہت کچھ مختلف بلکہ ناجائز ہورہا ہوتا ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال پیش کرتا ہوں ۔ کئی تعلیمی اداروں میں طالب علموں سے جو فیس لی جاتی ہے اس کی تو باقاعدہ رسید دے دی جاتی ہے۔ دیگر اخراجات کے نام پر کئی دوسری وصولیابیوں کی کوئی رسید جاری نہیں کی جاتی، یہ بات اسکول میں پڑھنے والے بچے بھی نوٹ کرتے ہیں اور ان کے والدین بھی اس طرز عمل کو تسلیم کررہے ہیں۔
کئی تعلیمی اداروں، کاروباری، صنعتی اداروں میں اساتذہ یا ورکرز کو تنخواہ کم دی جاتی ہے لیکن ان سے دستخط زیادہ رقم کے واؤچرز پر لیے جاتے ہیں۔ مشہور ہے کہ کئی سرکاری اداروں میں صرف ٹھیکوں کے حصول پر ہی نہیں بلکہ ادائیگیوں کے وقت بھی ایک خاص رقم انڈر دی ٹیبل ادا کرنا پڑتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ان کے رشتہ داروں میں، جاننے والوں میں ، محلے والوں میں کون کون اپنی قانونی آمدنی سے بڑھ کر زندگی کو انجوائے کررہا ہے۔ لیکن ایسے لوگوں کو معاشرے میں کسی ناپسندیدگی کا کوئی سامنا نہیں ہے بلکہ ایسے امیروں کا حلقہ احباب زیادہ وسیع ہے۔
کرپشن یا ناجائز آمدنی کوئی بیس پچیس سال پرانا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ہمیشہ سے ناصرف پاکستان بلکہ برصغیر کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔
بانی ٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی گیارہ اگست 1947ء کی تقریر کا صحافی، دانشور، سیاست دان اور دوسرے طبقوں سے وابستہ افراد اکثر حوالہ دیتے ہیں۔ میں نے بحیثیت طالب علم اس تقریرکا کئی بار مطالعہ کیا ہے۔ان مطالعوں میں کئی نکات کے علاوہ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ 1947ء سے پہلے ہندوستان میں بددیانتی اور اقربا پروری عام تھی، 11 اگست کو قائد اعظم کی تقریر کے چند نکات کی تلخیص ملاحظہ فرمائیے
''انڈیا جس بہت بڑی برائی میں مبتلا ہے وہ ہے رشوت اور کرپشن۔ درحقیقت یہ معاشرے کے لیے زہر ہے۔ بلیک مارکیٹنگ ایک اور لعنت ہے۔ یہ سماج کے خلاف ایک بہت بڑا جرم ہے۔ ایک اور چیز جو مجھے (قائد اعظم کو ) بہت تکلیف دیتی ہے وہ اقرباپروری اور بدعنوانی ہے۔''
ہندوستانی معاشرے میں پائی جانے والی ان سنگین خرابیوں کا ذکر پاکستان کے قیام سے چند دن پہلے کرنے کا مقصد بالکل واضح تھا ۔ قائد اعظم ہندوستانی معاشرے کی برائیاں بیان نہیں کررہے تھے بلکہ خرابیوں کا ذکر کرکے نئی مملکت پاکستان کے عوام کو ان خرابیوں سے بچانا چاہ رہے تھے۔
افسوس کہ نئی مملکت پاکستان میں نہ رشوت کا انسداد ہوا نہ قائد اعظم کی نشاندہی کردہ دیگر خرابیوں کا۔ رشوتوں اور بدعنوانیوں کا ایک سلسلہ ہجرتوںکے فوراً بعد ہوشیار اور چالاک لوگوں کی جانب سے جائیدادوں کے جھوٹے کلیمز کی صورت میں بھی شروع ہوگیا تھا۔
اپنے والدین سے اور دوسرے بزرگوں سے سنا ہے کہ 50اور 60کی دہائی میں رشوت لینے والا سرکاری اہلکار اپنی ناجائز دولت چھپا کر اور اپنی نظریں جھکا کر رکھتا تھا، اب یہ تکلف ختم ہوگیا ہے۔ کرپشن حقوق العباد کی نفی اور دوسروں کی حق تلفی ہے۔ صرف سرکاری افسران، بلیک مارکیٹ کرنے والے، ملاوٹ کرنے والے ہی نہیں بلکہ معاشرے کے دوسرے افراد بھی کسی نہ کسی طرح اجتماعی طور پر حق تلفی میں شریک ہوتے ہیں۔
قانون کہتا ہے کہ رکن اسمبلی اور حکمرانوں کو صادق اور امین ہونا چاہیے، دراصل یہاں صادق اورا مین وہ ہے جسے کسی عدالت نے بددیانت قرار نہ دیا ہو، اصل صورتحال کیا ہے یہ تو سب کے سامنے ہے۔ پاکستان کی ایکسپورٹ روز بروز کم اور امپورٹ زیادہ ہوتی جارہی ہے، روپے کی قدر گھٹ رہی ہے۔ ٹیکسٹائل سکڑ اور دیگر صنعتی شعبے سخت بحران کا سامنا کررہے ہیں۔ لیکن عام ووٹرز اپنے ووٹ کا فیصلہ ان امور کو دیکھ کر نہیں کرتے۔ اکثر ووٹرز جذبات یا وابستگی پر فیصلہ کرتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے پولیٹیکل ایڈوائزر ز، الیکشن پلانرز اور میڈیا منیجرز دوسری جماعتوں کی نسبت ووٹرز کے رویوں کو بہتر طور پرسمجھتے ہیں۔
............
شریف فاروق کی رحلت
تحریک پاکستان کے سرگرم رکن، قائد اعظم کے مشن کے سچے اور پکے خدمت گار ، ایک پروفیشنل صحافی، روزنامہ جہاد کے بانی شریف فاروق کی رحلت، اہل صحافت کے لیے ایک بڑا نقصان ہے ۔ شریف فاروق اُن آخری چند اصحاب میں سے تھے جنہوں نے پاکستان نہ صرف بنتے دیکھا بلکہ حصول پاکستا ن اور تعمیر وتحفظ پاکستانی کی جدوجہد میں بھی حصہ لیا۔
شریف فاروق عفو ودرگزرکرنے ، دوسروں کے کام آنے والے ایک اعلیٰ ظرف انسان تھے ۔ آپ بہت صابر بھی تھے۔ گزشتہ چند برسوں میں انھوں نے یکے بعد دیگرے اپنے دو صاحبزادگان کی وفات کے صدمے بھی بہت صبر کے ساتھ سہے۔ شریف فاروق کئی خوبیوں کا مجموعہ اور لوگوں کے لیے ایک بڑے استاد کی حیثیت رکھتے تھے۔
یقین ہے کہ ان کے صاحبزادے اور صحافت میں ان کے وارث طاہر فاروق اپنے والد کے افکار اور ان کے مشن کو مسلسل فروغ دیتے رہیں گے ۔
............
ضیاء شاہد کے مضامین کا ایک مجموعہ
پاکستان کے سینئیر صحافی ، روزنامہ خبریں کے ایڈیٹر انچیف اور سی پی این ای کے صدر ضیاء شاہد کی صحافتی خدمات کا دائرہ پچاس سال سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ ضیاء شاہد کی حالیہ طبع شدہ کتاب ''پاکستان کے خلاف سازش''، ان کے مضامین کا ایک مجموعہ ہے۔ اس کتاب کے حوالے سے کراچی میں منعقدہ ایک تقریب میں مصنف کے علاوہ تحریک پاکستان کے معروف کارکن آزاد بن حیدر، پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر ، ہارون گھرانے کے رکن، سندھ اسمبلی کے سابق اسپیکر اور اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مندوب حسین ہارون ، پاک سرزمین پارٹی کے رضا ہارون، جماعتِ اسلامی کے برجیس طاہر، اے پی این ایس کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور کراچی یونیورسٹی سے پولیٹیکل ڈائنامکس آف سندھ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر تنویر اے طاہر نے بہت معلوماتی اور فکر انگیز گفتگو کی۔
سی پی این ای کے نائب صدرعامر محمود اور راقم الحروف نے چند سوالات اکابرین کے سامنے رکھے ۔ ایسی کتابوں اور نشستوں کی نہ صرف سیاست و صحافت سے وابستہ افراد بلکہ کالج اور یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہماری نئی نسل کو بھی بہت ضرورت ہے۔