غلط فیصلے
حکومت نے تشدد کی تردید کی ہے جس کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے
KARACHI:
وفاقی اور چاروں موجودہ صوبائی حکومتیں چار سال سے زائد مدت مکمل کرچکی ہیں اور اب ان کے جانے میں ایک سال سے بھی کم مدت باقی رہ گئی ہے۔ 2018 میں اگر عام انتخابات ہوئے تو صرف پیپلز پارٹی ہی سندھ میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں نظر آرہی ہے کیونکہ اندرون سندھ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں کوئی بھی پارٹی نظر نہیں آرہی جب کہ پنجاب اور کے پی کے میں مسلم لیگ (ن) کے سخت مقابلے کے لیے تحریک انصاف موجود ہے اور باقی پارٹیاں اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر انتخاب لڑیں گی اور رہے۔
پیپلز پارٹی کے آصف زرداری اور بلاول زرداری دونوں موجودہ سیاسی صورتحال میں ملک میں پی پی کی کامیابی کا خواب دیکھ سکتے ہیں یا محض بیان بازی کرسکتے ہیں صدر اور وزیر اعظم نہیں بن سکتے۔ اپنی جاتی حکومتوں میں کوئی پارٹی اپنے مخالفین کے خلاف کوئی سخت کارروائی کرتی ہے نہ انتقام لیتی ہے مگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے یہ بھی کر دکھایا اور اپنے آخری دنوں میں وہ کچھ کر دکھایا جو کسی حکومت نے نہیں کیا۔
1977 کے متنازعہ انتخابات میں وزیر اعظم بھٹو نے خود کو دوبارہ منتخب کرا کر اپنے مخالف پی این اے کی تحریک کو سختی سے کچلنے کی کوشش کی تھی اور اپنے مخالفوں کے خلاف انھوں نے نہایت غیر جمہوری اقدامات یہ سوچ کر کیے تھے کہ وہ اقتدار میں رہیں گے اور مخالفین خاموش ہوکر بیٹھ جائیں گے اور انھیں اقتدار میں رہنے دیا جائے گا مگر متنازعہ انتخابات کے چار ماہ بعد مارشل لا لگ گیا اور جنرل ضیا الحق نے اقتدار سنبھال کر بھٹو کا عتاب برداشت کرنے والوں کی جان چھڑائی تھی اور ان کو جیلوں سے رہائی دلائی تھی۔
مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت کے پاس بظاہر واضح اکثریت ہے اور (ن) لیگ کی حکومت نے اپنے پانچویں بجٹ میں قوم اور اپوزیشن کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا وہ اس نے اپنے گزشتہ دو ادوار میں بھی اختیار نہیں کیا تھا جس کے مکمل ذمے دار حکمران ہیں جن کی غلط پالیسی اور متنازعہ بجٹ کے باعث ملک کی ساری اپوزیشن بجٹ اجلاس کے بائیکاٹ پر مجبور ہوئی جس کو منا کر واپس لانے کے لیے حکومت نے خلوص سے کوئی عملی کوشش کی اور نہ اپوزیشن کے مطالبات تسلیم کیے اور ایسا جان بوجھ کر کیا اورحکومت نے اپنی مرضی کا بجٹ اپوزیشن کی اہم پارٹیوں پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور اے این پی کی غیر موجودگی میں (ن) لیگ کی اکثریت کے بل بوتے پر منظور کرالیا اور یہ متنازعہ بجٹ بھی حکومتی ارکان اور حلیفوں کی بڑی تعداد کی ایوان میں غیر موجودگی میں منظور ہوا۔
(ن) لیگی حکومت چاہتی تو اپوزیشن کو منا کر ایوان میں لاسکتی تھی اور حسب سابق اپنی اکثریت کے زور پر بجٹ منظور کراسکتی تھی مگر بجٹ بحث کا موقعہ ہی اپوزیشن کو نہیں دیا گیا اور جلد بازی میں اپوزیشن کی غیر موجودگی میں چند ارکان کے اظہار خیال کے بعد اپنے ارکان کو بھی بحث کا موقعہ نہیں دیا اور معمولی ترامیم کے بعد بجٹ بحث سمیٹ کر مرضی کا بجٹ منظور کرالیا گیا جو عوام کے فائدے کا نہیں بلکہ جاگیرداروں کے مجموعی مفادات کا بجٹ ہے۔
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ تین ساڑھے تین سال فرینڈلی اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرتے رہے اور جب ان کی پیپلز پارٹی نے سیاسی مفاد کے لیے حکومت کی مخالفت میں سخت رویہ اپنایا تو پارٹی پالیسی کے مطابق خورشید شاہ نے بھی پالیسی بدلی اور حکومت اور وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ شروع کیا تو حکومت نے سرکاری ٹی وی پر اپوزیشن رہنماؤں کی تقاریر نشر نہیں ہونے دیں جس سے فرق کچھ نہیں پڑا اور اپوزیشن رہنماؤں نے ایوان کے باہر اپنی عوامی اسمبلی میں میڈیا میں حکومت کے خلاف دل کی بھڑاس نکالی اور عوام کو حکومت کی من مانیوں سے آگاہ کیا اور بجٹ مسترد کردیا۔ میڈیا پر خبر آنے پر اپوزیشن اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب رہی۔
پنجاب حکومت نے چار سال تو آزاد رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کی تنقید کو برداشت کیا مگر شاید اب جمشید دستی کی گستاخی برداشت نہ ہوئی اور جمشید دستی کی نہر کھلوانے کی کوشش نے انھیں موقعہ دے دیا اور پنجاب حکومت نے جمشید دستی پر متعدد مقدمات سیاسی بنیاد پر قائم کرا کر گرفتار کرادیا اور انھیں مظفر گڑھ کے بعد ڈیرہ غازی خان جیل میں رکھ کر مبینہ انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنوایا جو کسی بھی طرح پنجاب حکومت کو زیب نہیں دیتا تھا۔ پنجاب حکومت پہلے ہی سانحہ ماڈل ٹاؤن کو بھگت رہی ہے جس کی وجہ سے علامہ طاہر القادری شریف برادران کے مخالف بنے ہوئے ہیں۔
جمشید دستی پر پنجاب حکومت نے جھوٹے مقدمات اور ڈیرہ غازی خان جیل میں تشدد کرا کر مفت کی بدنامی مول لی اور جمشید دستی کو اپنے حلقوں میں مظلوم اور ملک بھر میں مشہور کرادیا اور ملک بھر میں جمشید دستی کو گرفتاری کے بعد شہرت دلا دی جسے پنجاب حکومت کا درست عمل نہیں کہا جاسکتا ہے۔ جمشید دستی لیگی حکومت کے چار سالوں میں واحد رکن قومی اسمبلی ہیں جنھیں پنجاب حکومت نے تنقید کے باعث گرفتار کرایا اور گرفتاری کے بعد 27 مختلف مقدمات میں ملوث کرادیا جنھوں نے غریبوں کو نہر سے ان کا حق دلانے کی کوشش کی تھی جو علاقے کے جاگیرداروں نے غصب کر رکھا تھا۔
یہی حال پشاور میں حکومتی رکن اسمبلی نے بھی کیا تھا اور گرڈ اسٹیشن سے بند کی گئی بجلی بحال کرائی تھی جس پر وفاقی حکومت کے محکمہ نے پی ٹی آئی ارکان کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا مگر حکومت نے اپنے ارکان کو تحفظ دیا تھا مگر پنجاب حکومت نے اپنے مخالف کے گرفت میں آنے کے بعد جمشید دستی جو ملک کا واحد غریب رکن قومی اسمبلی ہے اور اپنے حلقے سے تین بار اور 2013 میں دو حلقوں سے آزاد حیثیت میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے کو بے بنیاد مقدمات میں پھنسا دیا۔
حکومت نے تشدد کی تردید کی ہے جس کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے جب کہ کہا گیا ہے کہ سرگودھا میں انھیں عام حوالات میں رکھا گیا اور یہ رکن قومی اسمبلی سے عام مجرم جیسا سلوک کیا گیا۔ جمشید دستی کی ضمانت پر رہائی اور اپنے حلقے میں پہنچنے پر شاندار استقبال نے ملک بھر میں ان کی مقبولیت بڑھا دی اور حکومت کو صرف تنقید ملی۔
حکومت کو بردباری اور عقلمندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا کیونکہ وہ 2018 میں بھی اپنی کامیابی کی امید رکھے ہوئے ہے۔