آؤ … ماتم کرتے ہیں
میں جانتا ہوں تمھارے دل پر کیا گزر رہی ہے جب تم کہتے ہو کہ صرف ایک خاندان کا احتساب ہو رہا ہے۔
KARACHI:
میرے دوست ، میرے عزیز تم مجھ سے یہ پوچھتے ہوئے کیوں افسردہ ہو کہ ہماری حکومت کے خلاف سازشیں کیوں ہورہی ہیں ؟ تو آؤ، میں تمھیں جواب دیتا ہوں ۔ تمھیں یاد ہے وہ دن جب کالا کوٹ پہن کر نواز شریف عدالت میں گئے تھے ۔ تمھیں یاد ہو گا کہ ان کے ایک طرف اسٹبلشمنٹ کی طاقت تھی اور دوسری طرف آزاد عدلیہ ۔ جس میں اُس وقت چوہدری افتخار خود منصف بنے ہوئے تھے ۔ اُس وقت عاصمہ جہانگیر نے کہا تھا کہ سیاسی معاملات کو عدالت میں نہیں جانا چاہیے اور شاید میرے دوست تم بھول چکے ہو کہ اُس وقت عاصمہ جہانگیر نے کہا تھا'' نواز شریف پچھتائیں گے'' ۔
یہ تاریخ بہت بے رحم ہوتی ہے ۔ اُس دن کا TV یاد کرو ،جب پیپلز پارٹی والے کہہ رہے تھے کہ کوئی سازش ہو رہی ہے ، لیکن وہ بھی آپ کی طرح سازش کرنے والوں کے نام بتانے سے دور بھاگتے ہیں ۔ اس بات کا جواب مل جائیگا لیکن پہلے اُس دن کے بارے میں تو ماتم کر لو ۔ جب آپ ایک سیاسی معاملے کو عدالت کی چوکھٹ پر لے کر گئے تھے ۔
میرے ہمدرد، میرے بھائی آپ نے بالکل ٹھیک کہا کہ جو لوگ سازش کر رہے ہیں وہ منظر پر کیوں نہیں آرہے ؟یہ ہی سوال تو بار بار پیپلز پارٹی پوچھ رہی تھی ۔ میں زیادہ دور نہیں لے کر جاتا ۔ آپ عمر کے اُس حصے میں ہو کہ شاید آپ کو دور کی بات اپنا بچپن لگے اورآپ یہ کہہ دو کہ اُس وقت کی غلطیوں کی معافی ہم میثاقِ جمہوریت کے ایک کاغذ میں دے چکے ہیں ۔ تو تم مجھے بتاؤ ۔ زیادہ دورکی بات نہیں ہے بہت قریب یعنی پانچ سال پرانی بات ہے ۔ جب ''میڈیا ''کی دنیا میں ایک تاریخ ساز فیصلہ ہوا اور 19جون 2012کو ایک منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو گھر بھیج دیا گیا ۔
مجھے یہ تو یاد نہیں دلانا پڑے گا کہ اُس وزیر اعظم(یوسف رضا گیلانی ) کو آپ نے بھی ووٹ دیا تھا ۔ کیا مجھے یہ بتانا پڑے گا کہ اُس وقت ہاتھوں میں کالی پٹیاں لگا کر اُن کے ساتھ وزارت کا حلف کون کون لے رہا تھا ۔ تم نے تو خوشیوں کی مٹھائیاں بانٹی تھی ۔ تمھیں یاد ہے وہ دن جب نواز شریف نے کہا تھا کہ یہ اصلی احتساب شروع ہوگیا ۔ میں تمھارے دکھ میں برابرکا شریک ہوں ۔ لیکن میرے دوست یہ تو مجھے بتا دو کہ جب میں یہ ماتم اُس وقت لکھ رہا تھا تو تم مجھ پر پتھر برسا رہے تھے اورکہہ رہے تھے کہ تم پاکستان کے ساتھ ہو یا کرپٹ لوگوں کے ؟ میں نے اُس وقت کہا تھا کہ میں پاکستان کے لوگوں کی رائے کا احترام کرتا ہوں اور یوسف رضا گیلانی کو اس طرح نہیں جانا چاہیے ۔ تو آؤ اگر آج عمران خان کہتے ہیں کہ لوگ مٹھائی بانٹیں گے تو پہلے پرانی مٹھائی کا ماتم کر لو۔ پہلے اپنے گناہوں کی توبہ تو کر لو۔ تاکہ مجھے جیسے بے کار لوگ تمھارے ساتھ آگے بڑھ سکیں۔
میرے غم زدہ دوست ، میں جانتا ہوں تمھارے دل پر کیا گزر رہی ہے جب تم کہتے ہو کہ صرف ایک خاندان کا احتساب ہو رہا ہے۔ سیاست کے کھیل میں قیمت اُس کو چکانی ہوتی ہے جس نے تاج پہنا ہوتا ہے۔ یہ ہی بات تو تم مجھے کہتے تھے ۔ یاد ہے جب جوش خطابت میں کہا جاتا تھا کہ زرداری کو ایوان صدر سے کھینچ کر سارا پیسہ باہر نکال لیں گے۔ اپنا دامن تو دیکھ۔ تمھیں یاد ہے کہ میں اُس وقت لکھ لکھ کر سفید کاغذ کو گندہ اس لیے کرتا تھا کہ میری نسلوں کو روشن زندگی ملے ۔ میری گزارش پر تم سیخ پا ہو جاتے تھے ۔ تم کہتے تھے کہ اب ہم سیاست میں اتنے بالغ ہو چکے ہیں کہ اب ہم کسی کے ہاتھوں استعمال نہیں ہونگے ۔ بالکل نہیں ہوئے ؟ مگر اپنا کیا ہوا ایک بھی وعدہ پورا نہ کر سکے ۔
آؤ ، میرے رفیق ، پہلے اس دن کا ماتم کرے جب آپ کے دور حکومت میں ان لوگوں کی پیٹھ میں چھریاں ماری گئی جس نے آپ کا ساتھ دیا ۔ آپ نے بالکل ٹھیک کہا کہ آپ نے سیاسی انتقام نہیں لیے ۔ لیکن جن لوگوں کو عبرت کا نشان بنایا جا رہا تھا ۔ اُس وقت آپ خاموش تماشائی بنے رہے ۔ اگر مائینس ون کے فارمولے دوسری جگہ استعمال کیے جاسکتے ہیں اور آپ خاموش تماشائی بن کر وقت کے گزرنے کا انتظارکرنے لگے تو آپ بھول گئے تھے کہ آگ کسی کی نہیں ہوتی ۔ آؤ پہلے ماتم کرتے ہیں اُس مائینس ون فارمولے کا جو آپ کی ''سرکار'' کے زیر سایہ ہوتا رہا ۔
میرے محترم اور قابل عزت دوست ، تمھیں یاد ہے کہ آج سے پانچ سال پہلے آصف علی زرداری ، صدر پاکستان ہوا کرتے تھے ۔ تو اُن کے لیے کون سی زبان استعمال کی جاتی تھی ؟ لیکن اُس وقت یاد ہے جب بینظیر بھٹو کو کیا کیا کہا جاتا تھا ۔ مگر رہنے دیجیے میں ابھی کا حال سناتا ہوں ۔ جب فریال تالپور کے لیے لفظ استعمال کیے جاتے تھے ۔ TV چینلز ریٹنگ کے لیے ان صاحب کو ہر روز VIP حیثیت دیتے تھے ۔ وہ نازیبا زبان استعمال کرتا تھا ۔ اور آپ کے لوگ اُس کی ہاں میں ہاں ملا کر واہ واہ کی داد دیتے تھے اور کہتے تھے کہ اچھا ہوا یہ ان کے ''پول'' کھول رہا ہے ۔ کاش کاش اُس وقت آپ وہاں سے اٹھ جاتے ۔ اور کہتے کہ ہم کسی ایسے شخص کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے ۔ تو آؤ پہلے ماتم کرتے ہیں جان بوجھ کر آنکھیں بند کر لینے کے جرم کا۔
میرے ہمدرد ، آج تمھیں یہ سب سازشیں معلوم ہوتی ہے ۔ مگر سیاست کے ایک ادنی طالب علم کی حیثیت سے میں ہمیشہ سیاست کو سازش کا کھیل ہی سمجھتا رہا ۔ کہا جاتا ہے کہ اگر قتل وقت پر ہو تو اُسی کو سیاست کہتے ہیں ۔آج عمران خان عدالت کے تاریخی فیصلے کے منتظر ہے ۔ میں آپ کو یاد دلاتا ہوں ۔ جب بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں 20 مارچ 1996 کو سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے ججوں کی تقرری کا فیصلہ دیا تو حکومت شدید ناراض تھی مجھے یاد ہے کہ اس کے دو دن بعد 22 مارچ کو بے نظیر نے کہا تھا کہ عدالت کا فیصلہ غصے پر ہے۔
اگر آپ بھول چکے ہیں تو میں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ نواز شریف نے اُسی روز جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت کے خلاف بیان سے بغاوت کی بو آرہی ہے ۔ اور پھر یہ بات قومی اسمبلی کے ریکارڈ میں موجود ہے جب نواز شریف صاحب نے وہاں کہا تھا کہ ہم عدلیہ کا احترام کرتے ہیں اور ہم ہر صورت میں پیپلز پارٹی کو مجبور کریں گے کہ وہ عدالت کے فیصلے کا احترام کرے ۔ پھر میرے بھائی ؟ اب اگر عمران خان عدالت کے فیصلے کا احترام کرانا چاہتے ہیں تو کیوں نہیں ؟
مگر میرے دوست میں وقت گزرنے کے بعد اپنی باری پر ماتم نہیں کرتا ۔ کاش تم نے کچھ سیکھ لیا ہوتا ، مگر اب بھی وقت ہے ۔ جمہور کے لیے جمہوری سوچ کو پروان چڑھنے دے ۔ شاید آج کی گئی توبہ آپ کو اس بحران سے بھی نکال دے ۔