مذاق مذاق اور مذاق

زندہ لوگوں پر تو ظلم کا فسانہ شروع ہوکر نہ جانے کہاں ختم ہوتا ہے۔



''ملازمت اس معاشرے میں ایک ذریعہ ہے، رزق حلال اور باعزت زندگی کا '' یہ ایک بین الاقوامی کلیہ ہے مگر پاکستان کے لوگ اس سے اختلاف کرسکتے ہیں اور بے دھڑک وہ سب کچھ کرسکتے ہیں جو وہ کررہے ہیں،کیونکہ یہ دنیا میں سب سے زیادہ خوش رہنے والی قوموں میں پانچویں نمبرکی قوم کے افراد ہیں اوراگر بے حسی اور ''بے'' جس کے ساتھ لگایا جاسکتا ہے کے ساتھ یہ قوم مرتی تو پہلا نمبر دور نہیں ہے۔

ورلڈ کپ کرکٹ کا جب ہی ملا تھا جب ٹیم آخری نمبروں پر کھیل رہی تھی۔ پھر آخری نمبروں پر ہی کھیل رہی ہے۔ ہر ''گیم'' توکچھ نہ کچھ تو ہوکر رہے گا جب یہ کالم لکھا جارہاہے تو پاناما کا فیصلہ نہیں آیا ہے تو اگر اس کے چھپتے چھپتے آگیا تو سمجھ لیجیے آگیا ایک اور ورلڈ کپ۔ اس بار سیاست میں سہی!

''ن'' ہر جگہ منفی کی علامت ہے ''نہیں، نا،No،Not یا Not at all'' تو مسلم لیگ تو تسلیم و رضا کی جماعت تھی ان کا ہر ''Noقوم کے لیے، Yes تھا جب بھی وہ انگریز یا ہندو کو جواب دیتے تھے اور دیکھتے آخر ''ن'' نے کام تمام کیا ہر بار، آصف زرداری کی ان ڈائریکٹ حمایت کے باوجود۔

خیر اس کی بہت سی وجوہات کے ساتھ ساتھ یہ No در اصل حکمران جماعت نے عوام پر بے دردی سے استعمال کیا ہے اور خدا کی لاٹھی بے آواز ہے، اس کے No کو تو صرف وہی بدل سکتا ہے یا ''ماں کی دعا'' مگر اس میں بھی استثنیٰ ہے۔ ماں کو بھی سوچنا چاہیے کہ دعا جائز ہے یا نہیں؟

زندہ لوگوں پر تو ظلم کا فسانہ شروع ہوکر نہ جانے کہاں ختم ہوتا ہے۔ ہمسایہ ملک سے محبت کا نتیجہ کیا نکلتا ہے مگر اس نمایندہ حکومت کے پیش نظر وہی فلسفہ ہے جو اس حکومت کے پیش نظر ہے کہ جو ''مسلم فوج'' بنارہی ہے یا بناچکی ہے، لیکن اسرائیل اور فلسطین کے معاملے میں وہ کس کا ساتھ دے گی بہ دیکھنا ہے اور جس نے مودی سے بھی ہاتھ ملا رکھا ہے ایسا خیال ہے کچھ حلقوں کا۔

دو پارٹیاں پاکستان کے ماضی، حال، مستقبل سے کھیلتی رہیں اور کھیلنے کا آیندہ پروگرام ہے۔ شنید ہے کہ ایک تھرڈ پارٹی بھی حصہ مانگ رہی ہے۔ دیکھتے ہیں یہ معصوم عوام ،عرف ''بھیڑ بکریاں'' کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے مقابلے میں ''ن'' نے سرکاری ملازمین کو بہت بد حال رکھا ہے اور ارادہ نہیں ہے کہ آیندہ بھی کچھ ''رحم'' کریں کہ یہ خود کو ''سرکار'' سمجھتے ہیں، کارخانے کے محنت کشوں کی طرح دوسری پارٹی میں زرداری فیکٹر ان کا ہم نوا ہے پھر بھی ان سے بہتر ہے۔

ایک دوست نے مسیج کیا ''...ہے اس حکومت پر جس نے صرف دس فی صد پنشن بڑھائی، لیگ کی حکومت جب بھی آتی ہے پنشنرز کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتی۔ 2011 میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ پچاس فی صد بڑھائی جس کی وجہ سے جولائی 2011 کے بعد ریٹائر ہونے والوں کی پنشن اس سے پہلے ریٹائر ہونے والوں سے زیادہ ہوگئی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ 2011 سے پہلے ریٹائر ہونے والوں کی پنشن کم از کم 20 فی صد بڑھانی چاہیے تھی۔ 85 سالہ پنشنر کا اضافہ 25 فی صد کیا گیا ذرا سوچ کہ وہ چھوٹے درجے کا ملازم 85 سال تک زندہ رہتا ہے۔ ہے نا پنشنرز کے ساتھ مذاق''

اب ان برادر انیس کو کون بتائے کہ اس حکومت نے آپ کو تنخواہ میں سات فی صد اضافہ دیا ہے تو حاکم تک چیخ پکار کر رہا ہے کہ ''اتنی فضول خرچی''

پڑھنے والوں سے درخواست ہے دست بستہ کہ ذرا غورکریں کہ کیا ایسا نہیں ہے۔ بھائی انیس نے جو لکھا ہے وہ بالکل درست ہے۔ (ن) کے پاس ایک ٹوڈرمل ہے جو دنیا بھر سے قرضے لیتا ہے۔ عوام کے نام پر اور بڑوں کوچڑھاوے میں دے دیتا ہے۔ ہرگز یہ غریبوںپر رحم کرنے والے نہیں۔ غلاموں، وفاداروں کے لیے سب کچھ ہے ملک کے وفاداروں، ایمانداروں، جرأت مندوں کے لیے کچھ نہیں۔

تو پنشنرز کو چاہیے کہ خاموشی سے گزر جائیں جیسے ان سے پہلے کے لوگ گزرتے رہے ہیں۔ کیوں اپنی چار ان کی زندگی کو عذاب بناتے ہیں۔ اس قوم نے، ان سیاسی پارٹیوں نے علامہ طاہر القادری کے مسلم ٹاؤن کے سانحے پر کچھ کیا؟ صرف مگرمچھ کے آنسو، ساتھ ان کے وفادار کھڑے رہے اور کھڑے ہیں مگر کتنے ہیں؟ آپ کا خیال ہے کہ گریڈ 19 یا 20 تک کے جو ملازم ریٹائر ہوتے ہیں اور پنشن پاتے ہیں تو وہی سابقہ ریٹائرڈ کو بھی دی جائے کیونکہ بازار سے سودا دونوں ایک ہی بھاؤ سے خریدتے ہیں۔

خیال اچھا ہے، مگر صرف خیال ہے انیس بھائی بقول کسی کے کس کو کہہ رہے ہو؟ ان کے بس میں ہو تو پنشن ہی ختم کردیں، بند کردیں اور پنشنروں کے ساتھ یہ ہوتا رہا ہے، فقیروں کی طرح بینکوں کے باہرکھڑے رہتے تھے اور کئی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ خبریں، تصویریں چھپتی رہی ہیں ان مظلوموں کی۔ آپ ایشیا کے پنشنر ہیں ناکارہ، بے کار، آپ کا تجربہ فضول، حکمرانوں کے خیال کے مطابق یورپ میں ہوتے تو انسان سمجھے جاتے، جہاں اﷲ نبی کا گھر ہے وہاں کے لوگ بھی اس سوچ کے حامل ہیں، سب مفاد میں ایک ہیں کچھ پرانے کھلاڑی اور کچھ نئے۔

کیا حاصل ہونا ہے، پنشنرز کے لیے بازار کا بھاؤ بڑھتا رہے گا۔ آج کے لوگ اپنے معاوضے بڑھاتے رہیںگے تم یاد ماضی ہو ''انٹیک'' اور اسے فروخت کیاجاتا ہے دیا کچھ نہیں جاتا، آپ صرف ایک ووٹ ہو،کب کون آپ کا سودا کردے آپ کو پتا بھی نہیں چلے گا، ووٹ کاسٹ ہوجائے گا آپ کو پہلے ہی ہواہے۔

کیکر سے انگور کی توقع عبث ہے، تمہارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے اور وہ بھی ان کا ہے ان کی اولاد کا ہے۔ سیاست دان سب سیاست میں رشتے دار ہیں۔ انتظار قدرت کے فیصلے کا ہے، آنا تو ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں