غریب ترین وزیر اعلیٰ بھارتی ریاست کے کرتا دھرتا کا سبق آموز احوال
ہمارے پڑوس میں بھی ایک مثالی حکمران مصروف کار ہیں جنہیں ’’غریب ترین وزیراعلیٰ‘‘ ہونے کا اعزاز حاصل ہوچکا۔
انسانی تاریخ کے لیجنڈری لیڈر، ابراہام لنکن کا قول ہے :''تقریباً ہر انسان مصائب کا مقابلہ کرلیتا ہے۔ مگر آپ اس کا کردار دیکھنا چاہتے ہیں تو اسے حکمران بنا دو۔'' یہ بات سولہ آنے سچ ہے۔
قوت، اختیار اور اقتدار پاکر ایک انسان جس قسم کے اقدامات کرے، انہیں دیکھ کر ہی پتا چلتا ہے کہ وہ کس کینڈے کا آدمی ہے۔ انسانی تاریخ عیاں کرتی ہے کہ بیشتر لوگ اقتدار و اختیار پاکر یکسر بدل جاتے ہیں اور یہ تبدیلی عموماً منفی ہوتی ہے۔ نہ معلوم اقتدار میں ایسی گیڈر سنگھی چھپی ہے کہ وہ ایک اچھے خاصے انسان کو حاکم بنا کر خود پسندی، غرور اور ظلم کا فرستادہ بنا دیتی ہے۔
تاہم تاریخ انسان میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ اختیار پاکر حاکموں نے خلق دوست کارنامے انجام دیئے۔ ایک ایسے ہی عظیم الشان حاکم حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ بھی تھے۔ خلیفہ راشد پنجم کہلائی جانے والی یہ ذی وقار ہستی حکومت ملنے سے قبل عیش و عشرت کی زندگی گزار رہی تھی۔ مگر جیسے ہی حضرت عمرؒ خلیفہ بنے، انہوں نے تمام شاہی آسائشیں تج دیں اورسادگی و قناعت کا بے مثال مرقع بن گئے۔ وہ سرکاری خزانے (بیت المال) کا ایک پیسہ بھی ذاتی کام پر خرچ کرنے کو گناہ عظیم سمجھتے تھے۔ دیانت داری، فرض شناسی اور قانون پسندی پر یقین رکھنے والا ایسا حکمران تاریخ انسانی میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
دور جدید میں نیلسن منڈیلا حکمرانی سے وابستہ منفی خوبو سے دور رہے۔ وہ سیاست کوخدمت انسانیت کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ وطن عزیز میں سابق نگران وزیراعظم معراج خالد اپنی سادگی کے باعث جانے مانے گئے۔ اقتدار و اختیار کو انہوں نے ذاتی کمائی کا ذریعہ نہیں بنایا اور نہ ہی قانون شکن بنے۔ ورنہ پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک میں اختیار و طاقت پاکر تقریباً ہر انسان خود کو تمام ارضی پابندیوں سے ماورا فوق البشر ہستی سمجھنے لگتا ہے۔
ہمارے پڑوس میں بھی ایک مثالی حکمران مصروف کار ہیں جنہیں ''غریب ترین وزیراعلیٰ'' ہونے کا اعزاز حاصل ہوچکا۔ اڑسٹھ سالہ مانک سرکار سے ملیے جو پچھلے انیس سال سے بھارتی ریاست، تری پورہ میں سیاہ و سفید کے مالک ہیں ۔جدید ''وچار'' کی رو سے اب تک انہیں اربوں نہیں تو کروڑوں روپوں میں کھیلنا چاہیے تھا۔ مگر یہ عجیب حکمران ہیں جو ذاتی گھر رکھتے ہیں نہ کار... جو اپنے برتن خود دھوتے اور ضرورت پڑے تو گھر میں جھاڑو تک لگا لیتے ہیں۔
٭٭
مانک سرکار جنوری 1948ء میں تری پور کے قصبے، رادھا کشور پور میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد درزی کا کام کرتے تھے۔ آمدن بس اتنی تھی کہ روزمرہ اخراجات پورے ہوسکیں۔ تاہم بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنا والدین کے بس میں نہیں تھا۔ اتفاق سے جب مانک سرکار سکول جانے کی عمر تک پہنچے، تو ماں کو سرکاری ملازمت مل گئی۔ یوں آمدن میں اضافے سے انہیں تعلیم دلانے کی راہ کھل گئی۔
تری پورہ کے صدر مقام، اگرتلہ میں مانک سرکار نے تعلیم پائی۔ کالج میں پڑھتے ہوئے وہ کمیونسٹ پارٹی (مارکسٹ) میں شامل ہوگئے اور بڑھ چڑھ کر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے۔ 1998ء میں اپنی پارٹی کے پولٹ بیورو (سنٹرل کمیٹی) کے رکن منتخب ہوئے اور اسی سال تری پورہ کے وزیراعلیٰ بن گئے۔
اس وقت تری پورہ کے قبائل نے علیحدگی کی تحریک چلا رکھی تھی۔ مانک سرکار نے نہایت تدبر سے ان کے مسائل حل کیے اور یوں تحریک علیحدگی کا خاتمہ کر ڈالا۔ اس کامیابی کو پورے بھارت میں سراہا گیا۔ حتیٰ کہ نریندر مودی وزیراعظم بنے، تو انہوں نے خاص طور پر مانک سرکار سے دریافت کیا ''آپ نے ریاست میں علیحدگی پسندوں کو کس طرح رام کیا، ہمیں بھی بتائیے۔''
وجہ یہی کہ مانک شروع دن سے سرکاری دیانت داری سے حکومت چلا رہے ہیں۔ وہ ذاتی مفاد نہیں عوام کے مفادات مدنظر رکھتے اور انہی کے مطابق سرکاری پالیسیاں بناتے ہیں۔ وہ اپنی پوری تنخواہ کمیونسٹ پارٹی (مارکسٹ) کو دے ڈالتے ہیں۔ پارٹی انہیں اخراجات کے لیے ماہانہ دس ہزار روپے دیتی ہے۔ شاید یہ دنیا بھر میں کسی بھی وزیراعلیٰ کی سب سے کم تنخواہ ہے۔
دراصل سادہ طرز زندگی کے باعث مانک سرکار کے اخراجات کم ہیں۔ پھر وہ بے جا خواہش اور تمنائیں بھی نہیں پالتے۔ 2008ء میں جب ان کی والدہ چل بسیں، تو وراثت میں ساڑھے تین سو گز کا ایک مکان مانک صاحب کو مل گیا۔ وہ مکان انہوں نے غریب رشتے داروں کو دے دیا۔آج کل ایسا ایثار کون کرتا ہے؟ وہ خود سرکاری گھر میں رہائش پذیر ہیں۔
مانک سرکار کی بیگم سرکاری افسر تھیں۔ ریٹائرڈ ہوئیں تو انہیں گریجویٹی کی رقم ملی جو بینک میں جمع کرادی گئی۔ اس کے منافع اور پنشن کی رقم بھی گھریلو اخراجات پورے کرنے میں کام آتی ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ مانک سرکار نے آج تک گھریلو کاموںکے لیے سرکاری کار استعمال کرنے نہیں دی۔ چناں چہ وزیراعلیٰ کی بیگم پچھلے انیس برس سے رکشے یا ٹیکسی پر گھریلو کام انجام دے رہی ہیں۔وہ اگرتلہ میں عام خواتین کی طرح گھومتی پھرتی ہیں۔ یہ ہے حقیقی انداز ِحکمرانی! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی سادہ و عوام دوست انداز ِحکمرانی کی بنیاد رکھی تھی۔مگر آنے والے حکمرانوں نے شاہان عجم کے طور طریقے اپنا لیے۔
وزیراعلیٰ تری پورہ کا پسندیدہ کھیل کرکٹ ہے۔ وہ پاک بھارت ٹیموں کے مقابلے شوق سے دیکھتے ہیں۔ شام کو فلمیں دیکھنا بھی تفریح کا من پسند ذریعہ ہے۔ فطرتاً نرم دل ہیں مگر حکمران بن کر بعض اوقات یہ خوبی انہیں مہنگی پڑی۔دراصل وزیراعلیٰ کی نرم مزاجی سے فائدہ اٹھا کر بعض لالچی وزراء اور سرکاری افسروں نے سرکاری خزانے میں خرد برد کر ڈالی۔ یوں مختلف سیکنڈل سامنے آگئے۔ مانک سرکار کا دامن اجلا تھا، مگر بے ایمان ساتھیوں پر کڑی نظر نہ رکھنا حزب اختلاف کے نزدیک جرم بن گیا۔
مانک سرکار اب بھارت میں واحد کمیونسٹ وزیراعلیٰ ہیں۔ نریندر مودی کی بی جے پی سرتوڑ کوشش کررہی ہے کہ وہ تری پورہ سے کمیونسٹ حکومت ختم کرسکے۔ اس ضمن میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فساد کرانا بی جے پی کا سب سے مؤثر حربہ ہے۔ فرقہ وارانہ فساد کے بعد ہندوؤں کی کثیر تعداد بی جے پی کے جھنڈے تلے جمع ہوجاتی ہے۔ مانک سرکار بی جے پی کے ہندو انتہا پسندوں کی چالوں کو خوب سمجھتے ہیں۔ اس لیے ان کی بھر پور سعی ہے کہ ریاست میں فرقہ ورانہ فساد نہ ہونے پائے۔ تری پورہ کی چالیس لاکھ آبادی میں تقریباً ساڑھے تین لاکھ افراد مسلمان ہیں۔
مانک سرکاری ریاستی عوام میں بہت مقبول ہیں۔ اسی لیے وہ چار بار وزیراعلیٰ منتخب ہوچکے۔ ان کے نزدیک ''میری کامیابی کا راز یہ ہے کہ میں عوام سے کوئی بات پوشیدہ نہیں رکھتا۔ میں جو بھی کام کروں، وہ سب کے سامنے کرتا ہوں۔ دوسرے میں وعدہ وہی کرتا ہوں جسے پورا کرسکوں۔ چونکہ میں عوام کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کرتا ہوں، لہٰذا وہ مجھے منتخب کرلیتے ہیں۔''
وہ اپنی سادہ زندگی اور دیانت داری کا کریڈٹ اپنی پارٹی کو دیتے ہیں۔ مانک سرکار کا کہنا ہے ''میری پارٹی نے مجھے سکھایا کہ اپنی ذات سے بالاتر ہوکر بنی نوع انسان کی خدمت کرو۔ اگر مجھے ابتدا ہی سے یہ سنہرا سبق نہ ملتا، تو اختیار و اقتدار پاکر میں بھی ذاتی مفادات اور دولت کمانے کو مقدم رکھ سکتا تھا۔''
قوت، اختیار اور اقتدار پاکر ایک انسان جس قسم کے اقدامات کرے، انہیں دیکھ کر ہی پتا چلتا ہے کہ وہ کس کینڈے کا آدمی ہے۔ انسانی تاریخ عیاں کرتی ہے کہ بیشتر لوگ اقتدار و اختیار پاکر یکسر بدل جاتے ہیں اور یہ تبدیلی عموماً منفی ہوتی ہے۔ نہ معلوم اقتدار میں ایسی گیڈر سنگھی چھپی ہے کہ وہ ایک اچھے خاصے انسان کو حاکم بنا کر خود پسندی، غرور اور ظلم کا فرستادہ بنا دیتی ہے۔
تاہم تاریخ انسان میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ اختیار پاکر حاکموں نے خلق دوست کارنامے انجام دیئے۔ ایک ایسے ہی عظیم الشان حاکم حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ بھی تھے۔ خلیفہ راشد پنجم کہلائی جانے والی یہ ذی وقار ہستی حکومت ملنے سے قبل عیش و عشرت کی زندگی گزار رہی تھی۔ مگر جیسے ہی حضرت عمرؒ خلیفہ بنے، انہوں نے تمام شاہی آسائشیں تج دیں اورسادگی و قناعت کا بے مثال مرقع بن گئے۔ وہ سرکاری خزانے (بیت المال) کا ایک پیسہ بھی ذاتی کام پر خرچ کرنے کو گناہ عظیم سمجھتے تھے۔ دیانت داری، فرض شناسی اور قانون پسندی پر یقین رکھنے والا ایسا حکمران تاریخ انسانی میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
دور جدید میں نیلسن منڈیلا حکمرانی سے وابستہ منفی خوبو سے دور رہے۔ وہ سیاست کوخدمت انسانیت کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ وطن عزیز میں سابق نگران وزیراعظم معراج خالد اپنی سادگی کے باعث جانے مانے گئے۔ اقتدار و اختیار کو انہوں نے ذاتی کمائی کا ذریعہ نہیں بنایا اور نہ ہی قانون شکن بنے۔ ورنہ پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک میں اختیار و طاقت پاکر تقریباً ہر انسان خود کو تمام ارضی پابندیوں سے ماورا فوق البشر ہستی سمجھنے لگتا ہے۔
ہمارے پڑوس میں بھی ایک مثالی حکمران مصروف کار ہیں جنہیں ''غریب ترین وزیراعلیٰ'' ہونے کا اعزاز حاصل ہوچکا۔ اڑسٹھ سالہ مانک سرکار سے ملیے جو پچھلے انیس سال سے بھارتی ریاست، تری پورہ میں سیاہ و سفید کے مالک ہیں ۔جدید ''وچار'' کی رو سے اب تک انہیں اربوں نہیں تو کروڑوں روپوں میں کھیلنا چاہیے تھا۔ مگر یہ عجیب حکمران ہیں جو ذاتی گھر رکھتے ہیں نہ کار... جو اپنے برتن خود دھوتے اور ضرورت پڑے تو گھر میں جھاڑو تک لگا لیتے ہیں۔
٭٭
مانک سرکار جنوری 1948ء میں تری پور کے قصبے، رادھا کشور پور میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد درزی کا کام کرتے تھے۔ آمدن بس اتنی تھی کہ روزمرہ اخراجات پورے ہوسکیں۔ تاہم بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنا والدین کے بس میں نہیں تھا۔ اتفاق سے جب مانک سرکار سکول جانے کی عمر تک پہنچے، تو ماں کو سرکاری ملازمت مل گئی۔ یوں آمدن میں اضافے سے انہیں تعلیم دلانے کی راہ کھل گئی۔
تری پورہ کے صدر مقام، اگرتلہ میں مانک سرکار نے تعلیم پائی۔ کالج میں پڑھتے ہوئے وہ کمیونسٹ پارٹی (مارکسٹ) میں شامل ہوگئے اور بڑھ چڑھ کر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے۔ 1998ء میں اپنی پارٹی کے پولٹ بیورو (سنٹرل کمیٹی) کے رکن منتخب ہوئے اور اسی سال تری پورہ کے وزیراعلیٰ بن گئے۔
اس وقت تری پورہ کے قبائل نے علیحدگی کی تحریک چلا رکھی تھی۔ مانک سرکار نے نہایت تدبر سے ان کے مسائل حل کیے اور یوں تحریک علیحدگی کا خاتمہ کر ڈالا۔ اس کامیابی کو پورے بھارت میں سراہا گیا۔ حتیٰ کہ نریندر مودی وزیراعظم بنے، تو انہوں نے خاص طور پر مانک سرکار سے دریافت کیا ''آپ نے ریاست میں علیحدگی پسندوں کو کس طرح رام کیا، ہمیں بھی بتائیے۔''
وجہ یہی کہ مانک شروع دن سے سرکاری دیانت داری سے حکومت چلا رہے ہیں۔ وہ ذاتی مفاد نہیں عوام کے مفادات مدنظر رکھتے اور انہی کے مطابق سرکاری پالیسیاں بناتے ہیں۔ وہ اپنی پوری تنخواہ کمیونسٹ پارٹی (مارکسٹ) کو دے ڈالتے ہیں۔ پارٹی انہیں اخراجات کے لیے ماہانہ دس ہزار روپے دیتی ہے۔ شاید یہ دنیا بھر میں کسی بھی وزیراعلیٰ کی سب سے کم تنخواہ ہے۔
دراصل سادہ طرز زندگی کے باعث مانک سرکار کے اخراجات کم ہیں۔ پھر وہ بے جا خواہش اور تمنائیں بھی نہیں پالتے۔ 2008ء میں جب ان کی والدہ چل بسیں، تو وراثت میں ساڑھے تین سو گز کا ایک مکان مانک صاحب کو مل گیا۔ وہ مکان انہوں نے غریب رشتے داروں کو دے دیا۔آج کل ایسا ایثار کون کرتا ہے؟ وہ خود سرکاری گھر میں رہائش پذیر ہیں۔
مانک سرکار کی بیگم سرکاری افسر تھیں۔ ریٹائرڈ ہوئیں تو انہیں گریجویٹی کی رقم ملی جو بینک میں جمع کرادی گئی۔ اس کے منافع اور پنشن کی رقم بھی گھریلو اخراجات پورے کرنے میں کام آتی ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ مانک سرکار نے آج تک گھریلو کاموںکے لیے سرکاری کار استعمال کرنے نہیں دی۔ چناں چہ وزیراعلیٰ کی بیگم پچھلے انیس برس سے رکشے یا ٹیکسی پر گھریلو کام انجام دے رہی ہیں۔وہ اگرتلہ میں عام خواتین کی طرح گھومتی پھرتی ہیں۔ یہ ہے حقیقی انداز ِحکمرانی! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی سادہ و عوام دوست انداز ِحکمرانی کی بنیاد رکھی تھی۔مگر آنے والے حکمرانوں نے شاہان عجم کے طور طریقے اپنا لیے۔
وزیراعلیٰ تری پورہ کا پسندیدہ کھیل کرکٹ ہے۔ وہ پاک بھارت ٹیموں کے مقابلے شوق سے دیکھتے ہیں۔ شام کو فلمیں دیکھنا بھی تفریح کا من پسند ذریعہ ہے۔ فطرتاً نرم دل ہیں مگر حکمران بن کر بعض اوقات یہ خوبی انہیں مہنگی پڑی۔دراصل وزیراعلیٰ کی نرم مزاجی سے فائدہ اٹھا کر بعض لالچی وزراء اور سرکاری افسروں نے سرکاری خزانے میں خرد برد کر ڈالی۔ یوں مختلف سیکنڈل سامنے آگئے۔ مانک سرکار کا دامن اجلا تھا، مگر بے ایمان ساتھیوں پر کڑی نظر نہ رکھنا حزب اختلاف کے نزدیک جرم بن گیا۔
مانک سرکار اب بھارت میں واحد کمیونسٹ وزیراعلیٰ ہیں۔ نریندر مودی کی بی جے پی سرتوڑ کوشش کررہی ہے کہ وہ تری پورہ سے کمیونسٹ حکومت ختم کرسکے۔ اس ضمن میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فساد کرانا بی جے پی کا سب سے مؤثر حربہ ہے۔ فرقہ وارانہ فساد کے بعد ہندوؤں کی کثیر تعداد بی جے پی کے جھنڈے تلے جمع ہوجاتی ہے۔ مانک سرکار بی جے پی کے ہندو انتہا پسندوں کی چالوں کو خوب سمجھتے ہیں۔ اس لیے ان کی بھر پور سعی ہے کہ ریاست میں فرقہ ورانہ فساد نہ ہونے پائے۔ تری پورہ کی چالیس لاکھ آبادی میں تقریباً ساڑھے تین لاکھ افراد مسلمان ہیں۔
مانک سرکاری ریاستی عوام میں بہت مقبول ہیں۔ اسی لیے وہ چار بار وزیراعلیٰ منتخب ہوچکے۔ ان کے نزدیک ''میری کامیابی کا راز یہ ہے کہ میں عوام سے کوئی بات پوشیدہ نہیں رکھتا۔ میں جو بھی کام کروں، وہ سب کے سامنے کرتا ہوں۔ دوسرے میں وعدہ وہی کرتا ہوں جسے پورا کرسکوں۔ چونکہ میں عوام کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کرتا ہوں، لہٰذا وہ مجھے منتخب کرلیتے ہیں۔''
وہ اپنی سادہ زندگی اور دیانت داری کا کریڈٹ اپنی پارٹی کو دیتے ہیں۔ مانک سرکار کا کہنا ہے ''میری پارٹی نے مجھے سکھایا کہ اپنی ذات سے بالاتر ہوکر بنی نوع انسان کی خدمت کرو۔ اگر مجھے ابتدا ہی سے یہ سنہرا سبق نہ ملتا، تو اختیار و اقتدار پاکر میں بھی ذاتی مفادات اور دولت کمانے کو مقدم رکھ سکتا تھا۔''