جی ہاں بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں

نواز شریف صاحب اور اُن کے خاندان سے دست بستہ گزارش ہے کہ تمام بیٹیوں کو وہی رتبہ دیجیے جو آپ اپنی بیٹی کو دیتے ہیں۔


شاہد کاظمی July 11, 2017
بیٹی تو چاہے نواز شریف کی ہو یا بھٹو کی، چاہے وہ سیدہ شہلا رضا ہوں یا سلاخوں کے پیچھے بیٹھی شرمیلا فاروقی ہوں، سب کی عزت و تکریم برابر ہونی چاہیے۔ فوٹو: ایکسپریس

LAKKI MARWAT: پاکستان کی تاریخ اِس بات کی گواہ ہے کہ مفادات ہمیشہ مقدم رہے ہیں اور مستقبل قریب و بعید میں اِس روش میں کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی آنے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ یہاں جس طرح عزتیں اچھالی جاتی رہی ہیں، اُسی طرح اچھالی جارہی ہیں، اور خدشہ یہ ہے کہ یہ عزتیں اِسی طرح اُچھالی جاتی رہیں گی۔ یہاں ہمیشہ اپنی عزت کو عزت اور دوسرے کی عزت کو بکاؤ مال سمجھا جاتا رہا ہے اور سمجھا جاتا رہے گا، اور حد تو یہ ہے کہ آج آپ کسی کے ساتھ مل کر کسی کی عزت کو بیچ چوراہے پر نیلام کر رہے ہیں تو کل اُسی کی مخالف پارٹی سے مل کر اُسی کی عزت کے بخیے اُدھیڑنا فرائض میں شامل ہوجاتا ہے، حالانکہ کبھی اُس کو ماتھے تک ہاتھ لے جاکر سلام کیا جانا سب سے اہم کام سمجھا جاتا تھا۔

قصہ مختصر یہ کہ اپنے مفاد کے لیے دوسروں کی عزتوں سے کھیلنا پاکستان کی سیاست میں بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، اور شومئی قسمت کہ کل کو وہی حالات اگر اپنے ساتھ پیش آجائیں تو لہجے بھی بھر آتے ہیں، تقریروں میں تلخی بھی آجاتی ہے، آنکھوں کے پپوٹے بھی نم ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں بھی مقدم لگنے لگتی ہیں۔

محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیشی کو کچھ اِس انداز میں پیش کیا گیا کہ جیسے کوئی انہونی ہوگئی ہو یا پھر جمہوریت کو کچھ ایسا خطرہ پیش آگیا ہو کہ بساط لپٹنے کا ڈر پیدا ہوجائے۔ جس پیشی کو خود کو عوام کی نظروں میں ہیرو ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا تھا اُسی پیشی کو کچھ اِس انداز سے پیش کیا گیا کہ اپنا ہی مقدمہ کمزور کرلیا۔

سن 73ء میں آنکھ کھولنے والی محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ تب شعور کی منازل تک بھی نہیں پہنچی تھیں جب محترمہ بینظیر بھٹو میجر اور کیپٹن رینک کے افسران کے سامنے پیش ہورہی تھیں اور ہر طرح کے مرد حضرات اُن کے ارد گرد موجود ہوتے تھے۔ مریم نواز شریف صاحبہ جے آئی ٹی میں پیشی سے پہلے اور پیشی کے بعد ہرگز اپنی آواز کو اِس قدر سخت نہ کرتیں اگر وہ خون میں لتھڑی ہوئی بیگم نصرت بھٹو کو دیکھ لیتیں کہ جن کو اِس انداز میں پیٹا گیا تھا کہ سر سے خون رواں اور دوپٹے تک کا ہوش نہیں رہنے دیا گیا۔ نہ جانے یہ جمہوریت کی بکری تب کون سی گھاس چرنے گئی ہوئی تھی جب شہلا رضا صاحبہ کو مرد پولیس حضرات وین میں بٹھائے لے جا رہے تھے۔





سچی بات تو یہ ہے کہ مریم صاحبہ خوش نصیب تھیں کہ اُن کی درخواست پر تحقیقاتی ٹیم نے خاتون پولیس افسر بھی مہیا کردی تھی جو اُنہیں گاڑی سے جوڈیشل اکیڈمی تک رہنمائی بھی فراہم کرتی رہیں۔

اللہ کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ آج وہ دور بھی نہیں جب کسی بی بی کو شرمیلا فاروقی کی طرح سلاخوں کے پیچھے اکڑوں بیٹھنا پڑے اور چہرے پر ایسی ہوائیاں اڑ رہی ہوں کہ چہرے کی جانب دیکھا بھی نہ جاسکے۔ وہ دور بھی اب تو بہت پرانا ہوگیا ہے جب اپنے شوہر سے ملاقات کے لیے بھی جیل کے باہر اپنے بچوں کی انگلیاں پکڑے انتظار کرنا پڑتا تھا۔





مریم صاحبہ تو اِس حوالے سے بھی بہت خوش نصیب ٹھہریں کہ اُنہیں پیشی کے وقت دو بھائیوں کا ساتھ میسر تھا اور اللہ کرے انہیں بھائیوں کا ساتھ تا دیر میسر رہے کیوںکہ بھائی کو اگر پردیس میں زہر دے کر مار دیا جائے یا پھر کسی مصروف شاہراہ پر گہری سازش کے تحت گولیوں سے بھون دیا جائے تو یہ دکھ وہی جانتا ہے جس کو پہنچتا ہے۔



ہماری تو تہہ دل سے دعا ہے کہ صرف مریم نواز شریف صاحبہ ہی نہیں بلکہ کسی بیٹی پر بھی ایسا وقت نہ آئے کہ وہ جیل سے اسپتال میں پہنچے اور آپریشن کے بعد دوبارہ جیل میں پہنچ جائے۔ خدا ایسا وقت کسی پر نہ لائے، کیونکہ بیٹیاں یقیناً سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ سیدہ شہلا رضا ہوں یا پھر شرمیلا فاروقی، بی بی بینظیر ہوں یا پھر بی بی مریم، بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ لیکن پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں تو محترمہ فاطمہ جناح جیسی ہستی بھی ریشہ دوانیوں سے محفوظ نہیں رہ پائیں، اور ناجانے ایسے پاکستان میں مریم نواز صاحبہ کس بنیاد پر اپنی پیشی کو سازش قرار دینا شروع ہوگئی ہیں؟

اِس لیے مریم نواز صاحبہ سے گزارش ہے کہ اگر آپ واقعی مستقبل میں اپنے محترم والد صاحب کی جگہ لینے کی خواہشمند ہیں تو مضبوط بننا ہوگا، اگر صرف ایک پیشی پر آپ اِس طرح گھبرا جائیں گی تو پاکستان کی سیاست میں آپ کا چلنا مشکل ہی نہیں ناممکن بن جائے گا۔ لیکن شاید غلطی آپ کی نہیں، کیونکہ درحقیقت آپ کو تو پکی پکائی سیاسی کھیر مل رہی ہے اِس لیے آپ جانتی ہی نہیں کہ سیاسی میدان میں جدوجہد کس چڑیا کا نام ہے۔ اِس لیے گزارش بس اتنی سی ہے کہ آپ اِس پیشی کو اپنی طاقت بنائیے اور ایسی راہنما بننے کا سفر شروع کیجیے جو کڑے وقت میں بھی اپنے ارادے کی مضبوطی زائل نہ ہونے دے۔

آخر میں یہ بات بھی کہنا چاہوں کہ بیٹیوں کے دکھ اور سکھ بھی سانجھے ہی ہوتے ہیں۔ اِس لیے عرض بس اتنی سی ہے بیٹیاں یقیناً عدالتوں میں پیش ہوتی ہوئی اچھی نہیں لگتیں، نہ ہی بیٹیوں کی پیشی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ایک اچھا فعل ہے۔ مگر نہ جانے یہ کون سی جمہوریت ہے جو صرف اپنی ہی بیٹیوں کا سوچنے کی توفیق دیتی ہے۔

حالانکہ بیٹی تو چاہے میاں نواز شریف کی ہو یا بھٹو کی، چاہے وہ سیدہ شہلا رضا ہوں یا کسی وقت میں اپنی ماں کے ساتھ سلاخوں کے پیچھے بیٹھی شرمیلا فاروقی ہوں، سب کی عزت و تکریم برابر ہونی چاہیے۔ اِس لیے نواز شریف اور اُن کے خاندان سے دست بستہ گزارش ہے کہ تمام بیٹیوں کو وہی رتبہ دیجیے جو آپ اپنی بیٹی کو دیتے ہیں۔ تمام بیٹیوں کے دکھ کو اتنا ہی سمجھیے جتنا دکھ آپ اپنی بیٹی کا سمجھتے ہیں۔ بیٹیاں سانجھی سمجھی جائیں گی تو نہ وہ عدالتوں میں گھسیٹی جائیں گی، اور نہ اُن کے سروں سے بہنے والے خون سے سیاسی محل تعمیر ہوں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنےمختصرمگرجامع تعارف کیساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں