داعش کے خلاف جنگ ختم نہیں ہوئی امریکی کمانڈر
موصل میں داعش کے خلاف لڑائی دوسری جنگ عظیم کے بعد کسی بھی شہری علاقے میں شدید ترین تھی
عراق میں تعینات امریکی فوجی کمانڈر جنرل اسٹیفن ٹاؤن سینڈ نے خبردار کیا ہے کہ موصل میں داعش کے خلاف عراقی افواج کی تاریخی فتح کے باوجود اس دہشت گرد تنظیم کے خلاف جنگ ختم نہیں ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز عراقی وزیراعظم حیدر العبادی نے موصل میں داعش کے خلاف مکمل کامیابی کا باقاعدہ اعلان کیا تھا۔ نو ماہ تک جاری رہنے والی اس لڑائی میں موصل کا بڑا علاقہ تباہی کا شکار ہوا، ہزاروں شہری مارے گئے اور 9 لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے۔ اس فتح کا اعلان کرتے ہوئے حیدر العبادی نے عراق کا قومی پرچم لہرایا اور اعلان کیا کہ موصل میں باطل دہشت گرد حکومت کا خاتمہ ہوچکا ہے۔
اس اعلان کے برخلاف جنرل ٹاؤن سینڈ نے بین الاقوامی ذرائع سے گفتگو کرتے ہوئے خبردار کیا کہ موصل میں داعش کے دہشت گرد جنگجو اب تک موجود ہیں اور ان پر قابو پانے کےلیے عراقی حکومت کو وہاں رہنے والی سنی برادری سے لازماً مذاکرات کرنے چاہئیں تاکہ داعش کو دوبارہ فعال ہونے سے روکا جاسکے۔
جنرل ٹاؤن سینڈ کا کہنا تھا کہ اگر داعش کو عراق میں دوبارہ فعال ہونے سے روکنا ہے تو عراقی حکومت کو معمول سے ہٹ کر کچھ کرنا ہوگا یعنی سنی برادری سے رابطہ کرکے مصالحت کرنا ہوگی اور اسے باور کرانا ہوگا کہ عراق کی وفاقی حکومت ان کی نمائندگی بھی کرتی ہے۔
موصل میں عراقی اور اتحادی افواج کی کارروائیوں پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی آج اپنی ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وہاں انتہائی گنجان آباد علاقوں میں بھاری ہتھیاروں کا غیر ضروری استعمال کیا گیا ہے جبکہ داعش کے جنگجو بھی وہاں سنگین جرائم کے مرتکب پائے گئے ہیں۔
اتحادی افواج کے کمانڈروں نے موصل میں داعش کے خلاف لڑائی کو دوسری جنگ عظیم کے بعد کسی بھی شہری علاقے میں شدید ترین جنگ قرار دیا ہے۔
البتہ جنرل ٹاؤن سینڈ نے عراقی حکومت کو مبارکباد دینے کے ساتھ ساتھ خبردار بھی کیا ہے کہ موصل کے قدیم شہر میں اب بھی ممکنہ طور پر داعش کے دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں اور دھماکہ خیز مادّوں کے ذخیرے بھی ان کے کنٹرول میں ہیں جنہیں مکمل طور پر ختم کرنا اشد ضروری ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز عراقی وزیراعظم حیدر العبادی نے موصل میں داعش کے خلاف مکمل کامیابی کا باقاعدہ اعلان کیا تھا۔ نو ماہ تک جاری رہنے والی اس لڑائی میں موصل کا بڑا علاقہ تباہی کا شکار ہوا، ہزاروں شہری مارے گئے اور 9 لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے۔ اس فتح کا اعلان کرتے ہوئے حیدر العبادی نے عراق کا قومی پرچم لہرایا اور اعلان کیا کہ موصل میں باطل دہشت گرد حکومت کا خاتمہ ہوچکا ہے۔
اس اعلان کے برخلاف جنرل ٹاؤن سینڈ نے بین الاقوامی ذرائع سے گفتگو کرتے ہوئے خبردار کیا کہ موصل میں داعش کے دہشت گرد جنگجو اب تک موجود ہیں اور ان پر قابو پانے کےلیے عراقی حکومت کو وہاں رہنے والی سنی برادری سے لازماً مذاکرات کرنے چاہئیں تاکہ داعش کو دوبارہ فعال ہونے سے روکا جاسکے۔
جنرل ٹاؤن سینڈ کا کہنا تھا کہ اگر داعش کو عراق میں دوبارہ فعال ہونے سے روکنا ہے تو عراقی حکومت کو معمول سے ہٹ کر کچھ کرنا ہوگا یعنی سنی برادری سے رابطہ کرکے مصالحت کرنا ہوگی اور اسے باور کرانا ہوگا کہ عراق کی وفاقی حکومت ان کی نمائندگی بھی کرتی ہے۔
موصل میں عراقی اور اتحادی افواج کی کارروائیوں پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی آج اپنی ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وہاں انتہائی گنجان آباد علاقوں میں بھاری ہتھیاروں کا غیر ضروری استعمال کیا گیا ہے جبکہ داعش کے جنگجو بھی وہاں سنگین جرائم کے مرتکب پائے گئے ہیں۔
اتحادی افواج کے کمانڈروں نے موصل میں داعش کے خلاف لڑائی کو دوسری جنگ عظیم کے بعد کسی بھی شہری علاقے میں شدید ترین جنگ قرار دیا ہے۔
البتہ جنرل ٹاؤن سینڈ نے عراقی حکومت کو مبارکباد دینے کے ساتھ ساتھ خبردار بھی کیا ہے کہ موصل کے قدیم شہر میں اب بھی ممکنہ طور پر داعش کے دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں اور دھماکہ خیز مادّوں کے ذخیرے بھی ان کے کنٹرول میں ہیں جنہیں مکمل طور پر ختم کرنا اشد ضروری ہے۔