مائیکروسافٹ کا ’’کیلبری فونٹ‘‘ اور مریم نواز کے دستاویزات

2006 کے دستاویز میں وہ فونٹ استعمال کیے جانے کا انکشاف جو متعارف ہی 2007 میں کرایا گیا


ویب ڈیسک July 11, 2017
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر حکمرانوں کے خلاف دلچسپ تبصروں کا سیلاب آگیا — فوٹو : ڈیلی پاکستان

پاناما جے آئی ٹی کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی جانے والی تحقیقاتی رپورٹ میں مبینہ طور پر شریف خاندان پر جعلی دستاویز جمع کرانے کا بھی الزام عائد کیا گیا ہے۔

ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ کے ایک حصے میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کی جانب سے جمع کرائے گئے بعض دستاویز میں مائیکروسافٹ کا ''کیلبری '' فونٹ استعمال کیا گیا ہے لیکن ان دستاویز پر 2006 کی تاریخ درج ہے جبکہ کیلبیری فونٹ 2007 میں باضابطہ طور پر متعارف کرایا گیا تھا۔

جے آئی ٹی کے اس انکشاف پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر تہلکہ مچ گیا اور ٹوئیٹر صارفین نے حکمراں جماعت اور نواز شریف کے خاندان پر تنقید کا سلسلہ شروع کردیا جس کے بعد fontgate# پاکستان میں ٹاپ ٹرینڈ بن گیا ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ آج سے قبل ایریل ان کا پسندیدہ فونٹ تھا تاہم اب انہیں کیلبری پسند ہے کیوں کہ اس نے حکمرانوں کی کرپشن کو بے نقاب کیا ہے۔



صحافی ضرار کھوڑو نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کا وہ حصہ ٹوئیٹ کیا جس پر لکھا ہے کہ مریم نواز نے دستاویز میں جو فونٹ استعمال کیا وہ 2007 سے قبل دستیاب ہی نہیں تھا۔ پی ٹی آئی کے رہنما ڈاکٹر عارف علوی نے بھی اس معاملے پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اندازہ لگائیں جعلی دستاویز بنانے والوں کو یہ بات معلوم ہی نہیں تھی کہ کیلبری فونٹ 31 جنوری 2007 سے قبل موجود ہی نہیں تھا، یہ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں۔



ایک صارف نے طنز کرتے ہوئے لکھا کہ اب شہباز شریف یہ کہیں گے کہ کیلبری فونٹ ہماری بیٹی مریم نواز نے ارفع کریم ٹاور لاہور میں ایجاد کیا۔ ایک اور صارف نے شہباز شریف پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ وہ یہ نہ کہہ دیں کہ کیلبری فونٹ میرے ابا جان نے 1965 سے قبل ''اتفاق فونٹری'' میں بنایا تھا۔



ایک صارف نے مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس اور وزیراعظم نواز شریف کی ماضی میں ہونے والی کسی ملاقات کی تصویر اپ لوڈ کی اور اس کا کیپشن کچھ یوں دیا کہ : مائیکرو سافٹ کے بانی بذات خود کیلبری فونٹ ایجاد کرنے پر نواز شریف کا شکریہ ادا کررہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں