بھارت اور اسرائیل کہانی
بقول نریندر مودی کے دونوں ممالک کے تعلقات آٹھ سو سال پرانے ہیں
نریندرمودی کے دورۂ اسرائیل میں دونوں حکومتوں کی جانب سے خاصی گرم جوشی کا مظاہرہ کیا گیا، جو یہ ظاہر کر رہا ہے کہ دونوں ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملاکرکھڑا رہنے کی کوششیں کررہی ہیں، گو ستر برسوں میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کسی بھارتی وزیراعظم نے اسرائیل کا دورہ کیا ہو لیکن اس وقت عرب کے خطے کی بدلتی اورکچھ گرم سیاست میں انھیں اتنا تو موقع ملا اور انھوں نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی کیونکہ انسان توکوشش کرتا ہی ہے اور فیصلے کرنے والے اپنے فیصلے کرتے ہیں۔ بہرحال اس سیاسی منظرنامے میں اسرائیل بھارت کے ساتھ کھڑا ہوکر بھارتی حکومت کو سہارا دینے کی کوشش توکر رہا ہے۔
بقول نریندر مودی کے دونوں ممالک کے تعلقات آٹھ سو سال پرانے ہیں، ان تعلقات کی تاریخ کھنگالنے کے لیے مودی نے شاید ایک بھی کتاب نہ پڑھی ہو لیکن بظاہر سینہ تان کر یہودی برادری کو بھارت کی طاقت کہنے پر مجبور ہیں کہ اسرائیلی کمپنیوں اور بینکوں کے جال بڑی بڑی طاقتوں کے حدود اربعہ پر پھیلے ہیں اور جس کے پاس پیسہ ہو لوگ تو اسی کو مانتے ہیں، مودی جی کا یہ بھی کہنا ہے کہ دونوں ممالک کی ثقافت بھی ایک جیسی ہے۔ اب اس سلسلے میں اورکیا کہیں کہ بات اب صرف ان کے دھرم تک کی ہی رہ گئی ہے۔ خیر مطلب پر توگدھے کو بھی باپ بنایا جاسکتا ہے۔
موصوف نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا پرتپاک استقبال کرنے پر شکریہ ادا کیا اور ان تمام پچیس برسوں کے سفارتی تعلقات کا بھی تذکرہ کیا کہ اچھی بھلی گزر ہی گئی لیکن انھوں نے ایسا ہرگز نہیں کہا انھوں نے تو اچھا ہی کہا کہ اگر نیتن یاہوکو ذرا بھی ناگوار گزرتا تو مودی جی کا کیا رہ جاتا بہرحال ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں ہولی ہوتی ہے تو اسرائیل میں پرم منایا جاتا ہے انھوں نے میکاویہ گیمز کا بھی ذکر کیا کہ جس میں بھارتی کھلاڑی بھی حصہ لے رہے ہیں انھوں نے پہلے سے ہی ان تمام اسرائیلی کھلاڑیوں کو بھی خراج تحسین اور سلام پیش کر ڈالا کہ کہیں وقت نہ ملے پھر کبھی۔
2011 میں اسرائیل کی نگراں حکومت میں بھارت کے شیخ انصاری کا بھی تذکرہ کر ڈالا اور بھارتی فوج کے لیفٹیننٹ پی آر جیکب کا بھی ذکر کرنا نہ بھولے کہ جنھوں نے بقول مودی جی کے بنگلہ دیش میں پاکستان کے نوے ہزار فوجیوں کو سرینڈر کرنے پر مجبور کیا تھا۔ غالباً یہ وہی جیکب صاحب تھے جن کا ایک آخری ان کی زندگی کا انٹرویو کہیں کسی رسالے میں پڑھا تھا جس میں انھوں نے اندراگاندھی کے حکم کی مخالفت کی تھی کیونکہ اندرا گاندھی کتنی ہی بڑی سیاستدان تھیں پر تھیں تو خاتون، انھوں نے فوراً جلتی پر تیل ڈالنے کو کہا تھا اور جیکب صاحب نے نو کہہ کر ان کے چہرے کا رنگ اتار دیا تھا۔
ایک لیفٹیننٹ جنرل کی یہ مجال کہ وزیر اعظم کو انکار کرے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ یہ موسم جنگ کے لیے مناسب نہیں ہے۔ اس موسم میں ہندوستانی فوج کی شکست ہوسکتی ہے مجبوراً اندرا گاندھی کو ان کے فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ جیت دراصل جیکب کے حصے میں نہیں لکھی تھی بلکہ یہ ہماری احمقانہ نما سازشوں کی تھی، چھوٹے چھوٹے لوگ بڑے بڑے عہدے۔ بس عہدوں کا وزن ان کے حساب سے اتنا زیادہ لاد دیا گیا تھا کہ ان سے سہا نہیں گیا فی الحال اسرائیل اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی محبت کی ادھوری کہانی کا باب کھل رہا ہے اور وجہ یہ کیا؟
کچھ برس پہلے چلیے اقوام متحدہ سے سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت اور ویٹو کا حق حاصل کرنے کے لیے بھارت کے ساتھ اسرائیل سرگرم تھا۔ اسرائیل سے شایع ہونے والے عبرانی اخبار ''ہارٹس'' نے انکشاف کیا تھا کہ بھارت اور اسرائیل نے مشترکہ طور پر سلامتی کونسل کی رکنیت کے لیے حکمت عملی وضع کی ہے۔
دونوں ممالک کے مشترکہ طور پر وفود تشکیل دیے گئے ہیں جو یورپ، افریقہ، امریکا اور ایشیا کا دورہ کریں گے جن ممالک میں اسرائیل کا اثرو رسوخ ہے وہاں بھارت کے لیے راہ ہموار کی جائے گی اور جن ممالک کے ساتھ بھارت کا تعلق ہے۔ ان سے اسرائیل کے لیے نرم گوشے کی اپیل کی جائے گی دونوں ممالک کی خوش قسمتی ہے کہ وہ وقت کی دو سپر طاقتوں کے ساتھ رہے ہیں۔ اس سے پہلے مصر کے صدر حسنی مبارک نے قیام اسرائیل کے دن مبارک باد کا پیغام عربوں کی جانب سے انھیں دیا گویا بقول اسرائیل وزیر اعظم بارش کا پہلا قطرہ وہ ثابت ہوئے تھے جب کہ بھارت کے لیے پاکستان مسئلہ کشمیر کے لیے چٹان بنا کھڑا ہے۔
بھارت کی سابق مذاکرات کار ایک معروف پروفیسر نے تو پیش گوئی کردی ہے کہ آیندہ بیس پچیس برسوں میں کشمیر آزادی حاصل کرلے گا دراصل بھارت کی اپنی اندرونی خلفشار اور بیرونی سفارت کاری کے حربے استعمال کرنے کے باوجود وہ سوشل میڈیا سے ان معصوم کشمیریوں کے لیے دنیا بھر سے ہمدردی کے جذبات سلب کرنے میں ناکام رہے ہیں مودی اپنے دور حکومت میں کشمیر کی لکیر اپنے حصے سے نکالتے ہوئے خوفزدہ ہیں۔ کیونکہ وہ گاندھی جی کا حشر تو دیکھ ہی چکے ہیں اب کشمیر کی کہانی کا خوبصورت باب آزادی کے حوالے سے کس دور میں کھلے گا انشا اللہ یہ وقت بتائے گا لیکن ہماری حالیہ اور آنے والی حکومتوں کو کشمیر کے حوالے سے اپنی پالیسیوں میں اتنا رد و بدل نہیں کرنا چاہیے کہ یہ چت پٹ کا کھیل بن کر رہ جائے۔ کشمیری بھائی ہماری محبت کے منتظر ہیں۔