دلیپ کمار سے معذرت خواہ ہوں
اس زمانے کے بالی ووڈ پر ماضی کے یہی دو بڑے اداکار دلیپ کمار اور راج کپور راج کرتے تھے لیکن یہ تب کی بات ہے
LAHORE:
اب کوئی نصف صدی بعد یہ انکشاف ہوا ہے کہ 1962 میں بننے والی ہالی ووڈ کی شاہکار فلم لارنس آف عریبیہ کا لیڈنگ رول ( ہیروکا کردار ) سب سے پہلے برصغیر کے لیجنڈ اداکار دلیپ کمارکو آفرکیا گیا تھا مگر انھوں نے بوجوہ یہ پیشکش قبول نہیں کی اور ان کے انکار کے بعد یہ لازوال کردار برطانیہ کے معروف اسٹیج اداکار پیٹر او ٹول کے حصے میں آیا۔
اسی فلم میں مصری اداکار عمر شریف کو بھی لیا گیا تھا ، جن لوگوں نے یہ شہرہ آفاق فلم دیکھی ہے کچھ وہی جانتے اور بتا سکتے ہیں کہ اس میں آخر وہ کیا بات تھی جس کی وجہ سے اس فلم نے دنیا بھر میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے اور پیٹر اوٹول لارنس آف عریبیہ کا کردار ادا کرکے ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔ پھر دلیپ کمار میں ایسی کیا بات تھی کہ وہ اس کردار کے لیے ہالی ووڈ کی پہلی ترجیح قرار پائے تھے۔
یقیناً کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کی دلیپ کمارکی وہ خدا داد صلاحیت ہی تھی جس نے ہالی ووڈ کے نامور فلم سازوہدایتکار کو ان کے انتخاب پر مجبورکیا تھا ورنہ وہاں کیریکٹر ایکٹروں کی کوئی کمی نہیں تھی اور لارنس آف عریبیہ کا مخصوص کردار ادا کرنے کے لیے بھی ان کے پاس ایک سے ایک اعلیٰ اداکار موجود تھا۔ ان تمام حقائق کو سامنے رکھ کر تصورکیجیے کہ اگر دلیپ کمار لارنس آف عریبیہ کا کردار ادا کرنے کے لیے رضامند ہوجاتے تو یہ فلم اداکاری اور کردار نگاری کے کیا کیا اعلیٰ معیار نہ قائم کرتی۔
وہ ہماری نوجوانی کے دن تھے جب پاکستانی سینماؤں میں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی عائد کیے جانے سے قبل دلیپ کمار کی فلم ''آن'' دیکھی اوردکھائی جارہی تھی۔ ہم دو دوست ( میں اور اقبال آرائیں مرحوم ) فلم دیکھنے اپنے شہر ٹنڈو غلام علی سے حیدرآباد آیا کرتے تھے لیکن لاری اڈے پر اترتے ہی سینما جانے کے لیے ہماری راہیں جدا ہو جاتیں۔
اقبال، دلیپ کمار کا فین تھا اور صرف ان ہی کی فلمیں دیکھا کرتا تھا جب کہ مجھے راج کپور اور نرگس کی جوڑی اچھی لگتی تھی۔ اس نے مجھے قائل کرنے کی بہت کوشش کی کہ آخری بار دلیپ کی فلم دیکھ لوں ورنہ زندگی بھر حسرت ہی رہے گی، لیکن مجھ پر اس کی کسی دلیل کا کوئی اثر نہ ہوا۔ نتیجتاً اس نے گاڑی کھاتے کے شمس سینما میں ''آن'' اور میں نے صدر میں واقع نیو میجسٹک سینما میں ''آہ'' دیکھی۔
آپ شاید یقین نہ کریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ میں نے آج تک سینما میں کبھی دلیپ کمار کی کوئی فلم نہیں دیکھی، جب کہ راج کپور اور نرگس کی شاید ہی کوئی ایسی فلم ہو جو میں نے نہ دیکھی ہو۔ اس زمانے میں کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ آنے والے دنوں میں ہرگھر سینما ہاؤس ہوگا اور ہم پہلے وی سی آر، پھر کیبل کے ذریعے ٹی وی اور انٹر نیٹ پر بھارت ہی کیا دنیا بھر کی فلمیں دیکھا کریں گے۔ مجھے بھی یہ وقت آنے کے بعد دلیپ کمار کی کئی شاہکار فلمیں دیکھنے کا موقع ملا اور میں اپنے فن میں یکتا اس ور اسٹائل اداکار کی عظمت کا قائل ہو گیا۔
اب وہ دن یاد کرتا ہوں تو بہت افسوس ہوتا ہے کہ میں نے اپنے جگری دوست اقبال کے ساتھ مل کر دلیپ کمار کی فلمیں بڑی اسکرین پر کیوں نہیں دیکھیں، اگرچہ ان کے زمانہ عروج کی بہت سی یادگار فلمیں، جن میں ''مغل اعظم'' سرفہرست ہے، میں باوجود ہزارکوشش کے آج تک نہیں دیکھ سکا، البتہ اس فلم کے ایک گانے '' جب پیارکیا تو ڈرنا کیا '' کے بول مجھے آج بھی یاد ہیں۔ لوگ سوتے میں بڑبڑاتے ہیں اور میں یہ گانا گنگنایا کرتا تھا۔ ابا کی وہ مار بھی میں آج تک نہیں بھولا جو اس جرم کی پاداش میں کھانی پڑی تھی۔
اس زمانے کے بالی ووڈ پر ماضی کے یہی دو بڑے اداکار دلیپ کمار اور راج کپور راج کرتے تھے لیکن یہ تب کی بات ہے جب بالی ووڈ کے آج کے کئی سپر ہیروز شاید پیدا بھی نہ ہوئے ہوں۔ یہاں یہ ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ان دونوں عظیم اداکاروں سے متعلق بہت سی ایسی باتیں بھی دیومالائی کہانیوں کی طرح مشہور تھیں جن کا شاید حقیقت سے دور پرے کا بھی کوئی تعلق نہ ہو مگر ان کے چاہنے والے چوباروں میں مزے لے لے کر سنایا کرتے تھے۔
مدھو بالا کے ساتھ ، جواکثر فلموں میں دلیپ کمارکے ساتھ ہیروئن آیا کرتی تھیں،ان کے افیئر میں تو شایدکچھ حقیقت بھی تھی جس کا انھوں نے اپنی یاد داشتوں میں خود بھی اعتراف کیا ہے مگر اس دورکے پینڈو فلم بینوں نے نرگس کے حوالے سے، جو راج کپور کی ہیروئن کے طور پر ان کی فلموں میں جلوہ گر ہوا کرتی تھیں، دلیپ کمار اور راج کپور کی رقابت کے ایسے ایسے قصے گھڑ رکھے تھے جنھیں سن کر خوف آتا تھا اور دونوں کے چاہنے والے رات کو سونے سے پہلے ان کی سلامتی کی دعا مانگنا نہیں بھولتے تھے۔
ایک بار ایسی ہی ایک اوٹ پٹانگ بات سن کر میں بھی پریشان ہوگیا تھا، وہ تو اچھا ہوا ہمارے ماموں غلام رسول مرحوم ان دنوں کراچی سے ہمارے ہاں ٹنڈو غلام علی آئے ہوئے تھے، میں نے اسکول سے واپسی پر جب ماموں کو وہ بات سنائی تو وہ پہلے تو کھلکھلا کے خوب ہنسے اور پھر ہمارے فلمی صحافی دوست اسد جعفری مرحوم کے اسٹائل میں اس پر کچھ ایسا ماہرانہ تبصرہ کیا کہ ہماری تسلی ہوگئی، تاہم مزید اطمینان کی خاطر ہم کئی دنوں تک مجنوں کے ہوٹل جاکر اخبار میں ایک ایک فلمی خبر غور سے پڑھا کرتے تھے کہ کہیں ہماری سنی ہوئی بات سچی نہ نکل آئے۔
وہ اوٹ پٹانگ بات یہ تھی کہ بمبئی کے ایک اسٹوڈیو میں کسی فلم کے سیٹ پر دلیپ کمار شوٹنگ شروع ہونے سے پہلے نرگس سے کھڑے بات کر رہے کہ اچانک راج کپور بھی وہاں آ دھمکے، دونوں رقابت کی آگ میں پہلے ہی جل رہے تھے، لڑنے کے لیے بہانہ چاہیے تھا ، نرگس کو دلیپ کمار کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کرتے دیکھ لینا کافی تھا، بس پھر کیا تھا، تْو تْو میں میں کے بعد دونوں الجھ پڑے اور گتھم گتھا ہوگئے، دلیپ کمار پر ہاکی کے کھلاڑی کا کوئی سین فلمایا جانا تھا، جھگڑے کے وقت بھی ہاکی ان کے ہاتھ میں تھی جو انھوں نے راج کپور کی ٹانگ پر دے ماری اور ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔
اس فرضی قصے میں میری پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ ٹانگ ٹوٹ جانے کے بعد راج کپور تو اب نرگس کے ساتھ فلموں میں ہیرو نہیں آ سکیں گے، پھر اس کے ساتھ کس کی جوڑی بنے گی اور وہ جوڑی کیسی لگے گی وغیرہ وغیرہ۔ اب اپنی اس قسم کی احمقانہ باتیں اور حرکتیں یاد کر کے ہنسی آتی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ سوچ میں پختگی آنے تک اور نا سمجھی کی حدود عبور نہ کر لینے تک یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہوتا ہے اور جو ماحول کے زیادہ زیر اثر ہوتا ہے۔
1960 میں اپنا آبائی شہر چھوڑنے اور پہلے حیدرآباد، پھر نواب شاھ اور آخر میں کراچی نقل مکانی کرنے کے بعد فلم بینی کے حوالے سے مجھ میں ایک بڑی تبدیلی یہ آئی کہ میں انگریزی فلمیں زیادہ دیکھنے لگا جس کے نتیجے میں میرے آئیڈیلز بھی تبدیل ہوگئے۔ حیدرآباد میں قیام کے ابتدائی سالوں میں تو خیر محمد علی، زیبا، وحید مراد، شمیم آرا، ندیم اور شبنم ہی کی فلمیں دیکھنے کو ملتی تھیں لیکن نواب شاہ منتقل ہونے کے بعد ایک بار پھر '' لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تْو '' کے مصداق میں بالی ووڈ کے سحر میں گرفتار ہوگیا۔
شہر میں دو ہی سینما تھے جن میں بھارتی فلموں کی نمائش پر سے پابندی اٹھائے جانے کے بعد شاز و نادر ہی کوئی پاکستانی فلم لگتی تھی۔ یہاں میں پردیپ کمار اوروجینتی مالا کی جوڑی سے متعارف ہوا جس کی دو فلمیں ''تاج'' اور ''جوانی کی ہوا'' مجھے آج بھی یاد ہیں۔ جی ہاں وہی وجینتی مالا جن کا اپنے دورہ بھارت میں ایک کلاسیکل رقص دیکھ کر مصر کے صدر جمال ناصر کی رال ٹپک گئی تھی۔ میں بہرحال، دلیپ کمار صاحب سے معذرت خواہ ہوں کہ انتھونی کوئن کی فلموں کی طرح میں نے ان کی بھی بہت کم فلمیں دیکھی ہیں۔
اب کوئی نصف صدی بعد یہ انکشاف ہوا ہے کہ 1962 میں بننے والی ہالی ووڈ کی شاہکار فلم لارنس آف عریبیہ کا لیڈنگ رول ( ہیروکا کردار ) سب سے پہلے برصغیر کے لیجنڈ اداکار دلیپ کمارکو آفرکیا گیا تھا مگر انھوں نے بوجوہ یہ پیشکش قبول نہیں کی اور ان کے انکار کے بعد یہ لازوال کردار برطانیہ کے معروف اسٹیج اداکار پیٹر او ٹول کے حصے میں آیا۔
اسی فلم میں مصری اداکار عمر شریف کو بھی لیا گیا تھا ، جن لوگوں نے یہ شہرہ آفاق فلم دیکھی ہے کچھ وہی جانتے اور بتا سکتے ہیں کہ اس میں آخر وہ کیا بات تھی جس کی وجہ سے اس فلم نے دنیا بھر میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے اور پیٹر اوٹول لارنس آف عریبیہ کا کردار ادا کرکے ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔ پھر دلیپ کمار میں ایسی کیا بات تھی کہ وہ اس کردار کے لیے ہالی ووڈ کی پہلی ترجیح قرار پائے تھے۔
یقیناً کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کی دلیپ کمارکی وہ خدا داد صلاحیت ہی تھی جس نے ہالی ووڈ کے نامور فلم سازوہدایتکار کو ان کے انتخاب پر مجبورکیا تھا ورنہ وہاں کیریکٹر ایکٹروں کی کوئی کمی نہیں تھی اور لارنس آف عریبیہ کا مخصوص کردار ادا کرنے کے لیے بھی ان کے پاس ایک سے ایک اعلیٰ اداکار موجود تھا۔ ان تمام حقائق کو سامنے رکھ کر تصورکیجیے کہ اگر دلیپ کمار لارنس آف عریبیہ کا کردار ادا کرنے کے لیے رضامند ہوجاتے تو یہ فلم اداکاری اور کردار نگاری کے کیا کیا اعلیٰ معیار نہ قائم کرتی۔
وہ ہماری نوجوانی کے دن تھے جب پاکستانی سینماؤں میں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی عائد کیے جانے سے قبل دلیپ کمار کی فلم ''آن'' دیکھی اوردکھائی جارہی تھی۔ ہم دو دوست ( میں اور اقبال آرائیں مرحوم ) فلم دیکھنے اپنے شہر ٹنڈو غلام علی سے حیدرآباد آیا کرتے تھے لیکن لاری اڈے پر اترتے ہی سینما جانے کے لیے ہماری راہیں جدا ہو جاتیں۔
اقبال، دلیپ کمار کا فین تھا اور صرف ان ہی کی فلمیں دیکھا کرتا تھا جب کہ مجھے راج کپور اور نرگس کی جوڑی اچھی لگتی تھی۔ اس نے مجھے قائل کرنے کی بہت کوشش کی کہ آخری بار دلیپ کی فلم دیکھ لوں ورنہ زندگی بھر حسرت ہی رہے گی، لیکن مجھ پر اس کی کسی دلیل کا کوئی اثر نہ ہوا۔ نتیجتاً اس نے گاڑی کھاتے کے شمس سینما میں ''آن'' اور میں نے صدر میں واقع نیو میجسٹک سینما میں ''آہ'' دیکھی۔
آپ شاید یقین نہ کریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ میں نے آج تک سینما میں کبھی دلیپ کمار کی کوئی فلم نہیں دیکھی، جب کہ راج کپور اور نرگس کی شاید ہی کوئی ایسی فلم ہو جو میں نے نہ دیکھی ہو۔ اس زمانے میں کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ آنے والے دنوں میں ہرگھر سینما ہاؤس ہوگا اور ہم پہلے وی سی آر، پھر کیبل کے ذریعے ٹی وی اور انٹر نیٹ پر بھارت ہی کیا دنیا بھر کی فلمیں دیکھا کریں گے۔ مجھے بھی یہ وقت آنے کے بعد دلیپ کمار کی کئی شاہکار فلمیں دیکھنے کا موقع ملا اور میں اپنے فن میں یکتا اس ور اسٹائل اداکار کی عظمت کا قائل ہو گیا۔
اب وہ دن یاد کرتا ہوں تو بہت افسوس ہوتا ہے کہ میں نے اپنے جگری دوست اقبال کے ساتھ مل کر دلیپ کمار کی فلمیں بڑی اسکرین پر کیوں نہیں دیکھیں، اگرچہ ان کے زمانہ عروج کی بہت سی یادگار فلمیں، جن میں ''مغل اعظم'' سرفہرست ہے، میں باوجود ہزارکوشش کے آج تک نہیں دیکھ سکا، البتہ اس فلم کے ایک گانے '' جب پیارکیا تو ڈرنا کیا '' کے بول مجھے آج بھی یاد ہیں۔ لوگ سوتے میں بڑبڑاتے ہیں اور میں یہ گانا گنگنایا کرتا تھا۔ ابا کی وہ مار بھی میں آج تک نہیں بھولا جو اس جرم کی پاداش میں کھانی پڑی تھی۔
اس زمانے کے بالی ووڈ پر ماضی کے یہی دو بڑے اداکار دلیپ کمار اور راج کپور راج کرتے تھے لیکن یہ تب کی بات ہے جب بالی ووڈ کے آج کے کئی سپر ہیروز شاید پیدا بھی نہ ہوئے ہوں۔ یہاں یہ ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ان دونوں عظیم اداکاروں سے متعلق بہت سی ایسی باتیں بھی دیومالائی کہانیوں کی طرح مشہور تھیں جن کا شاید حقیقت سے دور پرے کا بھی کوئی تعلق نہ ہو مگر ان کے چاہنے والے چوباروں میں مزے لے لے کر سنایا کرتے تھے۔
مدھو بالا کے ساتھ ، جواکثر فلموں میں دلیپ کمارکے ساتھ ہیروئن آیا کرتی تھیں،ان کے افیئر میں تو شایدکچھ حقیقت بھی تھی جس کا انھوں نے اپنی یاد داشتوں میں خود بھی اعتراف کیا ہے مگر اس دورکے پینڈو فلم بینوں نے نرگس کے حوالے سے، جو راج کپور کی ہیروئن کے طور پر ان کی فلموں میں جلوہ گر ہوا کرتی تھیں، دلیپ کمار اور راج کپور کی رقابت کے ایسے ایسے قصے گھڑ رکھے تھے جنھیں سن کر خوف آتا تھا اور دونوں کے چاہنے والے رات کو سونے سے پہلے ان کی سلامتی کی دعا مانگنا نہیں بھولتے تھے۔
ایک بار ایسی ہی ایک اوٹ پٹانگ بات سن کر میں بھی پریشان ہوگیا تھا، وہ تو اچھا ہوا ہمارے ماموں غلام رسول مرحوم ان دنوں کراچی سے ہمارے ہاں ٹنڈو غلام علی آئے ہوئے تھے، میں نے اسکول سے واپسی پر جب ماموں کو وہ بات سنائی تو وہ پہلے تو کھلکھلا کے خوب ہنسے اور پھر ہمارے فلمی صحافی دوست اسد جعفری مرحوم کے اسٹائل میں اس پر کچھ ایسا ماہرانہ تبصرہ کیا کہ ہماری تسلی ہوگئی، تاہم مزید اطمینان کی خاطر ہم کئی دنوں تک مجنوں کے ہوٹل جاکر اخبار میں ایک ایک فلمی خبر غور سے پڑھا کرتے تھے کہ کہیں ہماری سنی ہوئی بات سچی نہ نکل آئے۔
وہ اوٹ پٹانگ بات یہ تھی کہ بمبئی کے ایک اسٹوڈیو میں کسی فلم کے سیٹ پر دلیپ کمار شوٹنگ شروع ہونے سے پہلے نرگس سے کھڑے بات کر رہے کہ اچانک راج کپور بھی وہاں آ دھمکے، دونوں رقابت کی آگ میں پہلے ہی جل رہے تھے، لڑنے کے لیے بہانہ چاہیے تھا ، نرگس کو دلیپ کمار کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کرتے دیکھ لینا کافی تھا، بس پھر کیا تھا، تْو تْو میں میں کے بعد دونوں الجھ پڑے اور گتھم گتھا ہوگئے، دلیپ کمار پر ہاکی کے کھلاڑی کا کوئی سین فلمایا جانا تھا، جھگڑے کے وقت بھی ہاکی ان کے ہاتھ میں تھی جو انھوں نے راج کپور کی ٹانگ پر دے ماری اور ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔
اس فرضی قصے میں میری پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ ٹانگ ٹوٹ جانے کے بعد راج کپور تو اب نرگس کے ساتھ فلموں میں ہیرو نہیں آ سکیں گے، پھر اس کے ساتھ کس کی جوڑی بنے گی اور وہ جوڑی کیسی لگے گی وغیرہ وغیرہ۔ اب اپنی اس قسم کی احمقانہ باتیں اور حرکتیں یاد کر کے ہنسی آتی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ سوچ میں پختگی آنے تک اور نا سمجھی کی حدود عبور نہ کر لینے تک یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہوتا ہے اور جو ماحول کے زیادہ زیر اثر ہوتا ہے۔
1960 میں اپنا آبائی شہر چھوڑنے اور پہلے حیدرآباد، پھر نواب شاھ اور آخر میں کراچی نقل مکانی کرنے کے بعد فلم بینی کے حوالے سے مجھ میں ایک بڑی تبدیلی یہ آئی کہ میں انگریزی فلمیں زیادہ دیکھنے لگا جس کے نتیجے میں میرے آئیڈیلز بھی تبدیل ہوگئے۔ حیدرآباد میں قیام کے ابتدائی سالوں میں تو خیر محمد علی، زیبا، وحید مراد، شمیم آرا، ندیم اور شبنم ہی کی فلمیں دیکھنے کو ملتی تھیں لیکن نواب شاہ منتقل ہونے کے بعد ایک بار پھر '' لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تْو '' کے مصداق میں بالی ووڈ کے سحر میں گرفتار ہوگیا۔
شہر میں دو ہی سینما تھے جن میں بھارتی فلموں کی نمائش پر سے پابندی اٹھائے جانے کے بعد شاز و نادر ہی کوئی پاکستانی فلم لگتی تھی۔ یہاں میں پردیپ کمار اوروجینتی مالا کی جوڑی سے متعارف ہوا جس کی دو فلمیں ''تاج'' اور ''جوانی کی ہوا'' مجھے آج بھی یاد ہیں۔ جی ہاں وہی وجینتی مالا جن کا اپنے دورہ بھارت میں ایک کلاسیکل رقص دیکھ کر مصر کے صدر جمال ناصر کی رال ٹپک گئی تھی۔ میں بہرحال، دلیپ کمار صاحب سے معذرت خواہ ہوں کہ انتھونی کوئن کی فلموں کی طرح میں نے ان کی بھی بہت کم فلمیں دیکھی ہیں۔