کڑا امتحان
جے آئی ٹی نے جس طرح دو ماہ کے قلیل عرصے میں اپنی تحقیقات مکمل کرلی ہیں۔
پاناما کیس کے معاملے پر سپریم کورٹ کے 20 اپریل والے فیصلے اور اُس کے نتیجے میں بنائی جانے والی جے آئی ٹی پر مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی دونوں کی جانب سے مسرت اورشادمانی کا اظہارکیاگیا تھا اور دونوں نے خوب مٹھائیاں بھی تقسیم کی تھیں۔ حکومتی حلقوں کو سپریم کورٹ کے اُس فیصلے سے وقتی طور پرکچھ ریلیف ملا تھا اور وہ دو کے مقابلے میں تین ججوں کے فیصلے کو اپنی جیت تصورکررہے تھے۔ شاید اِسی لیے اُنہوں نے اِس پر خوشی کا اظہار بھی کیا تھا اور جشن بھی منایا۔
پی ٹی آئی والے بھی باقی دو ججوں کی ریمارکس پر اِس لیے خوش تھے کہ اِس میں اُن کے موقف کی تائیداور جیت کا تاثر اُبھر رہا تھا، لیکن ساتھ ہی ساتھ اُن کی جانب سے یہ خوشی بازؤں پرکالی پٹی باندھ کرمنائی گئی یعنی خوشی کے ساتھ ساتھ غم وغصے کا بھی عنصرموجود تھا۔
خود خان صاحب کوابتدا میں جے آئی ٹی کے بنائے جانے پر بہت سے تحفظات تھے اور اُنہوں نے اسے قبول کرتے ہوئے وزیرِ اعظم کے استعفیٰ سے مشروط کردیا تھا کیونکہ اُن کی نظر میں میاں صاحب کے اپنے منصب پر فائز رہتے ہوئے جے آئی ٹی کے افسران جن کا تعلق حکومت کے ماتحت اداروں سے ہے آزادانہ تحقیقات نہیں کرپائیں گے۔ لیکن جوں جوں جے آئی ٹی نے اپنا کام شروع کیا تو خان صاحب کا اُس پر اعتماد بڑھتا گیا اور وہ اُس کی کارروائیوں سے لطف اندوز ہوتے رہے جب کہ دوسری جانب توقعات کے برعکس لیگی رہنماؤں کے اُس پرشدید اعتراضات اورتحفظات ابھر کر سامنے آتے گئے۔
اِس سے ایک بات تو یہ ثابت ہوئی کہ وزیرِ اعظم نے جے آئی ٹی پر اثر انداز ہونے کی نہ درپردہ کوشش کی اور نہ جے آئی ٹی کے افسران نے کسی کو خود پر مسلط یا اثر انداز ہونے دیا۔ وہ مکمل بے باکی اور ہمت و حوصلے سے اپنا کام کرتے گئے۔اِس دوران کچھ متنازع باتیں بھی سامنے آتی رہیں۔ مثلاً واٹس ایپ میسیج کے ذریعے جے آئی ٹی کے ممبران کی نامزدگی اور تقرری اور حسین نواز کی جوڈیشل اکیڈمی سے تصویرکا لیک ہونا۔
یہ دونوں معاملات سپریم کورٹ کے نوٹس میں لائے گئے تاحال یہ معاملات ایک سربستہ راز ہی ہیں۔ عدالتِ عالیہ نے جے آئی ٹی کو یہ حکم تو ضرور دیا کہ وہ کم از کم اٹارنی جنرل کو حسین نواز کی تصویر لیک کرنے والے کا نام بتا دے مگر مسئلہ ابھی باقی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق جے آئی ٹی کو مکمل اختیار تھا کہ وہ تحقیقات کے سلسلے میں جس کو چاہے طلب کرسکتی تھی اور جہاں چاہے اِس سلسلے میں خود جا بھی سکتی تھی ۔ وہ اگر قطری شہزادے حماد بن جاسم کا بیان لینے قطر جانا چاہے یا لندن میں بنائے گئے فلیٹوں کی معلومات حاصل کرنے کے لیے اگر لندن جانا چاہتی تو بے شک جا سکتی تھی ۔ لیکن یہ بات حیران کن ہے کہ جے آئی ٹی نے حسین نواز اور دیگر کو ایک سے زائد مرتبہ طلب تو کیا مگر مذکورہ فلیٹوں کی ملکیت کا پتہ لگانے کے لیے ایک بار بھی لندن نہیں گئی۔اِسی طرح قطری شہزادے کو بیان دینے کے لیے ایک خط تو لکھا مگر اُس کے یہاں آنے سے انکار پر خود بھی قطر نہیں گئی۔
قانونی ماہرین کے خیال میں یہ وہ دو انتہائی اہم کام تھے جن کا طے ہونا اِس کیس میں نہایت ضروری تھا کیونکہ اِن کے بغیر جے آئی ٹی کی ساری تحقیقات اورمشقت نہ مکمل اور ادھوری ہی کہلائیں گی۔ یہ درست ہے کہ قطری شہزادے نے اپنے ایک بیان کے ذریعے پہلے ہی اپنے سابقہ خط کے مندرجات پر مہر تصدیق ثبت کردی تھی لیکن جے آئی ٹی کا خود جاکر معاملات کی چھان بین کرنا اور دستاویزی ثبوت کے لیے شہزادے سے پوچھ گچھ کرنا شایداتنا ہی ضروری تھا جتنااِس کیس میں شریف خاندان کوطلب کیاجانا۔
اِس پورے عرصے میں سپریم کورٹ جے آئی ٹی کے ساری کارروائی سے مکمل باخبر رہی ہے۔اُسے ہر پندرہ روز بعد ایک مفصل رپورٹ باقاعدگی سے جمع کرائی گئی۔ اب حتمی رپورٹ جمع ہوچکی ہے، دیکھنا یہ ہے فائنل رپورٹ کے بعد ہماری سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرتی ہے۔ ہمارے بہت سے صاحب علم و دانش اور آئینی ماہرین کا خیال ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر وہ ایک وزیرِ اعظم کو جس کا نام بھی پاناما پیپرز میں کہیں درج نہیں تھا نااہل قرار دینے کی مجاز نہیں ہے۔بیٹوں کے کاروبار اور فلیٹوں پر جس کی ملکیت اور منی ٹریل کا ابھی مکمل تعین بھی نہ ہوسکا ہے باپ کوقصوروار قرار دیکرسزا نہیں دی جاسکتی ۔ہمارا آئین اِس کی اجازت ہرگز نہیں دیتا۔
موجودہ پاناما کیس میںعدالتِ عظمیٰ اگر چاہے تو اپنے طورپر ایسا کرسکتی ہے لیکن یہ ہمارے آئین ودستورسے متجاوز ہوگا اور یہ ایک ایسی خطرناک مثال بنے گا جس سے مستقبل میں کوئی بھی وزیرِ اعظم محفوظ نہیں رہے گا۔ماضی قریب میںہمارے یہاں ایسے ہی ایک کیس کی واضح اور منفردمثال بھی موجود ہے جب ارسلان افتخار کے مالی معاملات سے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے لاعلمی ظاہر کرکے خود کو اُس معاملے سے علیحدہ کرلیا تھا۔
ایک کمیشن بھی بنایا گیا تھا لیکن ارسلان افتخار سے کسی نے منی ٹریل بھی طلب نہیں کی اور وہ معاملہ تاریخ اوروقت کی دھندلکوں میں کہیں چھپ کررہ گیا ۔لہذا اب بھی ہماری عدلیہ کے لیے جے آئی ٹی کی رپورٹ پر کسی حتمی فیصلے پر پہنچناکوئی اتنا آسان اورسہل بھی نہ ہوگا۔ ہوسکتا ہے سپریم کورٹ اُسے نا مکمل اور غیر تسلی بخش قرار دے کر مزید تحقیقات کا حکم صادر کردے یا پھر معاملہ ، ریفرنس یا ٹرائیل کورٹ کے حوالے کردے۔اگر ایسا ہوا تو یہ کیس مزید التوا کا شکار ہوجائے گااور ہمارے اُن حکومت مخالفین کے لیے انتہائی تکلیف اور صدمے کا باعث بنے گاجو یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ جولائی کے اختتام تک یہ حکومت باقی نہیں رہے گی۔
میاں نواز شریف کے مخالفین کی تو یہ دلی خواہش ہے کہ وہ اگلے الیکشنوں سے پہلے پہلے اپنے منصب سے محروم کردیے جائیں۔اُن کی چار سالہ ساری جدوجہد کے نتیجہ خیز اور ثمریاب ہونے کا دارومدار بھی صرف اورصرف اِسی فیصلے پر منحصر ہے۔جوں جوں نئے الیکشن قریب آتے جارہے ہیں اُن کی بے چینی اور اضطراب بھی بڑھتا جا رہا ہے۔
اگر فیصلہ ان کی توقعات اور خواہشوں کے برعکس آیا تو یہی لوگ جو آج عدلیہ کے احترام و عقیدت کے سبق پڑھارہے ہیں ،ان کے لہجے مختلف ہوں گے کہ اُن کے مقابلے میں نہال ہاشمی بھی معصوم دکھائی دینے لگے گا۔ خدشہ ہے کہ وہ لوگ ایک بار پھر اِس معاملے کو لے کر سڑکوں اور شاہراہوں پر ہنگامہ آرائی کی سیاست کررہے ہونگے جس کا عندیہ خان صاحب نے پہلے ہی دے رکھا ہے۔
جے آئی ٹی نے جس طرح دو ماہ کے قلیل عرصے میں اپنی تحقیقات مکمل کرلی ہیں۔پارک لین لندن میں بنائے گئے فلیٹس حسن اور حسین نواز کی ملکیت میں کن تاریخوں میں لائے گئے ۔اِس کی تصدیق بہر حال ہونا چاہیے تھی تاکہ معلوم ہوسکے کہ اِس بارے میں کس کا دعویٰ درست اور صحیح ہے۔بالکل اِسی طرح قطری شہزادے کے خط اور دعوؤں کو بھی یکسر رد نہیں کیا جاسکتا ہے جب تک کہ ہمارے پاس اِس کو رد کرنے کے لیے ٹھوس اورواضح ثبوت اور دلائل نہ ہوں۔صرف زبانی وکلامی رد کردینا انصاف کے تقاضوں کو پورا نہ کرنے کے مترادف خیال کیاجائے گا۔
یہ ایک بہت ہی غیر معمولی کیس ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ ہمارے ملک کی سب سے بڑی عدالت میں زیرسماعت ہے اور آج ہمارے یہاں کوئی غیر جمہوری آمرانہ نظام بھی رائج نہیں ہے ۔ ہماری عدالتی تاریخ جسٹس منیر سے لے کر نواب محمداحمد خان اور طیارہ سازش کیس تک فوجی ادوار میں کیے گئے غیر منصفانہ فیصلوں سے پہلے ہی بہت مجروح ہو چکی ہے۔آزاد اورخود مختار عدلیہ کے لیے یہ ایک بہت بڑے اور کڑے امتحان کا وقت ہے۔ قوم منتظر ہے کہ وہ ایک شفاف اورمنصفانہ تاریخی فیصلہ دے کر اِس امتحان میں کامیاب و سرخرو ہو گی ۔
پی ٹی آئی والے بھی باقی دو ججوں کی ریمارکس پر اِس لیے خوش تھے کہ اِس میں اُن کے موقف کی تائیداور جیت کا تاثر اُبھر رہا تھا، لیکن ساتھ ہی ساتھ اُن کی جانب سے یہ خوشی بازؤں پرکالی پٹی باندھ کرمنائی گئی یعنی خوشی کے ساتھ ساتھ غم وغصے کا بھی عنصرموجود تھا۔
خود خان صاحب کوابتدا میں جے آئی ٹی کے بنائے جانے پر بہت سے تحفظات تھے اور اُنہوں نے اسے قبول کرتے ہوئے وزیرِ اعظم کے استعفیٰ سے مشروط کردیا تھا کیونکہ اُن کی نظر میں میاں صاحب کے اپنے منصب پر فائز رہتے ہوئے جے آئی ٹی کے افسران جن کا تعلق حکومت کے ماتحت اداروں سے ہے آزادانہ تحقیقات نہیں کرپائیں گے۔ لیکن جوں جوں جے آئی ٹی نے اپنا کام شروع کیا تو خان صاحب کا اُس پر اعتماد بڑھتا گیا اور وہ اُس کی کارروائیوں سے لطف اندوز ہوتے رہے جب کہ دوسری جانب توقعات کے برعکس لیگی رہنماؤں کے اُس پرشدید اعتراضات اورتحفظات ابھر کر سامنے آتے گئے۔
اِس سے ایک بات تو یہ ثابت ہوئی کہ وزیرِ اعظم نے جے آئی ٹی پر اثر انداز ہونے کی نہ درپردہ کوشش کی اور نہ جے آئی ٹی کے افسران نے کسی کو خود پر مسلط یا اثر انداز ہونے دیا۔ وہ مکمل بے باکی اور ہمت و حوصلے سے اپنا کام کرتے گئے۔اِس دوران کچھ متنازع باتیں بھی سامنے آتی رہیں۔ مثلاً واٹس ایپ میسیج کے ذریعے جے آئی ٹی کے ممبران کی نامزدگی اور تقرری اور حسین نواز کی جوڈیشل اکیڈمی سے تصویرکا لیک ہونا۔
یہ دونوں معاملات سپریم کورٹ کے نوٹس میں لائے گئے تاحال یہ معاملات ایک سربستہ راز ہی ہیں۔ عدالتِ عالیہ نے جے آئی ٹی کو یہ حکم تو ضرور دیا کہ وہ کم از کم اٹارنی جنرل کو حسین نواز کی تصویر لیک کرنے والے کا نام بتا دے مگر مسئلہ ابھی باقی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق جے آئی ٹی کو مکمل اختیار تھا کہ وہ تحقیقات کے سلسلے میں جس کو چاہے طلب کرسکتی تھی اور جہاں چاہے اِس سلسلے میں خود جا بھی سکتی تھی ۔ وہ اگر قطری شہزادے حماد بن جاسم کا بیان لینے قطر جانا چاہے یا لندن میں بنائے گئے فلیٹوں کی معلومات حاصل کرنے کے لیے اگر لندن جانا چاہتی تو بے شک جا سکتی تھی ۔ لیکن یہ بات حیران کن ہے کہ جے آئی ٹی نے حسین نواز اور دیگر کو ایک سے زائد مرتبہ طلب تو کیا مگر مذکورہ فلیٹوں کی ملکیت کا پتہ لگانے کے لیے ایک بار بھی لندن نہیں گئی۔اِسی طرح قطری شہزادے کو بیان دینے کے لیے ایک خط تو لکھا مگر اُس کے یہاں آنے سے انکار پر خود بھی قطر نہیں گئی۔
قانونی ماہرین کے خیال میں یہ وہ دو انتہائی اہم کام تھے جن کا طے ہونا اِس کیس میں نہایت ضروری تھا کیونکہ اِن کے بغیر جے آئی ٹی کی ساری تحقیقات اورمشقت نہ مکمل اور ادھوری ہی کہلائیں گی۔ یہ درست ہے کہ قطری شہزادے نے اپنے ایک بیان کے ذریعے پہلے ہی اپنے سابقہ خط کے مندرجات پر مہر تصدیق ثبت کردی تھی لیکن جے آئی ٹی کا خود جاکر معاملات کی چھان بین کرنا اور دستاویزی ثبوت کے لیے شہزادے سے پوچھ گچھ کرنا شایداتنا ہی ضروری تھا جتنااِس کیس میں شریف خاندان کوطلب کیاجانا۔
اِس پورے عرصے میں سپریم کورٹ جے آئی ٹی کے ساری کارروائی سے مکمل باخبر رہی ہے۔اُسے ہر پندرہ روز بعد ایک مفصل رپورٹ باقاعدگی سے جمع کرائی گئی۔ اب حتمی رپورٹ جمع ہوچکی ہے، دیکھنا یہ ہے فائنل رپورٹ کے بعد ہماری سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرتی ہے۔ ہمارے بہت سے صاحب علم و دانش اور آئینی ماہرین کا خیال ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر وہ ایک وزیرِ اعظم کو جس کا نام بھی پاناما پیپرز میں کہیں درج نہیں تھا نااہل قرار دینے کی مجاز نہیں ہے۔بیٹوں کے کاروبار اور فلیٹوں پر جس کی ملکیت اور منی ٹریل کا ابھی مکمل تعین بھی نہ ہوسکا ہے باپ کوقصوروار قرار دیکرسزا نہیں دی جاسکتی ۔ہمارا آئین اِس کی اجازت ہرگز نہیں دیتا۔
موجودہ پاناما کیس میںعدالتِ عظمیٰ اگر چاہے تو اپنے طورپر ایسا کرسکتی ہے لیکن یہ ہمارے آئین ودستورسے متجاوز ہوگا اور یہ ایک ایسی خطرناک مثال بنے گا جس سے مستقبل میں کوئی بھی وزیرِ اعظم محفوظ نہیں رہے گا۔ماضی قریب میںہمارے یہاں ایسے ہی ایک کیس کی واضح اور منفردمثال بھی موجود ہے جب ارسلان افتخار کے مالی معاملات سے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے لاعلمی ظاہر کرکے خود کو اُس معاملے سے علیحدہ کرلیا تھا۔
ایک کمیشن بھی بنایا گیا تھا لیکن ارسلان افتخار سے کسی نے منی ٹریل بھی طلب نہیں کی اور وہ معاملہ تاریخ اوروقت کی دھندلکوں میں کہیں چھپ کررہ گیا ۔لہذا اب بھی ہماری عدلیہ کے لیے جے آئی ٹی کی رپورٹ پر کسی حتمی فیصلے پر پہنچناکوئی اتنا آسان اورسہل بھی نہ ہوگا۔ ہوسکتا ہے سپریم کورٹ اُسے نا مکمل اور غیر تسلی بخش قرار دے کر مزید تحقیقات کا حکم صادر کردے یا پھر معاملہ ، ریفرنس یا ٹرائیل کورٹ کے حوالے کردے۔اگر ایسا ہوا تو یہ کیس مزید التوا کا شکار ہوجائے گااور ہمارے اُن حکومت مخالفین کے لیے انتہائی تکلیف اور صدمے کا باعث بنے گاجو یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ جولائی کے اختتام تک یہ حکومت باقی نہیں رہے گی۔
میاں نواز شریف کے مخالفین کی تو یہ دلی خواہش ہے کہ وہ اگلے الیکشنوں سے پہلے پہلے اپنے منصب سے محروم کردیے جائیں۔اُن کی چار سالہ ساری جدوجہد کے نتیجہ خیز اور ثمریاب ہونے کا دارومدار بھی صرف اورصرف اِسی فیصلے پر منحصر ہے۔جوں جوں نئے الیکشن قریب آتے جارہے ہیں اُن کی بے چینی اور اضطراب بھی بڑھتا جا رہا ہے۔
اگر فیصلہ ان کی توقعات اور خواہشوں کے برعکس آیا تو یہی لوگ جو آج عدلیہ کے احترام و عقیدت کے سبق پڑھارہے ہیں ،ان کے لہجے مختلف ہوں گے کہ اُن کے مقابلے میں نہال ہاشمی بھی معصوم دکھائی دینے لگے گا۔ خدشہ ہے کہ وہ لوگ ایک بار پھر اِس معاملے کو لے کر سڑکوں اور شاہراہوں پر ہنگامہ آرائی کی سیاست کررہے ہونگے جس کا عندیہ خان صاحب نے پہلے ہی دے رکھا ہے۔
جے آئی ٹی نے جس طرح دو ماہ کے قلیل عرصے میں اپنی تحقیقات مکمل کرلی ہیں۔پارک لین لندن میں بنائے گئے فلیٹس حسن اور حسین نواز کی ملکیت میں کن تاریخوں میں لائے گئے ۔اِس کی تصدیق بہر حال ہونا چاہیے تھی تاکہ معلوم ہوسکے کہ اِس بارے میں کس کا دعویٰ درست اور صحیح ہے۔بالکل اِسی طرح قطری شہزادے کے خط اور دعوؤں کو بھی یکسر رد نہیں کیا جاسکتا ہے جب تک کہ ہمارے پاس اِس کو رد کرنے کے لیے ٹھوس اورواضح ثبوت اور دلائل نہ ہوں۔صرف زبانی وکلامی رد کردینا انصاف کے تقاضوں کو پورا نہ کرنے کے مترادف خیال کیاجائے گا۔
یہ ایک بہت ہی غیر معمولی کیس ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ ہمارے ملک کی سب سے بڑی عدالت میں زیرسماعت ہے اور آج ہمارے یہاں کوئی غیر جمہوری آمرانہ نظام بھی رائج نہیں ہے ۔ ہماری عدالتی تاریخ جسٹس منیر سے لے کر نواب محمداحمد خان اور طیارہ سازش کیس تک فوجی ادوار میں کیے گئے غیر منصفانہ فیصلوں سے پہلے ہی بہت مجروح ہو چکی ہے۔آزاد اورخود مختار عدلیہ کے لیے یہ ایک بہت بڑے اور کڑے امتحان کا وقت ہے۔ قوم منتظر ہے کہ وہ ایک شفاف اورمنصفانہ تاریخی فیصلہ دے کر اِس امتحان میں کامیاب و سرخرو ہو گی ۔