ادیان عالم کا تقابلی جائزہ اور حرمت انسان
ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام مذاہب کے افکار کو وسعت نظری سے دیکھا جائے
سید شوکت علی زیدی، جو ماضی بعید میں میرے استاد بھی رہ چکے ہیں، ایک معروف کالج میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر تھے، جن کا شوق علم ، اس کو گہرائی اور گیرائی سے سمجھنا اور آگے پھیلانا، اور اسی کو مقصد حیات بناتے ہوئے انھوں نے کامیابیاں بھی حاصل کیں، حصول تعلیم کے لیے ادارے روشناس کروائے، بحیثیت تحقیقی مصنف کتابیں تحریر کیں، لیکن ابھی حال ہی میں انتہائی محنت اور جانفشانی سے کی گئی تحیقیق کردہ چار تصانیف، جن کے نام یہودیت، عیسائیت، مذاہب عالم، مینامتی وغیرہ، میری نظر سے گزریں، جن کا مطالعہ کرنے سے مجھے اپنے ذہن کی اس گتھی کو سلجھانے میں بڑی مدد ملی جو دنیا کے بگڑے ہوئے موجودہ حالات سے متعلق رہی ہے۔
اس سے مراد یہ کہ آج کے دور میں ایک انسان دوسرے انسان کا، ایک قوم دوسری قوم کی، اور کئی ممالک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوچکے ہیں۔ اس کی وجوہات کچھ بھی کہی یا سمجھی جائیں کہ کوئی تیل کے حصول کو قرار دیتا ہے تو کوئی معیشت کی دھکم پیل کو، اور اس سے بڑھ کر آپس میں لڑاؤ اور اسلحہ سازی کی صنعت کو فروغ دینا وغیرہ... لیکن ان تمام مقاصد کے حصول کے لیے جو فیکٹر واضح ہوکر سامنے آیا ہے، وہ ہے ''مذہب''۔ اور شومئی تقدیر کہ تمام مذاہب میں سے ایک کو فریق بناکر اس کی ہیئت اور صورت سازشی عناصر نے اپنے مقصد کے مطابق توڑ مروڑ کر ایسی بنادی کہ اس کے ماننے والے کا ہر عمل اسلام کے حقیقی پیغام یعنی امن و آشتی کے بجائے غیر انسانی، غیر اخلاقی رویوں کی طرف موڑ دیا گیا، جب کہ ان کی تعداد یقیناً سچے اور حقیقی اسلام کو ماننے والوں کے سامنے عشر عشیر بھی نہیں۔
لیکن ایک منفی فکر رکھنے والا مثبت سوچ رکھنے والے 100 انسانوں پر بھاری ہوتا ہے اور یوں گمراہ کن فکر رکھنے والوں کے عمل نے یہاں سے وہاں تک ایسی آگ لگادی کہ جس کا خمیازہ پوری دنیا کو بھگتنا پڑ رہا ہے اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مذہب کو ہی ایسا منفی ڈیزائن کردیا کہ جس میں الجھ کر وہ انسان جو اشرف المخلوقات کی اعلیٰ منزل پر فائز کیا گیا تھا وہ ایک طرف چاند تسخیر کرکے ستاروں پر کمندیں ڈالنے کے بعد اب اس کرۂ ارض پر انسانی ضروریات زندگی میں کمی محسوس کرکے پانی اور زمین کی تلاش میں دوسرے سیاروں پر آبادکاری اور اپنی شہ نشینی کے منصوبے ترتیب دیتا نظر آرہا ہے، تو دوسری جانب جیسا کہ ابتدائی سطور میں تحریر کیا کہ ایک دوسرے کے خون کے ایسے پیاسے بن چکے ہیں کہ اب زمین انسانوں کو کم بلکہ منافرت زیادہ نگل رہی ہے۔ پہاڑ انسانوں پر نہیں گر رہے، انسان کی تخلیق اور منفی سوچ بم بنا بھی رہی ہے اور گرا بھی رہی ہے۔ آتش فشاں نہیں پھٹ رہے، خودکش جیکٹ پھٹ رہی ہیں اور یہ سب کچھ مذہبی منافرت کے نتیجے میں ہورہا ہے۔
انسان کا سفر اپنے چند اعمال کے سبب عروج سے زوال کی طرف اور اس عروج کا سب سے بڑا ثبوت وہ ترقی ہے جس کا اوپر بھی ذکر کیا گیا ہے، لیکن دوسری طرف زوال کہ اسی دنیا میں جان کی حفاظت کے نام پر ایسے تضحیک آمیز رویے اختیار کررہا ہے۔ سیکیورٹی سے متعلق حالات پر نظر ڈالیے کہ آپ کیسے ہی سفر میں ہوں، وہ بحری ہو، ہوائی ہو، یا خشکی کے راستے کر رہے ہوں، ایک انسان دوسرے انسان کو شک کی نظر سے، جس میں کبھی کبھی نفرتیں بھی پنہاں ہوتی ہیں، دیکھ رہا ہوتا ہے۔
سیکیورٹی چیک کو ایک ذمے داری سمجھا جائے یا تذلیل کا سامان؟ یہ سیکیورٹی چیک آپس کے فاصلوں کو کم کررہا ہے یا بڑھا رہا ہے؟ اس سوال کا جواب مشکل ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ ہم زیادہ گہرائی میں جائے بغیر اپنے آپ کو یہی سمجھانے کی کوشش کرتے رہیں کہ یہ سب تحفظ کے لیے ہے۔
انسان کی انسان سے دوریاں! جب کہ انسان، انسان کی قدروقیمت پہچاننے کے لیے تخلیق کیا گیا تھا، کیونکہ اﷲ تعالیٰ کے پاس اس کا حکم ماننے اور عبادت کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں تھی، اس کا حکم بجا لانے والے حسین و معصوم فرشتے موجود تھے، جن پر اسے مکمل اختیار تھا، لیکن اس نے ایک ایسی مخلوق کو خلق کیا، جن کی صورتیں بھی الگ، مزاج بھی الگ، قومیتیں بھی الگ الگ، دین الگ اور شناخت الگ، لیکن ان سب کو اختیار دیا اور یہ ہی اختیار انسان کی آزمائش قرار پایا ہے کہ تم ایک دوسرے کو کتنا اور کس طرح تسلیم کرتے ہو، جب کہ ہر مذہب کا چارٹر انسان کے حقوق کی پاسداری کرتا ہے۔
ایک انسان کے پاس دوسرے انسان کو تسلیم کرنے کا اختیار ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ ہاتھ کی انگلیاں مع انگوٹھے کے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ان کی لمبائی الگ، ناخن الگ، شیپ الگ، ان کی طاقت کا پریشر بھی الگ، لیکن جب کوئی کام کرنا ہوتا ہے تو ہتھیلی کے مرکز پر جمع ہوکر برابر ہوجاتی ہیں، تو یہی ہاتھ بڑے سے بڑا کام کرتا ہے۔ آدمی ہاتھ سے جہاز بھی اڑاتا ہے، قلم بھی پکڑتا ہے اور اس قلم کے ذریعے فرد سے لے کر قوموں تک کے بڑے بڑے فیصلے بھی تحریر کرتا ہے۔
یہی ایک نقطہ فکر ہے کہ ہم کسی بھی مذہب، کسی بھی فقہہ سے تعلق رکھتے ہوں، ایک دوسرے کے دین کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیوں کہ ہمیں صرف دوسروں کی خامیاں ہی بتائی جاتی رہیں، جس کے نتیجے میں کسی کو بھی کافر اور مشرک قرار دینے کے مضبوط دلائل نے ہماری سوچ کو آگے جانے ہی نہ دیا۔
بے شک روایتوں کے مطابق چند الہامی کتابیں غیر مستند قرار دی گئیں، لیکن دنیا کے تمام مذاہب میں وہ عیسائیت ہو، یہودیت ہو، بدھ ازم ہو، سکھوں اور ہندوؤں کا مذہب ہو، انسان کی توقیر کو اولیت دی گئی ہے۔ تمام مذاہب کے ماننے والے اگر صرف ایک بات پر اتفاق کرلیں کہ انسان کی حرمت انسان پر واجب ہے، جب اس کی حرمت واجب ہے تو وہ کسی بھی دین یا فقہہ سے تعلق رکھتا ہو تو اس کے دین کو تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے، اپنے مسلک پر قائم رہتے ہوئے اگلے کی فکر کا احترام کیا جائے۔
کرۂ ارض پر موجود تمام بڑے مذاہب میں سے چند چیزیں مشترکہ طور پر ہر مذہب کے احکامات میں آتی ہیں، مثلاً انسانی قتل، چوری، جھوٹ، فریب اور خصوصی طور پر ایک دوسرے کے مذہبی مقامات کا احترام کیے جانا شامل ہے۔ شوکت زیدی کی تحقیق میں مجھے اس لیے روشنی کی کرن نظر آئی کہ دنیا میں مذاہب کی صحیح معلومات ہونی چاہیے، وہ خواہ دین ابراہیمی سے متعلق ہوں یا دوسرے مذاہب عالم سے، اسی طرح سے نفرت کو کم اور ختم کیا جاسکتا ہے۔
لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام مذاہب کے افکار کو وسعت نظری سے دیکھا جائے، اس سے کم از کم اتنا ضرور ہوسکے گا کہ اختلافی عقائد کو مسلح نفرت انگیزی کی بنیاد بنانے کے بجائے ان سب کے کلیدی احکامات کو جو ہر مذہب کا چارٹر ہے، جس میں خدا کے بعد انسان کا احترام لازم قرار دیا گیا ہے۔ اس کی حرمت کو پہچانا جائے۔
مصنف نے اپنی گراں قدر تحقیق میں یہی بات پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے، جس کے لیے میں انھیں مبارکباد پیش کرتی ہوں، اس دعا اور خواہش کے ساتھ کہ ہم اگلی دنیاؤں کو بسانے سے پہلے اس دنیا کو سنوارنے کی کوشش کریں جو اﷲ تعالیٰ نے ہمیں تو نعمت کی صورت میں عطا کی، لیکن اسے ہماری بداعمالیوں نے جنت سے دوزخ بنادیا۔