جے آئی ٹی رپورٹ اور عدلیہ کا امتحان
رپورٹ تو پیش ہوگئی اور رپورٹ بھی ایسی ہے کہ جس کی مثال دنیا بھر میں کہیں نہیں ملتی۔
جے آئی ٹی نے رپورٹ پیش کی تو سپریم کورٹ کے باہر نہ کو ئی سیاسی کارکن نظر آیا نہ کوئی پارٹی جھنڈا نظر آیا اور نہ ہی کوئی نعرہ لگا، ہر طرف کیمرے ہی کیمرے نظر آرہے تھے، رپورٹرز کی بھیڑ ایسے لگی تھی جیسے ''10جولائی'' ملک کی تقدیر بدلنے کا دن ہو یا بقول عمران خان ''نئے پاکستان''کی داغ بیل ڈالنے کا دن ۔ رپورٹ جمع ہوئی تو ایسے لگا جیسے پاکستان کی سیاست میں بھونچال آگیا ہو۔ چینلز نے خصوصی نشریات میں پیش گوئیوں کی بھرمار کردی، پھر اسی دوران ایک مخصوص میڈیا گروپ کی رپورٹنگ پر سپریم کورٹ ایکشن میں نظر آئی تو ایک لمحے کے لیے سب چونک گئے، اس کے بعد ''محتاط '' رویہ اختیار کرتے ہوئے رپورٹنگ کی جاتی رہی۔
یہ ایک اچھی روایت تھی کہ سپریم کورٹ نے میڈیا کو ذمے داری کا احساس دلایا ورنہ ہم لوگ بھی چھلانگیں لگانے کے اس قدر ماہر ہو چکے ہیں کہ اپنی حدود کا بھی خیال نہیں رکھتے۔ قابل ذکر بات یہ تھی کہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اب شاید وہ ''محفوظ '' نہیں رہیں گے، اب انھیں دھمکایا اور تنگ کیا جائے گاکیونکہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ سچ تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے...
حقیقت میں جے آئی ٹی کے خلاف جتنا پراپیگنڈہ کیا گیا اور دباؤ میں لانے کی سرتوڑ کوششیں کی جاتی رہیں ایسے ماحول میں کام کرنا واقعی جہاد کرنے کے برابر ہے۔ جے آئی ٹی نے دباؤ میں رہ کر بھی قانون اور انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ تمام حقائق کو اکٹھا کیا، یہ اپنی مثال آپ ہے۔ جے آئی ٹی نے انتہائی عزم اور غیرجانبداری سے اپنا کام مکمل کیا۔
اب اگر اس رپورٹ کے حوالے سے بات کی جائے جو پیش ہوئی تو اس کے مختصر نکات میں شریف خاندان کے اثاثوں اور ذرایع آمدن میں واضح فرق ہے۔ بڑی رقوم کی قرض اورتحفے کی شکل میں بے قاعدگی سے ترسیل کی گئی۔ برطانیہ کی مہنگی جائیدادیں برطانیہ میں کسی کاروبار سے نہیں خریدی گئیں۔جو دیگر ذرایع آمدن ہے اس کا واضح جواب نہیں دے سکے ہیں۔ شریف خاندان کی تین مزید آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ مریم نواز نیلسن اور نیسکول کی مالک ثابت ہوئیں۔
وزیراعظم نواز شریف کے نام سے بھی ایک آف شور کمپنی کا انکشاف ہوا ہے۔ وزیراعظم اور ان کے بچے منی ٹریل ثابت نہیں کرسکے۔ نیلسن اور نیسکول سے متعلق دستاویزات جعلی قرار دی گئیں۔ آف شور کمپنیز برطانیہ میں شریف خاندان کے کاروبار سے منسلک ہیں۔آف شور کمپنیاں برطانیہ میں موجود کمپنیوں کو رقم فراہمی کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔آف شور کمپنیوں کے پیسے سے برطانیہ میں مہنگی ترین جائیدادیں خریدی گئیں، پیسہ برطانیہ، سعودی عرب، یواے ای اور پاکستان کی کمپنیوں کو بھی ملتا ہے۔
متحدہ عرب امارات نے بارہ ملین درہم کی کوئی ٹرانزیشکشن نہ ہونے کی تصدیق کردی۔ نیب آرڈیننس سیکشن9 اے وی کے تحت یہ کرپشن اور بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے لہٰذا جے آئی ٹی مجبور ہے کہ معاملے کو نیب آرڈیننس کے تحت ریفر کردے۔ آخر میں سفارش کی گئی کہ نیب قوانین کے تحت شریف خاندان پر ریفرنس دائر کیا جائے۔بقول شاعر
کسی کو دیکھا تو ساقی کے ایسے ہوش اڑے
شراب سیخ پہ ڈالی کباب شیشہ میں!
رپورٹ تو پیش ہوگئی اور رپورٹ بھی ایسی ہے کہ جس کی مثال دنیا بھر میں کہیں نہیں ملتی۔ گورنمنٹ کے خلاف اس کے ماتحت افسران نے ایسی رپورٹ دی ہے جس کے 99فیصد نکات حکومتی خاندان کے خلاف ہیں۔ اب سب سے بڑی ذمے داری سپریم کورٹ کے سر پر ہے اور سپریم کورٹ کے پاس یہ سنہری موقع ہے کہ وہ اپنا وقار بحال کرے اور ''نظریہ ضرورت ''کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دے، کیوں کہ جب تک یہ نظریہ ضرورت ہماری صفوں میں رہے گا ہمارے ادارے کبھی ترقی نہیں کر سکیں گے۔
تاریخ گواہ ہے کہ1955ء میں جسٹس منیر نے ''نظریہ ضرورت'' کو جنم دیا جنہوں نے گورنر جنرل کے حق میںفیصلہ دے کر پاکستان میں جمہوریت کے پودے کو ''زہر آلود'' کردیا۔ یہ موڑ پاکستان کی عدلیہ اور جمہوریت کے زوال کا آغاز تھا۔اس کے بعد آنے والے فوجی آمروں اور حکمرانوں کے سامنے عدلیہ نے عملاََہتھیار ڈال دیے تھے۔ 1958ء میں اسکندر مرزا نے آئین کو منسوخ کرکے ملک میں پہلے مارشل لاء کی بنیاد رکھ دی۔اس وقت بھی جسٹس منیر چیف جسٹس کے عہدہ جلیلہ پر فائز تھے۔
جسٹس منیر کے نامہ اعمال میں 1955ء میں قومی اسمبلی کی تحلیل کو جائز قرار دینا ،1958میں مارشل لاء کے نفاذ کو درست قرار دینا اور 1956ء کے دستور کی منسوخی پر مہر تصدیق ثبت کرنا شامل ہیں۔اس کے بعد1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے تیسرے مارشل لاء کی بنیاد رکھی، اسے بھی عدلیہ نے جائز قرار دے دیا ۔1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے فوجی انقلاب بر پا کردیا اور ایمر جنسی کے نام پر پاکستان پر چوتھا مارشل لاء مسلط کردیا۔ پرویز مشرف کے اقدام کو اس وقت کی عدلیہ نے نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دے دیا۔
جسٹس افتخار چوہدری کے چیف جسٹس بننے کے بعد حالات میں واضح تبدیلیوں کے اثرات محسوس کیے۔عدلیہ بحالی تحریک کا آغاز ہوا قدرے کامیابی بھی ہوئی مگر جسٹس افتخار چوہدری کے کئی متنازع فیصلوں کی وجہ سے ''نظریہ ضرورت'' پھرآڑے آگیا۔ موجودہ حکومت برسر اقتدار آئی اور پھر پانامہ پیپرز بھی منظر عام پر آگئے جسے عمران خان گھسیٹتے ہوئے عدالتوں میں لے آئے،اب یہ معاملہ جے آئی ٹی کی تحقیقات کی حد تک مکمل ہوگیا ہے۔
اب ہونا تو یہ چاہیے کہ پاناماکیس سے جڑی سیاسی تقدیر کو سیاستدان ماضی کے دردناک تجربوں کے سیاق وسباق میں اپنے لیے مشعل راہ بنائیں جب کہ سپریم کورٹ سیدھے ایسا فیصلہ سنا دے جو آئین وقانون کی بالادستی ثابت کردے۔