ریمنڈ ڈیوس کی کتاب کتنی حقیقت کتنا فسانہ
یہ کتاب پاکستان اور اس کے دفاعی اداروں کے دشمنوں کی جانب سے کردار کُشی اور پراپیگنڈے کا مکمل نمونہ ہے۔
امریکی سی آئی اے کے بھاڑے کے سپاہی ریمنڈ ڈیوس کی حال ہی میں شایع ہونے والی کتاب "The Contractor" پاکستان کے خلاف ایک نیا ہنگامہ کھڑا ہوگیا ہے جس کا واحد مقصد پاکستان اہم اور معتبر ترین قومی اداروں پر کیچڑ اچھالنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
تاہم اب گرد بیٹھنا شروع ہوچکی ہے، اس لیے بھی کہ ریمنڈ ڈیوس کے جھوٹے دعوؤں، دروغ گوئی، گمراہ کُن بیانات اور کتاب کے پس پردہ محرکات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ کتاب پر درج 14.99ڈالر قیمت کے باوجود اجرا کے چند ہی منٹوں بعد اس کتاب کی مفت کاپی آن لائن کیسے دستیاب ہوئی؟ نئی کتابوں کی اس طرح ارزاں دستیابی عام حالات میں کتاب کے ناشر اور مصنف کو دیوالیہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس کتاب کو جس طرح پورے پاکستان میں تیزی سے پھیلا دیا گیا، اس کے پیچھے پاکستان اور اس کے اداروںکو بدنام کرنے کے مقاصد واضح نظر آتے ہیں۔
ریمنڈ ڈیوس نے 11جنوری 2011کے واقعات کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے اور یہ جواز تراشنے کی پوری کوشش کی ہے کہ اس نے اپنے تحفظ کے لیے قتل کیے۔ 6فروری کو فیصل آباد میں مقتولین میں سے ایک کی بیوہ نے زہر کھا لیا اور مرنے سے قبل اپنے اقدام کی وجہ یہ بتائی کہ اسے اپنے مقتول شوہر کی دیت لینے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ بعدازاں مقتولین کے ورثا کو 24لاکھ ڈالر دیت ادا کردی گئی اور 16مارچ کو ریمنڈ ڈیوس کی رہائی ہوئی اور پاکستان سے روانہ ہوگیا۔ ریمنڈ ڈیوس کا دعویٰ ہے کہ اس کی رہائی کے لیے بنائے گئے منصوبے میں جان کیری، نواز شریف، آصف زرداری، احمد شجاع پاشا اور حسین حقانی نے اہم کردار ادا کیا۔
ریمنڈ ڈیوس نے بار بار یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اس کی رہائی اور امریکا واپسی کی تمام منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد پاکستانی خفیہ ادارے نے کی اور اسی نے عمل درآمد بھی کرایا۔گویا پاکستانی و امریکی حکومتوں کا اس میں سرے سے کوئی کردار ہی نہیں تھا۔ یہ گمراہ کُن تاثر ہے جسے ہمارے میڈیا میں چند مفاد پرستوں نے اس طرح قبول کرلیا ہے کہ جیسے یہ کتاب کوئی آسمانی صحیفہ ہو۔
ابتدا میں یہ دعویٰ سامنے آیا کہ ڈیوس ایک سفارت کار ہے، پھر اسے قونصلیٹ کا ملازم ظاہر کیا گیا، اس کے بعد اس کی ''شناخت'' بزنس ویزا پر سفر کرنے والے شہری کے طور پر کرائی گئی۔ ڈیوس کی گاڑی سے برآمد ہونے والی اشیا میں جدید ترین کیمرہ بھی شامل تھا جس میں پاکستان کی حساس تنصیبات کی خفیہ طور پر اتاری گئی تصاویر شامل تھیں۔امریکی صدر اوباما نے15فروری کو بیان دیا ''ڈیوس پاکستان میں ہمارا سفارت کار ہے۔ اسے سفارتی استثنا کے قانون کے اصول کے مطابق رہا کیا جائے۔'' جب کہ برطانوی اخبار ''گارجین''نے انکشاف کیا کہ لاہور میں دو افراد کو قتل کرنے والا ریمنڈ ڈیوس سی آئی اے کا ایجنٹ ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کے بیان میں زرداری اور حسین حقانی کو سارے معاملے سے مکھن میں سے بال کی طرح نکال دیا گیا؟حقانی امریکی شہریوں کوویزے صدر زرداری کی رضامندی سے جاری کررہے تھے؟ محکمہ خارجہ نے کیوں پچھلی تاریخوں میں ڈیوس کو اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کا اہل کار ظاہر کیا؟ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کیوں استعفیٰ دے دیا؟ ڈیوس لاہور کی ایک جیل میں قید تھا تو کیا اس کی نگرانی اور تحفظ فراہم کرنے کی ذمے داری شہباز شریف کی حکومت پر عائد نہیں ہوتی تھی؟ سی آئی اے کے اس واقعے میں ملوث ہونے کے بعد کیا یہ تعب خیز نہیں کہ آئی ایس آئی عدالتی کارروائی کی نگرانی کررہی تھی؟ یہ پورا قضیہ سفارت کاری اور سول انتظامیہ کے دائروں میں تھا، فوج کس طرح اپنا کردار ادا کرسکتی ہے؟
اس معاملے سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ سی آئی اے نے کئی محاذوں پر لڑائی ٹھیکے پر دے رکھی ہے۔ پاکستان کے ایک معتبر انگریزی روزنامہ نے اس وقت خبر دی تھی کہ سی آئی اے ڈیوس کو 780ڈالر یومیہ معاوضہ دیا کرتی تھی،جو مجموعی طورپردو لاکھ ڈالربنتے ہیں۔ 2003میں فوج سے فراغت کے بعد ڈیوس کئی دیگر ریٹارڈ فوجیوں کے ساتھ ''بلیک واٹر'' میں بھرتی ہوا۔ وہ بھاڑے پر عراق میں بھی سی آئی اے کے لیے کام کرتا رہا۔ ہمارے سیاست دان اور سیکیورٹی حکام فرشتے نہیں، ان میں ایسے شامل ہیں جن سے جوابدہی ہونی چاہیے، تاہم کذب بیانی اور الزام تراشی کے ساتھ ساتھ اس کتاب میں کئی غلط حقائق بیان کیے گئے ہیں۔
یہ کتاب پاکستان اور اس کے دفاعی اداروں کے دشمنوں کی جانب سے کردار کُشی اور پراپیگنڈے کا مکمل نمونہ ہے۔ عمران خان کی سادہ لوحی دیکھیے کہ وہ کس آسانی سے اس دام میں آگئے۔ وہ کہتے ہیں '' یہ کتاب ایک شرم ناک داستان ہے کہ کس طرح ہماری سیاسی اور فوجی قیادت نے چار انسانوں کی جان لینے والے سفاک قاتل کی رہائی کے لیے معاونت کی۔'' تضادات سے پُر یہ کتاب پاکستان کو بدنام کرنے کی سوچی سمجھی کوشش ہے۔
یہ ''یادداشتیں'' ممکنہ طور پر ''را'' اور سی آئی اے کی مشترکہ پیش کش ہے، جسے ڈیوس کے نام سے سامنے لایا گیا ہے۔ کتاب کے مصنف اور ناشرکو کوئی آمدن تو ہوگی نہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ ناشر اور تعلقات عامہ کی کمپنی اس کے لیے آمدن کہاں سے حاصل کررہے ہیں، ان کے اخراجات کون اٹھا رہا ہے؟
پاکستان سے 2012میں امریکا واپس لوٹنے کے بعد سے ڈیوس کو مشکلات اور بے روزگاری کا سامنا رہا ہے۔ وہ کئی مرتبہ کار کے حادثے کرچکا ہے اور دو مرتبہ گرفتار بھی ہوا۔ اگر یہ کتاب کمانے کے لیے نہیں لکھی گئی تو اس کا کیا مقصد تھا؟ پاکستان سے واپسی کے بعد اس کی ذاتی زندگی پریشان کُن رہی، یہاں تک کہ اس کی بیوی نے بھی علیحدگی اختیار کرلی۔
ڈیوس کی گرفتاری نے پاکستان میں کام کرنے والے سی آئی اے نیٹ ور کو بے نقاب کردیا۔ اس کی رہائی سے جو سب سے بڑا فائدہ ہوا وہ یہ تھا کہ تمام نیٹ ورک کا خاتمہ ہوگیا۔ لیفٹننٹ جنرل شجاع پاشا نے دیگر معاون نیٹ ورکس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا، شجاع پاشا جیسے فوجی قومی مفاد پر سمجھوتا نہیں کرتے۔ آج قوم کو داخلی اور خارجی خدشات کا سامنا ہے۔ ایسے دشمنوں، جو ہم پر ہر جانب سے حملہ آور ہیں، کے ہاتھوں میں کھلونا بننے کے بجائے یہ اتحاد اور یکجہتی دکھانے کا وقت ہے۔ یا یہ کوئی نیا ''ڈان لیکس'' ہے؟
تاہم اب گرد بیٹھنا شروع ہوچکی ہے، اس لیے بھی کہ ریمنڈ ڈیوس کے جھوٹے دعوؤں، دروغ گوئی، گمراہ کُن بیانات اور کتاب کے پس پردہ محرکات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ کتاب پر درج 14.99ڈالر قیمت کے باوجود اجرا کے چند ہی منٹوں بعد اس کتاب کی مفت کاپی آن لائن کیسے دستیاب ہوئی؟ نئی کتابوں کی اس طرح ارزاں دستیابی عام حالات میں کتاب کے ناشر اور مصنف کو دیوالیہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس کتاب کو جس طرح پورے پاکستان میں تیزی سے پھیلا دیا گیا، اس کے پیچھے پاکستان اور اس کے اداروںکو بدنام کرنے کے مقاصد واضح نظر آتے ہیں۔
ریمنڈ ڈیوس نے 11جنوری 2011کے واقعات کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے اور یہ جواز تراشنے کی پوری کوشش کی ہے کہ اس نے اپنے تحفظ کے لیے قتل کیے۔ 6فروری کو فیصل آباد میں مقتولین میں سے ایک کی بیوہ نے زہر کھا لیا اور مرنے سے قبل اپنے اقدام کی وجہ یہ بتائی کہ اسے اپنے مقتول شوہر کی دیت لینے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ بعدازاں مقتولین کے ورثا کو 24لاکھ ڈالر دیت ادا کردی گئی اور 16مارچ کو ریمنڈ ڈیوس کی رہائی ہوئی اور پاکستان سے روانہ ہوگیا۔ ریمنڈ ڈیوس کا دعویٰ ہے کہ اس کی رہائی کے لیے بنائے گئے منصوبے میں جان کیری، نواز شریف، آصف زرداری، احمد شجاع پاشا اور حسین حقانی نے اہم کردار ادا کیا۔
ریمنڈ ڈیوس نے بار بار یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اس کی رہائی اور امریکا واپسی کی تمام منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد پاکستانی خفیہ ادارے نے کی اور اسی نے عمل درآمد بھی کرایا۔گویا پاکستانی و امریکی حکومتوں کا اس میں سرے سے کوئی کردار ہی نہیں تھا۔ یہ گمراہ کُن تاثر ہے جسے ہمارے میڈیا میں چند مفاد پرستوں نے اس طرح قبول کرلیا ہے کہ جیسے یہ کتاب کوئی آسمانی صحیفہ ہو۔
ابتدا میں یہ دعویٰ سامنے آیا کہ ڈیوس ایک سفارت کار ہے، پھر اسے قونصلیٹ کا ملازم ظاہر کیا گیا، اس کے بعد اس کی ''شناخت'' بزنس ویزا پر سفر کرنے والے شہری کے طور پر کرائی گئی۔ ڈیوس کی گاڑی سے برآمد ہونے والی اشیا میں جدید ترین کیمرہ بھی شامل تھا جس میں پاکستان کی حساس تنصیبات کی خفیہ طور پر اتاری گئی تصاویر شامل تھیں۔امریکی صدر اوباما نے15فروری کو بیان دیا ''ڈیوس پاکستان میں ہمارا سفارت کار ہے۔ اسے سفارتی استثنا کے قانون کے اصول کے مطابق رہا کیا جائے۔'' جب کہ برطانوی اخبار ''گارجین''نے انکشاف کیا کہ لاہور میں دو افراد کو قتل کرنے والا ریمنڈ ڈیوس سی آئی اے کا ایجنٹ ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کے بیان میں زرداری اور حسین حقانی کو سارے معاملے سے مکھن میں سے بال کی طرح نکال دیا گیا؟حقانی امریکی شہریوں کوویزے صدر زرداری کی رضامندی سے جاری کررہے تھے؟ محکمہ خارجہ نے کیوں پچھلی تاریخوں میں ڈیوس کو اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کا اہل کار ظاہر کیا؟ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کیوں استعفیٰ دے دیا؟ ڈیوس لاہور کی ایک جیل میں قید تھا تو کیا اس کی نگرانی اور تحفظ فراہم کرنے کی ذمے داری شہباز شریف کی حکومت پر عائد نہیں ہوتی تھی؟ سی آئی اے کے اس واقعے میں ملوث ہونے کے بعد کیا یہ تعب خیز نہیں کہ آئی ایس آئی عدالتی کارروائی کی نگرانی کررہی تھی؟ یہ پورا قضیہ سفارت کاری اور سول انتظامیہ کے دائروں میں تھا، فوج کس طرح اپنا کردار ادا کرسکتی ہے؟
اس معاملے سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ سی آئی اے نے کئی محاذوں پر لڑائی ٹھیکے پر دے رکھی ہے۔ پاکستان کے ایک معتبر انگریزی روزنامہ نے اس وقت خبر دی تھی کہ سی آئی اے ڈیوس کو 780ڈالر یومیہ معاوضہ دیا کرتی تھی،جو مجموعی طورپردو لاکھ ڈالربنتے ہیں۔ 2003میں فوج سے فراغت کے بعد ڈیوس کئی دیگر ریٹارڈ فوجیوں کے ساتھ ''بلیک واٹر'' میں بھرتی ہوا۔ وہ بھاڑے پر عراق میں بھی سی آئی اے کے لیے کام کرتا رہا۔ ہمارے سیاست دان اور سیکیورٹی حکام فرشتے نہیں، ان میں ایسے شامل ہیں جن سے جوابدہی ہونی چاہیے، تاہم کذب بیانی اور الزام تراشی کے ساتھ ساتھ اس کتاب میں کئی غلط حقائق بیان کیے گئے ہیں۔
یہ کتاب پاکستان اور اس کے دفاعی اداروں کے دشمنوں کی جانب سے کردار کُشی اور پراپیگنڈے کا مکمل نمونہ ہے۔ عمران خان کی سادہ لوحی دیکھیے کہ وہ کس آسانی سے اس دام میں آگئے۔ وہ کہتے ہیں '' یہ کتاب ایک شرم ناک داستان ہے کہ کس طرح ہماری سیاسی اور فوجی قیادت نے چار انسانوں کی جان لینے والے سفاک قاتل کی رہائی کے لیے معاونت کی۔'' تضادات سے پُر یہ کتاب پاکستان کو بدنام کرنے کی سوچی سمجھی کوشش ہے۔
یہ ''یادداشتیں'' ممکنہ طور پر ''را'' اور سی آئی اے کی مشترکہ پیش کش ہے، جسے ڈیوس کے نام سے سامنے لایا گیا ہے۔ کتاب کے مصنف اور ناشرکو کوئی آمدن تو ہوگی نہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ ناشر اور تعلقات عامہ کی کمپنی اس کے لیے آمدن کہاں سے حاصل کررہے ہیں، ان کے اخراجات کون اٹھا رہا ہے؟
پاکستان سے 2012میں امریکا واپس لوٹنے کے بعد سے ڈیوس کو مشکلات اور بے روزگاری کا سامنا رہا ہے۔ وہ کئی مرتبہ کار کے حادثے کرچکا ہے اور دو مرتبہ گرفتار بھی ہوا۔ اگر یہ کتاب کمانے کے لیے نہیں لکھی گئی تو اس کا کیا مقصد تھا؟ پاکستان سے واپسی کے بعد اس کی ذاتی زندگی پریشان کُن رہی، یہاں تک کہ اس کی بیوی نے بھی علیحدگی اختیار کرلی۔
ڈیوس کی گرفتاری نے پاکستان میں کام کرنے والے سی آئی اے نیٹ ور کو بے نقاب کردیا۔ اس کی رہائی سے جو سب سے بڑا فائدہ ہوا وہ یہ تھا کہ تمام نیٹ ورک کا خاتمہ ہوگیا۔ لیفٹننٹ جنرل شجاع پاشا نے دیگر معاون نیٹ ورکس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا، شجاع پاشا جیسے فوجی قومی مفاد پر سمجھوتا نہیں کرتے۔ آج قوم کو داخلی اور خارجی خدشات کا سامنا ہے۔ ایسے دشمنوں، جو ہم پر ہر جانب سے حملہ آور ہیں، کے ہاتھوں میں کھلونا بننے کے بجائے یہ اتحاد اور یکجہتی دکھانے کا وقت ہے۔ یا یہ کوئی نیا ''ڈان لیکس'' ہے؟