پاکستان میں جمہوری جدوجہد اور عورت 2
13 فروری 1983 کا دن پاکستانی عورتوں کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے
یہ 1964 کے دن ہیں، صدارتی انتخاب کی مہم زوروں پر ہے۔ اپنی صحت کی خرابی کے باوجود محترمہ فاطمہ جناح مغربی پاکستان کے ساتھ ہی مشرقی پاکستان میں راج شاہی، نارائن گنج، میمن سنگھ، چٹا گانگ، باریسال اور دوسرے دور دراز علاقوں میں جاتی ہیں اور لوگوں سے جمہوریت، آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی بات کرتی ہیں۔ وہ بد ترین دھاندلی سے ہرا دی جاتی ہیں تب بھی ان کا سر بلند رہتا ہے۔ آخری سانس تک وہ آمریت کے خلاف سینہ سپر رہتی ہیں۔ آئین کی بالادستی اور انصاف کی سربلندی ان کے آدرش ہیں۔ اپنے یہ آدرش وہ پاکستانی مردوں اور عورتوں کے ذہنوں میں رکھ دیتی ہیں اور پاکستانیوں کے لیے ایک رول ماڈل بن جاتی ہیں۔
یہ محض اتفاق ہے کہ جولائی 2017 میں محترمہ فاطمہ جناح کی 50 ویں برسی منائی جارہی ہے۔ نصف صدی گزر جانے کے بعد بھی ان کی جمہوری جدوجہد ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ انھوں نے اپنے عزم راسخ سے پاکستانی عورتوں اور مردوں کے لیے ایک راستہ تراشا جس پر آج بھی جمہوریت پسند قدم رکھتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ ہی پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی بیگم بھی تھیں۔
محترمہ فاطمہ جناح پاکستان میں سیاسی محاذ پر لڑ رہی تھیں اور محترمہ رعنا لیاقت علی خان نے نوزائیدہ مملکت میں سماجی محاذ سنبھال لیا تھا۔ انھوں نے ترک وطن کرکے آنے والی پریشاں حال اور بے آسرا عورتوں کے لیے انڈسٹریل ہوم کھولے۔ انھیں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے اور اپنی ہنر مندی سے باعزت روزگار کے مواقعے فراہم کیے۔
محترمہ فاطمہ جناح کے بعد ایوب خان کی آمریت اور یحییٰ خان کے اقتدار کے خلاف جو عوامی تحریکیں چلیں، ان میں شہروں اور دیہاتوں کی عورت نے حصہ لیا اور چند ایسی عورتیں ابھر کر سامنے آئیں جو اپنے شوہروں کے شانہ بشانہ پاکستان کی جمہوری جدوجہد میں بھرپور حصہ لے رہی تھیں اور یہ سمجھتی تھیں کہ پاکستانی عورت کو سیاسی طور پر فعال کیے بغیر جمہوریت کی جنگ جیتی نہیں جا سکتی ۔
5 جولائی 1977 کو ایک منتخب جمہوری حکومت اور پاکستانی حزب اختلاف دونوں ہی کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے جنرل ضیاء الحق نے انتہائی شرمناک انداز میں اقتدار پر قبضہ کیا اور پاکستانی عوام کے بنیادی انسانی حقوق اور جمہوریت کو اپنے کیلوں لگے بوٹوں سے روند ڈالا۔
پاکستان کے جمہوریت پسند عوام کے لیے یہ ایک سانحہ تھا لیکن پاکستانی عورت کے لیے اس روز سے ایک ایسی اندھیری اور دہشت ناک رات کا آغاز ہوا جس کا اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا اور جسے ایک آمر نے بدترین بنیاد پرست اور رجعت پسند قوتوں سے مل کر مذہب کی آڑ میں ان پر مسلط کردیا تھا۔ پاکستانی عورت کی جمہوری جدوجہد کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی اس میں ضیاء دور کو پاکستانی عورت کے لیے قیامت صغریٰ کے زمانے سے تعبیر کیا جائے گا۔
آمریت کے ان ساڑھے گیارہ برسوں میں جب چادر اور چار دیواری کا ڈھول پیٹا جارہا تھا۔ اس زمانے میں پاکستان کی مظلوم دیہی عورت پر بالادست طبقوں کے حواری وہ شرمناک مظالم کررہے تھے کہ ان کی تفصیل میں جانا ممکن نہیں۔ نواب پور، لطف پور، قصور، ملتان، خان پور یہ چند شہروں ، قصبوں اور دیہاتوں کے نام ہیں جو پاکستانی قوم کے سینے کے رستے ہوئے ناسور ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں بے گناہ اور بے کس، بے آسرا اور بے زبان لڑکیوں اور بوڑھی عورتوں کو جانوروں کی طرح گھسیٹ کر ان کے گھروں سے باہر لایا گیا۔ ان کے لباس تار تار کیے گئے اور پھر عالم برہنگی میں انھیں ان گلیوں میں پھرایا گیا جو ان کی حرمت اور عصمت کی گواہ تھیں۔
ان برہنہ جلوسوں کے ناظرین انھی عورتوں کے باپ، شوہر، بیٹے، بھتیجے اور پڑوسی تھے۔ یہ وہ عورتیں ہیں جن کے لیے آفتاب سوا نیزے پر آیا اور جن کے لیے صور پھونکا گیا اور جن پر قیامت گزر گئی۔ یہ وہ تھیں جنھیں احساس ذلت اور احساسِ بے بسی نے دنوں اور ہفتوں گویائی سے محروم رکھا اور جب ان کے مرد ہاتھوں میں قرآن اٹھا کر درمیان میں آئے تو انھیں بندوقوں کے بٹوں سے مارا گیا اور علاقے کے تھانوں نے رپورٹ درج کرنے سے انکار کیا۔
جنرل ضیاء نے 5 جولائی 1977 کو پاکستان کے جس آئین کو معطل کیا اس میں پاکستانی عورت کو پاکستانی مرد کے مساوی حقوق دیے گئے تھے لیکن 1979 میں ضیاء نے چار اسلامی فوجداری قوانین نافذ کیے جن میں حدود آرڈیننس بھی شامل ہے جس سے عورتوں کے حقوق پر کاری ضرب لگی۔ حدود آرڈیننس کا اجراء کرکے عورتوں کے حقوق کو سلب کیا گیا۔
ان قوانین کے تحت سرکاری اسلام کسی ایسی مظلوم عورت کو تحفظ دینے سے قاصر ہے جو بدبختی سے زنا بالجبر کا شکار ہوئی ہو کیونکہ عورت ہونے کی وجہ سے اس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرنے والے کے خلاف اس کی تنہا گواہی اس مرد کو سزا نہیں دلا سکتی۔ 1984 میں قانون شہادت کا اجرا کیا گیا جس میں عورت کا حقِ شہادت محدود کردیا گیا ۔ شریعت آرڈیننس مجریہ 1988 آیا جس میں عورتوں کے دیگر حقوق سلب کرلیے گئے۔ نویں ترمیمی بل کا مسئلہ اٹھایا گیا۔ ان قوانین کے تحت زنا اور زنا بالجبر میں کوئی تفریق نہیں کی گئی۔
غرض پاکستان میں فوجی آمریت اور بنیاد پرست قوتوں نے جب اسلام کی آڑ لے کر پاکستان میں جمہوری روایات کو کچلنے کی بھرپور مہم کا آغاز کیا تو خواتین تنظیموں کے علاوہ، اجتماعی اور انفرادی طور پر سرگرم عمل عورتوں نے اس صورتحال پر سر جوڑ کر سوچنا شروع کیا۔ چنانچہ تمام خواتین تنظیموں کا ایک متحدہ محاذ عمل ویمنز ایکشن فورم وجود میں آیا جس میں وکالت، صحافت، ادب، فنون لطیفہ اور معلمی کے پیشے سے وابستہ متعدد خواتین نے آمریت اور بنیاد پرستی کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا عہد کیا اور میدان میں آگئیں۔
13 فروری 1983 کا دن پاکستانی عورتوں کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے جب انھوں نے کھل کر آمریت کا سامنا کیا اور قانون شہادت کے خلاف جلوس نکالا۔ یہ وہ زمانہ ہے جب متعدد شہروں میں عورتوں کے احتجاجی جلوسوں پر بے دریغ لاٹھی چارج ہوا۔ پولیس کے جیالے نوجوانوں نے انھیں بالوں سے پکڑ کر سڑکوں پر گھسیٹا ، ان کے کپڑے پھاڑے گئے، انھیں گندی گالیاں دی گئیں۔ انھیں گرفتار کر کے حوالات اور جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
عورتوں کی یہ جدوجہد اپنے چند مطالبات منوانے کے لیے نہیں تھی بلکہ یہ ملک کی عمومی سیاسی جدوجہد سے مکمل طور پر جڑی ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں 1983 کی ایم آر ڈی تحریک میں سندھیانی تحریک کی 265 عورتیں گرفتاریاں دیتی ہوئی اور جیلوں میں سزائیں کاٹتی نظر آتی ہیں اور اس سے بہت پہلے ہاری حقدار تحریک کی عورتیں گرفتار ہوتی اور جیل بھگتی ملتی ہیں۔
اس زمانے میں ہمیں کوٹ لکھپت جیل، شیخوپورہ جیل، ملتان، کراچی اور حیدرآباد جیلوں میں لاتعداد سیاسی قیدی عورتیں نظر آتی ہیں۔ یہ ضیاء دور کے سورما اور محافظ ناموس مملکت اسلامیہ تھے جو پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عورتوں کو شاہی قلعے لے گئے جہاں ان کے ساتھ بدترین جسمانی اور جنسی تشدد کیا گیا۔ یہ وہ دور ہے جب ساٹھ پینسٹھ برس کی سفید سروں والی اماں نتھی مائی چن سفیداں، اماں پٹھانی شاہی قلعے میں تشدد برداشت کرتی نظر آتی ہیں۔
فریدہ، عابدہ ملک، مسز قیوم نظامی، شاہدہ جبیں ، فرخندہ بخاری، افضل توصیف، مسز آفتاب، غرض قلعہ میں جانے والیوں کے ناموں کی ایک قطار ہے۔ بنیادی حقوق کی بحالی کے لیے پولیس تشدد اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والی پارس جان، زبیدہ ملک، بیگم نسرین راؤ، ناہید سعید، سرواراں بیگم اور بیگم قدیر قریشی ہیں۔ یہی وہ زمانہ ہے جب سندھ میں جنگ شاہی کے قریب دو عورتوں آمی اور بھابی کی بہیمانہ ہلاکت پر سندھ بھرکی عورتوں نے شدید احتجاج کیا۔ اسی دور کی تاریخ کے صفحے شیریں سومرو کے خون سے داغدار ہیں اور حمیدہ گھانگھرو کی اذیتوں سے بھرے ہوئے ہیں۔
اسی زمانے سے بیگم نصرت بھٹو، بیگم ولی خان، محترمہ بے نظیر بھٹو اور مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والی عورتیں پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے ہتھیلی پر سر رکھ کر نکلتی ہیں۔ بہ سلسلہ دراز ہوکر 2000 ء میں بیگم کلثوم نواز شریف تک آتا ہے، آج جب کہ جمہوریت بحال ہوچکی ہے تب بھی اس جمہوری جدوجہد میں عورتوں کے قدم پیچھے نہیں ہٹے ہیں۔ ان میں سے ہر نام بے نظیر ہے ، بے مثال ہے، ان پر گزرنے والی رودادِ ستم آیندہ صفحوں میں لکھی جائے گی۔
(جاری ہے)
یہ محض اتفاق ہے کہ جولائی 2017 میں محترمہ فاطمہ جناح کی 50 ویں برسی منائی جارہی ہے۔ نصف صدی گزر جانے کے بعد بھی ان کی جمہوری جدوجہد ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ انھوں نے اپنے عزم راسخ سے پاکستانی عورتوں اور مردوں کے لیے ایک راستہ تراشا جس پر آج بھی جمہوریت پسند قدم رکھتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ ہی پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی بیگم بھی تھیں۔
محترمہ فاطمہ جناح پاکستان میں سیاسی محاذ پر لڑ رہی تھیں اور محترمہ رعنا لیاقت علی خان نے نوزائیدہ مملکت میں سماجی محاذ سنبھال لیا تھا۔ انھوں نے ترک وطن کرکے آنے والی پریشاں حال اور بے آسرا عورتوں کے لیے انڈسٹریل ہوم کھولے۔ انھیں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے اور اپنی ہنر مندی سے باعزت روزگار کے مواقعے فراہم کیے۔
محترمہ فاطمہ جناح کے بعد ایوب خان کی آمریت اور یحییٰ خان کے اقتدار کے خلاف جو عوامی تحریکیں چلیں، ان میں شہروں اور دیہاتوں کی عورت نے حصہ لیا اور چند ایسی عورتیں ابھر کر سامنے آئیں جو اپنے شوہروں کے شانہ بشانہ پاکستان کی جمہوری جدوجہد میں بھرپور حصہ لے رہی تھیں اور یہ سمجھتی تھیں کہ پاکستانی عورت کو سیاسی طور پر فعال کیے بغیر جمہوریت کی جنگ جیتی نہیں جا سکتی ۔
5 جولائی 1977 کو ایک منتخب جمہوری حکومت اور پاکستانی حزب اختلاف دونوں ہی کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے جنرل ضیاء الحق نے انتہائی شرمناک انداز میں اقتدار پر قبضہ کیا اور پاکستانی عوام کے بنیادی انسانی حقوق اور جمہوریت کو اپنے کیلوں لگے بوٹوں سے روند ڈالا۔
پاکستان کے جمہوریت پسند عوام کے لیے یہ ایک سانحہ تھا لیکن پاکستانی عورت کے لیے اس روز سے ایک ایسی اندھیری اور دہشت ناک رات کا آغاز ہوا جس کا اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا اور جسے ایک آمر نے بدترین بنیاد پرست اور رجعت پسند قوتوں سے مل کر مذہب کی آڑ میں ان پر مسلط کردیا تھا۔ پاکستانی عورت کی جمہوری جدوجہد کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی اس میں ضیاء دور کو پاکستانی عورت کے لیے قیامت صغریٰ کے زمانے سے تعبیر کیا جائے گا۔
آمریت کے ان ساڑھے گیارہ برسوں میں جب چادر اور چار دیواری کا ڈھول پیٹا جارہا تھا۔ اس زمانے میں پاکستان کی مظلوم دیہی عورت پر بالادست طبقوں کے حواری وہ شرمناک مظالم کررہے تھے کہ ان کی تفصیل میں جانا ممکن نہیں۔ نواب پور، لطف پور، قصور، ملتان، خان پور یہ چند شہروں ، قصبوں اور دیہاتوں کے نام ہیں جو پاکستانی قوم کے سینے کے رستے ہوئے ناسور ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں بے گناہ اور بے کس، بے آسرا اور بے زبان لڑکیوں اور بوڑھی عورتوں کو جانوروں کی طرح گھسیٹ کر ان کے گھروں سے باہر لایا گیا۔ ان کے لباس تار تار کیے گئے اور پھر عالم برہنگی میں انھیں ان گلیوں میں پھرایا گیا جو ان کی حرمت اور عصمت کی گواہ تھیں۔
ان برہنہ جلوسوں کے ناظرین انھی عورتوں کے باپ، شوہر، بیٹے، بھتیجے اور پڑوسی تھے۔ یہ وہ عورتیں ہیں جن کے لیے آفتاب سوا نیزے پر آیا اور جن کے لیے صور پھونکا گیا اور جن پر قیامت گزر گئی۔ یہ وہ تھیں جنھیں احساس ذلت اور احساسِ بے بسی نے دنوں اور ہفتوں گویائی سے محروم رکھا اور جب ان کے مرد ہاتھوں میں قرآن اٹھا کر درمیان میں آئے تو انھیں بندوقوں کے بٹوں سے مارا گیا اور علاقے کے تھانوں نے رپورٹ درج کرنے سے انکار کیا۔
جنرل ضیاء نے 5 جولائی 1977 کو پاکستان کے جس آئین کو معطل کیا اس میں پاکستانی عورت کو پاکستانی مرد کے مساوی حقوق دیے گئے تھے لیکن 1979 میں ضیاء نے چار اسلامی فوجداری قوانین نافذ کیے جن میں حدود آرڈیننس بھی شامل ہے جس سے عورتوں کے حقوق پر کاری ضرب لگی۔ حدود آرڈیننس کا اجراء کرکے عورتوں کے حقوق کو سلب کیا گیا۔
ان قوانین کے تحت سرکاری اسلام کسی ایسی مظلوم عورت کو تحفظ دینے سے قاصر ہے جو بدبختی سے زنا بالجبر کا شکار ہوئی ہو کیونکہ عورت ہونے کی وجہ سے اس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرنے والے کے خلاف اس کی تنہا گواہی اس مرد کو سزا نہیں دلا سکتی۔ 1984 میں قانون شہادت کا اجرا کیا گیا جس میں عورت کا حقِ شہادت محدود کردیا گیا ۔ شریعت آرڈیننس مجریہ 1988 آیا جس میں عورتوں کے دیگر حقوق سلب کرلیے گئے۔ نویں ترمیمی بل کا مسئلہ اٹھایا گیا۔ ان قوانین کے تحت زنا اور زنا بالجبر میں کوئی تفریق نہیں کی گئی۔
غرض پاکستان میں فوجی آمریت اور بنیاد پرست قوتوں نے جب اسلام کی آڑ لے کر پاکستان میں جمہوری روایات کو کچلنے کی بھرپور مہم کا آغاز کیا تو خواتین تنظیموں کے علاوہ، اجتماعی اور انفرادی طور پر سرگرم عمل عورتوں نے اس صورتحال پر سر جوڑ کر سوچنا شروع کیا۔ چنانچہ تمام خواتین تنظیموں کا ایک متحدہ محاذ عمل ویمنز ایکشن فورم وجود میں آیا جس میں وکالت، صحافت، ادب، فنون لطیفہ اور معلمی کے پیشے سے وابستہ متعدد خواتین نے آمریت اور بنیاد پرستی کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا عہد کیا اور میدان میں آگئیں۔
13 فروری 1983 کا دن پاکستانی عورتوں کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے جب انھوں نے کھل کر آمریت کا سامنا کیا اور قانون شہادت کے خلاف جلوس نکالا۔ یہ وہ زمانہ ہے جب متعدد شہروں میں عورتوں کے احتجاجی جلوسوں پر بے دریغ لاٹھی چارج ہوا۔ پولیس کے جیالے نوجوانوں نے انھیں بالوں سے پکڑ کر سڑکوں پر گھسیٹا ، ان کے کپڑے پھاڑے گئے، انھیں گندی گالیاں دی گئیں۔ انھیں گرفتار کر کے حوالات اور جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
عورتوں کی یہ جدوجہد اپنے چند مطالبات منوانے کے لیے نہیں تھی بلکہ یہ ملک کی عمومی سیاسی جدوجہد سے مکمل طور پر جڑی ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں 1983 کی ایم آر ڈی تحریک میں سندھیانی تحریک کی 265 عورتیں گرفتاریاں دیتی ہوئی اور جیلوں میں سزائیں کاٹتی نظر آتی ہیں اور اس سے بہت پہلے ہاری حقدار تحریک کی عورتیں گرفتار ہوتی اور جیل بھگتی ملتی ہیں۔
اس زمانے میں ہمیں کوٹ لکھپت جیل، شیخوپورہ جیل، ملتان، کراچی اور حیدرآباد جیلوں میں لاتعداد سیاسی قیدی عورتیں نظر آتی ہیں۔ یہ ضیاء دور کے سورما اور محافظ ناموس مملکت اسلامیہ تھے جو پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عورتوں کو شاہی قلعے لے گئے جہاں ان کے ساتھ بدترین جسمانی اور جنسی تشدد کیا گیا۔ یہ وہ دور ہے جب ساٹھ پینسٹھ برس کی سفید سروں والی اماں نتھی مائی چن سفیداں، اماں پٹھانی شاہی قلعے میں تشدد برداشت کرتی نظر آتی ہیں۔
فریدہ، عابدہ ملک، مسز قیوم نظامی، شاہدہ جبیں ، فرخندہ بخاری، افضل توصیف، مسز آفتاب، غرض قلعہ میں جانے والیوں کے ناموں کی ایک قطار ہے۔ بنیادی حقوق کی بحالی کے لیے پولیس تشدد اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والی پارس جان، زبیدہ ملک، بیگم نسرین راؤ، ناہید سعید، سرواراں بیگم اور بیگم قدیر قریشی ہیں۔ یہی وہ زمانہ ہے جب سندھ میں جنگ شاہی کے قریب دو عورتوں آمی اور بھابی کی بہیمانہ ہلاکت پر سندھ بھرکی عورتوں نے شدید احتجاج کیا۔ اسی دور کی تاریخ کے صفحے شیریں سومرو کے خون سے داغدار ہیں اور حمیدہ گھانگھرو کی اذیتوں سے بھرے ہوئے ہیں۔
اسی زمانے سے بیگم نصرت بھٹو، بیگم ولی خان، محترمہ بے نظیر بھٹو اور مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والی عورتیں پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے ہتھیلی پر سر رکھ کر نکلتی ہیں۔ بہ سلسلہ دراز ہوکر 2000 ء میں بیگم کلثوم نواز شریف تک آتا ہے، آج جب کہ جمہوریت بحال ہوچکی ہے تب بھی اس جمہوری جدوجہد میں عورتوں کے قدم پیچھے نہیں ہٹے ہیں۔ ان میں سے ہر نام بے نظیر ہے ، بے مثال ہے، ان پر گزرنے والی رودادِ ستم آیندہ صفحوں میں لکھی جائے گی۔
(جاری ہے)