میں کیسے مان لوں کہ ’انصاف‘ ابھی زندہ ہے

پاکستان میں طاقتور لوگوں کےسامنے تو انصاف نامی شہ دم دبا کر بھاگ جاتی ہےاور صرف پتلی گردن والی عوام اسکا نشانہ بنتی ہے


فہیم پٹیل July 12, 2017
غلطی چاہے امیر کرے یا غریب، طاقتور کرے یا کمزور، ہر کسی کو ایک ہی آنکھ سے دیکھا جائے، اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو پھر یہ معاشرہ ایسے دلدل میں دھنستا جائے گا جہاں سے واپسی مشکل سے مشکل بنتی جائے گی۔

MINGORA: معاشروں کو مہذب بنانے کی بہت سی وجوہات بتائی جاتی ہیں، لیکن اگر اِس حوالے سے سب سے اہم وجہ کے بارے میں بات کی جائے تو وہ وجہ انصاف کی فراہمی تصور کی جاتی ہے۔ یعنی جن جن معاشروں میں لوگوں کو اِس بات پر کامل یقین ہو کہ اُن کے ساتھ کوئی بھی ظلم و زیادتی نہیں کرسکتا، اور اگر کسی نے ایسا کرنے کی جرات کی تو لازمی اُس کو اپنے کیے کی پوری پوری سزا ملے گی، تو سمجھ لیجیے کہ اُن معاشروں میں نہ تو لوگ مایوس ہوں گے اور نہ ہی کبھی اپنے ساتھ ہونے والے ظلم پر خود سے انصاف کرنے کی کوشش کریں گے۔

لیکن جن معاشروں میں لوگوں کو اِس بات کا یقین ہو کہ آپ پر چاہے کوئی جتنا بھی ظلم کیوں نہ کرلے، اُس کا یہاں کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا تو نہ صرف لوگوں میں مایوسی پھیلے گی بلکہ جب، جہاں اور جیسے کی بنیاد پر خود سے انصاف کرنے کی کوشش کی جائے گی اور یوں معاشرہ انارکی کا شکار ہوجاتا ہے۔

اگر ہم نظر اُٹھا کر دیکھیں تو تمام ہی ترقی پذیر ممالک میں اِس وقت یہی صورتحال ہے، بلکہ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ ترقی پذیر ممالک آج ترقی پذیر ہیں ہی اِس لیے کہ وہاں انصاف کا بول بالا نہیں ہے۔

یہ ساری تمہید بیان کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ پاکستان بھی اگر آج ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں شامل ہے تو اِس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں کمزور طبقوں کے ساتھ بھرپور انصاف ہوتا ہے لیکن جب بڑے اور طاقتور لوگوں کے ساتھ انصاف کرنے کی باری آتی ہے تو سارا نظام آنکھ، کان اور زبان بند کرکے خاموش تماشائی بن جاتا ہے۔

پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک کوئی ایک کیس تو ایسا بتایا جائے جب یہاں طاقتور کو بھی انصاف کی پاسداری کرتے ہوئے سزا ملی ہو؟ اِس ظلم کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ آج پاکستان میں کوئی یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ حکمرانوں کو بھی کبھی اُن کے کیے کی سزا مل سکتی ہے۔



جب سے پانامہ کیس سامنے آیا ہے اور سپریم کورٹ نے پورا کیس سننے کے بعد جے آئی ٹی کو مزید تفتیش کے لیے کیس بھیجا ہے، اُس وقت سے پڑھے لکھے اور سمجھ دار لوگوں کو بھی یہ کہتے سنا ہے کہ بھائی، یہ پاکستان ہے، یہاں کچھ نہیں ہونا۔ اگرچہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں اُن کا خیال غلط نہیں ہے، لیکن مایوسی بھلا کبھی مسائل کا حل ہوسکتا ہے؟

ابتداء میں تو یہ خیال کیا جارہا تھا کہ چونکہ جے آئی ٹی سرکاری افسران پر مشتمل ہے، لہذا یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ حکمراں خاندان کے خلاف کوئی بات کرسکے لیکن جب معاملات خیالات کے برعکس چلتے رہے اور جے آئی ٹی نے حکومت اور حکمراں خاندان کے خلاف بظاہر سخت سفارشات سپریم کورٹ کو پیش کردیں، تب بھی معاملات جوں کے توں ہی ہیں۔ یعنی اب بھی لوگ انصاف کی فراہمی کے حوالے سے اپنے تحفظات، خدشات اور مایوسی کا کچھ اِس طرح اظہار کررہے ہیں۔

  • ہم بتارہے ہیں، اب بھی کچھ نہیں ہونے والا۔ سپریم کورٹ یہ کیس نیب کے حوالے کردے گی جہاں سے انصاف ملنا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا ناممکن یہ ہے کہ سورج مشرق کے بجائے مغرب سے نکل جائے۔ نیب میں کیس جانے کے بعد تو یہ خاندان باآسانی سرخرو ہوجائے گا اور اِن کو ایک بار پھر حکومت کرنے کی اجازت دے دی جائے گی۔

  • او بھائی، آپ دیکھیے گا، سپریم کورٹ کا فیصلہ کچھ اس طرح ہوگا کہ پہلے کی طرح اِس بار بھی 'سب' مٹھائیاں کھا رہے ہوں گے، نہ کوئی جیتے گا اور نہ کسی کی شکست ہوگی۔

  • میں تو اب بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ بچوں کو شاید پھر کوئی نقصان ہوجائے لیکن وزیراعظم نواز شریف کو بالکل بھی نقصان نہیں پہنچے گا۔


سچی بات تو یہ ہے کہ میرے لیے جتنا تکلیف دہ عمل یہ ہے کہ یہاں انصاف کمزور ترین سطح پر پہنچ چکا ہے، اُس سے زیادہ تکلیف دہ عمل یہ ہے کہ انصاف نہ ہونے کی وجہ سے لوگ مایوسی کا شکار ہورہے ہیں۔ اِس لیے آج وقت کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ ملک میں انصاف کی صحت بحال رکھنے کے لیے ہنگامی اقدامات اُٹھائے جائیں۔

غلطی چاہے امیر کرے یا غریب، طاقتور کرے یا کمزور، ہر کسی کو ایک ہی آنکھ سے دیکھا جائے، اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو پھر یہ معاشرہ ایسے دلدل میں دھنستا جائے گا جہاں سے واپسی مشکل سے مشکل بنتی جائے گی۔ کیونکہ رعایا ہمیشہ وہی کرنے کی کوشش کرتی ہے جو وہ اپنے حکمرانوں کو کرتے دیکھتے ہیں۔ اگر وہ مسلسل یہی دیکھیں گے کہ اُن کے حکمراں عدالتوں کے احکامات اور ملکی آئین اور قانون کو کسی خاطر میں ہی نہیں لاتے تو وہ بھی کسی وقت یہ فیصلہ کرلیں کہ جب حکمراں طبقہ بات نہیں مانتا تو ہم کیوں مانیں؟



یہ وہ نقطہ ہوگا جس کے بعد نظام کو سنبھالنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا، اور اِن حالات سے بچنے کی کوشش ہم سب کو کرنی چاہیے۔ اِس پورے معاملے کو سمجھنے کے لیے یہ مثال شاید کچھ بہتر رہے گی کہ
گھر کا سربراہ چوری بھی کرے، ڈکیتی بھی کرے، دوسروں کا حق بھی مارے، اور یہ سب کرنے کے بعد وہ یہ اُمید بھی لگائے کہ اُس کے بچے یہ کام کرنے کے بجائے اچھے کام اور لوگوں کی خدمت کو اپنا شعائر بنائیں گے۔

میں یہ تو نہیں جانتا ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کا کیا نتیجہ نکلے گا، سپریم کورٹ فیصلہ کرے گی یا پھر کیس کو نیب کے حوالے کے کرے گی؟ لیکن کچھ نہ جانتے ہوئے بھی بس یہ اُمید اور دعا کرتا ہوں کہ چاہے شریف خاندان کو سزا ہو یا اُنہیں باعزت بری کردیا جائے، بس جو بھی فیصلہ کیا جائے، انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کیا جائے۔ ایک ایسا فیصلہ سامنے آنا چائیے جس کو دیکھتے ہوئے حمایتی اور مخالفین دونوں ہی کہیں کہ ہاں آج انصاف ہوا۔

لیکن یہاں ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں کہ انصاف کا یہ سفر صرف شریف خاندان تک محدود نہیں رہنا چائیے، بلکہ اِس ملک کو نقصان پہنچانے والے ہر ایک فرد اور ہر ایک گروہ تک اِس کا اثر پہنچنا چاہیے۔ میری نظر میں یہ وقت اور حالات مملکت خداداد کے لیے فیصلہ ساز ہے، آخر ہم کب تک سنتے رہیں کہ
پاکستان اِس وقت نازک دور سے گزر رہا ہے۔



اگر آج گزشتہ 70 سال سے دہرائی جانے والی غلطی دہرائی گئی تو لوگوں میں پائی جانے والی مایوسی مزید گہری ہوجائے گی کہ پاکستان میں طاقتور لوگوں کے سامنے تو انصاف نامی شہ دم دبا کر بھاگ جاتی ہے اور صرف پتلی گردن والی عوام ہی اِس کا نشانہ بنتی ہے، اور اگر اِس بار بھی یہ تاثر قائم ہوگیا تو پاکستان کے ساتھ شاید اِس سے بڑا ظلم اور کچھ ہو نہیں سکتا۔

[poll id="1395"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگرجامع تعارف کیساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں