امریکا میں گزرتے شب وروز
جب ہم قطار میں لگے تو وہیل چیئر چلانے والی لڑکی سے گفتگو کرنے کا موقع ملا
یہ اظہاریہ میں ریاست نارتھ کیرولینا کے دارالحکومت رالے(Raleigh) سے متصل ایک چھوٹے سے قصبے Youngsvillسے لکھ رہا ہوں۔ جہاں میرے برادر نسبتی اپنے خاندان کے ساتھ 1996سے رہائش پذیر ہیں۔ چند ہزار نفوس پر مشتمل یہ چھوٹی سی خوبصورت بستی گھنے درختوں اورچہارسو پھیلے سبزہ زار سے گھری ہوئی ہے۔ ہم گزشتہ جمعے کو یہاں پہنچے ہیں۔ ہمیں امریکا آئے 10دن ہوچکے ہیں۔ بہت سے احباب سے ملاقاتیں ہوچکی ہیں، جب کہ کچھ سے متوقع ہیں۔ ان ملاقاتوں کا احوال تو اگلے کسی اظہاریے میں پیش کریں گے۔ آج کے اظہاریے میں دس دنوں کے دوران جو مشاہدات ہوئے ہیں، وہ قارئین سے شئیر کرنا چاہیں گے۔
ہم 2جولائی کی سہ پہر شکاگو کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اترے۔ یہاں ہر پانچویں منٹ ایک فلائٹ اترتی اور ٹیک آف کرتی ہے۔ امیگریشن کے درجنوں کاؤنٹر ہیں، جن میں سے ہر ایک پر درجنوں افراد قطار اندر قطار کھڑے اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔ ہماری بیگم کی کمر کے دو مہرے اپنی جگہ سے ہل جانے کی وجہ انھیں وہیل چیئر کی ضرورت تھی۔ جس کی وجہ سے ہمیں اس قطار میں لگنے کا موقع ملا، جہاں وہیل چیئر والے مسافر تھے ۔ ہم سے پہلے بھی کوئی درجن بھر لوگ قطار میں پہلے سے موجود تھے۔ بہرحال خداخدا کر کے ہمارا نمبر بھی آگیا۔ ایک سیاہ فام امیگریشن افسر نے صرف یہ پوچھا کہ کیا کرتے ہو اور بیگم کی اشارہ کر کے استفسار کیا کہ انھیں کیا مسئلہ ہے۔ پھر Entry کا ٹھپہ لگا کر رخصت کر دیا۔
جب ہم قطار میں لگے تو وہیل چیئر چلانے والی لڑکی سے گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ اس نے پوچھاAre you Indian?۔جواباً عرض کیا نہیں پاکستانی۔ فوراً بولی The country which promotes terrorism۔ اب لمبے بھاشن کا نہ وقت تھا نہ موقع۔ صرف اتنا پوچھا کہ ہم سمیت قطار میں لگے کتنے لوگ تمہیں دہشت گرد یا اسے فروغ دینے والے لگتے ہیں؟ مختصر سے وقت میں یہ سمجھانے کی اپنی سی کوشش کی کہ پاکستان کی 90 فیصد آبادی وسیع القلب، پر امن اور روشن خیال ہے ۔ ہر معاشرے کی طرح ہمارے یہاں بھی ایک مختصر سی تعداد مذہبی جنونیت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے۔ یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں تھی کہ جس مذہبی جنونیت سے آج تم لرزاں ہو، وہ تمہارے ہی حکمرانوں کی دین ہے۔
اصل معاملہ یہ ہے سفارت خانے اپنے ملک کی تصویر اور تاثر کو بہتر بنانے کے لیے قائم کیے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں حکمرانی کے بحران کے اثرات ہر شعبے پر پڑے ہیں، اس کا شکار سفارت خانے بھی ہیں۔ جہاں من پسند افراد کی بغیر کسی میرٹ تقرریاں اور تعیناتیاں کی جاتی ہیں۔ چنانچہ نا اہل اور کم تر صلاحیت کے افسران اور اہلکار اقربا پروری اور کرپشن کے نتیجے میں سفارت خانوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ جنھیں قومی مفاد اور اس کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ہوتا ۔ یہ لوگ اپنے عہدے اور تقرری کو خاندان اور برادری کو فائدہ پہنچانے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ جب دوسرے ممالک بالخصوص بھارتی سفارت خانوں کی فعالیت دیکھتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ کیونکہ بھارتی سفارت خانہ اپنے ملک کے مثبت پہلوؤں کو روشناس کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ ساتھ ہی اپنے شہریوں کو متعلقہ ملک میں بھر پور خدمات مہیا کرتا ہے۔
دنیا بھر میں موجود پاکستانی سفارت خانوں میں احساس ذمے داری کے فقدان، عالمی سیاست پر پاکستان کا موقف کو موثر انداز میں پیش نہیں ہو پا رہا ۔ جس کی مثال یہ ہے کہ آج کشمیری عوام جس جرأت اور دلیری سے بھارتی فوج کے مظالم برداشت کررہے ہیں، پاکستانی سفارت خانے انھیں دنیا بھر میں موثر انداز میں پیش کرنے اور ان کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے میں ناکام ہیں۔ اس کے برعکس بھارتی سفارت خانے کشمیری حرت پسندوں کو دہشت گرد ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ جس کی واضح مثال یہ ہے کہ کوئی مہینہ بھر پہلے برادر مسلم ملک اردن کے ایک اخبار میں شایع ہونے والے مضمون میں کشمیری حریت پسندوں کو دہشت گرد لکھا گیا۔ مگر ہماری جانب سے اس پر کوئی موثر احتجاج نہیں کیا گیا۔ میں گزشتہ ایک دہائی سے مسلسل عالمی اخبارات کو مانیٹر کررہا ہوں ۔ میری نظر سے اس عرصے میں خطے کے اہم معاملات (Burning Issues)پر شاذ و نادر ہی کوئی بھرپور نوعیت کا مضمون گزرا ہو۔
ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور منصوبہ سازوں کی عقل ٹخنوںمیں ہے یا پھر انھیں قومی مفادات کے معنی و مفہوم کا ادراک نہیں ہے۔ کسی تقریر میں ریاستی پالیسیوں اور اداروں کی کارکردگی پر تنقید یا جذبات کی رو میں بہہ کر کوئی منفی نعرہ لگا دینا،اتنا قبیح جرم نہیں جتنا قومی مفاد اور تشخص کو عالمی سطح پر مجروح ہوتے دیکھنا ہے۔ ملک کے وسائل کی سفاکانہ انداز میں لوٹ مار ہے۔ یہ بات عقل دشمن منصوبہ سازوں کو کون سمجھائے کہ غدار وہ نہیں جس نے جذبات کی رو میں بہہ کر کوئی منفی بات کردی، بلکہ اصل غدار وہ ہیں، جو غلط فیصلوں اور غلط اقدامات کے ذریعے اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلاکررہے ہیں۔
دنیا جانتی ہے کہ نوم چومسکی نامی امریکی دانشور اپنی ہر تحریر میں اپنے ملک کی پالیسیوں پر جس انداز میں کڑی تنقید کرتا ہے، پاکستان میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔اس نے اپنی کتاب The Rogue State میں امریکا کو دہشت گرد ریاست تک قرار دیدیا، مگر اس کی تقریر ، تحریراور تصویر پر تو پابندی نہیں لگی۔ بلکہ وہ آج بھی تسلسل کے ساتھ امریکی پالیسیوں پر سخت ترین تنقید کررہا ہے۔ در اصل ہمارے نااہل حکمرانوں اور منصوبہ سازوں نے پاکستان کو ایک ''زد پذیر'' ریاست بنادیا ہے۔ یہ حکمران اشرافیہ اپنے گھناؤنے کرداراور بدترین کارکردگی پر پردہ ڈالنے کے لیے اختلاف رائے رکھنے والے پر غداری کا الزام عائد کرکے ان کا منہ بند کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ انھیں اس سے عرض ہے کہ دوسروں پر الزام تراشیوں سے پہلے ذرا اپنے نامہ اعمال پر بھی نظر ڈال لیں، تاکہ خود انھیں اپنی حب الوطنی اور پارسائی کا اندازہ ہوسکے۔ یعنی بقول شاعر ''دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ۔''
جب بھی ملک سے باہر نکلتے ہیں، تو یہ دیکھ کر شدید احساس محرومی ہوتا ہے کہ دنیا کا ہر چھوٹا بڑا ملک ہم سے بدرجہا بہتر ہے۔ کم وسائل کے باوجود اس کے حکمرانوں کی پالیسیاں عوام دوست ہیں، جب کہ ہمارے حکمرانوں (سیاسی اور غیر سیاسی دونوں)کا مرتکز صرف اپنے مفادات کا حصول ہے۔ آج کی دنیا میں اچھی حکمرانی احساس ذمے داری، جواب دہی، میرٹ، شفافیت اور احتساب جیسے خواص سے مشروط ہے، مگر ہمارے یہاں ان خواص کا بدترین فقدان ہے۔ خراب حکمرانی کی وجہ سے کرپشن، بدعنوانیاں اور اقربا پروری جیسی برائیاں معاشرتی کلچر کا حصہ بن گئی ہیں۔ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے ہمیں فکری فرسودگی اور تہذیبی نرگسیت کے خول سے باہر نکل کر جدید دنیا کے تقاضوں کے مطابق اپنی نظم حکمرانی کو ڈھالنا ہوگا ۔ قرارداد مقاصدجیسے رومان پرور بیانیوں سے جان چھڑانا ہوگی۔ بصورت دیگر عالمی سطح پر رسوائی اور اندرون ملک خلفشار کسی نہ کسی شکل میں ریاست کو دیمک کی طرح چاٹتا رہے گا۔ ہم نے تو دنیا گھوم کر اور مشرقی پاکستانی علیحدگی سی یہی سبق سیکھا ہے۔