حق ادا نہ کرسکے
پیٹرول ہے، آگ پکڑسکتا ہے نہ ہی انتظامیہ کا خوف تھا کوئی ایک بھی ان سیکڑوں افراد میں ایسا نہیں تھا
کبھی کبھی بلاوجہ کا فرسٹریشن ہوتا ہے کہ یہ کیا ہوا ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، ہم کہاں جارہے ہیں، من حیث القوم ہم اس وقت انتہائی پستی کی طرف گامزن ہیں ۔ متعدد ایسے واقعات ہیں جو انسان کو خوف میں مبتلا کردیتے ہیں کہ ہم اپنے بچو ں کوکس نہج پر لے جا رہے ہیں۔ اب کیا ہوگا، آئل ٹینکرکے واقعے نے سوچ کا درکھول دیا کہ لوگوں نے ایسا کیوں کیا؟ کیا غربت اس کی وجہ تھی ، نہیں ایسا نہیں ہے، لالچ نے اس آگ کو اپنے اوپر مسلط کیا،کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اصل میں تربیت کی کمی نے لوگوں اس نہج پر لاکھڑا کیا ہے کہ جو چیز مفت میں جیسی بھی ہو جہاں سے ملے اسے حاصل کر لو چاہے اس سعیٔ لاحاصل میں جان چلی جائے۔
ایک جگہ سے گذرنے کا اتفاق ہوا ، دیکھا دو نوجوان آپس میں لڑرہے ہیں کہ یہ وائلٹ میرا ہے دوسرا کہہ رہا تھا نہیں یہ میرا ہے جب کے حقیقت یہ تھی کہ وہ ان دونوں میں سے کسی کا نہ تھا، سوچ کی اس تبدیلی نے لوگو ں کے خیالات کو تبدیل کردیا ہے ،جائزوناجائزکے فرق کو مٹادیا ہے۔ محنت کے بغیر حاصل ہونے والی چیزیں اگر ذرا سا جھوٹ بولنے سے وہ ہمیں مل سکتی ہیں توکیا حرج ہے۔اس تناظر میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ تھوڑا سا آئل لینے کے لیے ا یک جم غفیراکھٹا ہوگیا تو ہماری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ مال مفت دل بے ر حم تو تھا ہی دوسروں کے لیے مگر یہاں صورت حال مختلف ہوگئی کہ ہم نے اس کے مضمرات پر غور نہیںکیا کہ اس کے اثرات کیا ہوں گے۔
پیٹرول ہے، آگ پکڑسکتا ہے نہ ہی انتظامیہ کا خوف تھا کوئی ایک بھی ان سیکڑوں افراد میں ایسا نہیں تھا جوکہ حقیقت کا ادراک کرلیتا ، دوسروں کوآگاہ کرتا ۔ بلکہ ہوا یہ کے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اندھا دھند بھیڑچال کا شکار ہوگئے۔ اس طرح کی صورتحال ہم ہرجگہ دیکھ ر ہے ہیں کیونکہ ہم تربیت کے مرحلے کو نظراندازکرچکے ہیں ۔ اوپر سے لے کے نیچے تک ایک ہی سوچ کار فرما ہے جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہمارے بچے بڑوں کو دیکھ کر وہ ہی کچھ کررہے ہیں کیونکہ ان کو بھروسہ ہے ہمارے بڑے بھی تو یہ کررہے ہیں یہ بات بری کیسے ہوسکتی ہے اگرکہیں والدین منع بھی کریں تو ان کی بات میں وہ دم نہیں، کیوں کے بچے و الدین کو اساتذہ کو ارد گرد کے رہنے والوں کو ایسی ہی حرکتیں کرتے دیکھ رہے ہیں۔ ان کو معلوم ہے ہم بھی یہ سب کریں گے تو ہم کو سزا نہیں ملے گی۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں اسکول میں تھی تو مجھے قلم کی ضرورت پڑی، میرا قلم ٹھیک سے لکھ نہیں پارہا تھا، میں نے اپنی دوست سے کام کرنے کے لیے قلم لیا مگر واپس کرنا بھول گئی گھرآکر میں نے اس بات کا تذکرہ کیا کہ مجھے نئے قلم کی ضرورت ہے آج کام کرنے میں دشواری ہوئی تو مجھے خیال آیا کہ میں نے اپنی دوست کا قلم واپس نہیں کیا ۔ میرے والد نے کہا تم کو فورا واپس کرنا چاہیے تھا، میں نے لاپرواہی سے کہا کوئی بات نہیں میں کل دے دوں گی مگر میرے والد نے سختی سے کہا آج ہی واپس کرنا ہے، انھوں نے مجھے ساتھ لیا اور اس وقت دوست کے گھرگئے اوراس کا قلم واپس کروایا پھر انھوں نے مجھے سمجھایا کہ یہ آج واپس کرنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ تم نے آج ہی کا کہا تھا، اصل میں تو تم اسکول میں ہی دے دیتی مگر بھول گئی تو لازمی تھا کہ گھر جاکردیتی کیوں کہ کیا پتہ تمہاری دوست کو اس وجہ سے گھر میں ڈانٹ پڑرہی ہو، اس کے گھر والو ں پر تمہارا تاثر غلط پڑے، اس لیے میں تم کو لے کر اس وقت ہی گیا۔اس بات سے میں نے بہت کچھ سیکھا میں اب تک کسی کی کوئی چیز نہیں لیتی، اگر لینا پڑجائے تو وعدے کے مطابق واپس کرتی ہوں روپے کا لین دین ہو یا کوئی دوسرا معاملہ میری نیت کبھی خراب نہیں ہوئی۔
ہمارا مذ ہب بھی ہمیں کچھ باتیں بتاتا ہے ہمارے لیے زندگی گزارنے کے لیے ضابطہ حیات متعین کرتا ہے مگر اب ہم نے دنیا سازی کے نئے اصول بنا لیے ہیں، اگر ہماری تربیت میں یہ بات کار فرما ہوتی کہ بغیر پوچھے کسی کی کوئی چیز استعمال نہیںکرنی یا بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے کیا نقصانات ہیں توآج سیکڑوں جانیں ضایع نہ ہوتیں مگر ایک معمولی آئل لینے کے چکر میں جوکتنے دن چل جاتا ہم نے اپنی قیمتی جانوں کو داؤ پر لگادیا، جان سے تو ہاتھ دھونا پڑے نیت کا گناہ بھی ہوا، اللہ پاک اب ان تمام لوگو ں کی مغفرت فرمائے، اگر میں آیندہ سے کسی نقصانات سے بچنا ہے تو بچوں کی تربیت کے منصوبوں پرکام کرنا پڑ ے گا۔
جب قوم یہ دیکھتی ہے کہ یہاں بڑے بڑے لوگ ہر طرح سے اپنی ہی ذات کو فائدہ پہنچا رہے ہیں تو وہ کیوں پیچھے رہیں ، قوم کے حکمرانوں پر ناجائز پیسہ بنانے کے متعدد الزامات ہیں مگر ڈھٹائی کی انتہا ہے میں نہ مانوںکی رٹ پکڑی ہوئی ہے اور اس پر ان کا دعوی بھی ہے کہ کوئی ثابت کر کے دکھائے اور ساتھ ساتھ حضرت فٖاطمہ اورحضرت زینب سے تشبیہ بھی ہے جن کی خاک کے برابرکوئی نہیں ہوسکتا، حضرت فاطمہ جس عظیم ہستی کی بیٹی ہیں وہ سرداروں کے سردار مگران کے گھر میں بچھونا پورا نہیں تھا ،کسی جنگ کے موقعے پرصحابہ کرام نے بھوک کی شکایت کی اورکہا بھوک سے پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے ہیں تو آپﷺ نے کرتا اٹھا کر دکھایا کہ آپ ﷺ کے پیٹ پر بھی دو پتھر بندھے تھے۔
آپ عوام سے علیحدہ نہیں تھے، مگر ان حکمرانوں کا یہ حال ہے کہ عوام کے پیٹ سے روٹی چھین کر دوسرے ممالک میں محل بناتے ہیں اور شرمندہ بھی نہیں۔ جے آئی ٹی کو متنازعہ بنایا جارہا ہے، دھمکیاں دی جا رہی ہیں سچ کو آنچ کیا ہے انصاف کی راہ میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں، اختیارات کا ناجائزاستعمال کرنے کی بجائے انصاف کا تقاضہ پورا کرنے اور حالات کا سامنا کرنے میں ہی شان تھی مگر چاروں طرف سے یلغار ہے کہ کسی طرح انصاف کرنے والے ادارے مشکوک ثابت ہوجائیں۔ کس بات کا ڈر ہے کہیں تو کچھ ہے نا جس کی پردہ داری کے لیے الٹی سیدھی باتیں کی جارہی ہیں۔ان حرکتوں سے عوام کی تربیت غلط ہورہی ہے وہ بھی اپنی اپنی سطح پر وہ ہی کچھ کررہے ہیں جس کا ان کو موقع مل رہا ہے، حکمرانی کا تاج اگر مل جاتا ہے تو ذمے داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ آج جتنے جرائم ملک میں ہورہے ہیں، ان سب کے ذمے دار بھی یہ حکمران ہی ہیں،انھوں نے یہ بار گراں اٹھا تو لیا مگر حق ادا نہ کرسکے۔
ایک جگہ سے گذرنے کا اتفاق ہوا ، دیکھا دو نوجوان آپس میں لڑرہے ہیں کہ یہ وائلٹ میرا ہے دوسرا کہہ رہا تھا نہیں یہ میرا ہے جب کے حقیقت یہ تھی کہ وہ ان دونوں میں سے کسی کا نہ تھا، سوچ کی اس تبدیلی نے لوگو ں کے خیالات کو تبدیل کردیا ہے ،جائزوناجائزکے فرق کو مٹادیا ہے۔ محنت کے بغیر حاصل ہونے والی چیزیں اگر ذرا سا جھوٹ بولنے سے وہ ہمیں مل سکتی ہیں توکیا حرج ہے۔اس تناظر میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ تھوڑا سا آئل لینے کے لیے ا یک جم غفیراکھٹا ہوگیا تو ہماری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ مال مفت دل بے ر حم تو تھا ہی دوسروں کے لیے مگر یہاں صورت حال مختلف ہوگئی کہ ہم نے اس کے مضمرات پر غور نہیںکیا کہ اس کے اثرات کیا ہوں گے۔
پیٹرول ہے، آگ پکڑسکتا ہے نہ ہی انتظامیہ کا خوف تھا کوئی ایک بھی ان سیکڑوں افراد میں ایسا نہیں تھا جوکہ حقیقت کا ادراک کرلیتا ، دوسروں کوآگاہ کرتا ۔ بلکہ ہوا یہ کے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اندھا دھند بھیڑچال کا شکار ہوگئے۔ اس طرح کی صورتحال ہم ہرجگہ دیکھ ر ہے ہیں کیونکہ ہم تربیت کے مرحلے کو نظراندازکرچکے ہیں ۔ اوپر سے لے کے نیچے تک ایک ہی سوچ کار فرما ہے جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہمارے بچے بڑوں کو دیکھ کر وہ ہی کچھ کررہے ہیں کیونکہ ان کو بھروسہ ہے ہمارے بڑے بھی تو یہ کررہے ہیں یہ بات بری کیسے ہوسکتی ہے اگرکہیں والدین منع بھی کریں تو ان کی بات میں وہ دم نہیں، کیوں کے بچے و الدین کو اساتذہ کو ارد گرد کے رہنے والوں کو ایسی ہی حرکتیں کرتے دیکھ رہے ہیں۔ ان کو معلوم ہے ہم بھی یہ سب کریں گے تو ہم کو سزا نہیں ملے گی۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں اسکول میں تھی تو مجھے قلم کی ضرورت پڑی، میرا قلم ٹھیک سے لکھ نہیں پارہا تھا، میں نے اپنی دوست سے کام کرنے کے لیے قلم لیا مگر واپس کرنا بھول گئی گھرآکر میں نے اس بات کا تذکرہ کیا کہ مجھے نئے قلم کی ضرورت ہے آج کام کرنے میں دشواری ہوئی تو مجھے خیال آیا کہ میں نے اپنی دوست کا قلم واپس نہیں کیا ۔ میرے والد نے کہا تم کو فورا واپس کرنا چاہیے تھا، میں نے لاپرواہی سے کہا کوئی بات نہیں میں کل دے دوں گی مگر میرے والد نے سختی سے کہا آج ہی واپس کرنا ہے، انھوں نے مجھے ساتھ لیا اور اس وقت دوست کے گھرگئے اوراس کا قلم واپس کروایا پھر انھوں نے مجھے سمجھایا کہ یہ آج واپس کرنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ تم نے آج ہی کا کہا تھا، اصل میں تو تم اسکول میں ہی دے دیتی مگر بھول گئی تو لازمی تھا کہ گھر جاکردیتی کیوں کہ کیا پتہ تمہاری دوست کو اس وجہ سے گھر میں ڈانٹ پڑرہی ہو، اس کے گھر والو ں پر تمہارا تاثر غلط پڑے، اس لیے میں تم کو لے کر اس وقت ہی گیا۔اس بات سے میں نے بہت کچھ سیکھا میں اب تک کسی کی کوئی چیز نہیں لیتی، اگر لینا پڑجائے تو وعدے کے مطابق واپس کرتی ہوں روپے کا لین دین ہو یا کوئی دوسرا معاملہ میری نیت کبھی خراب نہیں ہوئی۔
ہمارا مذ ہب بھی ہمیں کچھ باتیں بتاتا ہے ہمارے لیے زندگی گزارنے کے لیے ضابطہ حیات متعین کرتا ہے مگر اب ہم نے دنیا سازی کے نئے اصول بنا لیے ہیں، اگر ہماری تربیت میں یہ بات کار فرما ہوتی کہ بغیر پوچھے کسی کی کوئی چیز استعمال نہیںکرنی یا بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے کیا نقصانات ہیں توآج سیکڑوں جانیں ضایع نہ ہوتیں مگر ایک معمولی آئل لینے کے چکر میں جوکتنے دن چل جاتا ہم نے اپنی قیمتی جانوں کو داؤ پر لگادیا، جان سے تو ہاتھ دھونا پڑے نیت کا گناہ بھی ہوا، اللہ پاک اب ان تمام لوگو ں کی مغفرت فرمائے، اگر میں آیندہ سے کسی نقصانات سے بچنا ہے تو بچوں کی تربیت کے منصوبوں پرکام کرنا پڑ ے گا۔
جب قوم یہ دیکھتی ہے کہ یہاں بڑے بڑے لوگ ہر طرح سے اپنی ہی ذات کو فائدہ پہنچا رہے ہیں تو وہ کیوں پیچھے رہیں ، قوم کے حکمرانوں پر ناجائز پیسہ بنانے کے متعدد الزامات ہیں مگر ڈھٹائی کی انتہا ہے میں نہ مانوںکی رٹ پکڑی ہوئی ہے اور اس پر ان کا دعوی بھی ہے کہ کوئی ثابت کر کے دکھائے اور ساتھ ساتھ حضرت فٖاطمہ اورحضرت زینب سے تشبیہ بھی ہے جن کی خاک کے برابرکوئی نہیں ہوسکتا، حضرت فاطمہ جس عظیم ہستی کی بیٹی ہیں وہ سرداروں کے سردار مگران کے گھر میں بچھونا پورا نہیں تھا ،کسی جنگ کے موقعے پرصحابہ کرام نے بھوک کی شکایت کی اورکہا بھوک سے پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے ہیں تو آپﷺ نے کرتا اٹھا کر دکھایا کہ آپ ﷺ کے پیٹ پر بھی دو پتھر بندھے تھے۔
آپ عوام سے علیحدہ نہیں تھے، مگر ان حکمرانوں کا یہ حال ہے کہ عوام کے پیٹ سے روٹی چھین کر دوسرے ممالک میں محل بناتے ہیں اور شرمندہ بھی نہیں۔ جے آئی ٹی کو متنازعہ بنایا جارہا ہے، دھمکیاں دی جا رہی ہیں سچ کو آنچ کیا ہے انصاف کی راہ میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں، اختیارات کا ناجائزاستعمال کرنے کی بجائے انصاف کا تقاضہ پورا کرنے اور حالات کا سامنا کرنے میں ہی شان تھی مگر چاروں طرف سے یلغار ہے کہ کسی طرح انصاف کرنے والے ادارے مشکوک ثابت ہوجائیں۔ کس بات کا ڈر ہے کہیں تو کچھ ہے نا جس کی پردہ داری کے لیے الٹی سیدھی باتیں کی جارہی ہیں۔ان حرکتوں سے عوام کی تربیت غلط ہورہی ہے وہ بھی اپنی اپنی سطح پر وہ ہی کچھ کررہے ہیں جس کا ان کو موقع مل رہا ہے، حکمرانی کا تاج اگر مل جاتا ہے تو ذمے داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ آج جتنے جرائم ملک میں ہورہے ہیں، ان سب کے ذمے دار بھی یہ حکمران ہی ہیں،انھوں نے یہ بار گراں اٹھا تو لیا مگر حق ادا نہ کرسکے۔