لفٹنگ آف ویل

یہ کہانی اِس مضمون سے طویل ہے قصہ مختصر JIT نے اس کی تصدیق کردی۔جب کھوج لگانے بیٹھی تو بات دور تک چلی گئی


جاوید قاضی July 13, 2017
[email protected]

بلآخر دس جولائی کو JITکی تحقیقاتی رپورٹ تکمیل پاکر، سپریم کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل بینچ جو پانچ ججوں پر مشتمل تھا اورجوکہ پانچ ججوں کے پناما کیس کی ججمنٹ کی Implementatonکے تناظرمیں بنائی گئی تھی،کورٹ کے پاس پیش کی گئی۔ یہ رپورٹ پبلک ڈاکیومنٹ تھا اور نیچرل جسٹس کے پیمانوں کو پورا کرنے کی خاطر سب متعلقہ فریقین کو بھی دی گئی۔

اب 17جولائی کو یہ یقین ہوگا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ پانچ ججوں کا فیصلہ ، جس میں سے دو نے اقلیتی رائے دی اور تین نے اکثریتی رائے دی ، یعنی دو ججوں نے آرٹیکل62 & 63 کے تحت میاں صاحب کو نا اہل قرار دے دیا اور تین ججوں نے نا اہل قرار نہیں دیا جب کہJIT پانچ ہی ججوں نے بنائی۔JIT بناتے وقت TORS بھی وضع کیے گئے، ْکل مِلا کر تیرہ سوالات کے جوابات کچھ اس ترتیب سے دینے تھے کہ جس سے یقینی انداز میں''ہاں'' یا ''ناں'' میں جواب دیا جائے۔

یہاں تک تو JIT کا مینڈیٹ تھا مگر سفارشات دینے کا مینڈیٹ JITکو حاصل نہیں۔JIT نے سپریم کورٹ کو ایک یہ بھی سفارش کی ہے کہ یہ کیس ریفرنس کی صورت میں نیب کو بھیجا جائے۔ یہ مینڈیٹ سپریم کورٹ نے نیب کو نہیں دیا۔یہ اور بات ہے کہ سپریم کورٹ کس نتیجے پر پہنچتی ہے آئین اور قانون کے مطابق۔JIT کی رپورٹ مکمل تفتیش پر مبنی ہے۔JIT نے ایک طرف تو شریف خاندان کے اثاثوں اور آمدنی کی اصل حقیقت واضح کی اور دوسری طرف جعلی کمپنیوں کا فسانہ بھی کورٹ کے سامنے پیش کیا۔ معاملہ آف شور کمپنیوں یا مقامی کمپنیوں کا نہیں ہے، معاملہ جعلی اور اصلی کمپنیوں کا ہے۔چاہے وہ ملک سے باہر ہوں یا ملک کے اندرفرقMODUS OPERANDI (طریقہ ٗ واردات) کاہے۔ وہ جعلی کمپنیز جو باہر ہوتی ہیں، اْس طریقہ واردات میںملک سے پیسے چوری کرکے جمع کیے جاتے ہیں۔جو جعلی کمپنیز ملک کے اندر ہوتی ہیں پیسے اْن کمپنیز کے اکاؤنٹ میں جمع کیے جاتے ہیں ۔ یہ جعلی کمپنیز اس لیے جعلی ہوتی ہیں کہ وہ قانونی طور پرLegal Person تو بن جاتی ہیںمگر کام ILLEGAL کرتی ہیں۔

پیسے تو اِن کے اکاؤنٹ میں بہت ہوتے ہیں مگرکاروبارکیا کرتی ہیں؟ کوئی علم نہیںاورکاروبار کی Balance sheet

میں ہمیشہ خسارہ ہی خسارہ دکھایا جاتا ہے۔ ا ن کمپنیزکا کوئی وجود نہیں ہوتا سوائے اِن کے بینک اکاؤنٹس کے۔ ایک مقامی جعلی کمپنی سے آف شورکمپنیز جعلی کمپنی میں پیسے منتقل ہوتے ہیں اوریہ کمپنیز بینک سے قرضے بھی لیتی ہیں۔

کمپنی لیگل پرسن آج سے تین سو سال پہلے بنی ۔ اس سے پہلے پارٹنر شپ یا پروپرائٹر شپ کی بنیاد پر کاروبار ہوتا تھا۔ TRUSTکے فلسفے کے تحت یورپ میں کلیسا کی زمینیں، بیکریاں، فلور ملز، ڈیری فارم ا یسے تمام اداروں کے نام پر ہوتی تھیں۔ جب یورپ میں نشاۃ ثانیہRenaissanceآئی تو آہستہ آہستہEconomy of Scale نے جڑ پکڑ لی۔

اور اس طرح کمپنیز کی بدولت حصص کے ذریعے عام لوگوں کو ملکیت کے حقوق ملنے لگے۔ اور پھر یوں اسٹاک ایکسچینج وجود میں آئی، کمپنیوں سے پبلک لیمیٹڈ کمپنیز بھی بنیں۔ لندن اور یورپ کے بڑے بڑے شہروں کا انفرا اسٹرکچر اِن کمپنیز کے توسط سے بنتا رہا اور جب کمپنی Legal Person بنی تو اْنیسویں صدی میں طرار دماغوں نے کمپنیز کے ذریعے وہ ہی کچھ کیا جو موزیک فانزیکا Panama میں ICIJ نے آج پکڑا۔ برطانیہ کے عظیم جج Lord Denning اس سارے منظر نامے کو Doctrine of Lifting the veil کے نام سے روشناس کروایا اور ایسی کمپنیز کو جو جعلی ثابت ہوجائیں ان کو Facade Company قرار دیا۔

معاملہ یہ ہے کہ یہ کمپنیز Bioligical Person کی طرح جو اٹھارہ سال کی عمر سے اوپر ہوں اور ذہنی طور پر ٹھیک ہوں وہ al Person Leg قرار دیا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ کپمنیز بھی تمام قانونی تقاضوںکے بعدal Person Leg ٹھہرتی ہے ۔ وہ اپنے نام پر خریدوفروخت کرسکتی ہیں، قرضے بھی دے سکتی ہیں اور قرضے لے بھی سکتی ہیں۔

موزیک فونزیکا چوری کے اس کاروبار میں پچاس سال سے منسلک ہے اور یہ ایسی تمام جعلی کمپنیز کو پناما کے اندر رجسٹر کرواتا تھا نہ صرف یہ کہ جعلی رجسٹریشن ہوتی تھی بلکہ اس کے ڈائریکٹر بھی فرضی ہوتے تھے۔

یہ کہانی اِس مضمون سے طویل ہے قصہ مختصر JIT نے اس کی تصدیق کردی۔جب کھوج لگانے بیٹھی تو بات دور تک چلی گئی، اور بھی بہت سے پردہ نشینوں کے نام آئے۔ ڈھائی گھنٹے JIT کے اندر نواز شریف سے سوال و جواب کیے گئے، سارے سوالوں کے جوابات ایسے تھے جس کے دو معنی نکلتے تھیں، فقط ایک سوال کا جواب صحیح تھا کہ''محمد حسین'' اْن کے ماموں ہیں۔ اسحٰق ڈار ، نیشنل بینک کے صدر سعید احمد اور اعجاز سفی وغیرہ کس طرح راتوں رات امیر بنتے ہیں اور دوسرے تمام پردہ نشین اس Lifting of the Veilکے پروسیس میں بے نقاب ہوتے ہیں ۔ اب کیا ہوگا ؟ اِن تیرہ سوالوں کے جوابات واضح ہوچکے ہیں۔ جھوٹے کاغذات و شواہدات بھی جمع کروائے گئے۔ چوری کو چھپانے کے لیے چوری در چوری کی گئی۔جھوٹ در جھوٹ بولا گیا، قسمیں کھائی گئیں۔ حلفیہ بیان دیے گئے یہ ہے ہماری قیادت۔

میرے خیال میںNAB کے ریفرنس کے حوالے سے جو کام ہو سو ہو ، یہ Implementation Bench پناما کیس کے حوالے سے اب نتیجے پر پہنچ ہی جائے کہ آیا جھوٹ بولا گیا، چوری کی گئی ہے، ٹیکس بھی چوری کیا گیا ہے اور منی لانڈرنگ بھی کی گئی ہے۔ لہٰذا وہ عہدے پر فائز نہیں رہ سکتے۔ نہ جانے کتنے اربوں ڈالر اِس ملک سے لوٹ کر باہر پہنچائے ، نہ جانے کتنے سالوں سے یہ کام جاری ہے۔ بھوک و افلاس کے بھنور میں پھنسا ہو ا یہ ملک پاکستان ، اب آزادی چاہتا ہے اب اِن کرپٹ لوگوں سے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں