احساس کی زرخیز زمین
درخت ہمارے دوست ہیں۔ یہ ہمارے وجود کی بقا کا ذریعہ ہیں
درخت ہمارے دوست ہیں۔ یہ ہمارے وجود کی بقا کا ذریعہ ہیں۔ ہم ان کے ذریعے بہت سی چیزیں حاصل کرتے ہیں جن میں رنگ، کاغذ، فرنیچر اور رہائشی اشیا شامل ہیں۔ قدیم تہذیبوں نے درختوں سے کئی قصے اورکہانیاں منسوب کر رکھی ہیں۔ قدیم مصر کے لوگ ان درختوں کو دیوتاؤں کا مسکن سمجھتے تھے۔ یہ مخلوق صحرا کی سرحد پر متعین تھی، جہاں دو دنیائیں آپس میں ملتی ہیں۔ مرے ہوئے لوگوں کی روحیں ان دیوتاؤں سے پانی اور غذا حاصل کیا کرتیں۔ انڈیا میں درختوں کی پوجا عام تھی۔ گوتم بدھ کے لیے کہا جاتا ہے کہ درخت کے نیچے مراقبے کے دوران، اسے روحانی آگہی کا عرفان عطا ہوا۔ مذہبی کتابوں میں درختوں و پھلوں کا ذکر ملتا ہے۔ بائبل میں انجیرکا ستاون بار ذکر آیا ہے۔ قرآن میں بھی اس پھل کا ذکر موجود ہے۔
پل پر بہت سی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ سامنے دریائے کنہار کے قریب ایک ریسٹورنٹ بنا ہوا ہے۔ اوپر بنے ہوئے لکڑی کے پل پر لوگ پانی کا نظارہ کر رہے ہیں۔ سوچا جب تک ٹریفک کا رش کم ہو، تھوڑی دیر یہاں سستا لیتے ہیں۔ ملکنڈی کا علاقہ بھی فطری خوبصورتی سے مالا مال ہے۔ یہاں کے جنگلات مشہور ہیں۔ ان جنگلات میں مختلف قسم کے جانور پائے جاتے ہیں جن میں چیتے، آئیبیکس اور ریچھ وغیرہ شامل ہیں۔
جنگلی پودوں اورجھاڑیوں کو چھو کر آتی ہوا میں خالص پن مہک رہا ہے۔ آسمان پر بادل، سورج کے ساتھ آنکھ مچولی میں مصروف ہیں۔
یہاں اس خوبصورت ماحول میں گزارے ہوئے چند دن تمام سال تازگی عطا کرتے رہتے ہیں۔ یکسانیت کا مضبوط قلعہ اگر مسمار ہوجائے تو سانسیں بھی ہموار ہوجاتی ہیں۔ یہاں خاص غذا ٹراؤٹ مچھلی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 1925 میں انگلینڈ سے آنے والے انگریز، ٹراؤٹ مچھلی کے انڈے اسکاٹ لینڈ سے لے کر آئے تھے جب کہ ٹراؤٹ کی ایک اور نسل، اس دور میں، آسٹریلیا سے بھی درآمد کی گئی تھی۔ لہٰذا، خیبر پختونخوا کے مختلف راستوں پر سفر کرتے ہوئے، ہر جگہ آپ اس مچھلی سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ اس کی تاثیر گرم ترین ہے۔ سرد موسم میں اس کی حرارت فائدہ مند محسوس ہوتی ہے۔ جون، ستمبر اور اکتوبر کے مہینے میں ٹراؤٹ کا شکار آسانی سے کیا جاتا ہے۔
حالانکہ یہاں ٹھہرنے کا کوئی پروگرام نہیں تھا، مگر دریا کے بے ساختہ گیت اور سبزے کی طراوت نے قدم روک لیے۔ دریا کے کنارے خوبصورت ہوٹل فیئری لینڈ واقع ہے۔ کمرے کی بالکونی سے پہاڑوں کا منظر بے حد حسیں دکھائی دیتا ہے۔ نیچے کنہار کی بے چین لہریں شور مچاتی مستقل آگے کی طرف محو سفر رہتی ہیں۔ بہتے ہوئے پانی میں توانائی موجود رہتی ہے۔ جس سے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ سری لنکا میں ہائیڈرو پاور ٹیکنالوجی کے بہترین پروجیکٹس دیکھنے میں آئے۔ جس کی وجہ سے وہاں لوڈ شیڈنگ پر مکمل طور پر قابو پالیا گیا ہے۔ پانی اور وجدانی کیفیات کا قریبی تعلق ہے۔ ندی، جھیل یا دریا کے کنارے کے قریب رہتے ہوئے جسم ذہن اور روح بے حد پرسکون ہوجاتے ہیں۔ ایک ایسی روحانی طاقت بیدار ہوجاتی ہے جو جذباتی اور جسمانی مسائل کے لیے شفایاب ثابت ہوتی ہے۔
جاپانی سائنسدان کے مطابق ہمارے خیالات و احساسات بھی پانی کے مالیکیولر اسٹرکچر پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح پانی کا نظارہ انسانی احساس و جذبات پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ پانی کے ساتھ انسان کا یہ انوکھا تعلق ہے۔ جو فقط انسانوں کے مابین دکھائی دیتا ہے۔ انسان اور کائنات کی توانائی غیر محسوس طور پر آپس میں جڑی ہوئی ہے۔ جس کے مختلف نام ہیں۔ جسے Ch'i، Ki، Qi کہا جاتا ہے۔ یہ توانائی کی مختلف صورتیں ہیں جو تاؤ ازم، پرانا، مانا اور صوفی ازم کا حصہ ہیں۔ وہ لمحہ جب ہمارے وجود سے اعلیٰ توانائی کا اخراج ہوتا ہے وہی لمحہ الوہی ابدی میلاپ کا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ پانی لاشعور کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ یہ لاشعور ہی وجدانی کیفیات یا مظہرکہلاتا ہے۔ ایک عجیب ہم آہنگی ذہن اور فطری مناظر کے درمیان قائم ہونے لگتی ہے۔ بہت اوپر پہاڑی پر چھوٹا سا گھر بنا ہوا تھا، جس میں رات گئے تک دیے کی لو ٹمٹماتی تھی۔ یہ گھر دیکھ کر حیرت ہوتی کہ لوگ کتنا مشکل سفرکرکے گھروں تک پہنچتے ہوں گے۔
رات کے آٹھ بجے ہیں اور تیز بارش ہو رہی ہے۔ آسمانی بجلی کی روشنی میں پہاڑ سکوت کی چادر میں لپٹے پراسرار دکھائی دے رہے ہیں۔ دریا کی بے چین لہروں کے شور میں برستی بوندوں کا ترنم مدغم ہوا جاتا ہے۔ یہ موسیقی دھڑکنوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے لگی ہے۔ ان علاقوں کا پانی اور غذا شفاف ہونے کی وجہ سے لوگ صحت مند ہیں۔ دشوار گزار راستوں پر سفر کرنے سے انسانی خلیے طویل عرصے تک متحرک رہتے ہیں۔ اگر یہ لوگ بیمار بھی ہوتے ہیں تو فطری علاج سے مستفید ہوتے ہیں۔ روڈ کے کنارے سے سفر کرتے ہوئے کہیں گلیشیئرز دکھائی دیتے ہیں تو کسی جگہ جھرنے بہہ رہے تھے۔ اور اس بہتے پانی کے درمیان لوگوں کا پرمسرت ہجوم دکھائی دے گا۔
ان علاقوں کے مکین پرسکون دکھائی دیے۔ شاید سبزے کے درمیان رہنے والے لوگوں کا مزاج معتدل ہوتا ہے۔ یہاں شہر کی طرح خودساختہ مسائل نظر نہیں آتے یا پھر تمام تر مسائل موسم کی خوبصورتی میں اپنا وجود بھلا بیٹھتے ہیں، لیکن ساتھ ساتھ یہ فطرت کی خوفناکی کے ساتھ بھی زندگی بسر کرتے ہیں۔
ہوٹل کا باغ محنت سے آراستہ ہے۔ بیرے سے پوچھا کہ یہاں کے مالی سے بات چیت کرنی ہے۔ اس نے کہا کہ صبح مالی باغ میں کام کرتا ہے۔ میں اسے آپ کا پیغام دے دوں گا۔ جس نے اتنی محنت سے پھول و پودے اگائے ہیں،کم ازکم اس کی حوصلہ افزائی تو ہونی چاہیے۔ تعریف تعمیری کاموں کے لیے آکسیجن کا کام کرتی ہے۔
دوبارہ تیز بارش ہونے لگی تو ہم لوگ بھی اندر چلے گئے۔ صبح ہوٹل کے لان میں کام کرتے مالی سے علاقے کے درختوں و پودوں کے بارے میں معلومات لینے لگی۔ مالی زمان کی بھی دکھ بھری داستان تھی۔ وہ قریبی گاؤں کا رہنے والا ہے۔ آٹھ اکتوبر 2005 کو آنے والے زلزلے نے اس کے دو جوان بیٹے نگل لیے۔بیٹی کی ٹانگ کٹ گئی۔ بیوی کے ہاتھ بری طرح زخمی ہوگئے۔ تین بیٹیاں سلامت رہیں۔ اس زمانے میں وہ کراچی میں نوکری کیا کرتا۔ جیسے تیسے کرکے گاؤں پہنچا تو پورا گاؤں مٹی کا ڈھیر بن چکا تھا۔ بیٹی کو مصنوعی ٹانگ لگانے کے بعد اب وہ گھر کے کام جا کرلیتی ہے۔ دو بیٹیاں میٹرک پاس ہیں۔ جیسے سیزن آف ہوگا، وہ واپس گاؤں چلا جائے گا۔ کوئی چھوٹا موٹا کام کرکے اس نے خاندان کی کفالت کرنی ہے۔
''وہ کس کا گھر ہے؟'' میں نے اوپر پہاڑ پر بسے گھر کی طرف اشارہ کرکے پوچھا۔
''وہ گھر نہیں اسکول ہے جس کے سامنے آبادی ہے۔''
خیبر پختونخوا میں درختوں میں اضافے کے ساتھ علم میں بھی کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ مختلف جگہوں پر کام کرنیوالے بچے اسکول میں بھی پڑھتے ہیں۔ تعلیم کے شعور کو فروغ دینے میں پرنس آغا خان کا کام قابل تقلید ہے۔
''یہ لوگ پہاڑوں پر اتنی دور کیسے رہتے ہیں؟'' میں نے پوچھا۔ جس پر زمان نے بتایا کہ ایک بار اس نے دیکھا کہ ایک بیمار عورت کو چارپائی سے باندھ کر گدھے پر نیچے لایا گیا۔ یہاں کوئی اسپتال نہیں ہے لہٰذا اسے بالاکوٹ لے گئے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ عمران خان کو ان علاقوں میں اسپتال کھولنے کے انتظامات کرنے چاہئیں۔ علاج کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے یہاں لوگ بہت تکلیف اٹھاتے ہیں۔ سیاحوں کی خاطر بھی اس سیزن میں میڈیکل کیمپ لگنے چاہئیں۔ اگر قریب ہی کوئی میڈیکل کالج یا نرسنگ کا ادارہ کھل جائے تو مقامی طالب علم ان اداروں سے فارغ ہوکر اپنے علاقوں میں کام کرسکتے ہیں۔
میں نے دیکھا مالی کے چہرے پر ماضی کے دکھ کا شائبہ تک نہیں تھا۔ اس کا چہرہ فطرت کی مانند سادہ تھا، فطرت کے قوانین کو ماننے والا۔ یہاں کئی دکھ بھری کہانیاں دم سادھے خوبصورتی کے درمیان سانس لیتی ہیں۔ اگر دکھ نہ ہوتے تو شاید احساس کی زمین بھی زرخیز نہ ہوتی۔