سانحہ بلدیہ فیکٹری ایک دکھی ماں کی داستان

راستے بھر میں ہم سوچتے رہے کہ ہمارے حکمرانوں کو ایسے وعدے کرنے کی کیا ضرورت ہے

یوں تو ہر روز ایک سے ایک سانحہ ہمارا منتظر ہوتا ہے مگر ہم ہیں کہ ہر نئے سانحے کے برپا ہونے پر گزشتہ تمام سانحات بھول جاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ یہ سانحہ تو ہم تاحیات نہیں بھول پائیں گے مگر پھرکوئی اور سانحہ ہمیں پہلے والے سانحے کو بھول جانے پر مجبورکردیتا ہے، زندگی کا سفر اسی طرح رواں دواں رہتا ہے مگر بسا اوقات ہمارے سماج میں ایسے سانحات بھی رونما ہوتے ہیں کہ لاکھ کوششوں کے باوجود ہم ایسے سانحات بھول نہیں پاتے۔ ایسے ہی سانحات میں ایک سانحہ ہے۔ علی انٹر پرائزز بلدیہ فیکٹری کراچی کا یوں تو اس سانحے میں شہید ہونے والوں کی تعداد 260 ہے واضح رہے کہ سانحہ علی انٹرپرائزز بلدیہ ٹاؤن کراچی 11 ستمبر 2012 کو پیش آیا تھا تو ہم ذکرکررہے تھے سانحہ علی انٹرپرائزز کے شہدا کا تو ان 260 شہدا میں ایک نام اعجاز احمد عرف ایان کا بھی ہے چنانچہ ہم نے اعجاز احمد عرف ایان کی والدہ محترمہ سے ایک گفتگو میں چند سوالات کیے جن کے جوابات ہمارے قارئین کی نذر ہیں۔

اعجاز احمد عرف ایان کی والدہ محترمہ کا نام سعیدہ خاتون ہے اور یہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن علی انٹر پرائزز کے متاثرین کی قائم کردہ تنظیم سانحہ بلدیہ متاثرین ایسوسی ایشن کی چیئرپرسن بھی ہیں۔ ہم نے ان سے پہلا سوال یہ کیا کہ آپ کے کتنے بچے ہیں، مطلب یہ کہ کتنے بیٹے ہیں اور کتنی بیٹیاں ہیں؟ اس سوال کا جواب انھوں نے کس کیفیت میں دیا ہوگا، وہ کیفیت نہ بھی بیان کی جائے تو بھی اس کیفیت کا ادراک کرنا کوئی مشکل امر نہیں ہے بہرکیف انھوں نے بتایا کہ اعجاز احمد عرف ایان ان کی واحد اولاد تھا چونکہ شوہر کا انتقال تو پہلے ہی ہوچکا تھا اور میری تمام تر امیدوں کا محور میرا بیٹا اعجاز احمد عرف ایان ہی تھا جوکہ سانحہ بلدیہ فیکٹری کی نظر ہوگیا۔

دوسرا سوال ہمارا یہ تھا کہ یہ تو آپ کا ذاتی صدمہ ہے البتہ آپ متاثرین بلدیہ ایسوسی ایشن کی چیئرپرسن بھی ہیں تو اس حوالے سے آپ بتائیں کہ 7 مئی 2017 کو آپ و آپ کے دیگر ساتھیوں نے ایک پریس کانفرنس پریس کلب کراچی میں کی تھی جس میں آپ نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کے شہدا کی تعداد 260 بتائی تھی ساتھ میں کچھ زخمی محنت کشوں کا بھی تذکرہ کیا تھا اس سانحے میں زخمی ہونے والوں کی کتنی ہے؟ محترمہ سعیدہ خاتون نے بتایا کہ سانحہ بلدیہ میں زخمی ہونے والوں کی تعداد 53 تھی جن کے زخم تو ٹھیک ہوچکے ہیں البتہ ان لوگوں کے پیٹوں میں جو کیمیکل زدہ دھواں سرائیت کرگیا تھا اس دھوئیں کے باعث وہ زخمی دیگر مہلک ترین امراض کا شکار ہوچکے ہیں اور یہ متاثرین یعنی زخمی ہونے والے کوئی مشقت کا کام نہیں کرسکتے ہمارا اگلا سوال یہ تھا کہ 11 ستمبر 2016 کو KIK برانڈ جرمن نے ILO کو 511 کروڑ متاثرین بلدیہ فیکٹری کے لیے جاری کردیے ہیں کیا یہ رقم آپ متاثرین کو مساوی طور پر مل گئی ہے؟ جواب یہ رقم جوکہ KIK برانڈ جرمن نے ILO کو جاری کی ہے ہمیں نہیں ملی۔


کیونکہ ILO جس طریقے سے یہ رقم تقسیم کرنا چاہتی ہے اس طریقہ کار پر ہمارے تحفظات ہیں۔ ILO کا موقف یہ ہے کہ یہ رقم اس طرح تقسیم ہوگی کہ سانحہ بلدیہ متاثرین میں جو خواتین بیوہ ہوئی ہیں ان کو ماہوار 9000 روپے ملیں گے جب کہ شہدا کے لواحقین مطلب والدین کو فی کس 2800 سو روپے ماہوار ملیں گے اب آپ بائیں کہ متاثرہ والدین 2800 روپے میں گھر کیسے چلا سکتے ہیں جب کہ متاثرین میں ایک خاندان ایسا بھی ہے جس کے چار افراد بلدیہ سانحہ کی نظر ہوگئے چنانچہ اس طریقہ کار کے تحت ہم تمام متاثرین نے یہ رقم وصول کرنے سے انکار کردیا ہے اور اپنے اس فیصلے سے ILO کو بھی آگاہ کردیا ہے ایک خط کے ذریعے کیونکہ تمام متاثرین بلدیہ فیکٹری کا موقف ہے کہ ہمیں یہ رقم ہائی کورٹ کے ذریعے مساوی طور پر یک مشت ادا کی جائے مگر ILO نے ہمارا موقف تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اب ہم آگے کی حکمت عملی پر غور کر رہے ہیں کہ کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے ہمارا اگلا سوال تھا کہ اب ذرا مقدمات کی بات بھی کرلیں۔

آپ لوگوں نے تین مقدمات دائر کیے تھے ایک مقدمہ KIK برانڈ جرمن کے خلاف ایک مقدمہ رینا کمپنی اٹلی کے خلاف جس کے ذمے یہ امور تھے کہ وہ علی انٹرپرائزز کے اندر سیفٹی قوانین پر عمل درآمد کرائے جس میں رینا کمپنی ناکام رہی جب کہ تیسرا مقدمہ آپ لوگوں نے علی انٹرپرائزز کے مالکان کے خلاف کیا تھا کیا ہوا ان مقدمات کا؟ اس سوال کا جواب محترمہ سعیدہ خاتون نے یہ دیا کہ جیسے کہ میں نے بتایا کہ KIK برانڈ جرمن کے خلاف ہم نے مقدمہ جیتا ہے جس کے تحت 511کروڑ کی رقم جاری کی گئی ہے جس کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ اس رقم کی تقسیم پر ہمارے تحفظات ہیں جب کہ رینا کمپنی کے خلاف اٹلی میں اور علی انٹرپرائزز کے خلاف پاکستان میں دائر کردہ مقدمات التوا کا شکار ہوچکے ہیں۔

اس سلسلے میں بھی ہم متاثرین آیندہ کے لائحہ عمل پر غور کر رہے ہیں ہمارے اس سوال کے جواب میں کہ کچھ حکومتی و سماجی شخصیات نے بھی تو امدادی رقوم و دیگر وعدے کیے تھے کیا ہوا ان وعدوں کا؟ سعیدہ خاتون کا کہنا یہ تھا کہ اس وقت کی سندھ حکومت نے تمام شہدا کے لواحقین کے لیے تین تین لاکھ روپے کی رقم ہر ایک متاثرہ خاندان کے ایک فرد کے لیے سرکاری ملازمت و ہر ایک خاندان کے لیے ایک ایک رہائشی پلاٹ دینے کا وعدہ کیا تھا تین تین لاکھ روپے کی رقم تو ہم نے وصول کرلی ہے البتہ متاثرین کے ہر خاندان کے ایک ایک فرد کی سرکاری ملازمت دینے کا و رہائشی پلاٹ دینے کا وعدہ حکومت سندھ نے ابھی تک پورا نہیں کیا جب کہ موجودہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھی ہر ایک متاثرہ خاندان کے لیے پنجاب حکومت کی جانب سے تین تین لاکھ روپے کی رقم دینے کا وعدہ کیا تھا البتہ وزیر اعظم میاں نواز شریف اپنا وعدہ ابھی تک پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ ہم نے محترمہ سعیدہ خاتون سے اجازت لی اور وہاں سے رخصت ہوگئے۔

راستے بھر میں ہم سوچتے رہے کہ ہمارے حکمرانوں کو ایسے وعدے کرنے کی کیا ضرورت ہے جوکہ پورے نہیں کر پاتے ٹھیک ہے کہ وزیر اعظم نے ایک مستحسن قدم اٹھایا کہ چیمپئن ٹرافی جیتنے والی کرکٹ ٹیم کے لیے کثیر رقم دینے کا اعلان کیا مگر اس رقم کے مقابلے میں متاثرین بلدیہ ٹاؤن کے لیے اعلان کردہ رقم تو انتہائی قلیل ہے اسی طرح سندھ حکومت ہے جس نے ایک وعدہ رقم دینے کا پورا کردیا تھا مگر مزید دو وعدے پورے نہیں کیے چنانچہ ہم وفاقی حکومت و سندھ حکومت سے گزارش کرتے ہیں جو وعدے سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے متاثرین سے کیے تھے وہ وعدے پورے کیے جائیں۔ اسی طرح ہم محترم ملک ریاض حسین سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ جس طرح آپ نے سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے 190 متاثرین کو دو دو لاکھ روپے کی رقم ادا کی ہے ایسے ہی دیگر 70 متاثرین کو بھی رقم ادا کریں تاکہ آپ کے اس چھوٹے سے اقدام سے متاثرین سانحہ بلدیہ کی اشک شوئی ہوسکے گوکہ آپ کے نزدیک یہ انتہائی قلیل رقم ہوگی۔
Load Next Story