پرفارمنگ آرٹ میں شعبدہ بازی نہیں چلتی راشد محمود
کلچر کی ترویج کا ادارہ ٹیلی ویژن حکومتوں کی پروجیکشن پر لگادیا گیا
ریڈیو، ٹی وی، فلم، تھیٹر۔ سینئر فن کار راشد محمود نے ہر جگہ اپنا ہنر آزمایا اور کامران ٹھہرے۔ ان کا فنی سفر نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط ہے۔
اپنے طویل کرئیر میں انہوں نے کئی منفرد کردار کیے، جو آج تک لوگوں کی یادداشت کا حصہ ہیں۔ حکومت پاکستان نے ان کی 55 سالہ خدمات کے اعتراف میں رواں برس ان کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔ راشد محمود کہتے ہیں، ''یہ کام کر کے دکھانے کا ہے، اس میدان میں داؤ نہیں لگتا۔ جو اچھا کام کرتا ہے اسی کو اچھا کہا جاتا ہے۔ کچھ مداری بھی آ جاتے ہیں اس شعبے میں، لیکن ان کی شعبدہ بازی تھوڑی دیر کے لیے ہوتی ہے۔ زیادہ عرصہ وہی زندہ رہتا ہے جس کا کام اچھا ہو۔''
تقسیم سے قبل ان کے دادا استاد غلام محمد نقاش کا شمار برصغیر کے بہترین قالین ڈیزائنرز میں ہوتا تھا۔ ان کے ڈیزائن کیے ہوئے قالین دنیا بھر کے محلات میں منگوائے جاتے۔ تب کمپیوٹر گرافکس دستیاب نہیں تھی، ہاتھ سے ڈیزائن بنایا جاتا۔ پاکستان بننے کے بعد یہ خاندان لاہور آ گیا۔ ان کے والد نازش کاشمیری شاعر تھے۔ وہ اخبارات اور مجلوں کے مدیر بھی رہے۔ فلم، ٹی وی اور ریڈیو کے لیے لکھا۔ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے راشد محمود چار جون 1949ء کو پیدا ہوئے۔ دس برس کے تھے جب ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے۔ تعلیم کا سلسلہ بھی ساتھ جاری رہا۔ 1971ء میں انہوں نے اسلامیہ کالج سے گریجویشن کی۔ وہ کہتے ہیں، ''خاندان میں صرف میں اس شعبے سے متعلق ہوں، باقی ہر کوئی اپنا کاروبار کرتا ہے۔
ہمارے خاندان میں کوئی ایک فرد ایسا ہوتا ہے جو کسی بھی تخلیقی شعبے سے وابستہ ہوتا ہے۔ پرفارمنگ آرٹ میں اس لیے آیا کہ میں سمجھتا تھا کہ اس شعبے میں کچھ منفرد کام کر سکتا ہوں۔'' انہوں نے بچوں کے پروگرامز سے آغاز کیا پھر آگے چل کر ریڈیو کے دیگر شعبوں میں طبع آزمائی کی۔ انہوں نے اپنی منفرد آواز کی وجہ سے بطور ڈراما آرٹسٹ، کمپئیر، براڈ کاسٹر، اناؤنسر اور نیریٹر (Narrator)اپنی خاص پہچان بنائی اور کمرشل وائس کے طور پر بھی بہت زیادہ کام کیا۔اس زمانے میں ریڈیو سے مصطفی علی ہمدانی، اخلاق احمد دہلوی، مظفر حسین، عزیز الرحمٰن، صوفی تبسم، ناصر کاظمی، ابراہیم سلیم، ایوب رومانی، عبدالباسط اور الطاف الرحمن جیسی شخصیات وابستہ تھیں۔ آرٹسٹوں میں موہنی آپا، ابو الحسن نغمی، عقیل احمد، ایس اے امین، علی بابا، امراؤ جان بیگم اور دوسرے کئی نام شامل ہیں۔ انہیں ان سب سے سیکھنے کا موقع ملا۔
ورسٹائل اداکار راشد محمود کو ٹی وی میں کام کا موقع قدرے تاخیر سے ملا۔انہوں نے پہلا ڈراما ''شاہین'' 1982ء میں کراچی سینٹر سے کیا۔ وہ بتاتے ہیں، ''یہ کوئی پہلے سے طے شدہ نہیں تھا۔ پی ٹی وی کے پروڈیوسر محسن علی سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے پوچھا آپ نے ٹیلی ویژن کے لیے کام کیوں نہیں کیا۔ میں نے کہا، کسی نے کام دیا ہی نہیں تو میں کیسے کرتا۔ میرے جو دوست پی ٹی وی میں آ گئے تھے انہوں نے مجھے نہیں بلایا تھا تو میں نہیں گیا۔ کہنے لگے، آپ کو ٹی وی پر کام دیں تو کیسا کریں گے۔
میں نے کہا ایسا کام کروں گا کہ آپ یاد کریں گے۔ میرے اعتماد کو دیکھتے ہوئے وہ قائل ہو گئے۔ میں نے اس تاریخی ڈرامے میں اسپین کے بادشاہ کنگ فرڈینینڈ کا کردار کیا۔ رات کو پہلی قسط چلی اگلے دن پورا ملک پوچھ رہا تھا کہ یہ کون ہے۔ پھر وہ دن ہے اور آج کا دن، میں نے ٹیلی ویژن پر اتنا کام کیا ہے جس کی مثال کم ملتی ہے۔ خدا کا شکر ہے مجھے ہر بار نیا کردار ملتا ہے۔''راشد محمود کریکٹر ایکٹر ہیں، انہوں نے ٹی وی اور فلم کے لیے بے شمار کریکٹر رولز کیے۔زیادہ تر انہیں منفی کردار ملے، لیکن کام میں تنوع کی وجہ سے ان پر کسی ایک کردار کی چھاپ نہیں لگی۔ سبحانی بھائی یونس اور قوی خان کے بعد وہ تیسرے ہیں جنہوں نے پی ٹی وی کے لیے مرزا غالب کا کردار کیا۔ اس کے علاوہ بہادر شاہ ظفر، ساغر صدیقی اور دوسرے کئی منفرد کردار ادا کیے۔
ٹی وی میں ان کی اداکاری کے جوہر دیکھ کر انہیں فلم والوں نے بھی بلایا۔ان کی پہلی فلم ''ایک سے بڑھ کر ایک'' تھی جس میں ان کا کردار سراہا گیا اور یہ فلم بھی ہٹ ہوئی۔ان کی پہلی پنجابی فلم بھی کامیاب ہوئی اور یوں اردو اور پنجابی فلموں کا سلسلہ چل نکلا۔ انہوں نے ڈیڑھ سو سے زیادہ فلموں میں کام کیا جبکہ ڈرامے اتنے زیادہ ہیں کہ انہیں صحیح تعداد کا بھی اندازہ نہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''فلم اور ٹی وی دو مختلف میڈیم ہیں۔ ٹی وی ڈرامے میں ایک کہانی کئی قسطوں میں پیش کی جاتی ہے جبکہ فلم میں وہی بات ڈیڑھ، پونے دو گھنٹے میں مکمل کرنا ہوتی ہے۔
جہاں تک اداکاری کی بات ہے اس کا دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ کچھ ٹیکنیکل چیزیں ہیں جن کا پہلے زیادہ لحاظ کرنا پڑتا تھا، اب یہ فرق زیادہ نہیں رہا۔ جو اچھا اداکار ہے وہ دونوں جگہ ہی اچھا پرفارم کرتا ہے۔ اداکاری خراد کا کام نہیں ہے کہ کوئی بھی سیکھ لے۔ یہ صلاحیت خدا کی طرف سے ملتی ہے۔ پھر جوں جوں آپ کام کرتے جاتے ہیں آپ کو اس کے اسرار و روموز کا پتا چلتا رہتا ہے اور آپ اس کے اندر کھیلنے لگتے ہو۔'' راشد محمود سمجھتے ہیں کہ کیریکٹر رول سے بڑا کوئی لیڈ رول نہیں ہوتا۔ ان کے بقول، ''میں کبھی بھی ہیرو نہیں تھا۔ میں نے بے شمار سیریلز کیں جن میں لوگوں نے صرف راشد محمود کو دیکھا۔ اللہ کا شکر ہے مجھے ہر بار نئے سے نئے رول ملے اور جو کردار مجھے ملا وہی ہٹ ہوا۔''
راشد محمود نے اس دور میں تھیٹر میں کام کیا جب اس میں واقعی ڈراما ہوا کرتا تھا۔ وہ بتاتے ہیں، ''آرٹس کونسل میں چھوٹا سا ہال تھا۔ میں نے ڈاکٹر انور سجاد، افتخارحیدر کے پلیز کیے۔ عرفان کھوسٹ کے ساتھ اور دوسرے لوگوں کے ساتھ کام کیا۔ جب تھیٹر سے ڈراما نکل کے اس میں لچر پن شروع ہو گیا تو پھر میں نے تھیٹر نہیں کیا۔ دو تین برس پہلے میں نے بڑے تجرباتی پلیز بھی کیے۔ اسلام آباد اردو کانفرنس میں، میں نے عثمان پیرزادہ کے والد رفیع پیر صاحب کا لکھا ہوا ڈراما نواب صاحب قبلہ کیا۔ ایک شو تھا اسلام آباد میں جس میں دنیا بھر کے وفود آئے ہوئے تھے۔ پھر دو ڈھائی برس پہلے الحمرا میں نجم حسین سید کا تجرباتی پلے ''سمی دی وار'' کیا، دو کریکٹرز کا۔ وہ خاصا مقبول ہوا۔ اب جو دوسرا تھیٹر ہو رہا ہے مجھے اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہے، تاہم یہ ڈراما نہیں، انٹرٹینمنٹ ہے۔ لیکن جو کچھ وہ کرتے ہیں،، میں نہیں کر سکتا۔
اس میں جو لوگ بے ہودگی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ مجھے پسند نہیں۔'' ''آپ کو اپنا کون سا کردار زیادہ پسند ہے؟''، اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا: ''میرے تمام کردار میرے بچوں کی طرح ہیں اور مجھے سب پسند ہیں کیوں کہ میں نے انہیں ڈوب کر کیا ہے۔میں نے انہیں چشم تخیل سے سمجھا اور پھر اداکاری کی۔ میرے کام کو قبولیت ملی دنیا بھر میں رب کے کرم سے۔ جو کردار دوسرے لینے سے کترا رہے ہوتے تھے اور وہ انہیں مشکل سمجھتے تھے وہ آگے بڑھ کر میں لے لیتا تھا۔'' انہیں شعر و شاعری سے بھی دلچسپی ہے اور خود بھی شعر کہتے ہیں۔ کہتے ہیں مجھے ہر وہ شعر پسند ہے جس کا خیال اچھا ہو اور جو آپ کے دل پر دستک دے۔ اس لیے میں بڑے شعرا کو بھی پڑھتا ہوں اور نئے شعراء کا بھی جو کام پسند آئے ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں۔
راشد محمود کے مطابق، ''مجھے سب سے زیادہ مزا آج بھی ریڈیو پاکستان پہ آتا ہے۔ ٹیلی ویژن، فلم، تھیٹر میں نے کیا ہے، لوگ مجھے ٹیلی ویژن کے حوالے سے زیادہ جانتے ہیں لیکن آپ یقین کریں میں آج بھی جب مائیک پہ بیٹھتا ہوں تو جتنا پرسکون ہوتا ہوں اور میری جو کیفیت ہوتی ہے وہ دوسری جگہوں پر نہیں ہوتی۔ فلم، ٹی وی اور تھیٹرٹیم ورک ہے، جبکہ ریڈیو میں صرف ایک مائیک ہوتا ہے اور اللہ کی ذات ہوتی ہے، آپ ہوتے ہیں اور لاکھوں سننے والے ہوتے ہیں۔ پھر ریڈیو کا جو ہمارا دور تھا۔ جن لوگوں سے ہم نے سیکھا وہ آج نہیں ملتے اور مل بھی نہیں سکتے۔
جو بولنے کا ہنر جاننے والے لوگ ہوتے ہیں وہ آپ کو اسکرین پر بھی زیادہ کامیاب نظر آتے ہیں۔ جن کی تربیت ریڈیو پاکستان میں ہوئی وہ جہاں بھی گئے اچھا کام کیا۔ ایک اچھے اداکار میں قوت مشاہدہ ہونی چاہیے۔ پھر آپ جو کردار کریں اس میں سے اپنی ذات کو نفی کر دیں۔ اپنے سینئرز سے سیکھیں، ان کا کام دیکھیں، دنیا بھر کا ادب پڑھیں۔ دنیا میں کوئی بھی کام آسان نہیں، جب آپ محنت کرتے ہیں تو اپنے آپ کو منوا لیتے ہیں اس شعبے میں اور جو گھس بیٹھیے ہوتے ہیں برس ہا برس سے چلے آ رہے ہوتے ہیں، ان کو کوئی نہیں مانتا۔''
ٹی وی میں ہمارے معیار کو کن چیزوں نے تباہ کیا، اس کے متعلق وہ بتاتے ہیں: ''ہم برصغیر میں ڈرامے کے موجد تھے۔ ٹیلی ویژن اب حکومتوں کی پروجیکشن کا ادارہ بن چکا ہے، جبکہ یہ ہمارے کلچر، رہن سہن کی ترویج کے لیے بنا تھا۔ ہمارا ڈراما تب تک دنیا کے لیے مثال بنا رہا جب تک ہم اپنی بنیادوں سے متعلق رہے۔ لیکن اب اس کو مختلف شکلوں میں استعمال کیا جا رہا ہے تو یہ خرابیاں اس کی وجہ سے ہیں۔ سیاسی مداخلت کے باعث ٹی وی میں نااہل لوگ آئے۔ جس شخص کو جہاں ہوناچاہیے وہ وہاں نہیں ہے۔ مس کاسٹنگ ہو گئی ہے۔
ہمارے ہاں اب تخلیقی اور قابل لوگ بھی نہیں رہے ماضی کے مقابلے میں۔ اب اسکرپٹ کے بغیر کام چلایا جا رہا ہے۔ اصل وجہ فلم اور ڈرامے کے معیار کی تباہی کی یہ ہے کہ ہم اس میں اپنی بنیادوں سے ہٹ گئے۔'' کراچی اور لاہور شوبز انڈسٹری کے حوالے سے وہ سمجھتے ہیں کہ کراچی کے لوگ پروفیشنل ہیں، وہ فزیبلیٹی کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی پراجیکٹ تیار کرتے ہیں۔ جبکہ لاہور انڈسٹری کے لوگ معقول معاوضہ دینے کے بجائے تعلقات کی بنیاد پر کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''میں لاہور چھوڑ کر اس لیے نہیں گیا کیوں کہ مجھے لاہور سے محبت ہے۔ میں یہاں اپنے کلچر اور لوگوں سے زیادہ متعلق ہوتا ہوں۔جب کراچی والوں کو میری ضرورت ہوتی ہے وہ مجھے بلا لیتے ہیں۔''
ان کے بقول، ''جو کام میں کر لیتا ہوں اس کو اپنے دماغ کی ہارڈ ڈسک سے ڈیلیٹ کر دیتا ہوں اور میری توجہ موجودہ کام پر ہوتی ہے۔ مجھے اگر کوئی کہے کہ وہ ڈائیلاگ سنا دیں جو آپ نے بولے تھے تو میں نہیں سنا سکتا۔'' انہوں نے پی ٹی وی کا مشہور پروگرام 'لوک ریت' بھی کیا، جس میں پاکستان کے مختلف علاقوں کے کلچر، تصوف اور بزرگوں کے حوالے سے ان کی تاریخ بیان کی جاتی تھی۔
وہ کہتے ہیں، ''میں رب کی پارٹی کا بندہ ہوں۔ کسی ایک سیاسی جماعت کو سپورٹ نہیں کرتا۔ لیکن اچھی بات اور اچھا کام کوئی بھی کرے اس کا ساتھ دیتا ہوں۔''انہیں آنے والے برسوں میں فلم اور ڈراما انڈسٹری کا مستقبل روشن نظر آتا ہے کیونکہ نئے آنے والے نوجوان بہت باصلاحیت ہیں۔ انہیں نگار ایوارڈ، بولان ایوارڈ اور دوسرے کئی ملکی اور غیر ملکی ایوارڈ ملے۔کہتے ہیں، ''مجھے جو کچھ ملا اس ملک کی وجہ سے ملا۔ اور مجھے خوشی ہے کہ میں نے اپنے شعبے میں ملک کا نام روشن کیا ہے۔'' ان کو جواں سال بیٹے اظہرمحمود کی موت کا صدمہ بھی جھیلنا پڑا۔ دو بیٹیوں کے والداور اپنے خاندان کے بڑے ہیں۔ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں۔
٭ 'ہاں۔۔۔۔ وہی مردود ہے'
پی ٹی وی کے مشہور ڈرامے 'لاگ' میں انہوں نے بھارتی فوجی افسر کا کردار ادا کیا جو کشمریوں پر بہت ظلم کرتا ہے۔
ان دنوں وہ مال روڈ سے گزر رہے تھے۔
انہوں نے دیکھا، ایک کار میں بیٹھے ہوئے بچے اپنی ماں کو اشارے سے ان کی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔ خاتون نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ''ہاں، وہی مردود ہے۔'' راشد محمود کے بقول، ''اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ داد تھی اس کی کہ لوگوں کو میرا کیا ہوا کردار اتنا جاندار لگتا ہے کہ وہ مجھ سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ منفی کردار سے اگر لوگوں کو نفرت نہ ہو تو اس کا مطلب ہے وہ اس میں لوگوں کو کنوینس نہیں کر پایا۔ آپ کے دل میں جو کردار کھبتا ہے، وہی اچھی پرفارمنس ہے۔ تو اللہ کا شکر ہے کہ مجھے میرے منفی کرداروں سے بھی داد ملی۔''
٭ اصل چیز اسکرپٹ ہے
ٹی وی، ریڈیو، تھیٹر یا فلم، ہر جگہ اصل اہمیت اسکرپٹ کی ہے۔ اسکرپٹ آپ کے پاس اچھا ہے، کوئی بھی اداکار رکھ لیں، بات اگر بڑی ہے تو ایک بار سنی جائے گی۔ اور اگر آپ بڑی بات سنانے کے لیے بڑے فنکاروں کا انتخاب کرتے ہیں تو وہ بات کانوں کے راستے دل میں اتر جاتی ہے۔ آپ کے پاس جب تک کہنے کے لیے، سنانے کے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہو گی تو میں رابرٹ ڈی نیرو کا منہ کتنی دیر دیکھوں گا۔ وہ آگے کچھ کہے تو میں اس سے اپنے آپ کو ریلیٹ کروں۔ ہمارے ہاں مداریوں والے ڈرامے ہو گئے۔ عورتوں پہ نت نئے ظلم ایجاد کیے جا رہے ہیں۔
لکھاریوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ غیر حقیقی چیزیں نہ دکھائیں، پھر سوچیں کہ یہ باتیں آپ کے کلچر اور مذہب سے مطابقت رکھتی ہیں۔ اپنی زمین سے جڑے رہیے، اس کے رسم و رواج، اس کی ثقافت اور وقار کو بھی مدنظر رکھیں۔ جب مجھے کسی کردار کے لیے منتخب کیا جاتا ہے تو میں پوچھتا ہوں، مجھے کرنا کیا ہے، اسکرپٹ کیا ہے۔ جب تک کہنے کے لیے کردار کے پاس کوئی بڑی بات نہیں، کوئی کنفلیکٹ اس کی وجہ سے کہانی میں نہیں پیدا ہوتا، تو میں اس میں ڈیکوریشن پیس کی حیثیت سے تھوڑی چلا جاؤں گا کہ میرا بہت لمبا کردار ہے اور میں اسکرین پہ نظر آؤں گا۔ میں ذہن میں یہ ضرور رکھتا ہوں کہ مجھے کرنا کیا ہے اور میرے کردار کے پاس دیکھنے والے کے لیے کوئی بڑی بات ہوتی ہے تو میں فوراً اس کردار کو لے لیتا ہوں۔
٭ بچپن سے ہی بزرگ ہوں
میں بچپن سے ہی بزرگ ہوں۔ میرے زندگی میں جوانی نام کی کوئی چیز نہیں۔ زندگی میں محتاط ہو کے نکلا ہوں اور یہ بزرگ کرتے ہیں، بچے نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میری تربیت میرے والد نازش کاشمیری نے کی جو میرے آئیڈیل بھی ہیں۔ ہمارے خاندان میں سفارش نام کی کوئی چیز نہیں ہے نہ میرے بچوں میں نہ مجھے سے پہلے۔ میں اعتدال پسند ہوں، ہر بندہ چاہتا ہے اپنی منزل تک جلدی پہنچے۔
اس میں وہ اکثر غیرضروری تیزی کر جاتا ہے اور کہیں نہ کہیں تھک کے گر پڑتا ہے۔ تو میں نے زندگی میں جو رفتار رکھی اس میں ایک حسن رفتار کے ساتھ حسن اقدار بھی رکھا۔ اپنی اقدار کے مطابق چلا ہوں تو میرے مالک نے آہستہ آہستہ مجھے سب چیزیں عطا کیں۔میرا ایمان ہے کہ رزق، عزت، دولت اور شہرت یہ صرف آپ کا رب دے سکتا ہے۔ خدا نے دنیا میں آپ کو جو بھیجا ہے تو آپ نے سوچنا ہے کہ میں صرف دنیا میں آٹا کھانے کے لیے آیا ہوں۔ کھاؤں پئیوں اور مر جاؤں۔ کچھ کرنا ہے ہمیں۔ تو جس شعبے کے ٹیلنٹ کی آپ کے اندر دریافت ہو، ایمانداری اور محنت سے لگ جاؤ۔ رب آپ کی مدد کرتا ہے۔
٭ زندگی میں بڑے اسپیڈ بریکر آئے
زندگی میں بے شمار اسپیڈ بریکر آئے اور میں ان کا ممنون ہوں۔ انہوں نے مجھے وہ ہمت اور طاقت دی کہ میں امتحانوں سے گھبرایا نہیں۔ اصل چیز ثابت قدمی، ادارہ اور صبر و تحمل ہے۔ وہ اگر ہے تو آپ کو کوئی روک نہیں سکتا۔ لیکن آپ کے اندر ایک دریافت پہلے ہونی چاہیے کہ میں یہ کر بھی سکتا ہوں یا نہیں۔ اپنی ذات سے بڑا جج کوئی نہیں۔ ہم خوابوں میں زندگی گزار دیتے ہیں۔ اس میں ہم شارٹ کٹس ڈھونڈتے ہیں۔ اگر آپ ثابت قدمی اور محنت کے ساتھ کام کرتے ہو تو آپ کو کون روکے گا اور کتنی دیر تک روکے گا۔ ایک مرتبہ جب آپ اپنے آپ کو منوا لیتے ہو تو سارا کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ ان مشکلات نے مجھے وہ سمجھ بوجھ اور ڈگریاں دیں، جن کی کوئی بھی توقع کر سکتا ہے۔
اپنے طویل کرئیر میں انہوں نے کئی منفرد کردار کیے، جو آج تک لوگوں کی یادداشت کا حصہ ہیں۔ حکومت پاکستان نے ان کی 55 سالہ خدمات کے اعتراف میں رواں برس ان کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔ راشد محمود کہتے ہیں، ''یہ کام کر کے دکھانے کا ہے، اس میدان میں داؤ نہیں لگتا۔ جو اچھا کام کرتا ہے اسی کو اچھا کہا جاتا ہے۔ کچھ مداری بھی آ جاتے ہیں اس شعبے میں، لیکن ان کی شعبدہ بازی تھوڑی دیر کے لیے ہوتی ہے۔ زیادہ عرصہ وہی زندہ رہتا ہے جس کا کام اچھا ہو۔''
تقسیم سے قبل ان کے دادا استاد غلام محمد نقاش کا شمار برصغیر کے بہترین قالین ڈیزائنرز میں ہوتا تھا۔ ان کے ڈیزائن کیے ہوئے قالین دنیا بھر کے محلات میں منگوائے جاتے۔ تب کمپیوٹر گرافکس دستیاب نہیں تھی، ہاتھ سے ڈیزائن بنایا جاتا۔ پاکستان بننے کے بعد یہ خاندان لاہور آ گیا۔ ان کے والد نازش کاشمیری شاعر تھے۔ وہ اخبارات اور مجلوں کے مدیر بھی رہے۔ فلم، ٹی وی اور ریڈیو کے لیے لکھا۔ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے راشد محمود چار جون 1949ء کو پیدا ہوئے۔ دس برس کے تھے جب ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے۔ تعلیم کا سلسلہ بھی ساتھ جاری رہا۔ 1971ء میں انہوں نے اسلامیہ کالج سے گریجویشن کی۔ وہ کہتے ہیں، ''خاندان میں صرف میں اس شعبے سے متعلق ہوں، باقی ہر کوئی اپنا کاروبار کرتا ہے۔
ہمارے خاندان میں کوئی ایک فرد ایسا ہوتا ہے جو کسی بھی تخلیقی شعبے سے وابستہ ہوتا ہے۔ پرفارمنگ آرٹ میں اس لیے آیا کہ میں سمجھتا تھا کہ اس شعبے میں کچھ منفرد کام کر سکتا ہوں۔'' انہوں نے بچوں کے پروگرامز سے آغاز کیا پھر آگے چل کر ریڈیو کے دیگر شعبوں میں طبع آزمائی کی۔ انہوں نے اپنی منفرد آواز کی وجہ سے بطور ڈراما آرٹسٹ، کمپئیر، براڈ کاسٹر، اناؤنسر اور نیریٹر (Narrator)اپنی خاص پہچان بنائی اور کمرشل وائس کے طور پر بھی بہت زیادہ کام کیا۔اس زمانے میں ریڈیو سے مصطفی علی ہمدانی، اخلاق احمد دہلوی، مظفر حسین، عزیز الرحمٰن، صوفی تبسم، ناصر کاظمی، ابراہیم سلیم، ایوب رومانی، عبدالباسط اور الطاف الرحمن جیسی شخصیات وابستہ تھیں۔ آرٹسٹوں میں موہنی آپا، ابو الحسن نغمی، عقیل احمد، ایس اے امین، علی بابا، امراؤ جان بیگم اور دوسرے کئی نام شامل ہیں۔ انہیں ان سب سے سیکھنے کا موقع ملا۔
ورسٹائل اداکار راشد محمود کو ٹی وی میں کام کا موقع قدرے تاخیر سے ملا۔انہوں نے پہلا ڈراما ''شاہین'' 1982ء میں کراچی سینٹر سے کیا۔ وہ بتاتے ہیں، ''یہ کوئی پہلے سے طے شدہ نہیں تھا۔ پی ٹی وی کے پروڈیوسر محسن علی سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے پوچھا آپ نے ٹیلی ویژن کے لیے کام کیوں نہیں کیا۔ میں نے کہا، کسی نے کام دیا ہی نہیں تو میں کیسے کرتا۔ میرے جو دوست پی ٹی وی میں آ گئے تھے انہوں نے مجھے نہیں بلایا تھا تو میں نہیں گیا۔ کہنے لگے، آپ کو ٹی وی پر کام دیں تو کیسا کریں گے۔
میں نے کہا ایسا کام کروں گا کہ آپ یاد کریں گے۔ میرے اعتماد کو دیکھتے ہوئے وہ قائل ہو گئے۔ میں نے اس تاریخی ڈرامے میں اسپین کے بادشاہ کنگ فرڈینینڈ کا کردار کیا۔ رات کو پہلی قسط چلی اگلے دن پورا ملک پوچھ رہا تھا کہ یہ کون ہے۔ پھر وہ دن ہے اور آج کا دن، میں نے ٹیلی ویژن پر اتنا کام کیا ہے جس کی مثال کم ملتی ہے۔ خدا کا شکر ہے مجھے ہر بار نیا کردار ملتا ہے۔''راشد محمود کریکٹر ایکٹر ہیں، انہوں نے ٹی وی اور فلم کے لیے بے شمار کریکٹر رولز کیے۔زیادہ تر انہیں منفی کردار ملے، لیکن کام میں تنوع کی وجہ سے ان پر کسی ایک کردار کی چھاپ نہیں لگی۔ سبحانی بھائی یونس اور قوی خان کے بعد وہ تیسرے ہیں جنہوں نے پی ٹی وی کے لیے مرزا غالب کا کردار کیا۔ اس کے علاوہ بہادر شاہ ظفر، ساغر صدیقی اور دوسرے کئی منفرد کردار ادا کیے۔
ٹی وی میں ان کی اداکاری کے جوہر دیکھ کر انہیں فلم والوں نے بھی بلایا۔ان کی پہلی فلم ''ایک سے بڑھ کر ایک'' تھی جس میں ان کا کردار سراہا گیا اور یہ فلم بھی ہٹ ہوئی۔ان کی پہلی پنجابی فلم بھی کامیاب ہوئی اور یوں اردو اور پنجابی فلموں کا سلسلہ چل نکلا۔ انہوں نے ڈیڑھ سو سے زیادہ فلموں میں کام کیا جبکہ ڈرامے اتنے زیادہ ہیں کہ انہیں صحیح تعداد کا بھی اندازہ نہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''فلم اور ٹی وی دو مختلف میڈیم ہیں۔ ٹی وی ڈرامے میں ایک کہانی کئی قسطوں میں پیش کی جاتی ہے جبکہ فلم میں وہی بات ڈیڑھ، پونے دو گھنٹے میں مکمل کرنا ہوتی ہے۔
جہاں تک اداکاری کی بات ہے اس کا دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ کچھ ٹیکنیکل چیزیں ہیں جن کا پہلے زیادہ لحاظ کرنا پڑتا تھا، اب یہ فرق زیادہ نہیں رہا۔ جو اچھا اداکار ہے وہ دونوں جگہ ہی اچھا پرفارم کرتا ہے۔ اداکاری خراد کا کام نہیں ہے کہ کوئی بھی سیکھ لے۔ یہ صلاحیت خدا کی طرف سے ملتی ہے۔ پھر جوں جوں آپ کام کرتے جاتے ہیں آپ کو اس کے اسرار و روموز کا پتا چلتا رہتا ہے اور آپ اس کے اندر کھیلنے لگتے ہو۔'' راشد محمود سمجھتے ہیں کہ کیریکٹر رول سے بڑا کوئی لیڈ رول نہیں ہوتا۔ ان کے بقول، ''میں کبھی بھی ہیرو نہیں تھا۔ میں نے بے شمار سیریلز کیں جن میں لوگوں نے صرف راشد محمود کو دیکھا۔ اللہ کا شکر ہے مجھے ہر بار نئے سے نئے رول ملے اور جو کردار مجھے ملا وہی ہٹ ہوا۔''
راشد محمود نے اس دور میں تھیٹر میں کام کیا جب اس میں واقعی ڈراما ہوا کرتا تھا۔ وہ بتاتے ہیں، ''آرٹس کونسل میں چھوٹا سا ہال تھا۔ میں نے ڈاکٹر انور سجاد، افتخارحیدر کے پلیز کیے۔ عرفان کھوسٹ کے ساتھ اور دوسرے لوگوں کے ساتھ کام کیا۔ جب تھیٹر سے ڈراما نکل کے اس میں لچر پن شروع ہو گیا تو پھر میں نے تھیٹر نہیں کیا۔ دو تین برس پہلے میں نے بڑے تجرباتی پلیز بھی کیے۔ اسلام آباد اردو کانفرنس میں، میں نے عثمان پیرزادہ کے والد رفیع پیر صاحب کا لکھا ہوا ڈراما نواب صاحب قبلہ کیا۔ ایک شو تھا اسلام آباد میں جس میں دنیا بھر کے وفود آئے ہوئے تھے۔ پھر دو ڈھائی برس پہلے الحمرا میں نجم حسین سید کا تجرباتی پلے ''سمی دی وار'' کیا، دو کریکٹرز کا۔ وہ خاصا مقبول ہوا۔ اب جو دوسرا تھیٹر ہو رہا ہے مجھے اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہے، تاہم یہ ڈراما نہیں، انٹرٹینمنٹ ہے۔ لیکن جو کچھ وہ کرتے ہیں،، میں نہیں کر سکتا۔
اس میں جو لوگ بے ہودگی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ مجھے پسند نہیں۔'' ''آپ کو اپنا کون سا کردار زیادہ پسند ہے؟''، اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا: ''میرے تمام کردار میرے بچوں کی طرح ہیں اور مجھے سب پسند ہیں کیوں کہ میں نے انہیں ڈوب کر کیا ہے۔میں نے انہیں چشم تخیل سے سمجھا اور پھر اداکاری کی۔ میرے کام کو قبولیت ملی دنیا بھر میں رب کے کرم سے۔ جو کردار دوسرے لینے سے کترا رہے ہوتے تھے اور وہ انہیں مشکل سمجھتے تھے وہ آگے بڑھ کر میں لے لیتا تھا۔'' انہیں شعر و شاعری سے بھی دلچسپی ہے اور خود بھی شعر کہتے ہیں۔ کہتے ہیں مجھے ہر وہ شعر پسند ہے جس کا خیال اچھا ہو اور جو آپ کے دل پر دستک دے۔ اس لیے میں بڑے شعرا کو بھی پڑھتا ہوں اور نئے شعراء کا بھی جو کام پسند آئے ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں۔
راشد محمود کے مطابق، ''مجھے سب سے زیادہ مزا آج بھی ریڈیو پاکستان پہ آتا ہے۔ ٹیلی ویژن، فلم، تھیٹر میں نے کیا ہے، لوگ مجھے ٹیلی ویژن کے حوالے سے زیادہ جانتے ہیں لیکن آپ یقین کریں میں آج بھی جب مائیک پہ بیٹھتا ہوں تو جتنا پرسکون ہوتا ہوں اور میری جو کیفیت ہوتی ہے وہ دوسری جگہوں پر نہیں ہوتی۔ فلم، ٹی وی اور تھیٹرٹیم ورک ہے، جبکہ ریڈیو میں صرف ایک مائیک ہوتا ہے اور اللہ کی ذات ہوتی ہے، آپ ہوتے ہیں اور لاکھوں سننے والے ہوتے ہیں۔ پھر ریڈیو کا جو ہمارا دور تھا۔ جن لوگوں سے ہم نے سیکھا وہ آج نہیں ملتے اور مل بھی نہیں سکتے۔
جو بولنے کا ہنر جاننے والے لوگ ہوتے ہیں وہ آپ کو اسکرین پر بھی زیادہ کامیاب نظر آتے ہیں۔ جن کی تربیت ریڈیو پاکستان میں ہوئی وہ جہاں بھی گئے اچھا کام کیا۔ ایک اچھے اداکار میں قوت مشاہدہ ہونی چاہیے۔ پھر آپ جو کردار کریں اس میں سے اپنی ذات کو نفی کر دیں۔ اپنے سینئرز سے سیکھیں، ان کا کام دیکھیں، دنیا بھر کا ادب پڑھیں۔ دنیا میں کوئی بھی کام آسان نہیں، جب آپ محنت کرتے ہیں تو اپنے آپ کو منوا لیتے ہیں اس شعبے میں اور جو گھس بیٹھیے ہوتے ہیں برس ہا برس سے چلے آ رہے ہوتے ہیں، ان کو کوئی نہیں مانتا۔''
ٹی وی میں ہمارے معیار کو کن چیزوں نے تباہ کیا، اس کے متعلق وہ بتاتے ہیں: ''ہم برصغیر میں ڈرامے کے موجد تھے۔ ٹیلی ویژن اب حکومتوں کی پروجیکشن کا ادارہ بن چکا ہے، جبکہ یہ ہمارے کلچر، رہن سہن کی ترویج کے لیے بنا تھا۔ ہمارا ڈراما تب تک دنیا کے لیے مثال بنا رہا جب تک ہم اپنی بنیادوں سے متعلق رہے۔ لیکن اب اس کو مختلف شکلوں میں استعمال کیا جا رہا ہے تو یہ خرابیاں اس کی وجہ سے ہیں۔ سیاسی مداخلت کے باعث ٹی وی میں نااہل لوگ آئے۔ جس شخص کو جہاں ہوناچاہیے وہ وہاں نہیں ہے۔ مس کاسٹنگ ہو گئی ہے۔
ہمارے ہاں اب تخلیقی اور قابل لوگ بھی نہیں رہے ماضی کے مقابلے میں۔ اب اسکرپٹ کے بغیر کام چلایا جا رہا ہے۔ اصل وجہ فلم اور ڈرامے کے معیار کی تباہی کی یہ ہے کہ ہم اس میں اپنی بنیادوں سے ہٹ گئے۔'' کراچی اور لاہور شوبز انڈسٹری کے حوالے سے وہ سمجھتے ہیں کہ کراچی کے لوگ پروفیشنل ہیں، وہ فزیبلیٹی کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی پراجیکٹ تیار کرتے ہیں۔ جبکہ لاہور انڈسٹری کے لوگ معقول معاوضہ دینے کے بجائے تعلقات کی بنیاد پر کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''میں لاہور چھوڑ کر اس لیے نہیں گیا کیوں کہ مجھے لاہور سے محبت ہے۔ میں یہاں اپنے کلچر اور لوگوں سے زیادہ متعلق ہوتا ہوں۔جب کراچی والوں کو میری ضرورت ہوتی ہے وہ مجھے بلا لیتے ہیں۔''
ان کے بقول، ''جو کام میں کر لیتا ہوں اس کو اپنے دماغ کی ہارڈ ڈسک سے ڈیلیٹ کر دیتا ہوں اور میری توجہ موجودہ کام پر ہوتی ہے۔ مجھے اگر کوئی کہے کہ وہ ڈائیلاگ سنا دیں جو آپ نے بولے تھے تو میں نہیں سنا سکتا۔'' انہوں نے پی ٹی وی کا مشہور پروگرام 'لوک ریت' بھی کیا، جس میں پاکستان کے مختلف علاقوں کے کلچر، تصوف اور بزرگوں کے حوالے سے ان کی تاریخ بیان کی جاتی تھی۔
وہ کہتے ہیں، ''میں رب کی پارٹی کا بندہ ہوں۔ کسی ایک سیاسی جماعت کو سپورٹ نہیں کرتا۔ لیکن اچھی بات اور اچھا کام کوئی بھی کرے اس کا ساتھ دیتا ہوں۔''انہیں آنے والے برسوں میں فلم اور ڈراما انڈسٹری کا مستقبل روشن نظر آتا ہے کیونکہ نئے آنے والے نوجوان بہت باصلاحیت ہیں۔ انہیں نگار ایوارڈ، بولان ایوارڈ اور دوسرے کئی ملکی اور غیر ملکی ایوارڈ ملے۔کہتے ہیں، ''مجھے جو کچھ ملا اس ملک کی وجہ سے ملا۔ اور مجھے خوشی ہے کہ میں نے اپنے شعبے میں ملک کا نام روشن کیا ہے۔'' ان کو جواں سال بیٹے اظہرمحمود کی موت کا صدمہ بھی جھیلنا پڑا۔ دو بیٹیوں کے والداور اپنے خاندان کے بڑے ہیں۔ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں۔
٭ 'ہاں۔۔۔۔ وہی مردود ہے'
پی ٹی وی کے مشہور ڈرامے 'لاگ' میں انہوں نے بھارتی فوجی افسر کا کردار ادا کیا جو کشمریوں پر بہت ظلم کرتا ہے۔
ان دنوں وہ مال روڈ سے گزر رہے تھے۔
انہوں نے دیکھا، ایک کار میں بیٹھے ہوئے بچے اپنی ماں کو اشارے سے ان کی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔ خاتون نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ''ہاں، وہی مردود ہے۔'' راشد محمود کے بقول، ''اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ داد تھی اس کی کہ لوگوں کو میرا کیا ہوا کردار اتنا جاندار لگتا ہے کہ وہ مجھ سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ منفی کردار سے اگر لوگوں کو نفرت نہ ہو تو اس کا مطلب ہے وہ اس میں لوگوں کو کنوینس نہیں کر پایا۔ آپ کے دل میں جو کردار کھبتا ہے، وہی اچھی پرفارمنس ہے۔ تو اللہ کا شکر ہے کہ مجھے میرے منفی کرداروں سے بھی داد ملی۔''
٭ اصل چیز اسکرپٹ ہے
ٹی وی، ریڈیو، تھیٹر یا فلم، ہر جگہ اصل اہمیت اسکرپٹ کی ہے۔ اسکرپٹ آپ کے پاس اچھا ہے، کوئی بھی اداکار رکھ لیں، بات اگر بڑی ہے تو ایک بار سنی جائے گی۔ اور اگر آپ بڑی بات سنانے کے لیے بڑے فنکاروں کا انتخاب کرتے ہیں تو وہ بات کانوں کے راستے دل میں اتر جاتی ہے۔ آپ کے پاس جب تک کہنے کے لیے، سنانے کے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہو گی تو میں رابرٹ ڈی نیرو کا منہ کتنی دیر دیکھوں گا۔ وہ آگے کچھ کہے تو میں اس سے اپنے آپ کو ریلیٹ کروں۔ ہمارے ہاں مداریوں والے ڈرامے ہو گئے۔ عورتوں پہ نت نئے ظلم ایجاد کیے جا رہے ہیں۔
لکھاریوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ غیر حقیقی چیزیں نہ دکھائیں، پھر سوچیں کہ یہ باتیں آپ کے کلچر اور مذہب سے مطابقت رکھتی ہیں۔ اپنی زمین سے جڑے رہیے، اس کے رسم و رواج، اس کی ثقافت اور وقار کو بھی مدنظر رکھیں۔ جب مجھے کسی کردار کے لیے منتخب کیا جاتا ہے تو میں پوچھتا ہوں، مجھے کرنا کیا ہے، اسکرپٹ کیا ہے۔ جب تک کہنے کے لیے کردار کے پاس کوئی بڑی بات نہیں، کوئی کنفلیکٹ اس کی وجہ سے کہانی میں نہیں پیدا ہوتا، تو میں اس میں ڈیکوریشن پیس کی حیثیت سے تھوڑی چلا جاؤں گا کہ میرا بہت لمبا کردار ہے اور میں اسکرین پہ نظر آؤں گا۔ میں ذہن میں یہ ضرور رکھتا ہوں کہ مجھے کرنا کیا ہے اور میرے کردار کے پاس دیکھنے والے کے لیے کوئی بڑی بات ہوتی ہے تو میں فوراً اس کردار کو لے لیتا ہوں۔
٭ بچپن سے ہی بزرگ ہوں
میں بچپن سے ہی بزرگ ہوں۔ میرے زندگی میں جوانی نام کی کوئی چیز نہیں۔ زندگی میں محتاط ہو کے نکلا ہوں اور یہ بزرگ کرتے ہیں، بچے نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میری تربیت میرے والد نازش کاشمیری نے کی جو میرے آئیڈیل بھی ہیں۔ ہمارے خاندان میں سفارش نام کی کوئی چیز نہیں ہے نہ میرے بچوں میں نہ مجھے سے پہلے۔ میں اعتدال پسند ہوں، ہر بندہ چاہتا ہے اپنی منزل تک جلدی پہنچے۔
اس میں وہ اکثر غیرضروری تیزی کر جاتا ہے اور کہیں نہ کہیں تھک کے گر پڑتا ہے۔ تو میں نے زندگی میں جو رفتار رکھی اس میں ایک حسن رفتار کے ساتھ حسن اقدار بھی رکھا۔ اپنی اقدار کے مطابق چلا ہوں تو میرے مالک نے آہستہ آہستہ مجھے سب چیزیں عطا کیں۔میرا ایمان ہے کہ رزق، عزت، دولت اور شہرت یہ صرف آپ کا رب دے سکتا ہے۔ خدا نے دنیا میں آپ کو جو بھیجا ہے تو آپ نے سوچنا ہے کہ میں صرف دنیا میں آٹا کھانے کے لیے آیا ہوں۔ کھاؤں پئیوں اور مر جاؤں۔ کچھ کرنا ہے ہمیں۔ تو جس شعبے کے ٹیلنٹ کی آپ کے اندر دریافت ہو، ایمانداری اور محنت سے لگ جاؤ۔ رب آپ کی مدد کرتا ہے۔
٭ زندگی میں بڑے اسپیڈ بریکر آئے
زندگی میں بے شمار اسپیڈ بریکر آئے اور میں ان کا ممنون ہوں۔ انہوں نے مجھے وہ ہمت اور طاقت دی کہ میں امتحانوں سے گھبرایا نہیں۔ اصل چیز ثابت قدمی، ادارہ اور صبر و تحمل ہے۔ وہ اگر ہے تو آپ کو کوئی روک نہیں سکتا۔ لیکن آپ کے اندر ایک دریافت پہلے ہونی چاہیے کہ میں یہ کر بھی سکتا ہوں یا نہیں۔ اپنی ذات سے بڑا جج کوئی نہیں۔ ہم خوابوں میں زندگی گزار دیتے ہیں۔ اس میں ہم شارٹ کٹس ڈھونڈتے ہیں۔ اگر آپ ثابت قدمی اور محنت کے ساتھ کام کرتے ہو تو آپ کو کون روکے گا اور کتنی دیر تک روکے گا۔ ایک مرتبہ جب آپ اپنے آپ کو منوا لیتے ہو تو سارا کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ ان مشکلات نے مجھے وہ سمجھ بوجھ اور ڈگریاں دیں، جن کی کوئی بھی توقع کر سکتا ہے۔