شعور و آگاہی کی کمی سے خسرہ خوف بن گیا

خسرہ کی بیماری دنیا بھر میں موجود ہے تاہم ملکی سطح پر اس کے خاتمہ کے لیے طویل مدت پروگرام مرتب کیاجائے۔ ماہرین

خسرہ کے بارے میں ماؤں کو وقتا فوقتا آگہی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، ماہرین کی ایکسپریس فورم میں بات چیت۔ فوٹو : فائل

انسان کی صحت مندانہ زندگی کا دارومدار ایسے حفاظتی اقدامات پر منحصر ہے، جو بظاہر علاج ومعالجہ کے زمرے میں تو نہیں آتے، مگر یہ اس علاج سے بہتر ہے جو بیماری کی اذیت سے شروع ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں ہمیشہ کسی بھی بیماری کا علاج تب شروع کیاجاتا ہے جب اس سے درجنوں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوچکا ہوتا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ یہی بیماری اگرکسی امیر یا صاحب وقار کو ہو تو علاج کی تمام تر سہولیات فراہم کردی جاتی ہیں اور بات اگر غریب اورنادار عوام کی ہو تو پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس سے کتنی اموات ہوچکی ہیں، یعنی علاج ومعالجہ کا انحصار مفلس اور مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے عوام کی اموات کے تناسب سے لگایا جاتا ہے۔ بہرحال یہ بات طے ہے کہ حکومت پنجاب کی جانب سے کسی بھی بیماری سے عوام کو محفوظ بنانے کے لئے بہترین اقدامات کیے گئے ہیں۔

یہ الگ بات ہے کہ اس کی تحقیق و ترویج کسی نہ کسی سیاسی رنگ میں پائی جاتی ہے۔ آج کل عوام میں ڈینگی وائرس سے زیادہ خسرہ کا خوف پایا جاتا ہے جو درجنوں معصوم ننھی جانوں کو لقمہ اجل بنا چکا ہے اور ہر روز اپنے نئے شکار کی تلاش میں گھروں میں داخل ہورہا ہے۔ ملکی سطح پر اندرون سندھ کے علاقوں گھوٹکی، خیرپور، کشمور، شکارپور، لاکاڑنہ، قمبر میں سیلاب کے آنے پر خسرہ کے حملہ میں شدت آئی جس کے باعث 193ہلاکتیں ہوئیں اور مجموعی طور پر 2,225 کیسز رپورٹ ہوئے جس کی بنیاد پر 2012ء دسمبر میں خسرہ کے خلاف مہم چلائی گئی، تاہم اس حملہ سے اب پنجاب اوردیگر صوبوں کے بچے بھی متاثرہورہے ہیں جس کی وجہ سے پنجاب میں اب تک 11اموات ہوچکی ہیں۔

لاہور شہر میں 255مریض رپورٹ کیے گئے ہیں۔ حکومت پنجاب نے اس ضمن میں ہنگامی صورتحال نافذ کرتے ہوئے خسرہ کے خلاف مہم شروع کردی ہے اور صوبہ کے تمام مراکز صحت پر مفت ویکسین کی فراہمی یقینی بنائی جارہی ہے۔ خسرہ کی بیماری جان لیوا کیونکر بنی اور اس سے انسانی جانوں کو کس طرح سے محفوظ بنایا جاسکتا ہے، اس سلسلہ میں روزنامہ ایکسپریس اور ایکسپریس نیوز کے زیراہتمام ''متعدی امراض اوران سے بچائو'' کے موضوع پر ایک فورم کاانعقاد کیاگیا جو قارئین کی نذر ہے۔

خواجہ سلمان رفیق
(وزیراعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی برائے صحت )
جتنے بھی وبائی امراض ہیں، ان کے خاتمہ میں میڈیاکاکلیدی کردارہے، کیوں کہ وبائی امراض کا خاتمہ آگہی مہم پرانحصارکرتا ہے اور عوام میں موثر اور جلد آگہی میں میڈیا سب سے مضبوط اورپائیدار ذریعہ بن رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے پولیو کے ساتھ ساتھ خسرہ جیسی بیماری پرقابوپانے کے لئے اقدامات تیزی سے جاری ہیں اور ہر سطح پر یہ کوشش کی جارہی ہے کہ عوام کو اس مرض سے زیادہ سے زیادہ محفوظ رکھا جاسکے اور تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ اس کام میں آگہی مہم انتہائی اہمیت رکھتی ہے اوراس کے بغیر کسی بھی بیماری سے انسانی جانوں کو محفوظ بنانا مشکل تصورکیاجاتا ہے۔

وزیراعلی پنجاب کے معاون خصوصی برائے صحت کا کہنا تھا کہ عوام میں شعور بیدارہونے سے حکومت نے ڈینگی وائرس اور پولیو مہم میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں ہیں جس کا کریڈٹ حکومت اور عوام دونوں کو جاتا ہے کیونکہ جس قدر عوام میں بیماری سے محفوظ رہنے میں شعور بیدارہوگا معاشرہ اتنا ہی صحت مند اور بیماریوں سے پاک رہے گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ خسرہ سے انسانی جانوں کو محفوظ بنانے میں حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات شروع کردیئے ہیں تاہم فوری طورپر اس ضمن میں تمام ہسپتالوں، صحت کے بنیادی مراکز اور دیگر سرکاری طبی اداروں میں خسرہ کی مفت ویکسی نیشن مہیا کردی گئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام ان اقدامات سے بھرپورفائدہ اٹھائیں اور کسی بھی غلط فہمی میں مبتلا ہونے کے بجائے اپنے بچوں کی بروقت اورضرورت کے مطابق ویکسی نیشن کرائیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس وقت بین الاقوامی معیار کے مطابق دنیا میں صرف ایک کمپنی ہے جو کہ یونیسیف کے تحت ہے۔ یہ کمپنی خسرہ سے بچوں کو محفوظ بنانے کے لیے ویکسین تیارکررہی ہے، جس کی وجہ سے نجی سطح پر اس ویکسین کی دستیابی ممکن نہیں ہو پا رہی ہے۔ تاہم حکومت نے اپنے وسائل کے مطابق وافر مقدار میں ویکسین کا اہتمام کرلیا ہے اور خسرہ سے بھی اسی طرح نمٹنے کی مکمل تیاری کرلی ہے جس طرح سے پولیو اوراس سے قبل ڈینگی وائرس سے عوام کو محفوظ بنانے کی غرض سے اقدامات کیے گئے تھے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ وزیراعلی پنجاب محمد شہبازشریف کو اس سلسلہ میں وقتا فوقتا بریفنگ دی جارہی ہے اور اب ایک طریقہ کار طے کیا جا رہا ہے۔

جس کے مطابق اگر شہر کی سطح پر کسی علاقہ میں ایک بچہ خسرہ سے متاثر ہوگا تو اس کے اردگرد پچاس گھروں کو اس سے محفوظ بنانے کے لیے ویکسی نیشن کی جائیگی جبکہ گائوں کی سطح پر ایک بچے کو خسرہ ہونے کی صورت میں پورے گائوں کی ویکسی نیشن کی جائیگی اور اس کام میں عوام کی شمولیت انتہائی اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں میں خسرہ کی ویکسی نیشن چھ ماہ سے دس سال تک بچوں کو دی جائیگی اورحکومت کی منصوبہ بندی کے مطابق ہیلپ لائن قائم کی جائیگی اور ہنگامی صورتحال کے پیش نظر خسرہ کا قلع قمع کرنے میں حکومتی مشینری متحرک رہے گی۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی برائے صحت خواجہ سلمان رفیق نے کہا کہ خسرہ کی بیماری کی روک تھام کیلئے صوبائی حکومت اور محکمہ صحت پوری مستعدی کے ساتھ کام کر رہا ہے اور مرض کو پھیلنے سے روکنے اور مریضوں کے علاج معالجہ کیلئے تمام ضروری اقدامات کئے گئے ہیں۔

تمام اضلاع کے سرکاری ہسپتالوں، ہیلتھ سنٹرز پر خسرہ کے ٹیکہ جات دستیاب ہیں اور کسی جگہ ویکسین کی کمی نہیں ہے ۔محکمہ صحت کے سٹاک میں خسرہ ویکسین کی 9 لاکھ خوراکیں (Doses) موجود ہیں جبکہ یونیسیف کے ذریعے خریدی گئی، خسرہ ویکسین کی20 لاکھ خوراکیں بذریعہ ہوائی جہاز 8فروری تک پہنچ جائیں گی۔ حکومت نے تمام اضلاع میں خسرہ کے کیسوں کی سرویلنس اور بیماری کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے ڈائریکٹر کی سطح کے افسران کو پراونشل مانیٹرز کے طور پر تعینات کیا تھا اور افسران بھی صورتحال پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ خواجہ سلمان رفیق نے والدین سے اپیل کی کہ جن والدین نے اپنے چھوٹے بچوں کو اب تک خسرہ سے بچاؤ کے انجیکشن نہیں لگوائے وہ اپنے بچوں کو 9ماہ کی عمر میں پہلا اور 15ماہ کی عمر میں دوسرا ٹیکہ ضرور لگوائیں تاکہ بچے خسرہ کی بیماری سے محفوظ ہوسکیں۔

پروفیسرآغاشبیر
(ماہر امراض بچگان )
خسرہ کی بیماری وائرس سے پھیلنے والی بیماری ہے تاہم یہ براہ راست پھیلنے والی گندگی سے نہیں پھیلتی۔ خسرہ کی ویکسینیشن1960ء میں منظرعام پر آئی لیکن اس کے باوجود امریکہ میں 1990ء میں خسرہ کے کیسز سامنے آئے۔ انہوں نے کہا کہ خسرہ کی بیماری دنیا بھر میں پائی جاتی ہے اچھی بات یہ ہے کہ اس کی ویکسین موجود ہے تاہم ملکی سطح پر اس بیماری کے خاتمہ کے لیے طویل مدت پروگرام مرتب کیاجائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات طے شدہ ہے کہ کسی بھی بیماری کو مکمل طورپر ختم نہیں کیا جا سکتا اورنہ ہی یہ دعویٰ کیاجاسکتا ہے کہ ایک بار ختم ہونے والی بیماری دوبارہ نہیں آئے گی۔ انہوں نے کہاکہ خسرہ کی بیماری دنیا بھرمیں آج کے جدید دور میں بھی پائی جاتی ہے اور اس سمیت کسی بھی بیماری سے گھبرانے کی ضرورت نہیں، بلکہ ان کے خلاف لڑنے کے لیے تحقیق کا عمل جاری رہنا چاہیے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ یہ انتہائی خوش قسمتی کی بات ہے کہ خسرہ ایسی بیماری ہے جس کا وائرس صرف انسانوںمیں پایا جاتا ہے اس لیے اس پر کنٹرول زیادہ آسان ہے۔



انہوں نے کہا کہ خسرہ عموما بچوں میں غذائی کمی اور جسمانی کمزوری کے باعث ہوتا ہے تاہم جو مائیں اپنی بچوں کو خود اپنا دودھ پلاتی ہیں، ان میں نہ صرف خسرہ کی بیماری پیدا ہونے کے خدشات نہایت کم ہوتے ہیں بلکہ دیگر بیماریوں سے لڑنے میں ان کی قوت مدافعت بھی بڑھ جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خسرہ کے خلاف چلائی جانے والی مہم کوبھی ڈینگی وائرس کے خلاف جاری جنگ اورخاتمہ کی طرز پر چلائی جائے اوراس بات پر کوئی سمجھوتہ نہ کیاجائے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوںنے کہا کہ خسرہ کا وائرس ہوامیں ایک گھنٹہ تک رہتا ہے جو خسرہ سے متاثرہ افراد کی کھانسی اورچھینک کی وجہ سے پیداہوتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ جس بچے کو خسرہ ہو اس پر فوری توجہ دیتے ہوئے اس کی خوراک بہترکی جائے اور بخارکی شدت کو کم کرنے کے لیے معالج سے مشورہ کرکے دوا دی جائے اورکوشش کی جائے کہ دوسرے بچوں کو متاثرہ بچوں سے الگ رکھا جائے۔

انہوں نے کہا کہ خسرہ کا علاج گھروں پر نہ کیاجائے اورنہ ہی اس میں خود کارطریقے استعمال کیے جائیں بلکہ اس کے لیے قریبی مرکز صحت پر رجوع کیاجائے کیونکہ خسرہ کے مخصوص دانے جو منہ میں نکلتے ہیں ان کی جانچ صرف ماہر ڈاکٹرہی کرسکتا ہے اوراگر کسی کو خسرہ ہوجائے تو اس کو زیادہ گرمائش میں نہ رکھا جائے۔ خسرہ کی بیماری سے بچاو اور ویکسی نیشن کو کامیاب بنانے کے لیے پیرامیڈیکس سٹاف ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، جن کی شمولیت کسی بھی بیماری سے معاشرہ کو پاک کرنے میں انتہائی اہمیت رکھتی ہے تاہم پیرامیڈیکل سٹاف کو بھی چاہیے کہ وہ خسرہ سمیت تمام بیماریوں کے خلاف اپنی طبی خدمات قومی فریضہ سمجھتے ہوئے فراہم کریں اورڈینگی وائرس ،پولیواورخسرہ سمیت دیگر وبائی امراض کی روک تھام کے لیے اپنی خدمات کو ہمہ وقت فراہم کریں۔

ڈاکٹراے جے صمدانی
(ماہر امراض بچگان)
معاشرہ میں صحت اوربیماری کے حوالے سے عوام میں آگہی انتہائی ضروری ہے۔ اس بات سے کسی کو انکارنہیں کہ احتیاط علاج سے بہترہے مگراس حکمت پر عمل درآمد وقت کی ضرورت بن چکی ہے۔ عوام تعلیم یافتہ ہویا کم تعلیم یافتہ ہو بیماری اور اس سے بچاوکا شعور ضرور ہونا چاہیے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ گائوں اور شہر دونوں کی سطح پر ماوں میں بیماری کا شعور پایا جاتا ہے خصوصا ایسی بیماریوں کے حوالے سے جن میں خسرہ بھی شامل ہے، تاہم ان کو وقتا فوقتا آگہی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ عوام کو بیماری کا علم ہونا چاہیے کہ یہ پھیل کیوں رہی ہے اوراس کا تدارک کیا ہے اس سلسلے میں حکومتی سطح پر باقاعدہ ایک مہم چلائی جانی چاہیے جس کا اطلاق گھرگھر ہو۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت کے شانہ بشانہ خسرہ سے عوام کو محفوظ بنانے کے لیے نجی طبی اداروں کو بھی شامل کیاجائے اور یہ لازمی قراردیا جائے کہ نجی طبی ادارے بھی اس ضمن میں مفت طبی سہولیات اورعلاج ومعالجہ فراہم کریں گے۔


انہوں نے کہا کہ قومی خدمت کے پیش نظر ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا اس کے لیے کسی سیاسی یا غیر سیاسی پلیٹ فارم کی ضرورت کو محسوس نہیں کیاجانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ نجی ہسپتال کے ڈائریکٹرہونے کی سطح پر ہم نے حکومت کے شانہ بشانہ مفت طبی خدمات فراہم کررکھی ہیں۔ خاص طورپر خسرہ اور اس جیسی وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ بچوں میں خسرہ کی ویکسی نیشن لینے کے باوجود بھی خسرہ کی بیماری میں دوبارہ مبتلا ہونے والے بچوں میں خسرہ سے بچاوکی ویکسی نیشن کی مقررہ مقدار وجہ بن رہی ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ جس بھی بیماری سے بچاوکی ویکسی نیشن کرائی جائے مکمل کرائی جائے۔ خصوصا خسرہ کی ویکسی نیشن بچوں میں نو ماہ میں ایک بار اوردوسری بار پندرہ ماہ کی عمر میں انجکشن کی صورت میں دی جاتی ہے، جس میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ اس بات کا طے ہونا بھی ضروری ہے کہ موسمی کیفیات کے پیش نظر عوام میں اس موسم کے حوالے سے پھیلنے والی یا پیدا ہونے والے وبائی امراض کا شعوردیا جائے تاکہ ہر موسم کی آمد پر آگہی مہم کے تحت عوام میں بیماری سے اپنے آپ کو محفوظ بنانے کی تیاری مکمل ہو۔

پروفیسر ڈاکٹرجاوید اکرم
عوام کو صحت مند بنانا حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے اس غرض سے حکومتی سطح پر کیے جانے والے اقدامات کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ تاہم یہ بات انتہائی اہم ہے کہ وہ تمام طبی سہولیات جو حکومت کی جانب سے فراہم کی جارہی ہیں ان کو عوام تک ضرورت کے مطابق پہنچایا جائے ایک سوال کے جواب میں انہوںنے بتایا کہ وبائی امراض میں خسرہ ان بیماریوں میں شمار ہوتا ہے جس سے شرح اموات انتہائی کم ہے اوریہ خوش قسمتی کی بات ہے کہ خسرہ ایسی بیماری ہے۔

جس کی ویکسین موجود ہے،کوئی بھی ایسی بیماری جس کی ویکسین موجود ہو اس سے بچنا آسان ہوتا ہے تاہم یہ بات طے کرنے کی ہے کہ بیماری کے مطابق اور بروقت بچوں کی ویکسی نیشن کرائی جائے خصوصا نومولودبچوں کی صحت مند زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت کی جانب سے فراہم کیے جانے والے حفاظتی ٹیکوں کا کورس ہدایات کے مطابق مکمل کرایا جائے اوراس میں کوتاہی نہ برتی جائے۔ انہوں نے کہا خسرہ ایک عمومی بیماری ہے جس سے خوف زدہ یا خوف پیداکرنے کی ضرورت نہیں اور اس پر آسانی سے قابو بھی پایا جاسکتا ہے اب تک کی تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں خسرہ سے ایک فیصد شرح اموات ریکارڈ کی گئی ہیں جو انتہائی کم ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ موت کسی کی بھی ہو قابل افسوس امر ہوتا ہے، خصوصا وبائی امراض میں مبتلا افراد کی موت شدید دھچکا پہنچاتی ہے اور اس کا اندازہ صرف وہی لگاسکتا ہے جس کا لخت جگر کسی بھی وبائی امراض کے زد میں آکر لقمہ اجل بن چکا ہے۔

انہوں نے کہا خسرہ سے زیادہ دیگر موذی بیماریاں بھی موجودہیں جن میں ہیپاٹائٹس جیسی بیماریاں بھی شامل ہیں مگر ان بیماریوں کے مکمل خاتمہ کے لیے صرف حکومت کے اقدامات کافی نہیں ہیں بلکہ اس کام میں عوام کی شمولیت ناگزیر ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ماں، باپ اپنے بچوں اوراپنا طبی ریکارڈ مرتب رکھیں اور وقتا فوقتا اس کو چیک کرتے اورکراتے رہیں تو ہم بہت سے بیماریوں سے بچ سکتے ہین اورخود بھی صحت مند رہیں گے اور دوسروں کو بھی صحت مند رکھیں گے اس لیے وبائی امراض سے بچاو کے لیے بروقت ویکسی نیشن لینا ضروری ہے اور اس سلسلہ میں تعلیم سے زیادہ شعور کی ضرورت ہے۔

انہوں نے تجویز کیا کہ والدین اپنا اوراپنے بچوں کا باقاعدہ طبی ریکارڈ مرتب کرکے رکھیں تاکہ جب بھی انہیں کسی وبائی امراض کا سامنا کرنا پڑے تو ا ن کی طبی ہسٹری موجود ہو جو ان کے علاج میں معاون ثابت ہوگی۔ انہوں نے کہا جس طرح سے ہم اپنی زندگی میں مختلف چیزوں کا خیال رکھتے ہیں اسی طرح اپنا اوراپنے بچوں کی صحت کا بھی خیال رکھیں اسی طرززندگی سے صحت مند رہا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹرانعام
(ایگزیکٹوڈسٹرکٹ آفیسرہیلتھ لاہور )
خسرہ ایک متعدی بیماری ہے اور اس سے بچائو ویکسی نیشن سے ممکن ہے۔ انہوںنے کہا کہ پولیو پاکستان سمیت دینا کے تین ممالک میں پائی جاتی ہے اسی طرح خسرہ سے سو فیصد ملک کو پاک کرنے کے لیے حکومتی سطح پر بہترین اقدامات کیے گئے ہیں جن میں مفت ویکسی نیشن کی فراہمی اہم بات ہے جو عوام کے قریب ترین صحت کے مراکز پر فراہم کردی گئی ہیں۔ ڈاکٹرانعام نے بتایا کہ حکومت کی ہدایت پر عوام کو وبائی امراض سے بچانے اوران میں شعور بیداررکھنے کے حوالے سے بڑے پیمانے پر کام ہورہا ہے اور حکومت اس کام میں کوئی سمجھوتہ نہیں چاہتی بلکہ ہر قیمت پر عوام کی جان ومال کی حفاظت چاہتی ہے اسی غرض سے ڈینگی وائرس ،پولیو اور خسرہ جیسے وبائی امراض کا قلمع قمع کرنے کا سوچ لیاگیاہے اور بہت جلد ایسی تمام بیماریوں سے بھی عوام کو محفوظ بنالیاجائیگا جو موسمی کیفیات کے باعث یکدم انسانی جانوں پر حملہ آور ہوتی ہیں اور پھر اس سے قیمتی جانوں کا ضیاع ہونا شروع ہوجاتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت کی ہدایت پر محکمہ صحت کی اولین ترجیحات میں بہترین طبی سہولیات فراہم کرنا ہے جس کے لیے تمام صحت کے مراکز،ٹیچنگ ہسپتالوں اور دیگر اداروں میں ضروری طبی انتظامات کردیئے گئے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت کے ساتھ ساتھ یہ قوم کا بھی فرض ہے کہ وہ حکومتی اقدامات کی روشنی میں اپنا بھر پورکردارادا کرے اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو صحت مندبنائے اور حفاظتی تدابیر سے سب کا آگاہ کرے۔



انہوںنے کہا کہ خسرہ کی بیماری بچوں میں عموما غذائی کمی کے باعث پائی جاتی ہے جس میں ماں کا کردار انتہائی اہم ہے اس لیے کوشش کی جائے کہ گھرگھر ہر فرد کے ساتھ ساتھ ماوں کو بھی بیدارکیاجائے اورننھے بچوں کی غذائی صورتحال کو بھی ٹھیک رکھا جائے انہوںنے کہا کہ آجکل آگہی مہم ایک ایسا عمل ثابت ہوا ہے جس سے عوام کی صحت میں اضافہ ہوا ہے اور بیماریوں کا قلع قمع ہوا ہے اس لیے آگہی مہم کو ہر سطح پر پروموٹ کیاجائے۔

ملک منیر احمد
( چیئرمین پنجاب پیرامیڈیکس سٹاف)
انسانی جانوں کی حفاظت اور ان کو مختلف امراض سے بچانے میں پیرامیڈیکس سٹاف کا کردار ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ وبائی امراض ہوں یا عمومی امراض ان سے بچاوکے لیے حکومت اور محکمہ صحت کی جانب سے فراہم کردہ طبی سہولیات وافر مقدار میں موجود رہتی ہیں تاہم عوام میں اس شعورکاہونا انتہائی اہمیت رکھتا ہے کہ اپنے بچوں کو کسی بھی قسم کے امراض سے محفوظ بنانے کے لیے محکمہ کا بھرپورساتھ دیں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پنجاب بھر میں پیرامیڈیکس سٹاف واحد ذریعہ ہیں جو گھر گھر جاکر بچوں کی ویکسی نیشن کرتے ہیں اور تمام تر گھروں کاڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں ان کی کوتاہی کسی بڑے حادثہ کا پیش خیمہ بھی ہوسکتی ہے اوران کی ذمہ داری معاشرہ کو صحت مند معاشرہ بھی بنا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیرامیڈیکل سٹاف اپنی ذمہ داریوں کو قومی سطح پر فراہم کرتے ہیں زلزلہ ہو،سیلاب ،ڈینگی وائرس کی وباء ہو یا پولیومہم ہر سطح پر پیرامیڈیکل سٹاف نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے اور اب خسرہ کی وباء نے عوام کو تنگ کررکھا ہے جس پر پیرامیڈیکل سٹاف نے یہ طے کیا ہے کہ وہ اس مرض کے خلاف بھی حکومت کی جانب سے جاری جنگ میں صف اول میں رہیں گے اور اس کام کو کسی پر احسان سمجھ کر نہیں بلکہ قومی ذمہ داری سمجھ کر نبھائیں گے انہوں نے کہا کہ ہماری خدمات ہمیشہ سے قوم کے لیے چوبیس گھنٹے حاضر رہی ہیں اب بھی حاضر ہیں اور آئندہ بھی رہیں گی ایک سوال کے جواب مین انہوں نے کہا کہ جذبہ محب الوطنی کوبیداررکھتے ہوئے ہم تمام تر مفادات سے بالا تر ہوکر اپنی خدمات کوجاری رکھیں گے۔

انیس الرحمن
( صدر ویکسی نیٹرز ویلفیئر فیڈریشن)
حکومت کا کام سہولت فراہم کرنا اور محکموں کا کام عوام تک اس کی رسائی کو آسان بنانا ہے اب تک کہ حکومت کی کارکردگی میں عوام کو طبی سہولیات کی فراہمی ایک بڑے کارنامے کے طور پر سامنے آئی ہے، جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حکومت ہر قیمت پر عوام کو صحت مند بنانا چاہتی ہے اوراس کے ساتھ ساتھ ایسے غریب اورنادار افراد جو کہ قیمتا علاج ومعالجہ کرانے کی سکت نہیں رکھتے اور طبی ٹیسٹ کرانا ان کے لیے مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے، کو مفت طبی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ویکسی نیٹرز اصل میں کسی بھی مہم کا بنیادی کردارہوتے ہیں ان کے بغیر کوئی بھی مہم کامیاب نہیں بنائی جاسکتی اس لیے معالجین کے ساتھ ساتھ ویکسی نیٹرز کی حیثیت کو تسلیم کیاجانا چاہیے اور ان کی خدمات کا ہر سطح پر اعتراف کیاجانا چاہیے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ محکمہ صحت اس سلسلے میں بھرپورکردار اداکررہا ہے اور ہر مقام پر خدمات انجام دینے والے افراد کی پذیرائی بھی کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خسرہ سے بچائو مہم میں بھی ویکسی نیٹرز اپنا کردار حسب سابق اداکریں گے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی وبائی امراض کا ہونا یا نا ہونا ایک الگ مسئلہ ہے مگر اس کے ویکسی نیشن کرانا بہت ضروری ہے اور اس میں سب سے اہم ذمہ داری والدین کی ہے جو اپنے بچوں کو فوری طورپر ایسی تمام بیماریوں کی ویکسی نیشن کرائیں جو ان کے پیداہونے کے فوری بعد ضروری سمجھی جاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم بطورویکسی نیٹرز اپنی خدمات کو ہمہ وقت فراہم رکھیں گے اور اس کے لیے کسی الگ سے معاوضہ کی بھی طلب نہیں کی جائے گی۔
Load Next Story