امریکی دفاع شمالی کوریا کے نشانے پر۔۔۔۔ بیلسٹک میزائل کے تجربے نے سُپرپاور کی نیندیں اڑادیں

 سیکڑوں ارب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود حملہ آور بین البراعظمی میزائل کا توڑ نہ کیا جاسکا 

صدر اور فوجی کمانڈروں کی جانب سے ’ بدمعاش ریاست‘ کو سبق سکھانے کی باتیں خالی خولی دھمکیاں ۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
امریکا اور شمالی کوریا کے درمیان کئی عشروں سے جاری کشیدگی انتہا کو چُھونے لگی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف بیانات کا سلسلہ کئی برس سے جاری تھا۔ اس دوران گاہے بگاہے شمالی کوریا میزائل اور اٹیمی تجربات بھی کرتا رہا۔ گذشتہ دنوں کم جونگ اُن کی سربراہی میں شمالی کوریا نے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کا کام یاب تجربہ کیا۔ اس تجربے کے بعد دونوں ممالک کے مابین کشیدگی عروج پر پہنچ گئی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بیان میں کہا کہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے اور اب پختہ ارادے کے ساتھ جواب دینے کا وقت آگیا ہے۔ اس نوع کے بیانات ماضی میں بھی امریکی حکمرانوں اور فوج کے کمانڈروں کی جانب سے دیے جاتے رہے ہیں مگر عملی طور پر شمالی کوریا کے خلاف کوئی عسکری کارروائی ہنوز عمل میں نہیں لائی گئی۔

شمالی کوریا کا پڑوسی جنوبی کوریا ، امریکی اتحادی ہے۔ اسے سپرپاور کی بھرپور مالی اور عسکری معاونت حاصل رہی ہے۔ شمالی کوریا کے میزائلوں سے بچانے کے لیے امریکا جنوبی کوریا کی درخواست پر وہاں میزائل شکن نظام '' تھاڈ '' (THAAD ) نصب کرنے کے لیے تیار تھا مگر عوامی احتجاج کے بعد جنوبی کوریا نے اپنی درخواست واپس لے لی۔ شمالی امریکا کے پاس مختلف فاصلوں تک مار کرنے والے میزائل موجود ہیں، اور اب اس نے بین البراعظمی میزائل کا کام یاب تجربہ کرلیا ہے جو امریکی ریاست الاسکا تک مار کرسکتا ہے۔ یہ میزائل ایٹمی وارہیڈز لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

امریکا کے پاس '' تھاڈ'' کی صورت میں حملہ آور میزائلوں کو دور ہی سے نشانہ بنانے والا دفاعی نظام موجود ہے مگر شمالی کوریا کے میزائل تجربات کے بعد دفاعی امور کے ماہرین کی جانب سے سوالات اٹھائے جانے کا سلسلہ زور پکڑ گیا ہے کہ کیا امریکا بین البراعظمی ایٹمی میزائلوں کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ تین دہائیوں کے دوران امریکا نے بین البراعظمی میزائلوں کو فضا میں تباہ کردینے والے نظام کی تیاری پر سیکڑوں ارب ڈالر خرچ کرڈالے اس کے باوجود پینٹاگون اور اس کی ٹھیکیدار کمپنیاں سو فی صد نتائج دینے والا ایٹمی میزائل شکن نظام تیار نہیں کرسکے۔ الاسکا اور کیلے فورنیا میں ایک اینٹی نیوکلیئر میزائل سسٹم کے پانچ تجربات کیے گئے تھے۔ ان میں سے تین ناکام رہے تھے۔ ان تجربات کی ناکامی کا اعتراف اعلیٰ عسکری حکام بھی کرچکے ہیں۔ جو دو تجربات کام یاب کہلائے گئے ان کی کام یابی بھی مشکوک تھی۔

کیلے فورنیا میں قائم جوہری عدم پھیلاؤ کے مطالعے کے مرکز ( جیمز مارٹن سینٹر فار نان پرولیفریشن اسٹڈیز) میں ایسٹ ایشیا نان پرولیفریشن پروگرام کے ڈائریکٹر جیفری لیوس کہتے ہیں کہ اگر شمالی کوریا اور امریکا اپنے اپنے تمام میزائل ایک دوسرے کی جانب فائر کریں تو امریکی سرزمین پر گرنے والے میزائلوں کی تعداد زیادہ ہوگی۔ اس بیان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دشمن میزائلوں کے آگے امریکی دفاع کتنا بے بس ہے۔


پینٹاگون کی جانب سے شمالی کوریا کے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کے توڑ کے طور پر مڈکورس ڈیفنس سسٹم کو پیش کیا جارہا ہے۔ بوئنگ اور کئی دوسری کمپنیوں کا مشترکہ طور پر تیارکردہ یہ زمینی نظام فضا میں پُرشور آواز کے ساتھ سفر کرنے والے میزائل کو تباہ کردینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر سابق اعلیٰ فوجی اہل کار اور عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ اچانک یا شارٹ نوٹس پر کیے گئے بین البراعظمی میزائل کے حملے کی صورت میں بچاؤ کے امکانات محدودتر ہوں گے۔ گذشتہ ماہ پینٹاگون کے میزائل ڈیفنس پروگرام کے انچارج وائس ایڈمرل جیمز سرنج نے بھی کانگریس کو بتایاکہ انھیں اس سسٹم پر تحفظات ہیں۔

پینٹاگون کے مطابق1985ء سے لے کر اب تک کانگریس میزائل ڈیفنس پروگراموں کے لیے189.7 ارب ڈالر فراہم کرچکی ہے۔ اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں وجود پانے والے کچھ پروگرام ضرورکام یاب ثابت ہوئے ہیں جیسے پیٹریاٹ میزائل سسٹم امریکا اور اس کے اتحادی ممالک میں استعمال ہورہا ہے۔ پیٹریاٹ کے علاوہ بھی خشکی اور پانی میں کام کرنے والے درمیانی رینج کے میزائلوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت کے حامل اینٹی میزائل سسٹم کام یاب ثابت ہوئے ہیں۔ تاہم بین البراعظمی بیلسٹک میزائل، اور خلا سے آنے والے انتہائی تیزرفتار میزائل کو نشانہ بنانے کے لیے کوئی قابل بھروسا نظام ہنوز تشکیل نہیں دیا جاسکا۔

اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے پینٹاگون کے سابق چیف ویپن ٹیسٹر فل کوئلی نے ایک جریدے سے بات چیت میں کہا،'' اس ناکامی کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ مشکل ترین کام ہے جو پینٹاگون نے کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہمیں شارٹ رینج اور میڈیم رینج کے اینٹی میزائل سسٹم میں زیادہ کام یابی ملی ہے۔ مگر یہ میزائل سست رفتار ہوتے ہیں۔ اگر ایک میزائل پندرہ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آرہا ہے تو اسے نشانہ بنانے کے لیے انتہائی مختصر وقت ملے گا۔ بدقسمتی سے اس میں ہمیں اب تک کوئی خاص کام یابی نہیں ملی۔ اس اینٹی میزائل سسٹم کے پانچ تجربات کیے گئے جن میں سے تین ناکام رہے اور دو میں بھی کام یابی کی شرح محض 40 فی صد رہی جو نہ ہونے کے برابر ہے۔''

اس تناظر میں شمالی کوریا پر امریکی حملے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ حالاں کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بلندیوں کو چُھورہی ہے۔ امریکی صدر اور اعلیٰ عسکری حکام کی جانب سے ' بدمعاش ریاست' کو سبق سکھانے کی باتیں ہورہی ہیں مگر یہ خالی خولی دھمکیاں ہیں۔ شمالی کوریا کے پاس بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کی صورت میں تباہ کُن ہتھیار موجود ہے جس کا امریکا کے پاس کوئی توڑ نہیں۔ چناں چہ برتر ہونے کے باوجود امریکا کی جانب سے شمالی کوریا کے خلاف کسی عسکری کارروائی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔
Load Next Story