توجہ تحقیق و تراجم پر مرکوز ہے شاعری اب کم ہی ہوتی ہے
ہر دور میں اچھے شعر کہنے والے کم ہی ہوتے ہیں۔ آج بھی یہی معاملہ ہے۔ اس پر مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔
ملاقات، ایک ایسے تخلیق کار سے، جس نے ادبی محاذ سنبھالنے سے قبل، فن کی چوٹی سر کرنے سے پیش تر، عملی زندگی کی دشوار گزار گھاٹیاں عبور کی ہوں، کٹھنائیوں کو پچھاڑا ہو، خوش قسمتی کا ایک کامل لمحہ ہی تو ہے، جس سے نمو پا کر پُرمسرت یادیں جنم لیتی ہیں!
باقرنقوی ایک ہمہ جہت قلم کار ہیں۔ اُن کا شمار سنجیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ چار مجموعے منظرعام پر آچکے ہیں، مگر شاعری اکلوتا حوالہ نہیں۔ تحقیق و تراجم کے میدان میں بھی اُنھوں نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ قارئین ادب کو نوبیل انعام یافتگان کے حالات و خیالات سے روشناس کروانا اُن کا کلیدی کارنامہ ہے۔ ''نوبیل ادبیات'' سے اِس سلسلے کا آغاز ہوا، جس نے پاک و ہند کے علمی و ادبی حلقوں سے خوب داد بٹوری۔ پھر امن اور حیاتیات کے شعبے میں نوبیل حاصل کرنے والوں پر قلم اٹھایا۔ اُن کی کُتب اعزازات کی حق دار ٹھہریں۔ ناقدین نے اُنھیں وقیع، منفرد اور فکر انگیز کاوش قرار دیا۔ باقر صاحب کی شخصیت اور فن ایم فل کے دو مقالات کا موضوع بن چکا ہے۔ ادب کے ساتھ پیشہ ورانہ سفر میں بھی کار ہائے نمایاں انجام دیے۔ چارٹرڈ انشورر کی حیثیت سے وہ اِس میدان میں منفرد مقام کے حامل ہیں۔
چار بھائی، دو بہنوں میں بڑے، سید محمد باقر نقوی نے 1936 میں محلہ چک، الہ آباد، اترپردیش میں آنکھ کھولی۔ شہر سے سات میل کے فاصلے پر واقع، تحصیل سورام کے گائوں ککرا کے اطراف خاندان کی زرعی زمین تھی۔ چھٹیاں وہیں گزرتیں۔ یوں تو والد، اختر حسین نقوی زمیں دار تھے، البتہ کچھ عرصہ اُنھوں نے، مستقبل میں ہندوستان کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے والے، وی پی سنگھ کے رجواڑے میں مینیجر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ ماضی کھوجتے ہوئے کہتے ہیں،''والد انتہائی شفیق انسان تھے۔ کبھی سزا کی نوبت نہیں آئی۔ اُن کا گھورنا ہی ہمارے لیے کافی تھا۔'' نہ شرارتی تھے، نہ کم گو۔ شمار معتدل مزاج بچوں میں ہوتا۔ ابتدائی تعلیم الہ آباد سے حاصل کی۔ اوائل عمری میں تھوڑی بہت کرکٹ کھیلی، بعد میں تو موقع ہی نہیں ملا۔
بٹوارے کے سمے اُن کے والد نے ہندوستان میں ٹھہرنے کا فیصلہ کیا، مگر دو برس بعد صورت حال اتنی بگڑ گئی کہ وہ ہجرت پر مجبور ہوگئے۔ ہجرت کا ایک سبب جاگیرداری کا خاتمہ تھا، اور دوسرا شہر کے دگرگوں حالات۔ فضائوں میں کشیدگی تیرتی تھی۔ چُوں کہ چچا کراچی آچکے تھے، سو اِسی شہر کا رخ کیا، جہاں معاشی مسائل منتظر تھے۔ پیرالٰہی بخش کالونی میں ڈیرا ڈالنے کے بعد پس انداز کی ہوئی رقم دھیرے دھیرے ختم ہونے لگی۔ مشکلات کے اُن ہی دنوں میں یہ کرب ناک انکشاف ہوا کہ والد کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں۔ 55ء کی ابتدا میں اخترحسین نقوی زندگی کی بازی ہار گئے۔ اِس سانحے نے باقر نقوی کی دنیا ہی بدل دی۔ ایک جانب باپ سے جدائی کا دُکھ، دوسری جانب گھربار کی ذمے داری۔ یوں جدوجہد کا سفر شروع ہوا۔ وہ کلرک ٹائپسٹ کی حیثیت سے ایک انشورنس کمپنی سے 110 روپے ماہ وار پر منسلک تھے، مگر جب آٹھ کھانے والے ہوں، اور ایک کمانے والا، تو 110 روپے میں کہاں گزارہ ہوتا تھا۔ پارٹ ٹائم ملازمتیں بھی کرنے لگے کہ وقت اِسی کا متقاضی تھا۔ صبح گھر کی دہلیز عبور کرتے، رات ڈھلے لوٹتے۔ کہتے ہیں،''کھیلنے کودنے کی فرصت ہی کہاں تھی، جوانی مسائل کا مقابلہ کرتے گزر گئی۔ میں رات کے دس بجے تک، ایک ساتھ چار چار ملازمتیں کیا کرتا تھا۔''
60ء میں ''امریکن لائف انشورنس'' کا حصہ بن گئے۔ اُسی زمانے میں یہ خیال ذہن میں جڑ پکڑنے لگا کہ اگر تعلیم حاصل کرنی ہے، تو انشورنس ہی سے متعلق کی جائے۔ چارٹرڈ انشورنس انسٹی ٹیوٹ ، لندن اِس مضمون کی اعلیٰ ترین تعلیم فراہم کرتا تھا۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اس کا امتحان منعقد ہوتا۔ اِس کی ابتدا کرنے کے لیے میٹرک شرط تھی۔ اُس وقت تک، حالات کی کٹھنائیوں کے باوجود وہ پنجاب بورڈ سے، پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے میٹرک کا مرحلہ طے کر چکے تھے۔ انگریزی بھی اچھی تھی، سو امتحان میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ دس پرچوں پر مشتمل یہ امتحان تین برس میں پاس کیا۔ جُوں جُوں پرچے پاس کرتے گئے، تن خواہ میں اضافہ ہوتا گیا۔ ''چارٹرڈ انشورر'' کی ڈگری کے قریب پہنچنے کے باوجود مطمئن نہیں بیٹھے، سوئس انشورنس ٹریننگ سینٹر، زیورخ میں بھی داخلے کی درخواست ارسال کر دی۔
داخلہ ہوگیا، لیکن ایک مسئلہ تھا۔ تعلیمی اخراجات تو سوئس ادارہ اٹھانے کو تیار تھا، مگر سفر اور قیام و طعام کا انتظام خود ہی کرنا تھا۔ جمع پونجی سے اُنھوں نے، مکان بنانے کے خاطر ایک پلاٹ خریدا تھا۔ بس، اُسے چھے ہزار روپے میں فروخت کیا، اور 64ء میں زیورخ جانے والی فلائٹ میں سوار ہوگئے۔ وہاں پانچ ماہ گزارے۔ کورس کے اختتام پر لندن جانا ہوا، جہاں چھوٹی بہن مقیم تھیں۔ ڈھائی ماہ وہاں بیتے۔ کئی اداروں کی جانب سے ملازمت کی پیش کش ہوئی، لیکن جذبۂ حب الوطنی اور گھر والوں کی ذمے داری اُنھیں پاکستان کھینچ لائی۔ دوبارہ ''امریکن لائف انشورنس'' میں ذمے داری سنبھالی۔ 65ء کی جنگ کے فوراً بعد کچھ عرصہ مشرقی پاکستان میں گزرا۔ پھر ''مسلم انشورنس'' کا حصہ بن گئے، جس کے افسر کی حیثیت سے70 ء میں ایک بار پھر ڈھاکا کا رخ کیا، جس کی فضائوں میں کشیدگی منجمد تھی، جس نے جلد ہی انارکی کی شکل اختیار کر لی۔ کسی نہ کسی طرح جان بچا کر لوٹے۔ چند ہفتوں بعد ہی سقوط ڈھاکا کا سانحہ پیش آگیا۔
نیشنلائزیشن کے بعد تمام انشورنس کمپنیاں حکومتِ پاکستان کی تحویل میں آگئیں، جنھیں چلانے کے لیے ملک بھر سے 33 افراد کا انتخاب کیا گیا۔ باقر صاحب اُس فہرست میں شامل تھے۔ وفاقی حکومت نے اُنھیں ''کریسنٹ اسٹار انشورنس کمپنی'' کا ٹرسٹی مقرر کردیا۔ چھے ماہ بعد ''اسٹیٹ لائف'' کی ترتیب مکمل ہوئی، تو اُس میں ذمے داریاں سنبھالیں، اور کچھ ہی عرصے بعد اوورسیز ڈویژن کے اِن چارج ہوگئے۔ تین برس بعد اسٹیٹ لائف نے برطانیہ میں شاخ کھولی، تو اُس کے مینیجر کی حیثیت سے باقر صاحب کا 75ء میں برطانیہ تبادلہ ہوگیا۔ 76ء میں وہ ایک برطانوی کمپنی ''سی سی آئی انشورنس'' کا حصہ بن گئے۔ لندن ہی کو مسکن بنا لیا۔ اٹھارہ برس اُس ادارے میں ذمے داریاں نبھائیں۔ 93ء میں کچھ نیا کرنے کی خواہش پاکستان لے آئی۔ ''ای ایف یو لائف انشورنس'' سے بہ طور ڈپٹی جنرل مینیجر منسلک ہوگئے۔ ادارے کی بنیاد گزاری اور استحکام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اُن کے ادارے نے ایک یورپی کمپنی Allianz کے ساتھ ہیلتھ انشورنس کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ 2004 میں اُس کی کلّی ذمے داری باقر صاحب کو سونپ دی گئی۔ پانچ برس وہ اُس کے ''سی ای او'' رہے۔ 2009 سے سینئر ایڈوائزر کی حیثیت سے ''ای ایف یو لائف'' میں ذمے داریاں نبھا رہے ہیں۔
مطالعاتی سفر کا آغاز اوائل عمری ہی میں ہوگیا تھا، جس نے شعری ذوق پیدا کیا، مگر خاندانی مشکلات اور ملازمتوں کے جھمیلوں کے باعث اِس جانب دھیان دینا ذرا دشوار تھا۔ معاشی مسائل سے جان چُھوٹی، تو ادب کی جانب متوجہ ہوئے۔ 69ء میں غالب کی صدسالہ برسی منائی جارہی تھی، اِس سرگرمی نے مطالعے کی جوت جگائی۔ میر، غالب، انیس، اکبر، نظیر کو پڑھا۔ ناصر کاظمی، مصطفیٰ زیدی، عزیز حامد مدنی، جمیل الدین عالی کی شاعری سے حظ اٹھایا۔ شعر کہنے لگے۔ غزل منتخب کردہ صنف تھی۔ رجحان ترقی پسند فکر کی جانب تھا۔ تخلیقات اخبارات و رسائل میں چھپنے لگیں۔ البتہ مشاعروں سے دُور رہے۔ اُس وقت انجم تخلص کیا کرتے تھے، بعد میں اپنا ہی نام برتنے لگے۔ ادبی حلقوں میں زیادہ اٹھنا بیٹھنا نہیں رہا، البتہ جمیل الدین عالی، سرشار صدیقی اور رحمان کیانی سے ملاقاتیں رہیں۔
باقر صاحب نے کسی سے اصلاح نہیں لی۔ کیوں؟ اِس سوال کا جواب اِن الفاظ میں دیتے ہیں،''یہ ابتدائی زمانے کی بات ہے۔ میں نے ایک غزل ہندوستان میں مقیم اپنے ماموں، علی صفدر صاحب کو بھیجی، تا کہ وہ ایک مقامی کہنہ مشق شاعر، کامل کراروی کو دِکھا کر اُن کی رائے لیں۔ کامل صاحب نے اِسے نئے سرے سے، روایتی انداز میں لکھ کر واپس بھجوا دیا۔ میرے نزدیک غزل کا ستیاناس ہوچکا تھا، میں نے اُسے پھاڑ کر پھینک دیا، اور کبھی کسی سے اصلاح نہیں لی۔''
برطانیہ میں قیام کے زمانے میں تخلیقی سلسلہ صحیح معنوں میں شروع ہوا۔ افتخار عارف، ساقی فاروقی، فارغ بخاری، شہرت بخاری، اکبر حیدرآبادی اور عاشور کاظمی سے ملاقاتیں رہیں۔ پاکستان بھی آنا جانا رہتا۔ مشفق خواجہ، پروفیسر سحر انصاری، ڈاکٹر ظفر اقبال، مظہر جمیل، سلیم یزادنی، مبین مرزا، رضی مجتبیٰ، مسلم شمیم، ڈاکٹر ہلال نقوی، علی حیدر ملک، صبا اکرام، پروفیسر حسن سجاد اور آغا مسعود حسین سے ادبی رابطے رہے۔ مشفق خواجہ مرحوم سے ملاقاتیں یادوں کا قیمتی سرمایہ ہیں۔
برطانیہ ہی کے زمانے میں شعری مجموعے شایع ہوئے۔ پھر تحقیق و تراجم میں دل چسپی پیدا ہوئی۔ نوبیل انعام یافتگان کو موضوع بنایا۔ وہ ناول اردو کے قالب میں ڈھالے، جن کی عالمی سطح پر پزیرائی ہوئی۔ کہتے ہیں،''اب میری توجہ تحقیق اور تراجم پر مرکوز ہے، شاعری کم ہی ہوتی ہے۔ میرا مقصد عالمی ادب کے تراجم پیش کرنا ہے۔ محمد حسن عسکری، محمد سلیم الرحمان، شاہد حمید، محمد عمر میمن اور دیگر افراد اِس شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ خواہش مند ہوں کہ قارئین کو اُن تخلیق کاروں سے آشنا کرائوں، جو تاحال اُن کے لیے اجنبی ہیں۔''
گو خود اُن کی شاعری کم ہوگئی ہے، البتہ اِس کے مستقبل سے ناامید نہیں۔ کہتے ہیں، ''دیکھیے، ہر دور میں اچھے شعر کہنے والے کم ہی ہوتے ہیں۔ آج بھی یہی معاملہ ہے۔ اس پر مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ نوجوان شاعر سامنے آرہے ہیں، وقت کے ساتھ اُن میں پختگی آئے گی۔''
باقر صاحب نے سائنسی موضوعات پر بھی قلم اٹھایا۔ 2001 میں شایع ہونے والی کتاب ''خلیے کی دنیا'' منفرد کاوش تھی، جس میں جینیٹکس اور کلوننگ کو موضوع بنایا۔ پھر برقیات کے موضوع کی جانب متوجہ ہوئے۔ کمپیوٹر سے متعلق تحقیق کی، جسے 2004 میں ''برقیات'' کے زیرعنوان مقتدرہ قومی زبان نے شایع کیا ۔ اِسی دوران مصنوعی ذہانت کے مضمون میں دل چسپی پیدا ہوئی۔ اگلے برس اپنے خیالات اور کچھ تراجم کو کتاب میں سمو چکے تھے، جس کے دیباچے میں شمس الرحمان فاروقی نے لکھا تھا: ''اب جو کتاب آپ کے ہاتھ میں ہے، ایسے موضوع پر ہے، جس پر اُردو تو کیا، انگریزی میں بھی بہت کم لکھا گیا ہے!''
تخلیقی سفر میں افسانے بھی لکھے، جنھیں اکٹھا کرکے 2012 میں ''آٹھواں رنگ'' کے زیرعنوان کتابی شکل دی گئی۔ جرمن ادیبہ، ہرٹا میولر کے ناول Nadirs کا ''نشیبی سر زمین'' کے زیر عنوان ترجمہ کیا، جو مئی 2012 میں شایع ہوا۔ نوبیل انعام کی وصولی کے وقت پڑھے جانے والے ہرٹا میولر کے خطبے نے اُنھیں اِس ناول پر کام کرنے پر اُکسایا تھا۔ نوبیل انعام یافتہ جرمن ادیب، گنٹر گراس کے مشہور زمانہ ناول The Tin Drum کو ''نقارہ'' کے عنوان سے اردو کے قالب میں ڈھال چکے ہیں، جو آٹھ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ مستقبل کے منصوبوں کے سوال پر کہتے ہیں،''جب کام پایۂ تکمیل تک پہنچ جائے، تب ہی بات کی جانی چاہیے!''
کیا اردو میں اِس پائے کا کوئی ادیب یا شاعر گزرا ہے، جسے نوبیل انعام سے نوازا جانا چاہیے تھا؟ اِس سوال کا جواب باقر صاحب اثبات میں دیتے ہیں۔ اُن کے نزدیک علامہ اقبال، قرۃ العین اور فیض کو اِس ایوارڈ سے نوازا جانا چاہیے تھا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ سبب وہ یوں بیان کرتے ہیں،''بلاشبہہ اُن کا تخلیقی کام نوبیل انعام کے درجے کا تھا، مگر اُن کی تخلیقات کا صحیح طرح ترجمہ نہیں ہوا، جس کی وجہ سے بین الاقوامی دنیا اُن سے متعلق لاعلم ہے۔'' وہ عبدالستار ایدھی کو بھی امن کے نوبیل انعام کا حق دار سمجھتے ہیں۔ کہنا ہے، اُن کا کام مدر ٹریسا سے زیادہ وسیع ہے، اُنھیں ہر صورت اِس ایوارڈ سے نوازا جانا چاہیے۔
خوش مزاج باقر نقوی کی زندگی میں کئی دُکھ بھرے لمحے آئے۔ والد کی علالت کے زمانے میں حصول ملازمت کی کوششوں کے دوران محکمۂ ڈاک کے ایک معمولی درجے کے افسر کے دُرشت رویے نے ایسے ہی ایک تلخ لمحے کو جنم دیا تھا، جس نے اُنھیں اندر تک کاٹ ڈالا تھا۔
مثبت سوچ کے حامل ہیں، مگر ملکی حالات پریشان رکھتے ہیں۔ اُن کے مطابق انسان کی عزت اُس کے کردار سے ہوتی ہے، جیب میںموجود رقم سے نہیں۔ ''پیسے سے کبھی عزت نہیں ملتی۔ اگر ایسا ہوتا، تو پاکستان کے سارے پیسے والے باعزت ہوتے۔'' خوش لباس آدمی ہیں۔ سوٹ میں خود کو آرام دہ محسوس کرتے ہیں۔ والدہ کے ہاتھ کے پسندے من پسند ڈش تھی۔ گرمی کا موسم متحرک رکھتا ہے۔ فلمیں دیکھتے ہیں۔ حالیہ فلموں میں امیتابھ بچن کی فلم ''چینی کم'' اچھی لگی۔ نصیر الدین شاہ اور رانی مکھرجی کی فنی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ محمد رفیع، مہدی حسن اور نورجہاں کی آواز بھاتی ہے۔ Maxwell Maltz کی تحریر کردہ کتاب Psycho-Cybernetics نے زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے، جو السر سے جُوجھتے ہوئے پڑھی۔ کئی دوستوں کو یہ کتاب تحفتاً دے چکے ہیں۔ نوجوانوں کو اِس کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ شاعری میں ناصر کاظمی، مصطفیٰ زیدی، عرفان صدیقی، اخترحسین جعفری، عزیز حامد مدنی، سلیم احمد، رسا چغتائی، افتخار عارف کے مداح ہیں۔ فکشن میں منٹو، قرۃالعین، عزیز احمد، انتظار حسین، اسد محمد خان، نیّر مسعود کا نام لیتے ہیں۔ 69ء میں شادی ہوئی۔ خدا نے چار بیٹوں سے نوازا۔ دو صاحب زادوں کی شادی ہوچکی ہے۔ بچوں سے دوستانہ روابط ہیں۔ ادبی اور پیشہ ورانہ سفر میں گھر والوں کا بھرپور ساتھ حاصل رہا۔
شعری سفر : ''تازہ ہوا'' سے ''دامن'' تک
باقر نقوی کا پہلا شعری مجموعہ ''تازہ ہوا'' 88ء میں، برطانیہ سے شایع ہوا۔ قارئین اور ناقدین دونوں ہی کا ردعمل مثبت رہا۔ لاس اینجلس میں فعال ایک تنظیم ''اردو مرکز'' کی جانب سے اِسے ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ مجموعے کو ہندی کے قالب میں بھی ڈھالا گیا، جو الہ آباد سے شایع ہوا۔ 89ء میں دوسرا مجموعہ ''مٹھی بھر تارے'' منظرعام پر آیا۔ تیسرا مجموعہ ''موتی موتی رنگ'' لاہور سے 94ء میں شایع ہوا۔ 2003 میں ''دامن'' کے زیر عنوان اُن کی کلیات شایع ہوئی، جس میں اُن کا چوتھا مجموعہ ''بہتے پانی کی آواز'' بھی شامل تھا۔ اُن کا شعری انتخاب ہندی زبان میں بھی مرتب ہوچکا ہے۔
ہمارے ہاں ادارے افراد کا، اور افراد اداروں کا کام کر رہے ہیں!
باقر صاحب یقین رکھتے ہیں کہ اچھی کتاب ادیب کو زندہ رکھتی ہے۔ ادبی رویوں کے تعلق سے کہتے ہیں، ہمارے ہاں پذیرائی کے معاملے میں تھوڑی کنجوسی برتی جاتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ اپنے ادب کو بین الاقوامی دنیا میں متعارف کروانا اداروں کی ذمے داری ہے، مگر بدقسمتی سے یہاں ادارے افراد کا، اور افراد اداروں کا کام کر رہے ہیں۔ ''یہ ایک المیہ ہے۔ جو کام میں نے کیا ہے، حقیقتاً یہ بھی اداروں کے کرنے کا کام تھا۔''
''الفریڈ نوبیل''، ''نوبیل ادبیات'' اور ''نوبیل امن کے سو برس''
تخلیقی سفر میں اُس وقت نیا موڑ آیا، جب اُنھوں نے الفریڈ نوبیل کی شخصیت اور خدمات پر قلم اٹھایا۔ سویڈن سے تعلق رکھنے والے اِس کیمیاداں سے موسوم نوبیل پرائز کی شہرت نے اِس منصوبے کی جانب متوجہ کیا۔ 92ء میں کام شروع کیا، 99ء میں یہ کتاب ''الفریڈ نوبیل'' کے عنوان سے، اردو سائنس بورڈ کے تحت شایع ہوئی۔ ناقدین اِسے الفریڈ نوبیل کی زندگی پر، اردو میں تحریر کردہ پہلی جامع کتاب قرار دیتے ہیں۔
اِس کتاب کی اشاعت کے بعد وہ بیسویںصدی میں ادب کا نوبیل انعام حاصل کرنے والی شخصیات کے حالاتِ زیست مرتب کرنے میں جُٹ گئے۔ ابتدا میں فقط انعام یافتگان کی زندگی کا احاطہ کرنے کا ارادہ تھا، مگر پھر 1909 میں نوبیل انعام کی حق دار ٹھہرائی جانے والی سلما لاگرلوف کا خطبہ پڑھنے کا اتفاق ہوا، جس نے اتنا متاثر کیا کہ اُنھوں نے انعام یافتگان کے، انعام کی وصولی کے سمے پڑھے جانے والے خطبات کے تراجم بھی کتاب میں شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اِس فیصلے نے کام کئی گنا بڑھا دیا، مگر وہ بھی دھن کے پکے تھے۔ منصوبے کی تکمیل میں پانچ برس لگے۔ اِس دوران وقفے بھی آئے۔
پونے آٹھ سو صفحات پر مشتمل یہ اہم ترین کتاب 2009 میں منظر عام پر آئی۔ یہ اردو میں، اپنی نوعیت کا پہلا کام تھا۔ قارئین اور ناقدین، دنوں ہی نے اِس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ پہلا ایڈیشن جلد ہی ختم ہوگیا۔ اگلے ہی برس دوسرا ایڈیشن لانا پڑا۔ سہ ماہی اجرا، کراچی کی جانب سے، اِس کتاب کے لیے اُنھیں ایکسیلنس ایوارڈ کا حق دار ٹھہرایا گیا۔ ایک نجی بینک اور مؤقر میڈیا گروپ کے اشتراک سے شروع ہونے والا ایوارڈ بھی حصے میں آیا۔ اِس کتاب کی اشاعت اور پزیرائی سے ان کی خوش گوار یادیں وابستہ ہیں۔
''نوبیل ادبیات'' پر کام ختم کرنے سے پہلے ہی امن کا نوبیل انعام حاصل کرنے والی شخصیات اور اُن کے خطبات پرکام شروع کر دیا تھا۔ اِس بار انعام یافتگان کے پورے Citation کا ترجمہ پیش کیا۔ ''نوبیل امن کے سو برس'' ایک وقیع کام ہے۔ گیارہ سو سے زاید صفحات پر پھیلی یہ کتاب اُن کی شب و روز کی محنت کی داستان ہے۔ اِسے بھی مختلف، ملکی و غیرملکی، ادبی تنظیموں کی جانب سے ادبی ایوارڈ کا حق دار ٹھہرایا گیا۔
فزیالوجی اور میڈیسن کے میدان میں نوبیل انعام سے نوازنے جانے والی شخصیات پر بھی کام کیا۔ یہ کتاب ''نوبیل حیاتیات'' کے عنوان سے شایع ہو چکی ہے۔
باقرنقوی ایک ہمہ جہت قلم کار ہیں۔ اُن کا شمار سنجیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ چار مجموعے منظرعام پر آچکے ہیں، مگر شاعری اکلوتا حوالہ نہیں۔ تحقیق و تراجم کے میدان میں بھی اُنھوں نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ قارئین ادب کو نوبیل انعام یافتگان کے حالات و خیالات سے روشناس کروانا اُن کا کلیدی کارنامہ ہے۔ ''نوبیل ادبیات'' سے اِس سلسلے کا آغاز ہوا، جس نے پاک و ہند کے علمی و ادبی حلقوں سے خوب داد بٹوری۔ پھر امن اور حیاتیات کے شعبے میں نوبیل حاصل کرنے والوں پر قلم اٹھایا۔ اُن کی کُتب اعزازات کی حق دار ٹھہریں۔ ناقدین نے اُنھیں وقیع، منفرد اور فکر انگیز کاوش قرار دیا۔ باقر صاحب کی شخصیت اور فن ایم فل کے دو مقالات کا موضوع بن چکا ہے۔ ادب کے ساتھ پیشہ ورانہ سفر میں بھی کار ہائے نمایاں انجام دیے۔ چارٹرڈ انشورر کی حیثیت سے وہ اِس میدان میں منفرد مقام کے حامل ہیں۔
چار بھائی، دو بہنوں میں بڑے، سید محمد باقر نقوی نے 1936 میں محلہ چک، الہ آباد، اترپردیش میں آنکھ کھولی۔ شہر سے سات میل کے فاصلے پر واقع، تحصیل سورام کے گائوں ککرا کے اطراف خاندان کی زرعی زمین تھی۔ چھٹیاں وہیں گزرتیں۔ یوں تو والد، اختر حسین نقوی زمیں دار تھے، البتہ کچھ عرصہ اُنھوں نے، مستقبل میں ہندوستان کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے والے، وی پی سنگھ کے رجواڑے میں مینیجر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ ماضی کھوجتے ہوئے کہتے ہیں،''والد انتہائی شفیق انسان تھے۔ کبھی سزا کی نوبت نہیں آئی۔ اُن کا گھورنا ہی ہمارے لیے کافی تھا۔'' نہ شرارتی تھے، نہ کم گو۔ شمار معتدل مزاج بچوں میں ہوتا۔ ابتدائی تعلیم الہ آباد سے حاصل کی۔ اوائل عمری میں تھوڑی بہت کرکٹ کھیلی، بعد میں تو موقع ہی نہیں ملا۔
بٹوارے کے سمے اُن کے والد نے ہندوستان میں ٹھہرنے کا فیصلہ کیا، مگر دو برس بعد صورت حال اتنی بگڑ گئی کہ وہ ہجرت پر مجبور ہوگئے۔ ہجرت کا ایک سبب جاگیرداری کا خاتمہ تھا، اور دوسرا شہر کے دگرگوں حالات۔ فضائوں میں کشیدگی تیرتی تھی۔ چُوں کہ چچا کراچی آچکے تھے، سو اِسی شہر کا رخ کیا، جہاں معاشی مسائل منتظر تھے۔ پیرالٰہی بخش کالونی میں ڈیرا ڈالنے کے بعد پس انداز کی ہوئی رقم دھیرے دھیرے ختم ہونے لگی۔ مشکلات کے اُن ہی دنوں میں یہ کرب ناک انکشاف ہوا کہ والد کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں۔ 55ء کی ابتدا میں اخترحسین نقوی زندگی کی بازی ہار گئے۔ اِس سانحے نے باقر نقوی کی دنیا ہی بدل دی۔ ایک جانب باپ سے جدائی کا دُکھ، دوسری جانب گھربار کی ذمے داری۔ یوں جدوجہد کا سفر شروع ہوا۔ وہ کلرک ٹائپسٹ کی حیثیت سے ایک انشورنس کمپنی سے 110 روپے ماہ وار پر منسلک تھے، مگر جب آٹھ کھانے والے ہوں، اور ایک کمانے والا، تو 110 روپے میں کہاں گزارہ ہوتا تھا۔ پارٹ ٹائم ملازمتیں بھی کرنے لگے کہ وقت اِسی کا متقاضی تھا۔ صبح گھر کی دہلیز عبور کرتے، رات ڈھلے لوٹتے۔ کہتے ہیں،''کھیلنے کودنے کی فرصت ہی کہاں تھی، جوانی مسائل کا مقابلہ کرتے گزر گئی۔ میں رات کے دس بجے تک، ایک ساتھ چار چار ملازمتیں کیا کرتا تھا۔''
60ء میں ''امریکن لائف انشورنس'' کا حصہ بن گئے۔ اُسی زمانے میں یہ خیال ذہن میں جڑ پکڑنے لگا کہ اگر تعلیم حاصل کرنی ہے، تو انشورنس ہی سے متعلق کی جائے۔ چارٹرڈ انشورنس انسٹی ٹیوٹ ، لندن اِس مضمون کی اعلیٰ ترین تعلیم فراہم کرتا تھا۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اس کا امتحان منعقد ہوتا۔ اِس کی ابتدا کرنے کے لیے میٹرک شرط تھی۔ اُس وقت تک، حالات کی کٹھنائیوں کے باوجود وہ پنجاب بورڈ سے، پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے میٹرک کا مرحلہ طے کر چکے تھے۔ انگریزی بھی اچھی تھی، سو امتحان میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ دس پرچوں پر مشتمل یہ امتحان تین برس میں پاس کیا۔ جُوں جُوں پرچے پاس کرتے گئے، تن خواہ میں اضافہ ہوتا گیا۔ ''چارٹرڈ انشورر'' کی ڈگری کے قریب پہنچنے کے باوجود مطمئن نہیں بیٹھے، سوئس انشورنس ٹریننگ سینٹر، زیورخ میں بھی داخلے کی درخواست ارسال کر دی۔
داخلہ ہوگیا، لیکن ایک مسئلہ تھا۔ تعلیمی اخراجات تو سوئس ادارہ اٹھانے کو تیار تھا، مگر سفر اور قیام و طعام کا انتظام خود ہی کرنا تھا۔ جمع پونجی سے اُنھوں نے، مکان بنانے کے خاطر ایک پلاٹ خریدا تھا۔ بس، اُسے چھے ہزار روپے میں فروخت کیا، اور 64ء میں زیورخ جانے والی فلائٹ میں سوار ہوگئے۔ وہاں پانچ ماہ گزارے۔ کورس کے اختتام پر لندن جانا ہوا، جہاں چھوٹی بہن مقیم تھیں۔ ڈھائی ماہ وہاں بیتے۔ کئی اداروں کی جانب سے ملازمت کی پیش کش ہوئی، لیکن جذبۂ حب الوطنی اور گھر والوں کی ذمے داری اُنھیں پاکستان کھینچ لائی۔ دوبارہ ''امریکن لائف انشورنس'' میں ذمے داری سنبھالی۔ 65ء کی جنگ کے فوراً بعد کچھ عرصہ مشرقی پاکستان میں گزرا۔ پھر ''مسلم انشورنس'' کا حصہ بن گئے، جس کے افسر کی حیثیت سے70 ء میں ایک بار پھر ڈھاکا کا رخ کیا، جس کی فضائوں میں کشیدگی منجمد تھی، جس نے جلد ہی انارکی کی شکل اختیار کر لی۔ کسی نہ کسی طرح جان بچا کر لوٹے۔ چند ہفتوں بعد ہی سقوط ڈھاکا کا سانحہ پیش آگیا۔
نیشنلائزیشن کے بعد تمام انشورنس کمپنیاں حکومتِ پاکستان کی تحویل میں آگئیں، جنھیں چلانے کے لیے ملک بھر سے 33 افراد کا انتخاب کیا گیا۔ باقر صاحب اُس فہرست میں شامل تھے۔ وفاقی حکومت نے اُنھیں ''کریسنٹ اسٹار انشورنس کمپنی'' کا ٹرسٹی مقرر کردیا۔ چھے ماہ بعد ''اسٹیٹ لائف'' کی ترتیب مکمل ہوئی، تو اُس میں ذمے داریاں سنبھالیں، اور کچھ ہی عرصے بعد اوورسیز ڈویژن کے اِن چارج ہوگئے۔ تین برس بعد اسٹیٹ لائف نے برطانیہ میں شاخ کھولی، تو اُس کے مینیجر کی حیثیت سے باقر صاحب کا 75ء میں برطانیہ تبادلہ ہوگیا۔ 76ء میں وہ ایک برطانوی کمپنی ''سی سی آئی انشورنس'' کا حصہ بن گئے۔ لندن ہی کو مسکن بنا لیا۔ اٹھارہ برس اُس ادارے میں ذمے داریاں نبھائیں۔ 93ء میں کچھ نیا کرنے کی خواہش پاکستان لے آئی۔ ''ای ایف یو لائف انشورنس'' سے بہ طور ڈپٹی جنرل مینیجر منسلک ہوگئے۔ ادارے کی بنیاد گزاری اور استحکام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اُن کے ادارے نے ایک یورپی کمپنی Allianz کے ساتھ ہیلتھ انشورنس کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ 2004 میں اُس کی کلّی ذمے داری باقر صاحب کو سونپ دی گئی۔ پانچ برس وہ اُس کے ''سی ای او'' رہے۔ 2009 سے سینئر ایڈوائزر کی حیثیت سے ''ای ایف یو لائف'' میں ذمے داریاں نبھا رہے ہیں۔
مطالعاتی سفر کا آغاز اوائل عمری ہی میں ہوگیا تھا، جس نے شعری ذوق پیدا کیا، مگر خاندانی مشکلات اور ملازمتوں کے جھمیلوں کے باعث اِس جانب دھیان دینا ذرا دشوار تھا۔ معاشی مسائل سے جان چُھوٹی، تو ادب کی جانب متوجہ ہوئے۔ 69ء میں غالب کی صدسالہ برسی منائی جارہی تھی، اِس سرگرمی نے مطالعے کی جوت جگائی۔ میر، غالب، انیس، اکبر، نظیر کو پڑھا۔ ناصر کاظمی، مصطفیٰ زیدی، عزیز حامد مدنی، جمیل الدین عالی کی شاعری سے حظ اٹھایا۔ شعر کہنے لگے۔ غزل منتخب کردہ صنف تھی۔ رجحان ترقی پسند فکر کی جانب تھا۔ تخلیقات اخبارات و رسائل میں چھپنے لگیں۔ البتہ مشاعروں سے دُور رہے۔ اُس وقت انجم تخلص کیا کرتے تھے، بعد میں اپنا ہی نام برتنے لگے۔ ادبی حلقوں میں زیادہ اٹھنا بیٹھنا نہیں رہا، البتہ جمیل الدین عالی، سرشار صدیقی اور رحمان کیانی سے ملاقاتیں رہیں۔
باقر صاحب نے کسی سے اصلاح نہیں لی۔ کیوں؟ اِس سوال کا جواب اِن الفاظ میں دیتے ہیں،''یہ ابتدائی زمانے کی بات ہے۔ میں نے ایک غزل ہندوستان میں مقیم اپنے ماموں، علی صفدر صاحب کو بھیجی، تا کہ وہ ایک مقامی کہنہ مشق شاعر، کامل کراروی کو دِکھا کر اُن کی رائے لیں۔ کامل صاحب نے اِسے نئے سرے سے، روایتی انداز میں لکھ کر واپس بھجوا دیا۔ میرے نزدیک غزل کا ستیاناس ہوچکا تھا، میں نے اُسے پھاڑ کر پھینک دیا، اور کبھی کسی سے اصلاح نہیں لی۔''
برطانیہ میں قیام کے زمانے میں تخلیقی سلسلہ صحیح معنوں میں شروع ہوا۔ افتخار عارف، ساقی فاروقی، فارغ بخاری، شہرت بخاری، اکبر حیدرآبادی اور عاشور کاظمی سے ملاقاتیں رہیں۔ پاکستان بھی آنا جانا رہتا۔ مشفق خواجہ، پروفیسر سحر انصاری، ڈاکٹر ظفر اقبال، مظہر جمیل، سلیم یزادنی، مبین مرزا، رضی مجتبیٰ، مسلم شمیم، ڈاکٹر ہلال نقوی، علی حیدر ملک، صبا اکرام، پروفیسر حسن سجاد اور آغا مسعود حسین سے ادبی رابطے رہے۔ مشفق خواجہ مرحوم سے ملاقاتیں یادوں کا قیمتی سرمایہ ہیں۔
برطانیہ ہی کے زمانے میں شعری مجموعے شایع ہوئے۔ پھر تحقیق و تراجم میں دل چسپی پیدا ہوئی۔ نوبیل انعام یافتگان کو موضوع بنایا۔ وہ ناول اردو کے قالب میں ڈھالے، جن کی عالمی سطح پر پزیرائی ہوئی۔ کہتے ہیں،''اب میری توجہ تحقیق اور تراجم پر مرکوز ہے، شاعری کم ہی ہوتی ہے۔ میرا مقصد عالمی ادب کے تراجم پیش کرنا ہے۔ محمد حسن عسکری، محمد سلیم الرحمان، شاہد حمید، محمد عمر میمن اور دیگر افراد اِس شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ خواہش مند ہوں کہ قارئین کو اُن تخلیق کاروں سے آشنا کرائوں، جو تاحال اُن کے لیے اجنبی ہیں۔''
گو خود اُن کی شاعری کم ہوگئی ہے، البتہ اِس کے مستقبل سے ناامید نہیں۔ کہتے ہیں، ''دیکھیے، ہر دور میں اچھے شعر کہنے والے کم ہی ہوتے ہیں۔ آج بھی یہی معاملہ ہے۔ اس پر مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ نوجوان شاعر سامنے آرہے ہیں، وقت کے ساتھ اُن میں پختگی آئے گی۔''
باقر صاحب نے سائنسی موضوعات پر بھی قلم اٹھایا۔ 2001 میں شایع ہونے والی کتاب ''خلیے کی دنیا'' منفرد کاوش تھی، جس میں جینیٹکس اور کلوننگ کو موضوع بنایا۔ پھر برقیات کے موضوع کی جانب متوجہ ہوئے۔ کمپیوٹر سے متعلق تحقیق کی، جسے 2004 میں ''برقیات'' کے زیرعنوان مقتدرہ قومی زبان نے شایع کیا ۔ اِسی دوران مصنوعی ذہانت کے مضمون میں دل چسپی پیدا ہوئی۔ اگلے برس اپنے خیالات اور کچھ تراجم کو کتاب میں سمو چکے تھے، جس کے دیباچے میں شمس الرحمان فاروقی نے لکھا تھا: ''اب جو کتاب آپ کے ہاتھ میں ہے، ایسے موضوع پر ہے، جس پر اُردو تو کیا، انگریزی میں بھی بہت کم لکھا گیا ہے!''
تخلیقی سفر میں افسانے بھی لکھے، جنھیں اکٹھا کرکے 2012 میں ''آٹھواں رنگ'' کے زیرعنوان کتابی شکل دی گئی۔ جرمن ادیبہ، ہرٹا میولر کے ناول Nadirs کا ''نشیبی سر زمین'' کے زیر عنوان ترجمہ کیا، جو مئی 2012 میں شایع ہوا۔ نوبیل انعام کی وصولی کے وقت پڑھے جانے والے ہرٹا میولر کے خطبے نے اُنھیں اِس ناول پر کام کرنے پر اُکسایا تھا۔ نوبیل انعام یافتہ جرمن ادیب، گنٹر گراس کے مشہور زمانہ ناول The Tin Drum کو ''نقارہ'' کے عنوان سے اردو کے قالب میں ڈھال چکے ہیں، جو آٹھ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ مستقبل کے منصوبوں کے سوال پر کہتے ہیں،''جب کام پایۂ تکمیل تک پہنچ جائے، تب ہی بات کی جانی چاہیے!''
کیا اردو میں اِس پائے کا کوئی ادیب یا شاعر گزرا ہے، جسے نوبیل انعام سے نوازا جانا چاہیے تھا؟ اِس سوال کا جواب باقر صاحب اثبات میں دیتے ہیں۔ اُن کے نزدیک علامہ اقبال، قرۃ العین اور فیض کو اِس ایوارڈ سے نوازا جانا چاہیے تھا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ سبب وہ یوں بیان کرتے ہیں،''بلاشبہہ اُن کا تخلیقی کام نوبیل انعام کے درجے کا تھا، مگر اُن کی تخلیقات کا صحیح طرح ترجمہ نہیں ہوا، جس کی وجہ سے بین الاقوامی دنیا اُن سے متعلق لاعلم ہے۔'' وہ عبدالستار ایدھی کو بھی امن کے نوبیل انعام کا حق دار سمجھتے ہیں۔ کہنا ہے، اُن کا کام مدر ٹریسا سے زیادہ وسیع ہے، اُنھیں ہر صورت اِس ایوارڈ سے نوازا جانا چاہیے۔
خوش مزاج باقر نقوی کی زندگی میں کئی دُکھ بھرے لمحے آئے۔ والد کی علالت کے زمانے میں حصول ملازمت کی کوششوں کے دوران محکمۂ ڈاک کے ایک معمولی درجے کے افسر کے دُرشت رویے نے ایسے ہی ایک تلخ لمحے کو جنم دیا تھا، جس نے اُنھیں اندر تک کاٹ ڈالا تھا۔
مثبت سوچ کے حامل ہیں، مگر ملکی حالات پریشان رکھتے ہیں۔ اُن کے مطابق انسان کی عزت اُس کے کردار سے ہوتی ہے، جیب میںموجود رقم سے نہیں۔ ''پیسے سے کبھی عزت نہیں ملتی۔ اگر ایسا ہوتا، تو پاکستان کے سارے پیسے والے باعزت ہوتے۔'' خوش لباس آدمی ہیں۔ سوٹ میں خود کو آرام دہ محسوس کرتے ہیں۔ والدہ کے ہاتھ کے پسندے من پسند ڈش تھی۔ گرمی کا موسم متحرک رکھتا ہے۔ فلمیں دیکھتے ہیں۔ حالیہ فلموں میں امیتابھ بچن کی فلم ''چینی کم'' اچھی لگی۔ نصیر الدین شاہ اور رانی مکھرجی کی فنی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ محمد رفیع، مہدی حسن اور نورجہاں کی آواز بھاتی ہے۔ Maxwell Maltz کی تحریر کردہ کتاب Psycho-Cybernetics نے زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے، جو السر سے جُوجھتے ہوئے پڑھی۔ کئی دوستوں کو یہ کتاب تحفتاً دے چکے ہیں۔ نوجوانوں کو اِس کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ شاعری میں ناصر کاظمی، مصطفیٰ زیدی، عرفان صدیقی، اخترحسین جعفری، عزیز حامد مدنی، سلیم احمد، رسا چغتائی، افتخار عارف کے مداح ہیں۔ فکشن میں منٹو، قرۃالعین، عزیز احمد، انتظار حسین، اسد محمد خان، نیّر مسعود کا نام لیتے ہیں۔ 69ء میں شادی ہوئی۔ خدا نے چار بیٹوں سے نوازا۔ دو صاحب زادوں کی شادی ہوچکی ہے۔ بچوں سے دوستانہ روابط ہیں۔ ادبی اور پیشہ ورانہ سفر میں گھر والوں کا بھرپور ساتھ حاصل رہا۔
شعری سفر : ''تازہ ہوا'' سے ''دامن'' تک
باقر نقوی کا پہلا شعری مجموعہ ''تازہ ہوا'' 88ء میں، برطانیہ سے شایع ہوا۔ قارئین اور ناقدین دونوں ہی کا ردعمل مثبت رہا۔ لاس اینجلس میں فعال ایک تنظیم ''اردو مرکز'' کی جانب سے اِسے ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ مجموعے کو ہندی کے قالب میں بھی ڈھالا گیا، جو الہ آباد سے شایع ہوا۔ 89ء میں دوسرا مجموعہ ''مٹھی بھر تارے'' منظرعام پر آیا۔ تیسرا مجموعہ ''موتی موتی رنگ'' لاہور سے 94ء میں شایع ہوا۔ 2003 میں ''دامن'' کے زیر عنوان اُن کی کلیات شایع ہوئی، جس میں اُن کا چوتھا مجموعہ ''بہتے پانی کی آواز'' بھی شامل تھا۔ اُن کا شعری انتخاب ہندی زبان میں بھی مرتب ہوچکا ہے۔
ہمارے ہاں ادارے افراد کا، اور افراد اداروں کا کام کر رہے ہیں!
باقر صاحب یقین رکھتے ہیں کہ اچھی کتاب ادیب کو زندہ رکھتی ہے۔ ادبی رویوں کے تعلق سے کہتے ہیں، ہمارے ہاں پذیرائی کے معاملے میں تھوڑی کنجوسی برتی جاتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ اپنے ادب کو بین الاقوامی دنیا میں متعارف کروانا اداروں کی ذمے داری ہے، مگر بدقسمتی سے یہاں ادارے افراد کا، اور افراد اداروں کا کام کر رہے ہیں۔ ''یہ ایک المیہ ہے۔ جو کام میں نے کیا ہے، حقیقتاً یہ بھی اداروں کے کرنے کا کام تھا۔''
''الفریڈ نوبیل''، ''نوبیل ادبیات'' اور ''نوبیل امن کے سو برس''
تخلیقی سفر میں اُس وقت نیا موڑ آیا، جب اُنھوں نے الفریڈ نوبیل کی شخصیت اور خدمات پر قلم اٹھایا۔ سویڈن سے تعلق رکھنے والے اِس کیمیاداں سے موسوم نوبیل پرائز کی شہرت نے اِس منصوبے کی جانب متوجہ کیا۔ 92ء میں کام شروع کیا، 99ء میں یہ کتاب ''الفریڈ نوبیل'' کے عنوان سے، اردو سائنس بورڈ کے تحت شایع ہوئی۔ ناقدین اِسے الفریڈ نوبیل کی زندگی پر، اردو میں تحریر کردہ پہلی جامع کتاب قرار دیتے ہیں۔
اِس کتاب کی اشاعت کے بعد وہ بیسویںصدی میں ادب کا نوبیل انعام حاصل کرنے والی شخصیات کے حالاتِ زیست مرتب کرنے میں جُٹ گئے۔ ابتدا میں فقط انعام یافتگان کی زندگی کا احاطہ کرنے کا ارادہ تھا، مگر پھر 1909 میں نوبیل انعام کی حق دار ٹھہرائی جانے والی سلما لاگرلوف کا خطبہ پڑھنے کا اتفاق ہوا، جس نے اتنا متاثر کیا کہ اُنھوں نے انعام یافتگان کے، انعام کی وصولی کے سمے پڑھے جانے والے خطبات کے تراجم بھی کتاب میں شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اِس فیصلے نے کام کئی گنا بڑھا دیا، مگر وہ بھی دھن کے پکے تھے۔ منصوبے کی تکمیل میں پانچ برس لگے۔ اِس دوران وقفے بھی آئے۔
پونے آٹھ سو صفحات پر مشتمل یہ اہم ترین کتاب 2009 میں منظر عام پر آئی۔ یہ اردو میں، اپنی نوعیت کا پہلا کام تھا۔ قارئین اور ناقدین، دنوں ہی نے اِس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ پہلا ایڈیشن جلد ہی ختم ہوگیا۔ اگلے ہی برس دوسرا ایڈیشن لانا پڑا۔ سہ ماہی اجرا، کراچی کی جانب سے، اِس کتاب کے لیے اُنھیں ایکسیلنس ایوارڈ کا حق دار ٹھہرایا گیا۔ ایک نجی بینک اور مؤقر میڈیا گروپ کے اشتراک سے شروع ہونے والا ایوارڈ بھی حصے میں آیا۔ اِس کتاب کی اشاعت اور پزیرائی سے ان کی خوش گوار یادیں وابستہ ہیں۔
''نوبیل ادبیات'' پر کام ختم کرنے سے پہلے ہی امن کا نوبیل انعام حاصل کرنے والی شخصیات اور اُن کے خطبات پرکام شروع کر دیا تھا۔ اِس بار انعام یافتگان کے پورے Citation کا ترجمہ پیش کیا۔ ''نوبیل امن کے سو برس'' ایک وقیع کام ہے۔ گیارہ سو سے زاید صفحات پر پھیلی یہ کتاب اُن کی شب و روز کی محنت کی داستان ہے۔ اِسے بھی مختلف، ملکی و غیرملکی، ادبی تنظیموں کی جانب سے ادبی ایوارڈ کا حق دار ٹھہرایا گیا۔
فزیالوجی اور میڈیسن کے میدان میں نوبیل انعام سے نوازنے جانے والی شخصیات پر بھی کام کیا۔ یہ کتاب ''نوبیل حیاتیات'' کے عنوان سے شایع ہو چکی ہے۔