جھیل کا پانی چوری ہالیجی جھیل تباہی سے دوچار
بااثرافرادجھیل کاپانی چوری کرکے150مچھلیوں کے فارم اورچاول کی کاشتکاری کررہے ہیں
PESHAWAR/DI KHAN:
کراچی کے نزدیک واقع ہالیجی جھیل پانی کی قلت کے باعث گندے پانی کا جوہڑ بن گئی، بااثر شخصیات کی ملی بھگت سے پانی چوری کرکے 150سے زائد مچھلی کے تالابوں اور چاول کی کاشتکاری میں استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے ہالیجی جھیل کا ماحول تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا، موسم سرما میںجھیل پر آنے والے 222 اقسام کے ڈیڑھ لاکھ سے زائد سائبیریائی پرندوں کی تعداد کم ہوکر صرف5 ہزار رہ گئی۔
تفصیلات کے مطابق ہالیجی جھیل کراچی سے80 کلو میٹر دور قومی شاہراہ پر واقع ہے جسے دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی حکام نے محفوظ ذخیرہ آب کے طور پر تعمیر کیا تھا تازہ پانی کی عدم فراہمی نے عالمی سطح پر محفوظ قرار دی گئی اس جھیل کو تباہی سے دوچار کردیا ہے 70 کی دہائی میں پاکستان کی جن 9 اولین آب گاہوں کو رامسر کنونشن کے تحت محفوظ آب گاہ کا عالمی درجہ دے کر ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کا وعدہ پاکستان نے معاہدہ کرکے کیا تھا ہالیجی جھیل ان میں سے ایک ہے ہالیجی جھیل کا سب سے بڑا مسئلہ تازہ اور صاف پانی کی فراہمی ہے جب سے کراچی کو ہالیجی کے بجائے کینجھر جھیل سے براہ راست فراہمی آب کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے ۔
اس وقت سے ہالیجی جھیل میں تازہ پانی نہیں آرہا جس کے سبب آبی خوراک کم ہوئی اور پھر کئی سال پہلے پرندے یہاں سے چلے گئے صاف پانی کی عدم فراہمی سے جھیل رفتہ رفتہ خشک ہورہی ہے وہیں جھیل گندے پانی کا جوہڑ بن گئی ہے خودرو پودے اگنے لگے اور یوں جھیل کی حالت بگڑتی چلی گئی طویل عرصے سے جھیل میں تازہ پانی شامل نہیں ہورہا یا بہت کم مقدار میں شامل کیا جارہا ہے ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال کے پیشِ نظر اس بات کا خدشہ ہے کہ ہالیجی جھیل جلد یا بدیر قصہ پارینہ بن جائے گی ہالیجی جھیل کا ایکوسسٹم حکومت اور بااثر شخصیات کی لاپروائی کے باعث تباہ ہورہا ہے کراچی کے نزدیک واقع ہالیجی جھیل کو پرندوں کے شوقین افراد کی جنت کہا جاتا تھا لیکن حکومتی بے اعتنائی کی وجہ سے یہ اپنا حسن اور اہمیت کھو رہی ہے یہ جھیل سیاحوں کے لیے بہت کشش رکھتی تھی ہالیجی جھیل کا کل رقبہ 1704 ہیکٹر ہے جھیل کا ایکوسسٹم پانی کی فراہمی رکنے اور چوری ہونے کے سبب شدید خطرے سے دوچار ہے جھیل میں پانی کی سطح کم ہونے کے باعث جھیل میں موجود آبی حیات کا لائف سائیکل تباہ ہوگیا ہے۔
ہالیجی جھیل موسمِ سرما میں سائبیریا سے 222 اقسام کے ڈیڑھ لاکھ سے زائد پرندے آتے تھے جوکہ گرین روٹ نمبر 4 سے سفر کرکے پاکستان میں داخل ہوتے تھے اور ہالیجی جھیل پر عارضی بسیرا کرتے تھے لیکن اب ہالیجی جھیل کا ماحولیاتی توازن خراب ہونے سے سائبیریا سے آنے والے پرندوں کی تعداد کم ہوکر 5 ہزار رہ گئی ہے اس حوالے سے رام سر سائیٹ ہالیجی جھیل ویٹ لینڈ کی عالمی سطح پر اپنی اہمیت ہے ماضی میں ہالیجی جھیل کوکراچی کے لیے ایک آبی منبع جانا جاتا تھا یہ جھیل کراچی کو تازہ پانی کی وافر مقدار فراہم کرتی تھی 15سال قبل حکومت نے کینجھر جھیل کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور ہالیجی جھیل کو تازہ پانی کی سپلائی روک دی گئی اور یہ جھیل گندے پانی کا جوہڑ بن گئی، واضح رہے کہ پہلے دریائے سندھ سے پانی کینجھر جھیل میں آتا تھا جہاں جام برانچ کے ذریعے پانی ہالیجی جھیل میں جمع ہوتا تھا اور پھر وہاں سے پانی کراچی کو فراہم کیا جاتا تھا لیکن بعد میں ہالیجی جھیل سے فراہمی روک دی گئی چونکہ کینجھر جھیل پر 90 کی دہائی پر کراچی گچو کینال بنائی گئی پھر اس کینال کے ذریعے براہ راست پانی کراچی کو فراہم کیا جانے لگا جسکے بعد ہالیجی جھیل کو پانی کی فراہمی کے حوالے سے نظر انداز کیا جانے لگا۔
کراچی کے نزدیک واقع ہالیجی جھیل پانی کی قلت کے باعث گندے پانی کا جوہڑ بن گئی، بااثر شخصیات کی ملی بھگت سے پانی چوری کرکے 150سے زائد مچھلی کے تالابوں اور چاول کی کاشتکاری میں استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے ہالیجی جھیل کا ماحول تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا، موسم سرما میںجھیل پر آنے والے 222 اقسام کے ڈیڑھ لاکھ سے زائد سائبیریائی پرندوں کی تعداد کم ہوکر صرف5 ہزار رہ گئی۔
تفصیلات کے مطابق ہالیجی جھیل کراچی سے80 کلو میٹر دور قومی شاہراہ پر واقع ہے جسے دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی حکام نے محفوظ ذخیرہ آب کے طور پر تعمیر کیا تھا تازہ پانی کی عدم فراہمی نے عالمی سطح پر محفوظ قرار دی گئی اس جھیل کو تباہی سے دوچار کردیا ہے 70 کی دہائی میں پاکستان کی جن 9 اولین آب گاہوں کو رامسر کنونشن کے تحت محفوظ آب گاہ کا عالمی درجہ دے کر ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کا وعدہ پاکستان نے معاہدہ کرکے کیا تھا ہالیجی جھیل ان میں سے ایک ہے ہالیجی جھیل کا سب سے بڑا مسئلہ تازہ اور صاف پانی کی فراہمی ہے جب سے کراچی کو ہالیجی کے بجائے کینجھر جھیل سے براہ راست فراہمی آب کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے ۔
اس وقت سے ہالیجی جھیل میں تازہ پانی نہیں آرہا جس کے سبب آبی خوراک کم ہوئی اور پھر کئی سال پہلے پرندے یہاں سے چلے گئے صاف پانی کی عدم فراہمی سے جھیل رفتہ رفتہ خشک ہورہی ہے وہیں جھیل گندے پانی کا جوہڑ بن گئی ہے خودرو پودے اگنے لگے اور یوں جھیل کی حالت بگڑتی چلی گئی طویل عرصے سے جھیل میں تازہ پانی شامل نہیں ہورہا یا بہت کم مقدار میں شامل کیا جارہا ہے ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال کے پیشِ نظر اس بات کا خدشہ ہے کہ ہالیجی جھیل جلد یا بدیر قصہ پارینہ بن جائے گی ہالیجی جھیل کا ایکوسسٹم حکومت اور بااثر شخصیات کی لاپروائی کے باعث تباہ ہورہا ہے کراچی کے نزدیک واقع ہالیجی جھیل کو پرندوں کے شوقین افراد کی جنت کہا جاتا تھا لیکن حکومتی بے اعتنائی کی وجہ سے یہ اپنا حسن اور اہمیت کھو رہی ہے یہ جھیل سیاحوں کے لیے بہت کشش رکھتی تھی ہالیجی جھیل کا کل رقبہ 1704 ہیکٹر ہے جھیل کا ایکوسسٹم پانی کی فراہمی رکنے اور چوری ہونے کے سبب شدید خطرے سے دوچار ہے جھیل میں پانی کی سطح کم ہونے کے باعث جھیل میں موجود آبی حیات کا لائف سائیکل تباہ ہوگیا ہے۔
ہالیجی جھیل موسمِ سرما میں سائبیریا سے 222 اقسام کے ڈیڑھ لاکھ سے زائد پرندے آتے تھے جوکہ گرین روٹ نمبر 4 سے سفر کرکے پاکستان میں داخل ہوتے تھے اور ہالیجی جھیل پر عارضی بسیرا کرتے تھے لیکن اب ہالیجی جھیل کا ماحولیاتی توازن خراب ہونے سے سائبیریا سے آنے والے پرندوں کی تعداد کم ہوکر 5 ہزار رہ گئی ہے اس حوالے سے رام سر سائیٹ ہالیجی جھیل ویٹ لینڈ کی عالمی سطح پر اپنی اہمیت ہے ماضی میں ہالیجی جھیل کوکراچی کے لیے ایک آبی منبع جانا جاتا تھا یہ جھیل کراچی کو تازہ پانی کی وافر مقدار فراہم کرتی تھی 15سال قبل حکومت نے کینجھر جھیل کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور ہالیجی جھیل کو تازہ پانی کی سپلائی روک دی گئی اور یہ جھیل گندے پانی کا جوہڑ بن گئی، واضح رہے کہ پہلے دریائے سندھ سے پانی کینجھر جھیل میں آتا تھا جہاں جام برانچ کے ذریعے پانی ہالیجی جھیل میں جمع ہوتا تھا اور پھر وہاں سے پانی کراچی کو فراہم کیا جاتا تھا لیکن بعد میں ہالیجی جھیل سے فراہمی روک دی گئی چونکہ کینجھر جھیل پر 90 کی دہائی پر کراچی گچو کینال بنائی گئی پھر اس کینال کے ذریعے براہ راست پانی کراچی کو فراہم کیا جانے لگا جسکے بعد ہالیجی جھیل کو پانی کی فراہمی کے حوالے سے نظر انداز کیا جانے لگا۔