نااہلی کیس عمران خان بتائیں کہ لندن فلیٹس کی ادائیگیاں کیسے کیں سپریم کورٹ
عدالت اطمینان چاہتی ہے کہ لندن فلیٹ کا پیسا پاکستان سے تو نہیں گیا، چیف جسٹس
KARACHI:
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نااہلی کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ عمران خان لندن فلیٹس کی ملکیت تسلیم کرتے ہیں تو بتائیں کہ ادائیگیاں کیسے کی گئیں۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے عمران خان نااہلی کیس کی سماعت کی۔ عدالتی استفسارپرپی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے جواب پرجواب الجواب جمع کرادیا ہے، غیرملکی فنڈنگ سے متعلق نصف ریکارڈ موصول ہوگیا ہے، ریکارڈ موصول ہونے پر ایک ہفتے میں جمع کرادیا جائے گا، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ انور منصور کو جواب جمع کرانا تھا، ہمیں عدالتی حکم پر عملدرآمد سے غرض ہے، اگست میں کچھ ججز کو بیرون ممالک جانا ہے، ججز اپنی 10 ہفتوں کی چھٹیوں کو کم کرکے 2،2 ہفتوں کی چھٹیاں کررہے ہیں، چاہتے ہیں کہ مقدمہ جلد ختم ہو تاکہ دوسرے کیس بھی سن سکیں۔
سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل میں کہا کہ ان کی عمران خان اور انور منصور سے بات ہوئی ہے۔ انور منصور ہارٹ سرجری کے لئے اسپتال میں ہیں، وہ علاج کے بعد 27 جولائی تک واپس آسکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ عدالت نے کرکٹ آمدن سے متعلق آبزرویشن دی تھی، لندن فلیٹس کی کرکٹ آمدن سے خریداری پر کسی نے اعتراض نہیں اٹھایا۔
حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے نکتہ اٹھایا کہ عمران خان کے خلاف کیس فراڈ کا ہے، ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ عمران خان نے اٹھایا، نیازی سروسز نے نہیں، جس پر جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے موقف میں تضاد ہے، کبھی کہتے ہیں فلیٹ آف شور کمپنی کا ہے، کبھی آپ کہتے ہیں فلیٹ عمران خان کا ہے جو ظاہر نہیں کیا۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثارنے استفسار کیا کہ سمجھ نہیں آرہا یہ مقدمہ ٹرائل ہے یا انکوائری، میں نے بیرون ملک جائیداد نہیں خریدی اس لئے طریقہ کار سے واقف نہیں، آف شور کمپنیاں عموماً پیسے چھپانے اور منی لانڈرنگ کے لیے استعمال ہوتی ہیں، ایمانداری کا سوال آگیا ہے جو کہ عوامی عہدہ رکھنے والا شخص ہے، ہم نے صرف فلیٹ کی ادائیگی کا ثبوت مانگا ہے کیونکہ ہم اپنی مکمل تسلی کرنا چاہتے ہیں، عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ کیا لندن فلیٹ کی قیمت عمران خان نے ادا کی، یہ پیسہ پاکستان سے باہر تو نہیں گیا، یہ ایشو ہم نے اٹھایا ہے درخواست گزار نے نہیں، ایک لاکھ 17 ہزارپاوٴنڈ لندن فلیٹس کے لئے ادا کئے گئے، بقایا رقم کیش ادا نہیں ہوئی ہوگی، سوال یہ ہے کہ غیر ملکی کمائی کا کوئی ثبوت ہے، ایک مدت بتادیں جس میں دستاویزات جمع ہوجائیں۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل نے ایمنسٹی اسکیم کے تحت فلیٹ ظاہرکیا، اگرایمنسٹی اسکیم لینا بدنیتی ہے تو پھر یہ سب پر ہوگی، یہ کوئی پہلی ایمنسٹی اسکیم نہیں تھی، اگر یہ بے ایمانی ہے تو فائدہ اٹھانے والے سب بے ایمان ہیں، میرے پاس عمران خان کی 1971 سے 1983 تک کی کمائی کا ثبوت موجود ہے، 75 ہزارپاوٴنڈز کی کاوٴنٹی کمائی کا تو واضح ثبوت ہے، 55 سے60 ہزار پاؤنڈ کا مارگیج تھا، جس کی ادائیگی کے دستاویزات بھی موجود ہیں، آئندہ سماعت سے پہلے تمام دستاویزات عدالت میں جمع کرادوں گا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو ہمیں مطمئن کرنا ہے کہ لندن فلیٹ کن پیسوں سے خریدا اورادائیگی کیسے ہوئی، آپ کی کوشش ہونی چاہئے اگلے ہفتے میں دستاویزات جمع ہوجائیں۔ کیس کی مزید سماعت 25 جولائی کوہوگی۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نااہلی کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ عمران خان لندن فلیٹس کی ملکیت تسلیم کرتے ہیں تو بتائیں کہ ادائیگیاں کیسے کی گئیں۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے عمران خان نااہلی کیس کی سماعت کی۔ عدالتی استفسارپرپی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے جواب پرجواب الجواب جمع کرادیا ہے، غیرملکی فنڈنگ سے متعلق نصف ریکارڈ موصول ہوگیا ہے، ریکارڈ موصول ہونے پر ایک ہفتے میں جمع کرادیا جائے گا، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ انور منصور کو جواب جمع کرانا تھا، ہمیں عدالتی حکم پر عملدرآمد سے غرض ہے، اگست میں کچھ ججز کو بیرون ممالک جانا ہے، ججز اپنی 10 ہفتوں کی چھٹیوں کو کم کرکے 2،2 ہفتوں کی چھٹیاں کررہے ہیں، چاہتے ہیں کہ مقدمہ جلد ختم ہو تاکہ دوسرے کیس بھی سن سکیں۔
سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل میں کہا کہ ان کی عمران خان اور انور منصور سے بات ہوئی ہے۔ انور منصور ہارٹ سرجری کے لئے اسپتال میں ہیں، وہ علاج کے بعد 27 جولائی تک واپس آسکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ عدالت نے کرکٹ آمدن سے متعلق آبزرویشن دی تھی، لندن فلیٹس کی کرکٹ آمدن سے خریداری پر کسی نے اعتراض نہیں اٹھایا۔
حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے نکتہ اٹھایا کہ عمران خان کے خلاف کیس فراڈ کا ہے، ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ عمران خان نے اٹھایا، نیازی سروسز نے نہیں، جس پر جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے موقف میں تضاد ہے، کبھی کہتے ہیں فلیٹ آف شور کمپنی کا ہے، کبھی آپ کہتے ہیں فلیٹ عمران خان کا ہے جو ظاہر نہیں کیا۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثارنے استفسار کیا کہ سمجھ نہیں آرہا یہ مقدمہ ٹرائل ہے یا انکوائری، میں نے بیرون ملک جائیداد نہیں خریدی اس لئے طریقہ کار سے واقف نہیں، آف شور کمپنیاں عموماً پیسے چھپانے اور منی لانڈرنگ کے لیے استعمال ہوتی ہیں، ایمانداری کا سوال آگیا ہے جو کہ عوامی عہدہ رکھنے والا شخص ہے، ہم نے صرف فلیٹ کی ادائیگی کا ثبوت مانگا ہے کیونکہ ہم اپنی مکمل تسلی کرنا چاہتے ہیں، عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ کیا لندن فلیٹ کی قیمت عمران خان نے ادا کی، یہ پیسہ پاکستان سے باہر تو نہیں گیا، یہ ایشو ہم نے اٹھایا ہے درخواست گزار نے نہیں، ایک لاکھ 17 ہزارپاوٴنڈ لندن فلیٹس کے لئے ادا کئے گئے، بقایا رقم کیش ادا نہیں ہوئی ہوگی، سوال یہ ہے کہ غیر ملکی کمائی کا کوئی ثبوت ہے، ایک مدت بتادیں جس میں دستاویزات جمع ہوجائیں۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل نے ایمنسٹی اسکیم کے تحت فلیٹ ظاہرکیا، اگرایمنسٹی اسکیم لینا بدنیتی ہے تو پھر یہ سب پر ہوگی، یہ کوئی پہلی ایمنسٹی اسکیم نہیں تھی، اگر یہ بے ایمانی ہے تو فائدہ اٹھانے والے سب بے ایمان ہیں، میرے پاس عمران خان کی 1971 سے 1983 تک کی کمائی کا ثبوت موجود ہے، 75 ہزارپاوٴنڈز کی کاوٴنٹی کمائی کا تو واضح ثبوت ہے، 55 سے60 ہزار پاؤنڈ کا مارگیج تھا، جس کی ادائیگی کے دستاویزات بھی موجود ہیں، آئندہ سماعت سے پہلے تمام دستاویزات عدالت میں جمع کرادوں گا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو ہمیں مطمئن کرنا ہے کہ لندن فلیٹ کن پیسوں سے خریدا اورادائیگی کیسے ہوئی، آپ کی کوشش ہونی چاہئے اگلے ہفتے میں دستاویزات جمع ہوجائیں۔ کیس کی مزید سماعت 25 جولائی کوہوگی۔