اگر ساری برف پگھل گئی تو کیا ہوگا

المیہ یہ کہ اب گرمیوں میں جتنی برف پگھلتی ہے، سردیوں میں اتنی برف باری نہیں ہوتی کہ کم ہوجانے والی مقدار کو پورا کردے۔

اگر انسان نے ترقی کے نام پر ماحول کو برباد کرنے کی اپنی موجودہ روِش ترک نہ کی تو شاید ہماری آئندہ نسلوں کے حصے میں ایک ایسا کرہ زمین آئے گا جہاں سانس لینا بھی دشوار ہوگا۔ فوٹو: اے ایف پی

اِس پورے بلاگ کا لبِ لباب یہ ہے کہ خدانخواستہ اگر قطبین پر موجود ساری برف پگھل گئی تو دنیا بھر میں سمندروں کی سطح آج کے مقابلے میں 216 فٹ (66 میٹر) تک بلند ہوجائے گی اور سارے کے سارے ساحلی شہر اور بیشتر سمندری جزیرے بھی غرق ہوجائیں گے۔

پسِ منظر کچھ یوں ہے کہ کل یہ تشویش ناک خبر شائع ہوئی کہ انٹارکٹیکا کے مقام ''لارسن سی آئس شیلف'' سے ایک وسیع برفانی تودہ ٹوٹ کر الگ ہوچکا ہے جس کا رقبہ 6000 مربع کلومیٹر ہے جبکہ اِس میں برف کی موٹائی تقریباً 200 میٹر ہے۔

اِس کا مطلب یہ ہوا کہ مذکورہ برفانی تودے میں پانی کی مقدار ہزاروں کھرب ٹن ہے جبکہ اپنے رقبے میں وہ کراچی سے بھی تقریباً دوگنا بڑا ہے۔ انٹارکٹیکا کی برف میں پڑنے والی دراڑ 2014ء میں دیکھی گئی اور صرف تین سال کے عرصے میں اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک بہت بڑا برفانی تودہ وہاں سے ٹوٹ کر الگ ہوگیا جو اِس وقت بڑی آہستگی سے سمندر میں تیرتا ہوا انٹارکٹیکا سے دور ہٹ رہا ہے۔

شاید ہی کوئی پڑھا لکھا اور باشعور شخص ایسا ہوگا جسے اِس خبر پر تشویش نہیں ہوگی۔ اِس صورتحال پر بے اختیار ایک شعر یاد آگیا:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

واقعہ یہ ہے کہ انیسویں صدی کی ابتداء میں جدید صنعتی انقلاب کی بدولت تیز رفتار انسانی ترقی کا آغاز ہوا جس کی رفتار وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تیز تر ہوتی چلی گئی۔ لیکن اِسی انسانی ترقی کے نتیجے میں زمین کا قدرتی ماحول آلودہ ہونے لگا اور ہوا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دوسری مضر گیسیں بھی بڑھتی چلی گئیں۔ ہوا، خشکی اور پانی غرض وہ کونسا مقام، وہ کونسی جگہ تھی جسے اِس آلودگی نے متاثر نہیں کیا۔

لیکن کیا کیجیے کہ صنعتی سرگرمی ہی ممالک کے ترقی یافتہ ہونے کا پیمانہ ٹھہری اور بالآخر وہ وقت بھی آگیا جب روز مرہ انسانی زندگی کا بیشتر دار و مدار طرح طرح کی صنعتوں میں تیار کردہ مصنوعات پر بہت زیادہ ہوگیا... قدرتی وسائل اور صاف ستھرے ماحول کی بھاری قیمت ادا کرکے انسان نے اپنے لیے وقتی تعیشات، مشینوں کی محتاجی اور ناقابلِ تلافی عالمگیر نقصان خرید لیے۔

سچ تو یہ ہے کہ لگ بھگ 200 سال پر پھیلی ہوئی اِس داستان کا تفصیلی بیان اپنے آپ میں ایک ضخیم کتاب چاہتا ہے لیکن یہاں آلودگی کے حوالے سے صرف ایک نکتے، صرف ایک پہلو کا تذکرہ کرنا چاہوں گا: اگر سطح زمین پر موجود تمام برف پگھل گئی تو کیا ہوگا؟

واضح کرتا چلوں کہ زمین پر برف جمنے اور پگھلنے کا سلسلہ پورے سال ایک چکر کی شکل میں جاری رہتا ہے: برف کا کچھ حصہ گرم موسم میں پگھل کر بہہ جاتا ہے جبکہ سردیوں میں ہونے والی برفباری اس کمی کا ازالہ کردیتی ہے۔ اصولی طور پر ایسا ہی ہونا چاہیے لیکن عالمی ماحول میں تبدیلی اور مسلسل بڑھتی ہوئی عالمی تپش (گلوبل وارمنگ) کے باعث یہ قدرتی چکر متاثر ہوگیا ہے۔

یہ سلسلہ نہ صرف قطبین اور دوسرے سرد پہاڑی علاقوں میں ماحول کو قابو میں رکھتا ہے بلکہ اس کے اثرات پورے کرہ ارض پر پڑتے ہیں، گویا ہم اِسے کوئی مقامی یا محدود چیز کہہ کر نظرانداز نہیں کرسکتے۔


مگر اب گرمیوں میں جتنی برف پگھلتی ہے، سردیوں میں اتنی برف باری نہیں ہوتی کہ کم ہوجانے والی مقدار کو پورا کردے۔ یعنی ہر سال تھوڑا تھوڑا کرکے برف پگھلتی جارہی ہے، ختم ہوتی جارہی ہے؛ اور اگر انسان نے ترقی کے نام پر ماحول کو برباد کرنے کی اپنی موجودہ روِش ترک نہ کی تو شاید ہماری آئندہ نسلوں کے حصے میں ایک ایسا کرہ زمین آئے گا جہاں سانس لینا بھی دشوار ہوگا اور خود انسان کی اپنی بقاء داؤ پر لگی ہوگی۔

گزشتہ برس مختلف بین الاقوامی اداروں کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ قطبین پر برف کا مجموعی رقبہ 37 لاکھ 60 ہزار مربع کلومیٹر جتنا کم ہوگیا ہے جو بھارت کے رقبے سے بھی زیادہ ہے جبکہ شمالی اور جنوبی، دونوں قطبین کا درجہ حرارت بھی سابقہ اوسط کے مقابلے میں 20 درجے سینٹی گریڈ تک زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔

اس خبر کو بھی پڑھیں: قطبین پر بھارت کے رقبے سے بھی زیادہ برف غائب ہوگئی، سائنسدان

قطبین کی برف پگھلنے کا عمل کوئی راتوں رات یا ایک دو سال میں نہیں ہوگا کیونکہ زمین بہت بڑی ہے اور ساری خرابی کے باوجود بھی برف کی مقدار بہت زیادہ ہے جسے پگھل کر مکمل طور پر ختم ہونے میں خاصا وقت لگ جائے گا۔ قطبین کے علاوہ پہاڑی مقامات پر بڑے بڑے برفانی تودوں یعنی ''گلیشیئرز'' کی شکل میں بھی برف جمی ہوئی ہے، جیسے کہ مشہورِ زمانہ سیاچن گلیشیئر۔ گرمیوں کے موسم میں اِن گلیشیئروں کا کچھ حصہ پگھلتا ہے اور پانی کی شکل میں دریاؤں کا حصہ بن جاتا ہے جس سے زرعی زمینیں سیراب ہوتی ہیں اور انسانوں کو اپنی بود و باش کے لیے پانی میسر آتا ہے۔ یعنی موسمی بارشوں کے علاوہ گلیشیئروں کا پگھلنا بھی خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔

اگر ماحول توازن میں ہو تو گرمیوں کے بعد گلیشیئروں کے علاقوں شروع ہونے والی برفباری صرف چند ماہ میں اِن گلیشیئروں کو پہلے جیسا کردیتی ہے۔ البتہ گلوبل وارمنگ کے باعث ان گلیشیئرز پر پڑنے والی موسمی برف بھی کم ہوگئی ہے اور یہ گلیشیئر بھی آہستہ آہستہ مختصر ہوتے جارہے ہیں۔ خطرہ ہے کہ اگر یہی رجحان جاری رہا تو آئندہ 25 سال میں دنیا کے بیشتر گلیشیئرز پگھل کر ختم ہوجائیں گے۔

البتہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ گلیشیئرز کے تیز رفتار پگھلاؤ سے چند برسوں تک دریاؤں میں وقت بے وقت سیلاب آتے رہیں گے اور آخرکار یہ ہوگا کہ جب گلیشیئر پگھل کر ختم ہوجائیں گے تو اُن کے پانی سے سیراب ہونے والے دریا بھی خشک ہوجائیں گے جن میں صرف اُسی وقت پانی آئے گا جب موسمی بارشیں ہوں گی۔ خشکی کے پہاڑی مقامات پر موجود اِن گلیشیئرز کے پگھلنے سے اگرچہ سطح سمندر میں کچھ خاص اضافہ تو نہیں ہوگا لیکن ساری دنیا میں زراعت اور انسانی زندگی کو بدترین نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اب آئیے قطبین پر جمی برف کی طرف، جس کا تیزی سے پگھلنا عالمی ماحول کے لیے بے حد سنگین خطرہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ 100 سال کے دوران سمندر کی سطح میں 20 سینٹی میٹر (8 انچ) تک کا اضافہ ہوچکا ہے جس کی وجہ زمین پر مسلسل بڑھتی ہوئی انسانی سرگرمیاں اور نتیجتاً مسلسل بڑھتی ہوئی آلودگی ہیں۔

اگر قطبین پر موجود ساری برف پگھل گئی تو دنیا بھر میں سمندروں کی سطح آج کے مقابلے میں 216 فٹ (66 میٹر) تک بلند ہوجائے گی اور سارے کے سارے ساحلی شہر اور بیشتر سمندری جزیرے بھی غرق ہوجائیں گے۔

بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور قطبین پر تیزی سے کم ہوتی ہوئی برف کے نئے سے نئے ریکارڈ اِسی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ اگر زمینی ماحول درست کرنے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو یہ خطرناک موقع شاید ہماری توقعات سے بہت پہلے ہی آجائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگرجامع تعارف کیساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی۔
Load Next Story